اپنی زندگی کے آخری دن تک ۲۲ سالہ گرپریت سنگھ، ستمبر ۲۰۲۰ میں حکومت کے ذریعے لائے گئے نئے زرعی قوانین کے خلاف اپنے گاؤں کے کسانوں کو احتجاج کے لیے تیار کرتے رہے۔ پنجاب کے مکووال گاؤں میں پانچ ایکڑ زمین کے مالک ان کے والد، جگتار سنگھ کٹاریہ کو اپنے بیٹے کی آخری تقریر یاد ہے۔ تقریر کو غور سے سن رہے ۱۵ سامعین کو انہوں نے بتایا کہ دہلی کی سرحدوں پر تاریخ رقم ہو رہی ہے – اور انہیں بھی اپنا تعاون دینے کے لیے وہاں جانا چاہیے۔ دسمبر ۲۰۲۰ کی اُس صبح کو، جب گرپریت نے اپنی پر جوش تقریر ختم کی، تو وہاں موجود لوگوں کی آستینیں چڑھ چکی تھیں، اور وہ ملک کی راجدھانی تک مارچ کرنے کے لیے تیار تھے۔
یہ لوگ شہید بھگت سنگھ نگر ضلع کی بالاچور تحصیل کے مکووال گاؤں سے ۱۴ دسمبر کو دہلی کے لیے روانہ ہوئے۔ تقریباً ۳۰۰ کلومیٹر لمبے اس سفر کے دوران، ہریانہ کے انبالہ ضلع میں موہرا کے قریب ایک بڑی گاڑی نے ان کی ٹریکٹر ٹرالی کو ٹکر مار دی۔ ’’بہت زور کی ٹکر تھی، جس میں گرپریت کی موت ہو گئی،‘‘ جگتار سنگھ نے اپنے بیٹے کے بارے میں بتایا، جو پٹیالہ کے مودی کالج میں بی اے کا طالب علم تھا۔ ’’اس تحریک کے لیے یہ تھی اس کی قربانی – اس نے اپنی جان دے دی۔‘‘
گرپریت اُن ۷۰۰ یا اس سے زیادہ افراد میں شامل ہیں، جو زرعی شعبہ کو آزادا کرنے کے لیے ہندوستانی حکومت کے ذریعے متعارف کرائے گئے تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرنے کے دوران ہلاک ہوئے۔ ملک بھر کے کسانوں کو لگا کہ یہ قوانین، کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کے نظام کو تباہ کر دیں گے اور پرائیویٹ تاجروں اور بڑے کارپوریشنوں کو فصلوں کی قیمتیں طے کرنے اور ساتھ ہی بازار سے بے جا فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کریں گے۔ اسی خیال نے کسانوں – خاص کر پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش کے کسانوں کو احتجاج کے لیے ۲۶ نومبر، ۲۰۲۰ سے دہلی کی سرحدوں پر جمع کرنا شروع کر دیا۔ زرعی قوانین کی منسوخی کا مطالبہ کرتے ہوئے، ان کسانوں نے دہلی-ہریانہ سرحد پر واقع سنگھو اور ٹیکری، اور دہلی-اتر پردیش سرحد پر واقع غازی پور میں اپنے خیمے گاڑ دیے۔
احتجاج کرتے ہوئے جب ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا، تو آخرکار ۱۹ نومبر، ۲۰۲۱ کو وزیر اعظم مودی نے ان قوانین کی منسوخی کا اعلان کیا۔ زرعی قوانین کی منسوخی کا بل ۲۰۲۱ پارلیمنٹ میں ۲۹ نومبر کو ہی پاس ہو گیا تھا، لیکن کسانوں نے اپنا احتجاج ۱۱ دسمبر، ۲۰۲۱ کو ختم کیا جب مرکزی حکومت نے ان کے زیادہ تر مطالبات تسلیم کر لیے۔
جن کنبوں نے ایک سال سے زیادہ چلنے والے اس احتجاج کے دوران اپنے عزیزوں کو کھو دیا، میں نے ان میں سے کچھ کے اہل خانہ سے ذاتی طور پر یا بذریعہ فون بات کی۔ یہ لوگ پریشان حال اور غم زدہ ہیں، لیکن غصے میں بھی ہیں، اور اس تحریک کے دوران اپنی جان قربان کرنے والے شہیدوں میں شامل اپنے عزیزوں کو یاد کرتے ہیں۔
جگتار سنگھ کا کہنا تھا، ’’ہم کسانوں کی جیت کا جشن تو منا رہے ہیں، لیکن قوانین کو واپس لینے کے وزیر اعظم مودی کے اعلان سے ہمیں خوشی نہیں ہوئی۔ حکومت نے کسانوں کے لیے کچھ بھی اچھا نہیں کیا ہے۔ اس نے کسانوں اور [اس تحریک میں] مرنے والوں کی توہین کی ہے۔‘‘
پنجاب کے مانسہ ضلع کی بدھ لاڈ تحصیل میں واقع ڈوڈرا گاؤں کے ۶۱ سالہ گیان سنگھ نے کہا، ’’ہمارے کسان مر رہے ہیں۔ ہمارے فوجی بھی پنجاب اور ملک کے لیے اپنی جان دیتے رہے ہیں۔ لیکن سرکار کو شہیدوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے – چاہے وہ [ملک کی] سرحدوں پر مریں یا ملک کے اندر۔ اس نے سرحدوں پر لڑنے والے جوانوں کے ساتھ ساتھ یہاں اناج اُگا رہے کسانوں کا بھی مذاق بنا دیا ہے۔‘‘
گیان سنگھ نے احتجاج کے ابتدائی دنوں میں، اپنے ۵۱ سالہ بھائی رام سنگھ کو کھو دیا تھا۔ رام سنگھ، بھارتیہ کسان یونین (ایکتا اُگراہاں) کے ایک رکن تھے۔ کسانوں کی یہ تنظیم نومبر ۲۰۲۰ میں مانسہ ریلوے اسٹیشن پر احتجاج کر رہی تھی، اور رام سنگھ احتجاج کے مقام پر جلانے کے لیے لکڑیوں کا انتظام کرتے تھے۔ پچھلے سال ۲۴ نومبر کو ان کی موت ہو گئی۔ اپنے درد کو دبانے کی کوشش کرتے ہوئے گیان سنگھ مضبوط آواز میں کہتے ہیں، ’’لکڑی کا ایک وزنی ٹکڑا ان کے اوپر گر گیا تھا۔ اس کی وجہ سے ان کی پانچ ہڈیاں ٹوٹ گئیں اور پھیپھڑے کو نقصان پہنچا تھا۔‘‘
گیان سنگھ نے مزید بتایا، ’’جب زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کا اعلان ہوا، تو یہ خبر سن کر ہمارے گاؤں کے لوگوں نے پٹاخے پھوڑے اور ’دیا‘ (چراغ) جلایا۔ ہم نے جشن نہیں منایا کیوں کہ ہماری فیملی کا ایک رکن شہید ہو گیا تھا۔ لیکن ہم خوش تھے۔‘‘
اترپردیش (یوپی) کے رامپور ضلع کی بلاس پور تحصیل میں واقع ڈبڈبہ گاؤں کے ۴۶ سالہ کسان، سر وکرم جیت سنگھ ہندل کا کہنا تھا کہ حکومت کو بہت پہلے ہی ان زرعی قوانین کو منسوخ کر دینا چاہیے تھا۔ ’’لیکن اس نے کسان لیڈروں کے ساتھ ۱۱ راؤنڈ کی بات چیت کے بعد بھی ایسا نہیں کیا۔‘‘ وکرم جیت کے ۲۵ سالہ بیٹے، نوریت سنگھ ہُندل کی موت ۲۶ جنوری، ۲۰۲۱ کو دہلی میں کسانوں کی ایک ریلی میں شرکت کرنے کے دوران ہوئی تھی۔ جس ٹریکٹر کو وہ چلا رہے تھے، وہ دین دیال اُپادھیائے مارگ پر پلٹ گیا تھا۔ ان کے والد کا الزام ہے کہ اس سے پہلے، پولیس نے نوریت کو گولی ماری تھی۔ لیکن، دہلی پولیس کی دلیل تھی کہ نوریت کی موت ٹریکٹر پلٹنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ سر وکرم جیت نے بتایا کہ ’’اس کی تفتیش ابھی جاری ہے۔‘‘
سوگوار والد نے کہا، ’’اس کے چلے جانے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ تباہ ہو گیا۔ حکومت نے قوانین کو منسوخ کرکے کسانوں [کے زخموں] پر مرہم نہیں لگایا ہے۔ یہ اقتدار پر قابض رہنے کی ایک چال ہے۔ وہ ہمارے جذبات سے کھلواڑ کر رہی ہے۔‘‘
یوپی کے بہرائچ ضلع کے بلہا بلاک میں واقع بھٹیہٹا گاؤں سے تعلق رکھنے والے ۴۰ سالہ جگجیت سنگھ نے کہا کہ (زندہ یا مردہ) کسانوں کے تئیں حکومت کا رویہ خوفناک رہا ہے۔ ’’ہم نے اپنا ووٹ دے کر اس حکومت کو اقتدار تک پہنچایا۔ اب وہ ہمیں ’خالصتانی‘، ’دیش دروہی‘ (غدارِ وطن) کہہ رہے ہیں اور طعنے دیتے ہیں۔ ایسا کہنے کی انہیں ہمت کیسے ہوئی؟‘‘ جگجیت سنگھ کے بھائی، دلجیت سنگھ کی موت ۳ اکتوبر، ۲۰۲۱ کو یوپی کے لکھیم پور کھیری میں ہوئے تشدد کے دوران ہوئی تھی، جہاں پر کسان مرکزی وزیر مملکت برائے امورِ داخلہ اجے کمار مشرا کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ وزیر کو حادثہ کے دن وہاں ہونے والی ایک میٹنگ سے خطاب کرنا تھا، لیکن کچھ دن پہلے ہی انہوں نے ستمبر میں اپنی ایک تقریر کے دوران کسانوں کو دھمکی دی تھی۔
وزیر کے قافلہ نے وہاں موجود کسانوں کے اوپر گاڑی چلا دی، جس کی وجہ سے چار کسانوں اور ایک صحافی کی موت ہو گئی۔ اس واقعہ کے ۱۳ ملزمین میں وزیر کا بیٹا، آشیش مشرا بھی شامل ہے۔ اس معاملے کی جانچ کرنے والی خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) نے اسے ’پہلے سے منصوبہ بند سازش‘ قرار دیا ہے۔
۳۵ سالہ دلجیت کو سب سے پہلے ۲ ایس یو وی (اسپورٹ یوٹیلٹی ویہیکلز) نے ٹکر ماری اور اس کے بعد تیسری نے انہیں روند دیا۔ دلجیت کی ۳۴ سالہ بیوی، پرم جیت کور نے بتایا، ’’ہمارا ۱۶ سالہ بیٹا راجدیپ اس پورے حادثہ کا گواہ ہے۔‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’اُس دن صبح کو احتجاج کے لیے جانے سے پہلے دلجیت مسکرا رہے تھے اور ہمیں انہوں نے الوداع کہا تھا۔ حادثہ سے ۱۵ منٹ پہلے ہم نے فون پر ان سے بات بھی کی تھی۔ میں نے جب ان سے کہا کہ وہ واپس کب آئیں گے، تو ان کا جواب تھا، ’یہاں پر بہت سارے لوگ ہیں۔ میں جلد ہی آ جاؤں گا‘۔‘‘ لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
پرم جیت نے بتایا کہ جب زرعی قوانین کی منسوخی کا اعلان ہوا، تو گھر پر غم کا ماحول تھا۔ ’’ہماری فیملی نے اُس دن دلجیت کے کھونے کا سوگ ایک بار پھر منایا۔‘‘ جگجیت سنگھ نے کہا، ’’قانون ردّ کرنے سے میرا بھائی واپس نہیں آئے گا۔ جو ۷۰۰ لوگ شہید ہوئے ہیں وہ اپنے عزیزوں کے پاس کبھی نہیں لوٹیں گے۔‘‘
ستنام ڈھلوں کے مطابق، لکھیم پوری کھیری میں احتجاج کرنے والے کسانوں کو جس ایس یو وی نے ٹکر ماری تھی، وہ کم بھیڑ والی جگہ پر تو دھیرے چل رہی تھی، لیکن جہاں پر کسانوں کا مجمع زیادہ تھا وہاں اس کی رفتار کافی تیز ہو گئی۔ حادثہ کے متاثرین میں سے ایک، ان کا ۱۹ سالہ بیٹا لو پریت سنگھ ڈھلوں بھی تھا۔ یوپی کے کھیری ضلع کی پالیا تحصیل میں واقع بھگونت نگر گاؤں سے تعلق رکھنے والے، ۴۵ سالہ ستنام نے کہا، ’’وہ لوگوں کو ٹکر مارتے رہے اور ان کے اوپر گاڑیاں چڑھاتے رہے۔‘‘
ستنام نے بتایا کہ لو پریت کی ماں، ۴۲ سالہ ستوِندر کور اکثر رات کو اچانک اٹھ کر اپنے بیٹے کی یاد میں رونا شروع کر دیتی ہیں۔ ’’ہم وزیر کے استعفیٰ اور ان کے بیٹے کے خلاف قانونی کارروائی کی مانگ کرتے ہیں۔ ہمیں انصاف چاہیے۔‘‘
کھیری کی دھورہرہ تحصیل سے تعلق رکھنے والے، ۳۱ سالہ جگدیپ سنگھ نے کہا، ’’حکومت ہمیں انصاف دلانے کے لیے کچھ بھی نہیں کر رہی ہے۔‘‘ لکھیم پور کھیری کے تشدد میں ان کے ۵۸ سالہ والد، نچتر سنگھ بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ اس سانحہ کے بارے میں پوچھنے پر جگدیپ نے ناراضگی سے کہا، ’’یہ سوال کرنا ٹھیک نہیں ہے کہ ہم پر کیا گزر رہی ہے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ کسی بھوکے آدمی کے ہاتھوں کو پیٹھ پیچھے باندھ دیا جائے اور اس کے سامنے کھانا رکھ کر پوچھا جائے کہ ’کھانا کیسا ہے؟‘ پوچھنا ہی ہے تو مجھ سے یہ پوچھئے کہ انصاف کی لڑائی کہاں تک پہنچی۔ اس سرکار کے ساتھ ہمارا مسئلہ کیا ہے؟ کسانوں کو کیوں کچل دیا گیا؟‘‘
جگدیپ ایک میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ ان کا چھوٹا بھائی، ملک کی سرحدوں پر تعینات مرکزی مسلح پولیس دستہ، سشستر سیما بل میں ہے۔ جگدیپ نے غصہ سے کہا، ’’ہم ملک کی خدمت کرتے ہیں۔ کسی بیٹے سے پوچھئے کہ باپ کو کھونے کا غم کیا ہوتا ہے۔‘‘
من پریت سنگھ نے ۴ دسمبر، ۲۰۲۰ کو ہونے والے ایک حادثہ میں اپنے ۶۴ سالہ والد، سریندر سنگھ کو کھو دیا تھا۔ سریندر، دہلی کے قریب احتجاج کر رہے کسانوں کے ساتھ شامل ہونے کے لیے شہید بھگت سنگھ نگر کی بالاچور تحصیل میں واقع اپنے گاؤں، حسن پور خورد سے آ رہے تھے اور ابھی راستے میں ہی تھے کہ ہریانہ کے سونی پت میں یہ دردناک حادثہ پیش آ گیا۔ ۲۹ سالہ من پریت نے کہا، ’’[میں] اداس، بہت زیادہ اُداس ہوں، لیکن مجھے فخر بھی ہے۔ انہوں نے اس تحریک کے لیے اپنی جان قربان کر دی۔ وہ ایک شہید کی موت مرے۔ سونی پت کے پولیس اہلکاروں نے مجھے اپنے والد کی لاش حاصل کرنے میں کافی مدد کی۔‘‘
۷۳ سال کے ہربنش سنگھ اُن کسانوں میں شامل ہیں، جنہوں نے زرعی قوانین کے خلاف دہلی کی سرحدوں پر احتجاج شروع ہونے سے پہلے ہی مظاہرہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ بھارتیہ کسان یونین (سدھوپور) کے ایک رکن رہ چکے ہربنش، پٹیالہ ضلع میں واقع اپنے گاؤں، محمود پور جاٹن میں کسانوں کے اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔ لیکن پچھلے سال ۱۷ اکتوبر کو، تقریر کرتے وقت وہ بیہوش ہو کر گر پڑے۔ ان کے بیٹے، ۲۹ سالہ جگتار سنگھ نے بتایا، ’’وہ ان قوانین کے بارے میں لوگوں کو بتا ہی رہے تھے کہ بیہوش ہو کر گر پڑے۔ دل کا دورہ پڑنے سے ان کی موت ہو گئی۔‘‘
جگتار نے مزید کہا، ’’جن لوگوں کی جان گئی، اگر وہ مرے نہیں ہوتے تو ہمیں زیادہ خوشی ہوتی۔‘‘
پٹالیہ کی نابھا تحصیل کے سہولی گاؤں میں ڈیڑھ ایکڑ زمین کے مالک، ۵۸ سالہ پال سنگھ جب دہلی کے احتجاج میں شامل ہونے کے لیے اپنے گھر سے نکلے تو ’’انہوں نے ہم سے کہا تھا کہ ان کے زندہ واپس آنے کی امید مت کرنا،‘‘ ان کی بہو، امن دیپ کور نے بتایا۔ سنگھو پر ۱۵ دسمبر، ۲۰۲۰ کو دل کا دورہ پڑنے سے ان کی موت ہو گئی تھی۔ کالج سے لائبریری مینجمنٹ کی پڑھائی کرنے والی، ۳۱ سالہ امن دیپ کا کہنا تھا، ’’جو لوگ ہمارے درمیان سے چلے گئے انہیں کوئی بھی واپس نہیں لا سکتا۔ لیکن ان قوانین کو اسی روز منسوخ کر دینا چاہیے تھا جس دن کسان دہلی پہنچے تھے۔ بجائے اس کے، کسانوں کو روکنے کے لیے وہ [سرکار اور پولیس] جو کچھ کر سکتے تھے انہوں نے کیا۔ انہوں نے بیریکیڈ لگائے اور خندقیں کھود دیں۔‘‘
امن دیپ نے بتایا کہ قرض سے لدی ان کی چار رکنی فیملی میں پال سنگھ اکیلے کمانے والے رکن تھے۔ امن دیپ اب سلائی کا کام کرتی ہیں، لیکن ان کے شوہر کوئی کام نہیں کرتے اور ساس خاتون خانہ ہیں۔ امن دیپ نے مجھے بتایا، ’’مرنے سے ایک دن پہلے، وہ [پال سنگھ] اپنا جوتا پہن کر سو گئے تھے۔ وہ اگلی صبح کو جلدی اٹھ کر گھر کے لیے روانہ ہونا چاہتے تھے۔ لیکن ان کی لاش آئی، وہ نہیں۔‘‘
پنجاب کے لدھیانہ ضلع کی کھنہ تحصیل کے ایکولہا سے تعلق رکھنے والے ۶۷ سالہ روندر پال کا انتقال ۶ دسمبر، ۲۰۲۰ کو ایک اسپتال میں ہوا تھا۔ ۳ دسمبر کو سنگھو کی ایک ویڈیو ریکارڈنگ میں وہ انقلابی گانے اور دوسروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے سفید رنگ کا جو لمبا کرتا پہن رکھا تھا، اس پر سرخ سیاہی سے نعرے لکھے ہوئے تھے، جیسے کہ ’پرنام شہیدوں کو‘، اور ’نا پگڑی نا ٹوپ، بھگت سنگھ ایک سوچ‘۔
اُس دن دیر شام کو روندر کی طبیعت کافی خراب ہونے لگی۔ ۵ دسمبر کو انہیں لدھیانہ منتقل کر دیا گیا، جہاں اگلے دن ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کے ۴۲ سالہ بیٹے، راجیش کمار نے بتایا، ’’انہوں نے دوسروں کے شعور کو جگایا، اب وہ خود ہمیشہ کے لیے سو چکے ہیں۔‘‘ ان کی فیملی کے پاس کوئی زمین نہیں ہے۔ راجیش نے بتایا، ’’میرے والد زرعی مزدوروں کی ایک یونین کے رکن تھے اور ان کے اتحاد کے لیے کام کرتے تھے۔‘‘
۶۰ سالہ ملکت کور، مانسہ میں مزدور مُکتی مورچہ کی ایک سرگرم رکن تھیں اور کارکنوں کے حقوق کے لیے کام کر رہی تھیں۔ ان کا تعلق دلت برادری سے تھا، لیکن ان کے پاس کوئی زمین نہیں تھی۔ ملکت ۱۶ دسمبر، ۲۰۲۰ کو دہلی کی طرف بڑھ رہے ۱۵۰۰ کسانوں کے ایک گروپ کے ساتھ تھیں۔ کسانوں کی تنظیم کے ایک مقامی سربراہ، گرجنت سنگھ نے بتایا، ’’یہ لوگ ہریانہ کے فتح آباد میں لنگر [کمیونٹی کچن سے کھانا کھانے] کے لیے رکے۔ وہ سڑک پار کر رہی تھیں تبھی ایک گاڑی نے انہیں ٹکر مار دی۔ وہیں پر ان کی موت ہو گئی۔‘‘
لکھیم پور کھیری کے واقعہ میں مارے جانے والے ۳۴ سالہ صحافی کا نام رمن کشیپ تھا۔ ان کے دو بچے ہیں، اور وہ کھیری کی نگھاسن تحصیل سے ٹی وی نیوز چینل، ’سادھنا پلس‘ کے علاقائی رپورٹر تھے۔ ان کے بھائی پون کشیپ کا کہنا تھا، ’’سماجی خدمت کرنے میں ان کی ہمیشہ دلچسپی رہی۔‘‘ رمن کا ایک اور بھائی ہے۔ نگھاسن تحصیل میں تینوں بھائیوں کے نام سے تقریباً چار ایکڑ کی مشترکہ زمین ہے، جس پر کھیتی کرنے والے ۳۲ سالہ پون نے بتایا، ’’وہ ایک گاڑی کے پہیے کی چپیٹ میں آ گئے اور زمین پر گر پڑے۔ اس کے بعد تین گھنٹے تک کسی نے ان کی خبر نہیں لی۔ ان کی لاش کو سیدھے آٹوپسی کے لیے بھیج دیا گیا۔ میں نے انہیں مردہ خانے میں دیکھا۔ ان کے جسم پر ٹائر اور بجری سے زخمی ہونے کے نشان تھے۔ اگر وقت پر انہیں اسپتال پہنچا دیا گیا ہوتا، تو ان کی جان بچائی جا سکتی تھی۔‘‘
جن کنبوں نے اپنے بچوں کو کھو دیا، ان کے لیے یہ صدمہ بہت بڑا تھا۔ پنجاب کے ہوشیار پور ضلع کی گڑھ شنکر تحصیل کے ٹانڈہ سے تعلق رکھنے والے گرجندر سنگھ کی عمر محض ۱۶ سال تھی۔ ۱۶ دسمبر، ۲۰۲۰ کو جب وہ دہلی کے قریب احتجاج کے مقام کی طرف آ رہے تھے، تو راستے میں کرنال کے پاس اپنے ٹریکٹر سے گر پڑے۔ ان کی ماں، ۳۸ سالہ کلوِندر کور نے بتایا، ’’ہماری فیملی تو برباد ہو چکی ہے۔ سرکار ایسے خوفناک قوانین لے کر ہی کیوں آئی؟‘‘ اس سے تقریباً ۱۰ دن پہلے، ۶ دسمبر کو ہریانہ کے کیتھل ضلع کی گوہلا تحصیل میں واقع مست گڑھ سے ۱۸ سالہ جس پریت سنگھ، سنگھو جا رہے تھے۔ راستے میں ان کی گاڑی ایک نہر میں گر گئی، جس کی وجہ سے ان کی موت ہو گئی تھی۔ جس پریت کے چچا، ۵۰ سالہ پریم سنگھ نے مجھے بتایا: ’’جن گھروں نے اپنے عزیزوں کو کھو دیا ہے – انہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ قانون ردّ ہو گیا یا نہیں؟‘‘
اپنے عزیزوں کی موت کا ماتم کر رہے کنبوں سے بات کرتے وقت، میں نے ان کی موت کی بنیادی وجوہات کی فہرست بنانی شروع کی، جو یوں ہیں: سڑک حادثہ، ذہنی تناؤ اور دہلی کے سخت موسم میں جسمانی مشقت۔ اس کے علاوہ، نئے قوانین کو لے کر ناراضگی، جس نے غیر یقینی کے حالات پیدا کر دیے تھے – اور سرکار اور میڈیا کی جانب سے کسانوں کو جس قسم کی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا – اس کی وجہ سے بھی کئی لوگوں نے خودکشی کر لی۔
۱۰ نومبر، ۲۰۲۱ کو سنگھو کے احتجاجی کیمپ کے قریب ایک مقامی ڈھابہ کے سامنے، ۴۵ سالہ گرپریت سنگھ کی لاش لٹکی ہوئی ملی تھی۔ ان کے بیٹے، لو پریت سنگھ نے بتایا کہ ان کے بائیں ہاتھ پر صرف ایک لفظ لکھا ہوا تھا – ذمہ دار۔ گرپریت کے پاس پنجاب کے فتح گڑھ صاحب ضلع کی املوہ تحصیل میں واقع اپنے گاؤں، روڑکی میں آدھا ایکڑ زمین تھی، جس سے فیملی کے مویشیوں کو چارہ ملتا تھا۔ وہ اسکول کے بچوں کو اپنی گاڑی سے تقریباً ۱۸ کلومیٹر دور، منڈی گوبند گڑھ پہنچانے اور وہاں سے لانے کا کام کرتے تھے، جو ان کی آمدنی کا ذریعہ تھا۔ منڈی گوبند گڑھ کی دیش بھگت یونیورسٹی میں بی کام کے طالب علم، ۲۱ سالہ لو پریت نے کہا، ’’اگر انہوں نے [حکومت نے] ۱۰ دن پہلے ان قوانین کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہوتا، تو پاپا آج ہمارے ساتھ ہوتے۔ حکومت کو کسانوں کے تمام مطالبات مان لینے چاہئیں، تاکہ کسی کو ایسا قدم اٹھانے پر مجبور نہ ہونا پڑے جیسا میرے پاپا نے کیا۔‘‘
کشمیر سنگھ کی پیدائش ۱۵ اگست، ۱۹۴۷ کو ہوئی تھی، جس دن ہندوستان کو برطانوی حکومت سے آزادی ملی تھی۔ خودکشی کرنے سے پہلے انہوں نے اپنے ایک نوٹ میں لکھا: ’’میں زرعی قوانین کی مخالفت میں اپنی جان کی قربانی دے رہا ہوں۔‘‘ انہوں نے ۲ جنوری، ۲۰۲۱ کو پھانسی لگا کر خودکشی کر لی تھی۔ کشمیر سنگھ، یوپی کے رامپور ضلع کے سوار بلاک میں واقع پسیا پورہ میں ایک کسان تھے اور غازی پور کے احتجاجی مقام پر کمیونٹی کچن میں اپنا ہاتھ بٹا رہے تھے۔
’’۷۰۰ شہیدوں کے اہل خانہ کو اب کیسا محسوس ہو رہا ہوگا؟‘‘ کشمیر سنگھ کے پوتے، گروندر سنگھ نے مجھ سے سوال کیا۔ ’’قوانین تو منسوخ کر دیے گئے ہیں، لیکن ہمارے ۷۰۰ کسان اب واپس نہیں آئیں گے۔ ۷۰۰ گھروں کی روشنی گل ہو چکی ہے۔‘‘
دہلی کے ارد گرد موجود احتجاج کے مقامات کو اس سال ۱۱ دسمبر کو خالی کر دیا گیا، لیکن کسان ایم ایس پی کی قانونی گارنٹی اور ۲۰۲۱-۲۰۲۰ کے احتجاجوں میں ہلاک ہونے والے کسانوں کے اہل خانہ کو معاوضہ دینے کا مطالبہ اب بھی کر رہے ہیں۔ لیکن، یکم دسمبر ۲۰۲۱ کو پارلیمنٹ میں ایک سوال کا تحریری جواب دیتے ہوئے زراعت کے مرکزی وزیر نریندر سنگھ تومر نے کہا کہ معاوضہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیوں کہ سرکار کے پاس ان اموات کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
اس پر گروند کا کہنا تھا کہ اگر سرکار نے توجہ دی ہوتی، تو اسے پتہ چل جاتا کہ کتنے لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ ’’کسان شاہراہوں پر بیٹھے ہوئے تھے، لیکن سرکار اپنی حویلیوں میں آرام کر رہی تھی۔ مزدور مُکتی مورچہ کے گرجنت سنگھ سوال کرتے ہیں، ’’جب ٹیکنالوجی اور ڈیٹا آسانی سے دستیاب ہیں، تو اس تحریک میں مرنے والوں کی تفصیلات حاصل کرنا ناممکن کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
گرپریت سنگھ دوسری تقریر نہیں کر سکے۔ ان کے جیسے ۷۰۰ کسان دہلی کی سرحدوں پر رقم ہونے والی تاریخ کے آخری باب کے گواہ نہیں بن سکے۔ ان میں سے کوئی بھی اب اپنے ساتھ احتجاج کرنے والے کسانوں کے آنسو پونچھنے یا جیت کا مزہ چکھنے کے لیے یہاں موجود نہیں ہے۔ وہ شاید اوپر آسمانوں میں کامیابی کا پرچم تھامے ہوئے ہیں، اور انہیں زمین سے سلامی دے رہے کسانوں کو دیکھ رہے ہیں۔
تمام تصاویر شہیدوں کے اہل خانہ کے ذریعے فراہم کی گئی ہیں۔ کور فوٹو عامر ملک نے کھینچی ہے۔
اگر آپ خودکشی کے بارے میں سوچ رہے ہیں یا کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو پریشانی میں مبتلا ہے، تو براہ کرم ’کرن‘ کے نیشنل ہیلپ لائن نمبر، 0019-599-1800 (جو چوبیسوں گھنٹے ٹول فری ہے)، یا اپنے ارد گرد کی ان
ہیلپ لائنز
پر کال کریں۔ ذہنی صحت کے پیشہ وروں اور خدمات تک رسائی حاصل کرنے سے متعلق معلومات کے لیے، براہ کرم
ایس پی آئی ایف کی ذہنی صحت سے متعلق ڈائرکٹری
ملاحظہ کریں۔
مترجم: محمد قمر تبریز