’’ہمارا کام پہلے سے ہی متاثر تھا،‘‘ مغربی دہلی کے اتّم نگر کے ایک کمہار، جگ موہن، ریاستی اہلکاروں کے ذریعے ایک سال پہلے جاری کیے گئے فرمان کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں، جس میں لکڑی اور اس کا برادہ جلاکر مٹی کے برتن کو پکانے والی بھٹیوں کو توڑنے کے لیے کہا گیا تھا۔ ’’اس کی وجہ سے کچھ کمہار کم تعداد میں برتن بنانے لگے، کچھ بیچنے والے بن گئے اور دیگر نے اس کام کو ہی چھوڑ دیا۔ اور اب اس وبا اور لاک ڈاؤن نے سب سے زیادہ فروخت ہونے والے اس سیزن میں [مارچ سے جولائی تک] ہمیں بری طرح متاثر کیا ہے۔‘‘
۴۸ سالہ جگ موہن (اوپر کے کور فوٹو میں؛ وہ صرف اپنا پہلا نام استعمال کرتے ہیں) تین دہائیوں سے بھی زیادہ وقت سے کمہار ہیں۔ ’’اچھی بات یہ تھی کہ ہمیں احساس ہوا کہ اس سال مٹکے کی زیادہ مانگ رہے گی، کیوں کہ لوگ [کووڈ- ۱۹ کے بارے میں تشویشوں کے سبب] فریج سے ٹھنڈا پانی پینے سے بچ رہے ہیں۔ لیکن لاک ڈاؤن کے سبب چونکہ ہمارے پاس مٹی ختم ہو گئی تھی، اس لیے ہم وافر اسٹاک تیار نہیں رکھ سکے۔‘‘ عام طور پر، یہاں کے کمہار اپنی فیملی کے ممبران کی مدد سے ۲-۳ دنوں میں تقریباً ۱۵۰-۲۰۰ مٹکے (گھڑے) بنا سکتے ہیں۔
کالونی کی سڑکوں کے دونوں طرف سوکھی مٹی کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں – اور، مصروف ترین وقت میں، کمہاروں کے چاک اور دروازوں کے پیچھے سے برتن تھاپنے کی آواز سنائی دیتی ہے، ہاتھ سے بنے سینکڑوں برتن، دیے، مورتیاں اور دیگر سامان آنگن میں اور سایے میں سوکھ رہے ہوتے ہیں۔ پھر انہیں یہاں عام طور سے گھروں کی چھتوں پر بنائی گئی روایتی بھٹی میں پکانے سے پہلے، گیرو (سیال سرخ مٹی، جو مٹی سے بنی اشیا کو قدرتی رنگ دیتی ہے) سے رنگنے کے لیے لے جایا جاتا ہے۔ باہر، تیار چیزوں میں سے کئی مہمانوں اور خریداروں کے ذریعے خریدنے کے لیے رکھی ہوئی ہیں۔
آس پاس کا علاقہ، جسے مقامی طور پر پرجاپتی کالونی یا کمہار گرام بھی کہا جاتا ہے، ۴۰۰-۵۰۰ سے زیادہ کنبوں کا گھر ہے، جیسا کہ کالونی کے پردھان ہرکشن پرجاپتی کا اندازہ ہے۔ ’’اتر پردیش اور بہار کے کئی کمہار اور ہیلپر اپنے گاؤوں واپس چلے گئے کیوں کہ کوئی کام نہیں تھا،‘‘ ۶۳ سالہ پرجاپتی بتاتے ہیں، جو ۱۹۹۰ میں قومی ایوارڈ اور ۲۰۱۲ میں سرکار کا شِلپ گرو ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔
’’ابھی گنیش چترتھی کا وقت ہے اور جب دیوالی کے لیے کام شروع ہوتا تھا، تو تمام لوگ مصروف ہوجاتے تھے،‘‘ وہ آگے کہتے ہیں۔ اس سال، ہر کوئی بازار کو لیکر شک و شبہ اور غیر یقینی کا شکار ہے کہ لوگ ان کے ذریعے بنائی گئی چیزیں خریدیں گے یا نہیں۔ وہ [مورتیاں اور دیگر چیزیں تیار کرنے میں] زیادہ پیسے خرچ کرکے خطرہ مول لینا نہیں چاہتے ہیں۔ میں کمہاروں کو کام کرتے ہوئے دیکھ سکتا ہوں، لیکن وہ پوری طرح سے مایوس ہیں...‘‘
پرجاپتی کی بیوی، ۵۸ سالہ رام رتی اور ان کی بیٹی، ۲۸ سالہ ریکھا دیے پر کام کر رہی ہیں، ’’لیکن،‘‘ وہ کہتی ہیں، ’’مزہ نہیں آ رہا ہے۔‘‘ اتم نگر میں کمہاروں کی فیملی کی عورتیں عام طور پر مٹی اور مٹی کی لوئی، سانچے اور دیے بناتی ہیں، اور مٹی کے برتنوں کو رنگتی اور ان پر نقش و نگار بناتی ہیں۔
’’لاک ڈاؤن کے ابتدائی مہینوں [مارچ-اپریل] میں کوئی کام نہیں تھا کیوں کہ ہمیں مٹی نہیں مل پائی۔ ہم نے کسی طرح اپنی بچت سے گھر کا خرچ چلایا،‘‘ ۴۴ سالہ شیلا دیوی کہتی ہیں۔ ان کے کام میں شامل ہے کچی مٹی سے باریک پاؤڈر بنانا، اسے چھاننا، پھر اسے گوندھ کر اس سے مٹی کی لوئی بنانا – یہ سبھی کام ہاتھ سے کیے جاتے ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ پہلے ان کی فیملی کی ماہانہ آمدنی ۱۰-۲۰ ہزار روپے ہوا کرتی تھی، جو اپریل سے جون کے درمیان گھٹ کر محض ۳-۴ ہزار روپے رہ گئی۔ تب سے، لاک ڈاؤن کی پابندیوں میں چھوٹ کے سبب، فروشندوں نے دھیرے دھیرے کالونی میں اشیا خریدنے کے لیے آنا شروع کر دیا ہے۔
لیکن لاک ڈاؤن کے اثر کے بارے میں شیلا دیوی کی تشویش پوری کالونی میں گونج رہی ہے – شاید کمہاروں کے چاک کی آواز سے بھی کہیں زیادہ۔ ’’۲۲ اگست کو گنیش چترتھی ہے۔ لیکن اس وائرس نے ہمارے کام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس لیے، مثال کے طور پر، ہر سال اگر ہم گنیش کی ۱۰۰ مورتیاں فروخت کر سکتے تھے، تو اس سال صرف ۳۰ ہی فروخت کر پا رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران مٹی اور ایندھن [بیکار لکڑی اور برادے] کی لاگت بھی بڑھ گئی ہے – ایک ٹرالی [ٹریکٹر کے سائز] کی لاگت جو پہلے ۶ ہزار روپے ہوا کرتی تھی، اب ۹ ہزار روپے ہے،‘‘ ۲۹ سالہ کمہار، نریندر پرجاپتی کہتے ہیں۔ (اتم نگر میں بنائے جانے والے برتنوں اور دیگر سامانوں کے لیے مٹی خاص طور سے ہریانہ کے جھجر ضلع سے آتی ہے۔)
’’سرکار مقامی صنعتوں کے فروغ کی بات کرتی ہے، لیکن وہیں ہم سے یہ بھی کہتی ہے کہ ہم اپنی بھٹیوں کو بند کر دیں۔ بھٹی کے بغیر ہمارا کام کیسے چلے گا؟‘‘ نریندر سوال کرتے ہیں۔ ’’کیا اکائیوں کو بند کرنا اور ہماری آمدنی کا ذریعہ چھین لینا ہی حل ہے؟‘‘ مٹی کی روایتی بھٹی – جس پر اب تنازع چل رہا ہے – پر تقریباً ۲۰-۲۵ ہزار روپے کی لاگت آتی ہے، جب کہ متبادل گیس بھٹی کو لگانے میں تقریباً ۱ لاکھ روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ پرجاپتی کالونی کے کئی کمہار اس رقم کو برداشت نہیں کر سکتے۔
’’وہ کم از کم تعاون بھی نہیں دے سکتے،‘‘ ہرکشن پرجاپتی، نیشنل گرین ٹربیونل کے (اپریل ۲۰۱۹) کے آرڈر کے خلاف اپیل کرنے کے لیے وکیل کرنے کے لیے ۲۵۰ روپے فی کمہار تعاون کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں۔ اس آرڈر میں دہلی آلودگی کنٹرول کمیٹی کو لکڑی کی بھٹیوں کے معاملے میں ایک حقیقت پر مبنی رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اس کی بنیاد پر، کمیٹی نے جولائی ۲۰۱۹ میں ہدایت جاری کی کہ بھٹیوں کو توڑ دیا جانا چاہیے۔ کمہاروں نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ہے۔
غیر یقینی کی یہ صورتحال لاک ڈاؤن کے ساتھ مزید خطرناک ہوتی چلی گئی – اور اتم نگر کی مندی ملک بھر کے دیگر کمہاروں کی کالونیوں میں بھی دکھائی دیتی ہے۔
’’ہر سال، اس مدت میں [مارچ سے جون تک، مانسون سے پہلے] ہم اپنے گلّے [گولک]، گملے، پانی کے گھڑے اور تَوڑی [روٹی بنانے کا توا] تیار رکھتے تھے،‘‘ کمبھار رمجو علی نے مجھے کچھ ہفتے پہلے بتایا تھا۔ ’’لیکن لاک ڈاؤن کے بعد، لوگ ایسی چیزیں خریدنے کے لیے پیسے خرچ کرنے سے کترا رہے ہیں، اس لیے فروشندوں نے ان کی زیادہ مانگ نہیں کی۔ ہر سال، رمضان کے مہینے میں، ہم دن میں آرام کرتے اور رات میں کام کرتے تھے۔ آپ پوری رات برتنوں کی تھاپ سن سکتے تھے۔ لیکن اس سال رمضان [۲۴ اپریل سے ۲۴ مئی] کے دوران ایسا نہیں ہوا...‘‘
۵۶ سالہ رمجو بھائی گجرات کے کچھّ ضلع کے بھُج میں رہتے اور کام کرتے ہیں۔ وہ چیتر (اپریل) کے پہلے پیر کو کچھّ کے بنّی میں ہر سال لگنے والے حاجی پیر میلہ میں فروشندوں کو ۲۵ ہزار روپے کے مٹی کے برتن فروخت کرنے کو یاد کرتے ہیں۔ لیکن اس سال، لاک ڈاؤن کے سبب، یہ میلہ ردّ کر دیا گیا۔
۲۷ سال کے ان کے بیٹے، کنبھار امد کہتے ہیں، ’’لاک ڈاؤن کے دوران ہوٹل اور غذائی کاروبار بند ہونے کے سبب کلہڑ [کپ] اور وڑکی [پیالے] جیسے مٹی کے برتنوں کی مانگ کم ہو گئی ہے۔ اور یہاں کے دیہی علاقوں کے کئی کمہار صرف روزی روٹی کمانے کے لیے کلہڑ بناتے ہیں۔‘‘
ایک اور بڑھتی ہوئی فکرمندی کو اجاگر کرتے ہوئے، رمجو علی کہتے ہیں، ’’اپنے کام کے لیے اب مٹی حاصل کرنا بھی اتنا آسان نہیں رہا۔ اینٹ کی صنعت ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے کیوں کہ وہ ساری مٹی کھود لیتے ہیں [خاص طور سے قریب کے ہری پور علاقے سے] اور ہمارے لیے وہاں پر کچھ بھی نہیں بچا ہے۔‘‘
بھُج کے لکھورائی علاقے میں رمجو بھائی کے گھر سے کچھ دور، ۶۲ سالہ کنبھار اللہ رکھا سمر رہتے ہیں، جو عارضی طور سے نابینا ہیں۔ انہوں نے مجھ سے کہا، ’’میں نے مقامی بینک میں سونے کی ایک چین گروی رکھ دی اور راشن کی دکان کا پیسہ چکانے اور [لاک ڈاؤن کے دوران] دیگر اخراجات کا انتظام کرنے کے لیے کچھ پیسے قرض لیے۔ جب میرے بیٹے کام کے لیے باہر جانے لگے، تو اس کے بعد میں نے دھیرے دھیرے اس رقم کی ادائیگی کرنی شروع کی۔‘‘ ان کے تین بیٹے ہیں؛ دو تعمیراتی مقامات پر مزدوری کرتے ہیں، اور ایک کمہار ہے۔ ’’لاک ڈاؤن کے پہلے مہینوں [مارچ سے مئی] کے دوران، میں گلّے بنا رہا تھا، لیکن کچھ دنوں کے بعد، جب پورا اسٹاک یونہی پڑا رہا اور گھر میں اسٹور کرنے کے لیے مزید جگہ نہیں بچی، تو میرے پاس بیکار بیٹھنے اور کئی دنوں تک کام نہیں کرنے کے علاوہ کوئی متبادل نہیں تھا۔‘‘
بھُج سے تقریباً ۳۵ کلومیٹر دور لودائی گاؤں ہے، جہاں ۵۶ سالہ کنبھار اسماعیل حسین رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہم عام طور پر کچھّی پینٹنگ کے روانتی انداز سے سجائے گئے کھانے اور اسے پیش کرنے والے برتن بناتے ہیں [فیملی کی عورتوں کے ذریعے]۔ ہم سیاحوں سے آرڈر لیتے تھے جو ہمارے کام کو دیکھنے آتے تھے۔ لیکن لاک ڈاؤن کے سبب، پچھلے تین مہینوں سے کوئی بھی گاؤں میں نہیں آیا ہے...‘‘ اسماعیل بھائی نے بتایا کہ اپریل سے جون تک وہ کوئی بھی سامان نہیں فروخت کر پائے، جب کہ ان مہینوں میں وہ اوسطاً ۱۰ ہزار روپے ماہانہ کماتے تھے۔ کچھ گھریلو پریشانیوں کے سبب، وہ ابھی بھی تجارت میں واپس نہیں آئے ہیں۔
ان کی فیملی کے لیے یہ سال کیسے غیر موافق رہا، اس بارے میں بتاتے ہوئے لودائی کے ایک اور رہائشی، ۳۱ سالہ کنبھار صالح ممد نے کہا، ’’لاک ڈاؤن کی شروعات میں، کینسر کے سبب ہم نے اپنی بہن کو کھو دیا۔ اور امی کی آنتوں کی صرف سرجری ہوئی تھی، لیکن وہ بھی بچ نہیں پائیں... گزشتہ چند مہینوں سے فیملی کے پاس کوئی کام نہیں ہے۔‘‘
ان کی ماں، ۶۰ سالہ حور بائی ممد کنبھارکو روایتی کچھّی ٹیراکوٹا کے بارے میں غیر معمولی مہارت اور علم تھا۔ پچھلے سال ان کے شوہر، ممد کاکا کو جب دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے فالج مار گیا، تو اس کے بعد سے حوربائی ہی اپنی فیملی کے لیے مضبوط سہارا بنی ہوئی تھیں۔
اور ملک بھر میں، کمہاروں کی ایک دیگر بستی، جو کہ مغربی بنگال کے بانکوڑہ ضلع کے پنچ مُرا گاؤں میں ہے، وہاں کے ۵۵ سالہ باؤل داس کنبھ کار نے مجھ سے کہا، ’’یہ گاؤں پچھلے کچھ مہینوں سے ویران ہے۔ لاک ڈاؤن کے سبب کوئی بھی مہمان یہاں نہیں آ سکتا تھا، نہ ہی ہم باہر جا سکتے تھے۔ بہت سے لوگ ہمارے کام کو دیکھنے، اشیا خریدنے اور آرڈر دینے کے لیے آیا کرتے تھے۔ لیکن اس سال مجھے نہیں لگتا کہ کوئی آئے گا۔‘‘ باؤل داس پنچ مُرا مرت شلپی سمبھائے سمیتی کے ۲۰۰ ممبران میں سے ایک ہیں۔ اس کمیٹی کا نظم و نسق کمہاروں کے ذریعے مارکیٹنگ اور فروخت کے لیے کیا جاتا ہے۔
تلڈنگرا تعلقہ میں واقع اسی گاؤں کے ۲۸ سالہ جگن ناتھ کمبھ کار نے کہا، ’’ہم زیادہ تر مورتیاں، دیوار کے ٹائل اور گھر کے اندر استعمال کرنے کے لیے سجاوٹی سامان بناتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے پہلے دو مہینوں میں کوئی آرڈر نہیں ملا اور ہمارے واحد خریدار مقامی آدیواسی برادری تھی، جنہوں نے ہمیں برتن، مٹی کے گھوڑے اور ہاتھی کے لیے انفرادی آرڈر دیے۔ کئی کمہار اپریل کے بعد کام شروع کر دیتے تھے اور تہواروں کے آئندہ سیزن میں فروخت کے لیے کچھ اسٹاک تیار رکھتے تھے۔ لیکن اس بار ہمارے پاس پوجو [سالانہ دُرگا پوجا] کے لیے دیوی منسا چالی اور دُرگا ٹھاکر کی مورتیوں کے لیے بہت محدود آرڈر ہیں۔ اس بار، کولکاتا اور دیگر مقامات پر یہ تہوار ہر سال کی طرح شاندار نہیں ہوگا۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز