ایڈیٹر کا نوٹ: یہ تمل ناڈو کی سات فصلوں پر مبنی سیریز ’لیٹ دیم ایٹ رائس‘ (انہیں چاول کھانے دیں) کی پہلی اسٹوری ہے۔ پاری پر اگلے دو سالوں کے دوران اس سیریز کے تحت ۲۱ ملٹی میڈیا رپورٹس شائع کی جائیں گی، جن میں ان فصلوں کے تناظر میں کسانوں کی زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس سیریز کے لیے اپرنا کارتی کیئن کو عظیم پریم جی یونیورسٹی، بنگلورو کا مالی تعاون حاصل ہے۔
توتوکوڈی کے آسمان پر سنہرے اور خوبصورت سورج کے طلوع ہوتے ہی رانی اپنے کام کی جگہ پر پہنچ جاتی ہیں۔ لکڑی کے ایک لمبے پیڈل کے ساتھ، وہ باورچی خانہ کی سب سے عام، لیکن سب سے اہم چیز، یعنی نمک کو اکٹھا کرنا شروع کر دیتی ہیں۔
وہ ایک مستطیل پلاٹ پر کام کر رہی ہیں۔ اس کی سب سے نچلی سطح کو کھرچتے ہوئے – جو کبھی کھردری ہو جاتی ہے تو کبھی ملائم – وہ سفید کرسٹل کا انبار ایک طرف لگاتی ہیں۔ وہ جس جگہ پر ان تمام چیزوں کا انبار لگا رہی ہیں وہاں تک کے چھوٹے لیکن تھکا دینے والے دورہ کی وجہ سے کرسٹل کا یہ ڈھیر مزید اونچا ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان کا کام بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ کیوں کہ ۶۰ سالہ رانی ہر بار اس انبار میں ۱۰ کلو بھیگے نمک کا اضافہ کر دیتی ہیں، جو کہ خود ان کے جسم کے ایک چوتھائی وزن کے برابر ہے۔
اور وہ لگاتار بغیر رکے تب تک کام کرتی رہتی ہیں، جب تک اس ۱۲۰ بائی ۴۰ فٹ کی زمین پوری طرح صاف نہ ہو جائے اور اس کے پانی میں ان کا سایہ نہ دکھائی دینے لگے۔ وہ گزشتہ ۵۲ سال سے نمک نکالنے کا کام کر رہی ہیں۔ اس سے پہلے ان کے والد یہ کام کرتے تھے، اب ان کا بیٹا بھی ان کے ساتھ یہی کام کر رہا ہے۔ یہیں اپنے کام کی جگہ پر ایس رانی اپنی کہانی اور ساتھ ہی جنوبی تمل ناڈو کے توتوکوڈی ضلع میں واقع ۲۵ ہزار ایکڑ کے نمک کے میدانوں کی بھی کہانی مجھے سناتی ہیں۔
اس ساحلی ضلع میں نمک بنانے کا سب سے اچھا وقت مارچ سے وسط اکتوبر تک ہوتا ہے، کیوں کہ اس دوران موسم گرم اور خشک ہونے کی وجہ سے لگاتار چھ مہینوں تک نمک کی پیداوار ہوتی رہتی ہے۔ تمل ناڈو میں نمک کی سب سے زیادہ پیداوار یہیں ہوتی ہے، اور خود یہ ریاست پورے ہندوستان میں نمک کی کل پیداوار میں سے ۲ اعشاریہ ۴ ملین ٹن یا تقریباً ۱۱ فیصد نمک پیدا کرتی ہے۔ حالانکہ نمک کی پیداوار کا سب سے بڑا حصہ گجرات سے آتا ہے، جہاں ۱۶ ملین ٹن سے زیادہ، یا ملک بھر میں ۲۲ ملین ٹن نمک کی سالانہ اوسط پیداوار کا ۷۶ فیصد نمک بنایا جاتا ہے۔ سال ۱۹۴۷ میں ہونے والی ایک اعشاریہ ۹ ملین ٹن کی پیداوار کے مقابلے ملکی سطح پر یہ مقدار اپنے آپ میں ایک بڑی چھلانگ ہے۔
ستمبر ۲۰۲۱ کے وسط میں، توتوکوڈی کے راجا پانڈی نگر کے قریب واقع نمک کے ان میدانوں کا پاری کا یہ پہلا دورہ ہے۔ رانی اور ان کے ساتھی کارکنان ہمارے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے شام کے وقت جمع ہوئے۔ ہم لوگ نیم کے ایک درخت کے نیچے دائرہ کار کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ ان کے گھر وہاں سے صاف دکھائی دے رہے تھے؛ ان میں سے کچھ اینٹ کی دیواروں اور ایسبسٹوس کی چھتوں والے گھر تھے، جب کہ بقیہ سبھی جھونپڑیاں تھیں، جن کے چھپر جھڑ رہے تھے۔ نمک کے یہ میدان (جہاں نمک بنایا جاتا ہے) ہمارے ٹھیک سامنے سڑک کے اُس پار ہے، جہاں پر یہ لوگ کئی نسلوں سے کام کر رہے ہیں۔ اِدھر ہماری بات چیت شروع ہوتی ہے، اُدھر اندھیرا ہونے لگتا ہے۔ ہماری بات چیت جلد ہی ایک کلاس میں تبدیل ہو گئی، جہاں سوڈیم کلورائیڈ (NaCl، نمک کا کیمیائی نام) بنانے کے پیچیدہ عمل پر گفتگو ہونے لگی۔
توتوکوڈی میں یہ ’فصل‘ زمین کے کھارے پانی سے حاصل کی جاتی ہے، جس میں نمک کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ یہ سمندر کے پانی سے زیادہ کھارا ہوتا ہے۔ یہ پانی بورویل کے ذریعے نکالا جاتا ہے۔ رانی اور ان کے ساتھی کارکن ۸۵ ایکڑ کے نمک کے کھیت میں کام کرتے ہیں۔ وہاں سات بورویل زیر زمین پانی کو کھینچتے ہیں اور چار انچ پانی نمک کے گڑھوں میں بھرتے ہیں۔ (ہر ایکڑ تقریباً نو پلاٹ میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان میں مجموعی طور پر چار لاکھ لیٹر پانی جمع ہوتا ہے۔ اتنا پانی ۱۰ ہزار لیٹر پانی کے ۴۰ بڑے ٹینکروں میں آ سکتا ہے۔)
اُپّلم (نمک کے میدان) کی ترتیب کو ۵۶ سالہ بی اینتھونی سامی سے زیادہ نہ تو کوئی سمجھتا ہے اور نہ ہی سمجھا سکتا ہے۔ وہ زندگی بھر نمک بنانے کا کام ہی کرتے رہے ہیں۔ ان کا کام مختلف خانوں میں پانی کی سطح کا انتظام کرنا ہے۔ سامی ان خانوں کی درجہ بندی بطور ’آن پاتی‘ (نر خانے) کرتے ہیں جو ’بخارات بنانے والے‘ یا کم گہرائی والے مصنوعی نمک کے خانے کے طور پر کام کرتے ہیں، جہاں پانی قدرتی طور پر خشک ہو جاتا ہے۔ اور دوسرے خانہ کو ’پین پاتی‘ (مادہ خانے) کہا جاتا ہے۔ یہاں نمک بنتا ہے، یعنی پانی نمک کے کرسٹل میں بدل جاتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں، ’’کھارے پانی کو نکالا جاتا ہے اور سب سے پہلے آن پاتی کو بھرا جاتا ہے۔‘‘
اس کے بعد وہ تکنیکی باریکیاں بتانے لگتے ہیں۔
کھارے پن کی پیمائش بَوم ہائیڈرومیٹر سے کی جاتی ہے، جس کی اکائی ڈگری ہے۔ بوم ہائیڈومیٹر ایک ایسا آلہ ہے جو سیال کی مخصوص کشش ثقل کی پیمائش کرتا ہے۔ کثیف پانی کی ’بوم ڈگری‘ صفر ہوتی ہے۔ سمندر کے پانی کے لیے، یہ حد ۲ سے ۳ بوم ڈگری کے درمیان ہوتی ہے۔ بورویل کے پانی کی حد ۵ سے ۱۰ ڈگری کے درمیان ہو سکتی ہے۔ نمک ۲۴ ڈگری پر بنتا ہے۔ سامی بتاتے ہیں، ’’پانی جب بخارات کی شکل میں اڑنے لگتا ہے اور کھارے پن میں اضافہ ہونے لگتا ہے، تو اسے نمک کے کرسٹل بنانے والے حصے میں بھیج دیا جاتا ہے۔‘‘
اگلے دو ہفتوں تک، یہاں کام کرنے والی عورتیں انتہائی بڑے اور بھاری لوہے کے ریک (دانتوں والا اوزار) کو گھسیٹتے ہوئے ہر صبح پانی کو ہلاتی ہیں۔ وہ یہ کام ایک دن لمبائی کی سمت میں اور دوسرے دن چوڑائی کی سمت میں کرتی ہیں، تاکہ نمک کے کرسٹل خانے کی نچلی سطح پر جم نہ جائیں۔ تقریباً ۱۵ دنوں کے بعد، مرد و خواتین ایک بہت بڑے لکڑی کے پیڈل کا استعمال کرتے ہوئے نمک کو اکٹھا کرتے ہیں۔ اس کے بعد، وہ اسے خانے کے درمیان میں موجود اونچائی والے حصے پر جمع کرتے ہیں، جسے وَرَپّو کہا جاتا ہے۔
اب اصل محنت کا کام شروع ہوتا ہے: مرد و خواتین وَرَپّو سے اپنے سر پر نمک کے بھاری بوجھ اٹھاتے ہیں اور اسے اونچے ٹیلے پر لے جا کر خالی کرتے ہیں۔ ہر ایک شخص کو وَرَپّو کا کچھ حصہ سونپا جاتا ہے اور اس حصے سے یہ مزدور روزانہ اپنے سر پر تقریباً ۵-۷ ٹن نمک لے جاتے ہیں۔ یعنی ہر روز سر پر تقریباً ۳۵ کلو وزن کے ساتھ ۱۵۰ چکّر لگانا، جب کہ ہر چکّر میں ۱۵۰ سے ۲۵۰ فٹ تک کی دوری طے کرنی پڑتی ہے۔ یہ لوگ جس جگہ نمک لے جاتے ہیں، وہاں تک بار بار چکّر لگانے سے اس جگہ پر نمک کا ایک بڑا ٹیلہ بن جاتا ہے۔ اور چلچلاتی دھوپ میں نمک کے پتھر ہیرے کی طرح چمکنے لگتے ہیں، گویا اس گرم، بنجر زمین پر کوئی خزانہ ہو۔
*****
عاشق و معشوق کی آپسی تکرار، کھانے میں نمک کی طرح ہوتی ہے۔ اگر زیادہ ہو جائے، تو اچھا نہیں ہوتا۔
یہ سینتھل ناتھن کے ذریعے تھیرُکّورَل (مقدس اشعار) کے ایک شعر کا ترجمہ ہے۔ مختلف مؤرخین کا ماننا ہے کہ تھیرُکّورَل چوتھی اور پانچویں صدی قبل مسیح کے ایک تمل شاعر و سنت (سادھو)، تیروولّووَر کی تخلیق ہے، جس میں ۱۳۳۰ اشعار ہیں۔
اختصار میں کہا جائے تو، تمل ادب میں نمک کا استعمال بطور تشبیہ و استعارہ دو ہزار سال سے بھی زیادہ عرصے سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اور شاید اس علاقے میں نمک کی پیداوار اس سے بھی پہلے سے ہو رہی ہے جسے اب تمل ناڈو کا ساحلی علاقہ کہا جاتا ہے۔
سینتھل ناتھن نے ۲۰۰۰ سال پرانے سنگم دور کی ایک نظم کا بھی ترجمہ کیا ہے، جس میں نمک کے بدلے دوسرے سامان لینے کا بھی ذکر ملتا ہے۔ اور اس میں بھی نمک کا ذکر صرف عاشق و معشوق کے حوالے سے ہی کیا گیا ہے۔
شارک کا شکار کرتے
زخمی ہوئے
میرے والد کے زخم اب
بھر چکے ہیں
اور وہ لوٹ گئے ہیں
نیلے سمندر کی گود میں۔
نمک کے بدلے چاول
پانے کو
میری ماں، نمک کے
میدانوں کا چکّر لگا رہی ہے۔
کتنا اچھا ہوتا، اگر
ہوتا ایک دوست
جو لمبی مسافتوں اور
تھکا دینے والے سفر میں
ساتھ دیتا، خوشی خوشی
تاکہ سمندر کے پرسکون
ساحلوں تک جاؤں اور اُس آدمی سے کہوں
کہ اگر وہ مجھ سے
ملنا چاہتا ہے، تو یہ وقت لوٹ آنے کا ہے!
مقامی داستانوں اور محاوروں میں بھی نمک کا اکثر ذکر ہوتا ہے۔ رانی مجھے ایک تمل کہاوت ’اُپّل پانڈم کُپّ ئیلے‘ کے بارے میں بتاتی ہیں، جس کا مطلب ہے: بغیر نمک کے کھانا، واقعی کسی کچرے کی طرح ہوتا ہے۔ ان کی برادری نمک کو دیوی لکشمی کے طور پر مانتی ہے۔ ہندو مذہب میں لکشمی مال و دولت کی دیوی مانی جاتی ہیں۔ رانی کہتی ہیں، ’’جب کوئی نئے گھر جاتا ہے، تو ہم نمک، ہلدی، اور پانی لیتے ہیں اور ان کے نئے گھر میں رکھ دیتے ہیں۔ یہ مبارک مانا جاتا ہے۔‘‘
مقامی تہذیب میں نمک، یقین یا اعتماد کی علامت ہے۔ بلکہ، اے شیو سبرامنیم بتاتے ہیں: تمل زبان میں ’تنخواہ‘ کے لیے ’سمبلم‘ لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے، جو دو الفاظ – ’سمبا‘ (جو چاول کے لیے استعمال ہونے والا لفظ ہے) اور ’اُپّلم‘ (جہاں نمک نکالا جاتا ہے) سے مل کر بنا ہے۔ وہ اپنی معروف کتاب اُپّٹ ورئی (جو تمل ثقافت میں نمک کی اہمیت اور استعمال پر لکھا گیا ایک مونوگراف ہے) میں ایک کافی مشہور تمل کہاوت ’اُپّٹ ورئی اُلّ لَووم نینئی‘ کی نشاندہی کرتے ہیں، جس کے مطابق ہمیں اپنے نمک عطا کرنے والے کو یاد رکھنا چاہیے۔ یعنی جس نے ہمیں کام دیا ہے۔
مارک کرلانسکی اپنی مشہور کتاب ’سالٹ: اے ورلڈ ہسٹری‘ میں کہتے ہیں کہ ’’نمک بین الاقوامی تجارت میں شامل اولین اشیاء میں سے ایک تھا؛ اس کی پیداوار دنیا کی پہلی صنعتی اکائیوں میں شامل ہے اور آخرکار یہ پہلی پیداوار تھی جس پر ریاست کی اجارہ داری قائم ہوئی۔‘‘
روزمرہ کے کھانے پینے میں شامل اس غذائی شے نے ہندوستان کی تاریخ کو پلٹ کر رکھ دیا، جب مہاتما گاندھی نے ۱۹۳۰ میں (مارچ اور اپریل کے درمیان) برطانوی حکومت کے ذریعے بنائے گئے جابرانہ نمک کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گجرات کے ڈانڈی تک پیدل سفر کیا اور وہاں نمک کے میدانوں سے نمک اکٹھا کیا۔ بعد میں، اپریل میں ہی ان کے سیاسی معاون، سی راج گوپالا چاری نے تمل ناڈو میں تریچوراپلی سے لے کر ویدارَنیَم تک چلے نمک ستیہ گرہ کی قیادت کی۔ ڈانڈی مارچ ہندوستانی جنگ آزادی کی تاریخ میں ایک اہم باب تصور کیا جاتا ہے۔
*****
’’اتنی کڑی محنت کی مزدوری اتنی کم!‘‘
– اینتھونی سامی، نمک مزدور
رانی کی پہلی تنخواہ ایک روپیہ پچیس پیسے یومیہ تھی۔ یہ ۵۲ سال پہلے کی بات ہے، جب وہ آٹھ سال کی چھوٹی بچی تھیں، اور لمبا گھاگھرا پہنے نمک کے میدانوں میں مزدوری کرتی تھیں۔ اینتھونی سامی بھی اپنی پہلی مزدوری کو یاد کرتے ہیں: انہیں ایک روپیہ سوا پیسہ ملا تھا، جو کچھ سال بعد بڑھ کر ۲۱ روپیے ہوا۔ کئی دہائیوں کی جدوجہد کے بعد، آج خواتین کے لیے دہاڑی کی رقم ۳۹۵ روپے اور مردوں کے لیے ۴۰۵ روپے ہے۔ اور جیسا کہ اینتھونی کہتے ہیں، یہ اب بھی ’’بہت کڑی محنت کے بدلے ملنے والی بہت کم مزدوری ہے۔‘‘
اگلے دن صبح ۶ بجے ہی رانی کے بیٹے کمار، توتوکوڈی کی اپنی الگ تمل زبان میں کہتے ہیں، ’’نیرم آیِٹّو‘‘ (دیر ہو رہی ہے)۔ ہم پہلے ہی میدان پر پہنچ چکے ہیں، لیکن انہیں کام پر تاخیر سے پہنچنے کی فکر ستا رہی ہے۔ دور سے یہ میدان ایک پینٹنگ کی طرح نظر آتا ہے، آسمان میں لال، بینگنی، اور سنہرے رنگ کا سماں بکھرا ہوا ہے؛ کھیتوں کا پانی جھلملا رہا ہے؛ نرم ہوا بہہ رہی ہے، اور یہاں تک کہ دور سے کارخانوں کی عمارتیں بھی خوبصورت دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ سب مل کر ایک خوبصورت تصویر بناتے ہیں۔ صرف آدھے گھنٹے کے اندر ہی میں یہ دیکھتی ہوں کہ یہاں کام کرنے والوں کے لیے کتنی جلدی یہ خوبصورت جگہ بدصورت ہو جاتی ہے۔
نمک کے کھیتوں کے درمیان ایک پرانے مچان (جو اب خستہ اور خراب حالت میں ہے) کے نیچے مرد و خواتین جمع ہوتے ہیں اور کام کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ عورتیں اپنی ساڑی کے اوپر شرٹ پہنتی ہیں اور بھاری وزن اٹھا سکنے کے لیے اپنے سر پر سوتی کپڑے سے بنی گول چکّی لگا لیتی ہیں۔ اس کے بعد مزدور اپنے ساتھ ضروری سامان باندھ لیتے ہیں، جس میں المونیم کی ٹوکری (سٹّی)، بالٹی، پانی کی بوتل، اور کھانا ہوتا ہے۔ اپنے اپنے کھانے کے لیے اسٹیل کے ایک بالٹی جیسے ڈبہ (تھوکو) میں وہ باسی چاول رکھ کر لے جاتے ہیں۔ کمار اپنی بائیں طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’ہم آج جنوب کی طرف جائیں گے،‘‘ اور سبھی لوگ ان کے پیچھے پیچھے چلتے جاتے ہیں، جب تک کہ وہ لوگ نمک کے دو خانوں کے پاس نہیں پہنچ جاتے۔ آج انہیں کچھ گھنٹوں میں ان خانوں کو خالی کرنا ہے۔
جلد ہی یہ لوگ کام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ خواتین اور مرد، دونوں اپنے کپڑے کو گھٹنوں تک موڑ لیتے ہیں؛ عورتیں اپنی پیٹی کوٹ کو موڑ کر ساڑی گھٹنوں تک اوپر اٹھا لیتی ہیں، مرد اپنی دھوتی کو گھٹنوں تک باندھ لیتے ہیں۔ دو فٹ گہرے پانی کو وہ تاڑ کی لکڑی سے بنے ’پُل‘ سے پار کرتے ہیں، وہ اپنی بالٹیوں سے نمک نکال کر اسے ٹوکریوں میں ڈالتے جاتے ہیں۔ اور ایک بار جب ٹوکریاں بھر جاتی ہیں، تو وہ اسے اٹھا کر ایک دوسرے کے سر پر رکھ دیتے ہیں۔ تب، وہ اپنے سر پر ۳۵ کلو نمک کا بوجھ لے کر کسی ماہر نٹ کی طرح لکڑی کے ایک تنگ پُل (جس کے دونوں طرف پانی ہے) سے بار بار نیچے اترتے ہیں، واپس اوپر چڑھتے ہیں، اور ۶ قدم چل کر اس تنگ راستے سے اِس پار سے اُس پار پہنچتے ہیں۔
ہر بار اپنا چکّر ختم ہونے پر، بہت ہی احتیاط سے وہ اپنی ٹوکری کو زمین پر ٹکاتے ہیں، اور نمک کو سفید بارش کی طرح وہاں خالی کرکے، دوبارہ واپس اپنی ٹوکری لے کر آتے ہیں... اور بار بار.. ہر کوئی ۱۵۰ بار، کبھی کبھی ۲۰۰ بار وہاں کے چکر لگاتا ہے، جب تک کہ وہاں نمک کا اونچا پہاڑ نہ کھڑا ہو جائے، جو تقریباً ۱۰ فٹ اونچا اور ۱۵ فٹ چوڑا نمک کا انبار (امبارم) ہوتا ہے۔ یہ سمندر اور سورج جیسے قدرتی وسائل سے ملنے والا ایسا تحفہ ہے، جسے رانی اور ان کے ساتھی کارکنوں کا پسینہ بیش قیمتی بناتا ہے۔
میدانوں کے دوسری طرف، ۵۳ سالہ جھانسی رانی اور اینتھونی سامی کام میں مصروف ہیں۔ وہ ریک کو پانی میں گھماتی ہیں اور وہ پیڈل سے نمک نکالتے ہیں۔ پانی کے گھومنے اور نمک کے چھوٹے چھوٹے کرکرے ٹکڑوں کے آپس میں ٹکرانے سے جھرجھر (سل سل) کرتی ہوئی ایک میٹھی آواز آتی ہے۔ دن گرم ہوتا جاتا ہے، سایے گہرے ہونے لگتے ہیں، لیکن کوئی بھی آرام کرنے یا دَم لینے کے لیے بھی نہیں رکتا ہے۔ اینتھونی سے پیڈل لے کر، میں نمک نکال کر اسے اونچائی پر رکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ یہ بہت مشکل کام ہے۔ صرف پانچ بار پیڈل چلانے کے بعد میرے کندھوں میں درد ہونے لگتا ہے، میری پیٹھ میں درد ہے، اور میری آنکھیں پسینے سے جل رہی ہیں۔
بغیر کچھ کہے، اینتھونی مجھ سے پیڈل واپس لے کر نمک کے انبار کو خالی کرنے لگتے ہیں۔ میں واپس رانی کے کھیت کی جانب مُڑ جاتی ہوں۔ وہ اپنا کام تقریباً ختم کر چکی ہیں؛ بار بار پانی میں ریک گھمانے سے ان کے پٹھے اکڑنے اور کھنچنے لگتے ہیں۔ وہ تب تک ایسا کرتی رہتی ہیں، جب تک سارے سفید ذرات ایک طرف اکٹھا نہیں ہو جاتے اور کھیت بھورا اور سوکھا نہیں دکھائی دینے لگتا۔ اب اس خانے میں نئے سرے سے پانی ڈالا جا سکتا ہے اور نمک کی ایک اور فصل تیار کی جا سکتی ہے۔
ایک بار جب رانی اپنے پیڈل سے نمک کے اوبڑ کھابڑ انبار کو مسطح کر لیتی ہیں، تو وہ مجھے اپنے پاس بیٹھنے کے لیے بلاتی ہیں؛ اور ہم سفید نمک کے ایک پہاڑ کے پاس جا کر بیٹھ جاتے ہیں، اور دور سے جاتی ہوئی ایک مال گاڑی کو دیکھتے ہیں۔
رانی ہوا میں انگلی کے اشارے سے مجھے ٹرین کا پرانا راستہ دکھاتے ہوئے کہتی ہیں، ’’پہلے مال گاڑیاں ان کھیتوں سے نمک لینے آتی تھیں۔ وہ اپنے کچھ ڈبوں کو پٹریوں پر چھوڑ کر چلے جاتے تھے، اور بعد میں انجن انہیں لے کر واپس چلا جاتا تھا۔‘‘ وہ بیل گاڑیوں اور گھوڑا گاڑیوں کے بارے میں بتاتی ہیں، اور اس شیڈ کی طرف اشارہ کرتی ہیں جہاں پہلے نمک کی ایک فیکٹری چلتی تھی۔ اب یہاں صرف سورج کی تپش، نمک، اور بہت سارا کام بچا ہے۔ اتنا کہہ کر وہ اپنی کمر سے ایک تھیلا نکالتی ہیں۔ اس میں دو روپے کا ایک چھوٹا سا امرتانجن بام اور ایک وکس انہیلر رکھا ہوا ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، ’’ان کے [اور اپنی ذیابیطس کی دواؤں کے] سہارے ہی میں چل پا رہی ہوں۔‘‘
*****
’’اگر ایک دن بھی بارش ہوتی ہے، تو ہمیں ایک
ہفتہ تک گھر بیٹھنا پڑتا ہے۔‘‘
– توتوکوڈی کے نمک مزدور
وقت کے ساتھ کام کے گھنٹے بھی بدل گئے ہیں۔ روایتی طور پر، کھانا کھانے کے لیے ایک گھنٹہ کے وقفہ کے ساتھ صبح ۸ بجے سے لے کر شام ۵ بجے تک کام کرنے کا معمول الگ الگ شفٹوں میں بدل گیا ہے، جہاں کچھ لوگ رات کے دو بجے سے صبح آٹھ بجے تک کی شفٹ میں کام کرتے ہیں، وہیں کچھ مزدور صبح ۵ بجے سے صبح ۱۱ بجے تک کام کرتے ہیں۔ یہ دونوں شفٹ ایسی ہیں، جن میں کام کرنا سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ کام کے گھنٹے ختم ہو جانے کے بعد بھی کچھ کام بچا رہ جانے کے سبب، کچھ مزدوروں کو انہیں نمٹانے کے لیے رکنا پڑتا ہے۔
اینتھونی سامی کہتے ہیں، ’’صبح ۱۰ بجے کے بعد یہاں اتنی گرمی میں کھڑا ہونا بہت مشکل ہے۔‘‘ انہوں نے ماحولیات اور درجہ حرارت میں تبدیلی کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور تجربہ کیا ہے۔ نیویارک ٹائمز کے ماحولیاتی تبدیلی پر مبنی ایک پورٹل پر دستیاب اعداد و شمار، ماحولیاتی تبدیلی کو لے کر ان کے ذاتی تجربات اور بیانات کی تصدیق کرتے ہیں۔
۱۹۶۵ میں جب اینتھونی کی پیدائش ہوئی تھی، توتوکوڈی (تب اسے توتی کورن کے نام سے جانا جاتا تھا) میں سال بھر میں اوسطاً ۱۳۶ دن ایسے ہوتے تھے، جب درجہ حرارت ۳۲ ڈگری سے اوپر چلا جاتا تھا۔ فی الحال، ایسے دنوں کی تعداد ایک سال میں ۲۵۸ ہو گئی ہے۔ یعنی ان کی زندگی میں ہی گرم دنوں کی تعداد میں ۹۰ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
ساتھ ہی، بے موسم بارش میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
سبھی مزدور ایک سُر میں کہتے ہیں، ’’اگر ایک دن بھی بارش ہوتی ہے، تو ہمارے پاس ایک ہفتہ تک کوئی کام نہیں ہوتا ہے۔‘‘ بارش کا پانی نمک، کھیتوں کی مینڈ، اور اس کی گاد کو بہا کر لے جاتا ہے۔ ان دنوں میں ہمیں بغیر پیسوں کے بیکار بیٹھنا پڑتا ہے۔
مقامی سطح پر ہوئی کئی تبدیلیوں نے بھی ماحولیات اور موسم کے مسئلہ کو بڑھایا ہے۔ سایہ دار درختوں کو کاٹ کر ہٹا دیا گیا ہے؛ اب نیلے آسمان کے نیچے صرف کھلی زمین بکھری پڑی ہے، جو صرف تصویروں میں خوبصورت دکھائی دیتی ہے، لیکن وہاں کھڑے ہو کر کام کرنا جہنم جیسا ہے۔ نمک کے کھیت بھی پہلے سے زیادہ بے رحم ہو گئے ہیں۔ جھانسی مجھ سے کہتی ہیں، ’’مالک لوگ پہلے ہمارے لیے پانی رکھتے تھے، اب ہمیں اپنے گھر سے بوتلوں میں پانی لانا پڑتا ہے۔‘‘ میں ان سے بیت الخلاء کے انتظام سے متعلق سوال کرتی ہوں۔ عورتیں مضحکہ خیز ہنسی کے ساتھ کہتی ہیں، ’’ہم کھیتوں کے پیچھے کے میدانوں میں جاتے ہیں، کیوں کہ بھلے ہی یہاں بیت الخلاء بن گئے ہوں، لیکن اس میں استعمال کے لیے پانی نہیں ہوتا۔‘‘
ان عورتوں کو اپنے گھر پر دیگر چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، جو زیادہ تر ان کے بچوں سے جڑے ہیں۔ رانی بتاتی ہیں کہ جب وہ چھوٹے تھے، تو اپنے ساتھ انہیں لے کر جاتی تھیں، جہاں ان کو مچان کے نیچے کپڑے کے پالنے (تولی) میں لیٹا کر کام کرنے چلی جاتی تھیں۔ ’’لیکن اب مجھے اپنے پوتے پوتیوں کو گھر پر چھوڑ کر آنا پڑ رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کھیت بچوں کے لیے نہیں ہیں۔‘‘ ٹھیک بات ہے، لیکن اس کا مطلب ہوتا ہے کہ بچوں کو پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے گھر چھوڑ کر آنا یا پھر گھر پر اکیلا چھوڑ دینا۔ ’’آپ چھوٹے بچوں کو ۳ سال کے ہونے کے بعد ہی بال واڑی بھیج سکتے ہیں۔ ویسے بھی، وہاں صبح ۹ بجے کے بعد کام شروع ہوتا ہے، اور ہمارے وقت سے میل نہیں کھاتا۔‘‘
*****
’’دیکھو، میرے ہاتھوں کو چھو کر دیکھو، کیا یہ
کسی آدمی کے ہاتھ کی طرح دکھائی نہیں دیتے؟‘‘
– نمک کے میدانوں میں کام کرنے والی خاتون مزدور
یہ عورتیں اپنے جسم کے بارے میں بات کرتے وقت سب سے زیادہ محتاط نظر آتی ہیں، کیوں کہ وہ سبھی اس کام کی ایک بڑی قیمت چکاتی ہیں۔ رانی اپنی آنکھوں کے بارے میں بتانا شروع کرتی ہیں۔ نمک سے بھری زمینوں پر لگاتار توجہ مرکوز کرنے کی وجہ سے ان کی آنکھوں سے پانی گرتا رہتا ہے اور اس میں چبھن ہوتی ہے۔ تیز روشنی میں ان کی آنکھیں چوندھیا جاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’پہلے یہ لوگ ہمیں کالا چشمہ دیا کرتے تھے، لیکن اب ہمیں بہت کم پیسہ ملتا ہے۔‘‘ عام طور پر ہر سال چشمے اور جوتوں کے لیے ۳۰۰ روپے دیے جاتے ہیں۔
کچھ عورتیں اپنے کالے موزے کے نیچے ربڑ ٹیوب سل کر پہنتی ہیں۔ لیکن نمک کے کھیتوں میں کوئی بھی ایسا نہیں ملتا جس نے چشمہ لگایا ہو۔ ہر کوئی مجھ سے ایک ہی بات کہتا ہے، ’’کوئی بھی اچھا چشمہ ایک ہزار روپے سے کم میں نہیں آتا اور سستے چشمے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اُلٹا اس سے ہمیں پریشانی ہوتی ہے۔‘‘ چالیس کی عمر پار کرتے ہی ان میں سے ہر کسی کی نظر کمزور ہو جاتی ہے۔
رانی کے پاس کچھ اور عورتیں آ کر بیٹھ گئی ہیں۔ وہ سبھی اونچی آواز میں شکایت کرتی ہیں کہ انہیں سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ملتی، پینے کے لیے مناسب مقدار میں پانی نہیں ملتا، تیز دھوپ اور کھارے پانی نے ان کی جلد کو خراب کر دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’دیکھو، میرے ہاتھوں کو چھو کر دیکھو، کیا یہ کسی آدمی کے ہاتھ کی طرح دکھائی نہیں دیتے؟‘‘ اور اس کے بعد، مجھے اپنے ہاتھ، پیر، اور انگلیاں دکھانے لگیں۔ ان کے پیروں کے ناخل کالے اور سکڑے ہوئے تھے؛ ان کے ہاتھوں میں گٹّے پڑے ہوئے تھے، ان کی جلد روکھی اور بے جان نظر آ رہی تھی، اور پیروں میں دھبے پڑے ہوئے تھے۔ ان کے پیروں میں ایسے زخم بھی تھے جو ٹھیک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے اور جب بھی وہ کھارے پانی میں اترتی ہیں، ان زخموں میں بہت زیادہ جلن ہوتی ہے۔
جو چیز ہمارے کھانے کو ذائقہ دار بناتی ہے وہ ان کے جسم کی جلد کو کھائے جا رہی ہے۔
اب جسم کے اندرونی مسائل کی باتیں سامنے آتی ہیں۔ مثلاً، بچہ دانی نکلوانا، کڈنی اسٹون، ہرنیا۔ رانی کے ۲۹ سالہ بیٹے، کمار، چھوٹے قد کے مگر لحیم شحیم جسم والے ایک مضبوط نوجوان ہیں۔ لیکن کام کے دوران لگاتار بھاری وزن اٹھانے کے سبب انہیں ہرنیا کا مسئلہ ہو گیا ہے۔ ان کی ایک سرجری ہوئی تھی اور اس کی وجہ سے انہیں تین مہینے آرام کرنا پڑا تھا۔ وہ اب کیا کر رہے ہیں؟ اس کے جواب میں وہ بتاتے ہیں، ’’میں اب بھی بھاری وزن اٹھاتا ہوں۔‘‘ ان کے پاس کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ شہر میں روزگار کے زیادہ مواقع نہیں ہیں۔
یہاں کے کچھ نوجوان جھینگے کی پیداوار والے مراکز یا پھولوں کے کارخانوں میں کام کرتے ہیں۔ لیکن نمک کی پیداوار میں لگے زیادہ تر مزدوروں کی عمر ۳۰ سے زیادہ ہے اور وہ کئی دہائیوں سے اس علاقے میں کام کر رہے ہیں۔ حالانکہ، کمار کی بنیادی شکایت پیسوں سے جڑی ہے۔ ’’پیکیجنگ کا کام کرنے والے، ٹھیکہ پر کام کرنے والے مزدوروں کی طرح ہوتے ہیں، اور یہاں تک کہ ہمیں بونس تک نہیں ملتا۔ ایک عورت کو ایک کلو نمک کے ۲۵ پیکٹ بنانے پر ایک روپیہ ۷۰ پیسے ملتے ہیں [یعنی ایک پیکٹ پر ۷ پیسے سے بھی کم ملتے ہیں]۔ ایک اور عورت کو اُن ۲۵ پیکٹوں کو سیل بند کرنے کے لیے ایک روپیہ ۷۰ پیسے ملتے ہیں۔ ایک دوسرے ملازم (عام طور پر مرد) کو اُن ۲۵ پیکٹوں کی ایک بوری بنانے، انہیں ہاتھوں سے سلنے، اور صاف ستھرے طریقے سے منظم کرنے کے لیے ۲ روپے ملتے ہیں۔ بوریاں جتنی بڑھتی جاتی ہیں، مزدور کا کام اتنا ہی مشکل ہوتا جاتا ہے۔ لیکن مزدوری اتنی ہی رہتی ہے: دو روپے۔‘‘
وسکولر سرجن اور تمل ناڈو اسٹیٹ پلاننگ کمیشن کے رکن، ڈاکٹر املور پوناتھن جوزف کہتے ہیں، ’’طبی نقطہ نظر سے، وہ جو بھی جوتے پہن رہے ہیں اور استعمال کر رہے ہیں وہ نمی اور انفیکشن سے ان کے پیروں کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ ایک یا دو دن کام کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ یہی کام زندگی بھر کرنے والے ہیں، تو آپ کو سائنسی طور پر ڈیزائن کیے گئے جوتے چاہیے، جنہیں آپ وقوتاً فوقتاً بدل سکیں۔ اگر اتنی معمولی سی سہولت کو بھی یقینی نہیں بنایا جا سکتا، تو آپ کے پیروں کی صحت کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔‘‘
نمک کے کرسٹل سے نکلنے والی چوندھیانے والی روشنی کے علاوہ، ان کا ماننا ہے، ’’ایسے ماحول میں بغیر چشمے کے کام کرنے سے آنکھوں میں کئی قسم کے مسائل ہو سکتے ہیں۔‘‘ ڈاکٹر املور پوناتھن جوزف ریگولر میڈیکل کیمپوں اور تمام مزدوروں کے بلڈ پریشر کی بار بار جانچ کرانے کی صلاح دیتے ہیں۔
یہ مزدور اس علاقے میں چار یا پانچ دہائیوں سے کام کر رہے ہیں۔ لیکن وہ کسی بھی طرح کے سماجی فائدے سے محروم ہیں۔ نہ تو انہیں تنخواہ کے ساتھ چھٹی ملتی ہے، نہ بچوں کی طبی نگہداشت کی سہولت ہے اور نہ ہی حمل کے دوران کوئی مدد یا فائدہ ملتا ہے۔ نمک کے کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا کہنا ہے کہ ان کا حال بھی ’قلیوں‘ (سر پر بوجھ ڈھونے والے سستے مزدوروں) کی طرح ہی ہے۔
*****
’’نمک کے ۱۵ ہزار سے بھی زیادہ استعمال ہیں۔‘‘
– ایم کرشن مورتی، ڈسٹرکٹ کوآرڈی نیٹر، توتوکوڈی، ان آرگائزڈ ورکرز
فیڈریشن
کرشن مورتی بتاتے ہیں، ’’امریکہ اور چین کے بعد، بھارت نمک پیدا کرنے کے معاملے میں دنیا میں تیسرے مقام پر ہے۔ بغیر نمک کے زندگی ناممکن ہے، لیکن ان مزدوروں کی زندگی بھی اپنی فصل کی طرح ہی نمکین ہے!‘‘
کرشن مورتی کے مطابق، توتوکوڈی میں تقریباً ۵۰ ہزار نمک مزدور ہیں۔ ۷ لاکھ ۴۸ ہزار مزدوروں والے اس ضلع میں ہر ۱۵ میں سے ایک شخص نمک مزدور ہے۔ حالانکہ، ان کے پاس فروری اور ستمبر کے درمیان صرف ۶-۷ مہینے کام ہوتا ہے۔ مرکزی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، پورے تمل ناڈو میں صرف ۲۱۵۲۸ نمک مزدور ہیں، جو کہ اصل اعداد و شمار سے بہت کم ہے۔ لیکن اسی نقطہ پر کرشن مورتی کی تنظیم (اَن آرگنائزڈ ورکرز فیڈریشن) کام کرتی ہے۔ وہ سرکاری اعداد و شمار سے بڑی تعداد میں باہر کیے گئے مزدوروں کا حساب کتاب رکھتے ہیں۔
ہر نمک مزدور، چاہے وہ نمک کے ذرات کو کھرچنے کا کام کرتے ہوں یا نمک کو لانے اور اٹھانے کا کام، ہر روز تقریباً ۵ سے ۷ ٹن نمک کا بوجھ اٹھاتا ہے۔ نمک کی موجودہ قیمت، یعنی ۱۶۰۰ روپے فی ٹن کے حساب سے دیکھیں تو ان کے ذریعے ڈھوئے گئے نمک کی کل قیمت ۸ ہزار روپے سے زیادہ ہے۔ لیکن اگر ایک دن بھی بے موسم بارش ہوتی ہے، تو جیسا کہ وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ ان کا کام ایک ہفتہ سے لے کر پورے دس دنوں تک ٹھپ پڑ سکتا ہے۔
کرشن مورتی کے مطابق، جو بات انہیں سب سے زیادہ پریشان کرتی ہے وہ ۹۰ کی دہائی میں اپنائی گئی لبرلائزیشن کی پالیسیاں ہیں، جو موجودہ وقت میں مزید تیزی سے اپنائی گئی ہیں، جس کے نتیجے میں ’’بڑی اور پرائیویٹ کمپنیوں کو بازار میں آنے کی چھوٹ دی گئی۔‘‘ وہ بتاتے ہیں، ’’کئی نسلوں سے اس سخت زمین پر نمک کی کھیتی کرنے والے زیادہ تر مزدور دلت اور خواتین ہیں۔ ۷۰ سے ۸۰ فیصد مزدور پس ماندہ طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کیوں نہیں انہیں نمک کے کھیت پٹّہ پر دے دیے جاتے؟ وہ کیسے کسی کھلی نیلامی میں بڑی کارپوریٹ کمپنیوں سے مقابلہ کریں گے؟‘‘
جب بڑی کمپنیاں کسی کاروبار میں اترتی ہیں، تو ان کی ملکیت والی زمینیں بڑھتی جاتی ہیں (دسیوں ایکڑ سے ہزاروں ایکڑ تک)۔ کرشن مورتی کو پختہ یقین ہے کہ جلد ہی اس صنعت پر بھی پوری طرح سے مشینوں کا قبضہ ہو جائے گا۔ ’’پھر ان ۵۰ ہزار نمک مزدوروں کا کیا ہوگا؟‘‘
ہر سال ۱۵ اکتوبر (عموماً جب شمال مشرقی مانسون شروع ہوتا ہے) سے لے کر ۱۵ جنوری تک ان مزدوروں کے پاس کوئی کام نہیں ہوتا۔ یہ تین مہینے بہت مشکل ہوتے ہیں، اور ان دنوں میں قرض کے پیسوں اور اپنے اخراجات میں کٹوتی کے ذریعے گھر چلایا جاتا ہے۔ ۵۷ سالہ ایم ویلوسامی ان کھیتوں میں کام کرتے ہیں اور نمک بنانے کے بدلتے طور طریقوں کو لے کر بات کرتے ہیں۔ ’’میرے والدین کے زمانے میں چھوٹے تاجر نمک کی پیداوار اور اس کی فروخت کر سکتے تھے۔‘‘
دو پالیسیوں نے حالات کو پوری طرح سے بدل کر رکھ دیا۔ مرکزی حکومت نے ۲۰۱۱ میں فیصلہ لیا کہ انسانی تصرف کے لیے نمک کو آیوڈین سے لیس کرنا ہوگا۔ اس کے کچھ وقت بعد انہوں نے نمک کے سبھی میدانوں کے لیے پٹّہ معاہدوں میں تبدیلی کر دی۔ ان کے پاس ایسا کرنے کی طاقت تھی، کیوں کہ نمک کو آئین کی یونین لسٹ میں رکھا گیا ہے۔
۲۰۱۱ کے گورنمنٹ آف انڈیا ریگولیشن کے مطابق، ’’کوئی آدمی تب تک عام نمک کی فروخت نہیں کرے گا یا فروخت کے لیے نمک کی سپلائی نہیں کرے گا یا فروخت کے مقصد سے اسے اپنے احاطہ میں نہیں رکھے گا، جب تک اسے انسانی تصرف کے لیے آیوڈین سے لیس نہیں کیا جاتا ۔‘‘ اس کا مطلب یہ تھا کہ عام نمک صرف فیکٹری کی پیداوار ہو سکتا تھا۔ (نمک کے کچھ دیگر زمروں، جیسے سیندھا نمک اور کالا نمک کو اس قانون سے چھوٹ دے دی گئی)۔ اس کا ایک اور مطلب یہ بھی تھا کہ ان روایتی نمک بنانے والوں نے اپنا اختیار کھو دیا تھا۔ اسے قانونی طور پر چنوتی دی گئی اور سپریم کورٹ نے واقعی میں اس التزام کی سخت تنقید کی، لیکن یہ پابندی برقرار رہی ۔ کھانے میں استعمال کیے جانے والے عام نمک کو تب تک فروخت نہیں کیا جا سکتا، جب تک اس میں آیوڈین نہ ہو۔
اکتوبر ۲۰۱۳ میں دوسری تبدیلی کی گئی۔ ایک مرکزی نوٹیفیکیشن میں کہا گیا: ’’نمک کی پیداوار کے لیے مرکزی حکومت کی زمین کو ٹینڈر کے ذریعے پٹّہ پر دیا جائے گا۔‘‘ اس کے علاوہ، کسی موجودہ پٹّہ معاہدہ کی تجدید نہیں کی جائے گی۔ ان معاہدوں کی مدت ختم ہونے پر نئے ٹینڈر طلب کیے جائیں گے اور اس عمل میں ’’موجودہ پٹّہ ہولڈر نئے امیدواروں کے ساتھ شریک ہو سکتے ہیں۔‘‘ کرشن مورتی کہتے ہیں کہ واضح طور پر یہ ضابطے بڑے مینوفیکچررز کو فائدہ پہنچانے والے ہیں۔
جھانسی یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ چار دہائی پہلے ان کے ماں باپ کے پاس زمین تھی، جو انہوں نے ایک پٹہ دار سے معاہدہ پر لی تھی۔ وہاں وہ پُلی کے ذریعے کنویں سے پانی نکال کر (اور تاڑ کے پتّوں سے بنی ٹوکری کو بالٹی کی طرح استعمال کرکے) دس چھوٹے خانوں میں نمک کی کھیتی کرتے تھے۔ ہر روز، ان کی ماں ۴۰ کلو نمک (تاڑ کی ٹوکریوں میں بھر کر) اپنے سر پر ڈھوتی تھیں اور پیدل ہی شہر جا کر اسے فروخت کرتی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’برف بنانے والی کمپنیاں ان کا سارا مال ۲۰ سے ۳۰ روپے میں خرید لیتی تھیں۔‘‘ اور جب ان کی ماں نہیں جا پاتی تھیں، تو وہ جھانسی کو ایک چھوٹی ٹوکری کے ساتھ بھیج دیتی تھیں۔ انہیں یہاں تک یاد ہے کہ ایک بار انہوں نے ۱۰ پیسے فی کلو کی قیمت پر نمک فروخت کیا تھا۔ جھانسی کہتی ہیں، ’’جس زمین پر ہمارے نمک کے خانے تھے وہاں عمارتیں (رہائشی مکان) بنا دی گئی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے ہاتھ سے زمین کیسے نکل گئی۔‘‘ یہ بتاتے ہوئے وہ اُداس ہو گئی تھیں۔ لگ رہا تھا کہ ہوا میں نمک گھل گیا ہے اور ان کی آواز بھاری ہو گئی تھی۔
نمک مزدوروں کے لیے زندگی ہمیشہ مشکل رہی ہے۔ کئی دہائیوں سے ان کی پلیٹ میں اکثر سابو دانہ اور باجرا (کبھی کبھار ہی چاول) رہا ہے، جس کے ساتھ وہ مچھلی کا رس دار شوربہ (کوزامبو) کھاتے ہیں۔ اور اڈلی، جو اب روزمرہ کے کھانے میں شامل ہو گئی ہے، پہلے سال میں ایک بار دیوالی پر بنتی تھی۔ جھانسی بتاتی ہیں کہ وہ بچپن میں ایک رات پہلے اس خوشی میں سو تک نہیں پاتی تھیں کہ تہوار کی صبح انہیں ناشتے میں اڈلی ملے گی۔
دیوالی اور پونگل، صرف دو ایسے بڑے تہوار ہوتے تھے، جب انہیں نیا کپڑا ملتا تھا۔ جھانسی بتاتی ہیں، ’’اس سے پہلے تک وہ لوگ، خاص کر لڑکے پھٹے پرانے کپڑے پہنتے تھے، جن کی پتلون میں ۱۶ سوراخ ہوتے تھے، اور ہر سوراخ کو سوئی دھاگے سے ٹھیک کیا جاتا تھا۔‘‘ یہ بتاتے ہوئے وہ اپنے ہاتھ ہوا میں ایسے لہراتی ہیں جیسے ہوا میں ہی ان پتلونوں کی سلائی کر رہی ہوں۔ اپنے پیروں میں وہ تاڑ کے پتّوں سے بنے چپل پہنتے تھے، جسے ان کے ماں باپ اپنے ہاتھوں سے بناتے تھے اور جوٹ کے دھاگوں سے باندھ دیتے تھے۔ یہ انہیں مکمل تحفظ فراہم کرتے تھے کیوں کہ اس وقت نمک کے خانوں کا کھارا پن آج کی طرح بہت زیادہ نہیں تھا، جب کہ دور حاضر میں نمک ایک صنعتی پیداوار ہے اور اس کا گھریلو استعمال اس کے کل تصرف کا بہت چھوٹا حصہ ہے۔
*****
’’میں اپنا نام لکھ سکتی ہوں، بس کے راستوں کو
پڑھ سکتی ہوں، اور ہاں، میں ایم جی آر کے گانے گا سکتی ہوں۔‘‘
– ایس رانی، نمک مزدور اور لیڈر
شام کو کام ختم ہونے کے بعد رانی ہمیں اپنے گھر لے کر گئیں۔ ایک چھوٹے سے کمرے کا ان کا مکان پختہ دیوار سے بنا ہوا ہے، جس کے ایک کونے میں صوفہ رکھا ہوا ہے، اس کے پیچھے سائیکل رکھی ہوئی ہے، اور ایک رسی پر کپڑے لٹکے ہوئے ہیں۔ چائے کی چسکیوں کے ساتھ وہ رجسٹرار آفس میں ہوئی اپنی شادی کے بارے میں بتاتی ہیں، جب وہ ۲۹ سال کی تھیں۔ ایک گاؤں کی عورت کی شادی میں ہوئی اتنی تاخیر اس زمانے میں عام بات نہیں تھی۔ شاید ان کی فیملی کی غریبی اس تاخیر کی سب سے بڑی وجہ تھی۔ رانی کی تین بیٹیاں (تھنگمّل، سنگیتا، اور کملا) ہیں اور ایک بیٹا (کمار) ہے، جو ان کے ساتھ ہی رہتا ہے۔
وہ بتاتی ہیں، ’’شادی تو ہو گئی، لیکن ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ ہم کسی تقریب کا انعقاد کر پاتے۔‘‘ پھر وہ اپنی فیملی کا البم دکھانے لگتی ہیں: ایک بیٹی کے سن بلوغت کو پہنچنے کی تقریب، دوسری بیٹی کی شادی، اچھے کپڑوں میں ملبوس ان کی فیملی، ان کا بیٹا کمار رقص کرتا ہوا، گاتے ہوئے... ان خوشیوں کی قیمت انہوں نے نمک کے خانوں میں مصروف رہ کر چکائی ہے۔
جس وقت ہم ہنس رہے تھے اور باتیں کر رہے تھے، اسی دوران رانی سبز تاروں سے بنی ایک ٹوکری کے کناروں اور اس کے ہینڈل کو کس رہی تھیں۔ یو ٹیوب پر گُزبیری پیٹرن (املا گانٹھ) سے بنائی گئی ایک ٹوکری کا ویڈیو دیکھ کر کمار نے وہ ٹوکری اپنے ہاتھوں سے بنائی تھی۔ کبھی کبھی، اس کے پاس ان سب کے لیے ذرا بھی وقت نہیں ہوتا۔ اضافی کمائی کے لیے وہ نمک کے کسی دوسرے کھیت پر دوسری شفٹ میں کام کرنے چلا جاتا ہے۔ عورتوں کی دوسری شفٹ گھر کے کاموں میں گزرتی ہے۔ وہ اس بات کو زور دیتے ہوئے کہتا ہے، ’’انہیں شاید ہی کبھی آرام ملتا ہے۔‘‘
رانی کو تو کبھی آرام نہیں ملا۔ یہاں تک کہ بچپن میں بھی نہیں۔ جب وہ محض تین سال کی تھیں، تبھی انہیں اپنی ماں اور بہن کے ساتھ سرکس میں کام کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ ’’اس کانام توتی کورن سولومن سرکس تھا، اور میری ماں ’ہائی وہیل‘ [ایک پہیہ والی] سائیکل چلانے میں ماہر تھیں۔‘‘ رانی قلا بازیاں دکھانے میں استاد تھیں، وہیں ان کی بہن بازیگری میں۔ ’’میری بہن تنی ہوئی رسی پر چلنے میں ماہر تھی۔ میں کمر سے پیچھے مڑ کر اپنے منہ سے کپ اٹھاتی تھی۔‘‘ سرکس کی منڈلی کے ساتھ انہوں نے مدورئی، منپّرئی، ناگرکوئل، پولّاچی جیسے شہروں کا دورہ کیا۔
جب رانی آٹھ سال کی ہوئیں، تو جب بھی سرکس منڈلی توتی کورن واپس لوٹتی، انہیں نمک کے کھیتوں میں کام کرنے کے لیے بھیج دیا جاتا تھا۔ تب سے لے کر آج تک نمک کے کھیت ہی ان کی دنیا ہیں۔ آٹھ سال کی عمر میں ہی ان کا اسکول بھی چھوٹ گیا۔ ’’میں نے تیسری کلاس تک پڑھائی کی ہے۔ میں اپنا نام لکھ سکتی ہوں، بس کے راستوں کو پڑھ سکتی ہوں، اور ایم جی آر کے گانے بھی گا سکتی ہوں۔‘‘ اُس دن صبح کو جب ریڈیو پر ایم جی آر کا ایک گانا بجا، تو اس کے ساتھ ساتھ وہ بھی گانے لگیں۔ گانے کے بول ہم سے دنیا میں کچھ اچھا کرنے کی بات کہتے ہیں۔
ان کے ساتھ کام کرنے والی عورتیں چڑھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ رانی رقص کرنے میں بھی کمال ہیں۔ جب وہ عورتیں حال ہی میں منعقد ایک پروگرام (جس کی مہمان خصوصی توتوکوڈی کی رکن پارلیمنٹ کنی موئی کرونا ندھی تھیں) کے بارے میں بتاتی ہیں، جس میں رانی نے کرگٹّم رقص پیش کیا تھا، تو وہ شرما جاتی ہیں۔ رانی اسٹیج پر بولنا بھی سیکھ رہی ہیں، اور اپنے کُلو ، یعنی سیلف ہیلپ گروپ کی عورتیں، اور اس کے ساتھ ساتھ نمک مزدوروں کی لیڈر کے طور پر وہ سرکار کے سامنے ان کی بات رکھنے کے لیے سفر کرتی ہیں۔ جب ان کی ساتھی عورتیں کہتی ہیں، ’’وہ ہمارے نمک کے کھیتوں کی رانی ہے،‘‘ تو وہ ہلکے سے مسکرا دیتی ہیں۔
۲۰۱۷ میں کرشن مورتی کے ذریعے منعقد ایک میٹنگ میں شامل ہونے کے لیے وہ چنئی گئی تھیں۔ ’’ہم میں سے بہت سے لوگ تین دنوں کے لیے وہاں گئے تھے۔ وہ ایک مزیدار سفر تھا! ہم ایک ہوٹل میں ٹھہرے تھے، اور وہاں سے ایم جی آر کی قبر (انّا سمادھی) دیکھنے گئے۔ ہم نے نوڈل، چکن، اڈلی، اور پونگل کھایا۔ ہم جب تک مرینا ساحل پر پہنچے، تب تک بہت رات ہو چکی تھی، لیکن سب بہت اچھا اور یادگار تھا!‘‘
گھر پر ان کا کھانا بہت سادہ ہوتا ہے۔ وہ چاول اور ایک شوربے والی سبزی (کوزامبو) پکاتی ہیں۔ عموماً کوزامبو، مچھلی کے ساتھ یا پیاز یا پھر پھلیوں کے ساتھ بنایا جاتا ہے۔ الگ سے کھانے کے لیے کروواڈو (خشک نمکین مچھلی) اور کچھ سبزیاں، جیسے پتہ گوبھی یا چقندر کھانے کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’جب ہمارے پاس پیسے کم ہوتے ہیں، تو ہم کالی کافی پیتے ہیں۔‘‘ لیکن وہ شکایت نہیں کرتیں۔ عیسائی ہونے کی وجہ سے وہ چرچ جاتی ہیں اور دعائیہ نظم گاتی ہیں۔ اپنے شوہر سیسو کو ایک حادثہ میں کھو دینے کے بعد، ان کے بچے ان کے ساتھ کافی اچھے سے رہے ہیں، خاص کر وہ اپنے بیٹے کا نام بار بار لیتی ہیں۔ ’’اونّوم کورئی سولّ موڈیاد (میں کسی بات کی شکایت نہیں کر سکتی)، بھگوان نے مجھے اچھے بچے دیے ہیں۔‘‘
جب وہ حاملہ تھیں، تب وہ زچگی تک لگاتار کام کرتی رہیں۔ زچگی کے لیے بھی وہ نمک کے کھیتوں سے سیدھے اسپتال تک پیدل چل کر پہنچی تھیں۔ گھٹنوں کے پاس اپنی جانگھوں کو تھپتھپاتے ہوئے وہ بتاتی ہیں، ’’میرا پیٹ یہاں پر آرام کرتا تھا۔‘‘ زچگی کے ۱۳ دن بعد ہی وہ واپس کام پر آ گئی تھیں۔ ان کا بچہ بھوک سے نہ تڑپے، اس کے لیے وہ سابو دانہ کے آٹے کا پتلا محلول بناتی تھیں۔ دو چمچ آٹے کو ایک کپڑے میں باندھ کر، پانی میں بھگو کر، اور ابال کر وہ اسے گرائپ واٹر میں ڈال کر اس پر ربڑ کا ڈھکن لگا دیتی تھیں۔ اور ان کے دودھ پلانے کے لیے لوٹ آنے تک، کوئی ان کے بچے کے ساتھ ہوتا تھا اور اسے بوتل سے محلول پلاتا رہتا تھا۔
حیض بھی اتنا ہی مشکل ہوتا تھا، جب اس کے سبب ان کے پیروں اور جانگھوں میں جلن ہوتی تھی اور درد کی وجہ سے انہیں جھنجھلاہٹ ہوتی تھی۔ ’’شام کو گرم پانی سے غسل کرنے کے بعد میں اپنی جانگھوں پر ناریل تیل سے مالش کرتی تھی، تاکہ اگلی صبح کام کرنے جا سکوں...‘‘
اتنے سال کے تجربہ کے بعد، رانی نمک کو دیکھ کر اور چھو کر ہی اس کے غذائی معیار کے بارے میں بتا سکتی ہیں۔ اچھے سیندھا نمک کی پہچان یہ ہے کہ اس کے دانے ایک برابر ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے چپکتے نہیں ہیں۔ ’’اگر یہ چپچپا [پِسو-پِسو] ہوا، تو اس کا ذائقہ اچھا نہیں ہوگا۔‘‘ سائنسی طریقے سے نمک کی پیداوار میں بَوم تھرما میٹر اور وسیع آبپاشی کے راستوں کا استعمال کیا جاتا ہے، تاکہ نمک کی ہائی کوالٹی والی فصل تیار ہو سکے۔ وہ مجھے بتاتی ہیں کہ ان ضروریات کو پورا کرنے کے باوجود، یہ نمک صنعتی استعمال کے لیے زیادہ بہتر ہوتا ہے۔
*****
’’نمک کے میدانوں کو صنعت کے طور پر نہیں، بلکہ
زراعت کے طور پر دیکھنا چاہیے۔‘‘
– جی گرہ دُرائی، چیئرمین، توتوکوڈی اسمال اسکیل سالٹ مینوفیکچررز
ایسو سی ایشن
توتوکوڈی کی نئی کالونی میں بنے اپنے ایئرکنڈیشن آفس (جو نمک کے میدانوں سے زیادہ دور نہیں ہے، کیوں کہ بھری دوپہر میں ان کے آفس سے ان میدانوں کے اوپر اڑتے کوؤں کو دیکھا جا سکتا ہے) میں جی گرہ دُرائی مجھ سے ضلع کی نمک صنعت سے جڑی سب سے اہم باتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ ان کے ایسو سی ایشن میں تقریباً ۱۷۵ ممبران ہیں اور ہر ایک ممبر کے پاس دس ایکڑ زمین ہے۔ ضلع بھر میں، ۲۵ ہزار ایکڑ تک پھیلے ہوئے میدان سالانہ ۲۵ لاکھ ٹن نمک کی پیداوار کرتے ہیں۔
اوسطاً ہر ایک ایکڑ زمین، سالانہ ۱۰۰ ٹن نمک کی پیداوار کرتی ہے۔ ایک خراب سال میں، جب بہت زیادہ بارش ہو جاتی ہے، تب پیداوار گھٹ کر ۶۰ ٹن ہو جاتی ہے۔ گرہ دُرائی مزدوری کی بڑھتی ہوئی لاگت پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’کھاری مٹی کے علاوہ ہمیں بجلی کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ پانی کو کھینچا جا سکے، اور ساتھ ہی نمک بنانے کے لیے ہمیں مزدوروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزدوری کی لاگت لگاتار بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اور اب تو کام کے گھنٹے بھی کم ہو گئے ہیں۔ پہلے آٹھ گھنٹے کام ہوتا تھا، اب صرف چار گھنٹے کام ہوتا ہے۔ وہ صبح ۵ بجے آتے ہیں اور ۹ بجے ہی چلے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر مالک بھی وہاں جا کر دیکھتے ہیں، تو کوئی مزدور وہاں دکھائی نہیں دیتا۔‘‘ کام کے گھنٹوں کو لے کر ان کا حساب کتاب مزدوروں سے کچھ الگ ہے۔
گرہ دُرائی یہ مانتے ہیں کہ کام کرنے کے حالات کے لحاظ سے نمک کے کھیتوں میں کام کرنا بہت مشکل ہے۔ ’’پانی اور بیت الخلاء کی سہولت دینا ضروری ہے، لیکن یہ آسان نہیں ہے، کیوں کہ نمک کے کھیت ۱۰۰ کلومیٹر کی دوری تک پھیلے ہوئے ہیں۔‘‘
گرہ دُرائی کہتے ہیں کہ توتوکوڈی کے نمک کی مانگ کم ہوتی جا رہی ہے۔ ’’پہلے، یہاں کے نمک کو سب سے بہتر غذائی نمک مانا جاتا تھا۔ لیکن اب اس کی سپلائی صرف چار جنوبی ریاستوں میں ہوتی ہے۔ اور تھوڑا بہت اس کی برآمدات سنگاپور اور ملیشیا میں کی جاتی ہے۔ اس کے زیادہ تر حصے کا استعمال صنعت میں ہوتا ہے۔ ہاں، مانسون کے بعد ان کھیتوں سے نکالے گئے جپسم سے کچھ منافع ہو جاتا ہے۔ اپریل اور مئی میں ہوئی بارش اور ماحولیاتی تبدیلی کے سبب نمک کی پیداوار بھی تیزی سے متاثر ہو رہی ہے۔‘‘
اس کے علاوہ، گجرات سے سخت مقابلہ آرائی بھی ہے: ’’توتوکوڈی کے مقابلے گرم اور خشک ہونے کے سبب ملک میں نمک کی کل پیداوار کا ۷۶ فیصد حصہ اب اُس مغربی ریاست (گجرات) کا ہے۔ ان کے نمک کے میدان کافی بڑے ہیں اور پیداوار بھی جزوی طور پر مشینوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ وہاں بڑی تعداد میں بہار سے آئے مہاجر مزدور [جو سستی مزدوری فراہم کرتے ہیں] بھی کام کرتے ہیں۔ ان کے کھیتوں کو سمندر کی اونچی لہروں کے پانی سے بھرا جاتا ہے، اس لیے ان کا بجلی کا خرچ بھی بچ جاتا ہے۔‘‘
توتوکوڈی میں ایک ٹن نمک کی پیداوارکی لاگت ۶۰۰ سے ۷۰۰ روپے ہے۔ ’’جب کہ گجرات میں یہ صرف ۳۰۰ روپے ہے۔ ہم ان سے کیسے مقابلہ کر سکتے ہیں، خاص کر جب ایک ٹن نمک کی قیمت اچانک گھٹ کر ۶۰۰ روپے ہو جاتی ہے، جیسا کہ ۲۰۱۹ میں ہوا تھا؟‘‘ اس کی تلافی کے لیے، گرہ دُرائی اور دوسرے لوگ چاہتے ہیں کہ نمک کی پیداوار کو ’’صنعت کی طرح نہیں، بلکہ زرعی پیداوار کی طرح دیکھا جائے۔‘‘ [اسی لیے نمک کو ’فصل‘ قرار دینے کا خیال پیدا ہوا ہے۔] نمک کی پیداوار کرنے والی چھوٹی اکائیوں کو کم شرح سود پر قرض، سبسڈی پر بجلی، اور کارخانہ اور محنت سے متعلق قوانین سے چھوٹ کی ضرورت ہے۔
’’اس سال، پہلے ہی گجرات سے آئے جہازوں نے توتوکوڈی میں اپنے نمک فروخت کیے ہیں۔‘‘
*****
’’وہ ہمارے بارے میں صرف تبھی لکھتے ہیں، جب کچھ
بہت برا ہو جاتا ہے۔‘‘
– خاتون نمک مزدور
نمک مزدوروں کے ذریعہ معاش کی حفاظت کے لیے اَن آرگنائزڈ ورکرز فیڈریشن کے کرشن مورتی اپنے کئی مطالبات کو سامنے رکھتے ہیں۔ بنیادی سہولیات (جیسے پانی، بیت الخلاء اور آرام کرنے کی جگہ) کے علاوہ، وہ مزدوروں، مالکوں، اور سرکار کے نمائندوں والی ایک کمیٹی بنانے کی مانگ کرتے ہیں، تاکہ زیر التوا معاملوں کو جلد نمٹایا جا سکے۔
’’ہمیں فوراً ہی بچوں کی دیکھ بھال (چائلڈ کیئر) سے متعلق سہولیات کی ضرورت ہے۔ ابھی تک آنگن واڑیاں صرف صبح ۹ بجے سے شام ۵ بجے کے درمیان (دفتری وقت میں) کام کرتی ہیں۔ نمک مزدور صبح ۵ بجے اپنے گھر سے نکل جاتے ہیں اور کچھ علاقوں میں انہیں کام پر اور بھی پہلے نکلنا ہوتا ہے۔ اگر ان کے بچوں میں سب سے بڑی ایک لڑکی ہے، تو وہ ماں کی غیر موجودگی میں اپنے بھائی بہنوں کی دیکھ بھال کے لیے گھر پر بیٹھی رہے گی، اور اس کی تعلیم متاثر ہوگی۔ کیا آنگن واڑیوں کو ان بچوں کی دیکھ بھال کے لیے، صبح ۵ بجے سے صبح ۱۰ بجے تک کام نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
کرشن مورتی اپنی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں (جیسے مزدوری میں جزوی اضافہ اور بونس) کے بارے میں بتاتے ہیں کہ یہ سب تبھی ممکن ہوا، جب مزدور متحد ہوئے اور انہوں نے اپنے حقوق کے لیے لڑائی لڑی۔ تمل ناڈو کی نئی ڈی ایم کے حکومت نے ۲۰۲۱ کے اپنے بجٹ میں ان کے ایک بہت پرانے مطالبہ کو شامل کیا ہے: مانسون کے دوران راحت کے طور پر ۵۰۰۰ روپے کی امدادی رقم۔ کرشن مورتی اور سماجی کارکن اوما مہیشوری اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ غیر منظم شعبہ کو آسانی سے ایک منظم شعبہ میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اس پیشہ میں صحت سے متعلق اپنے خطرات ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں، ’’لیکن کیا سماجی تحفظ کے کچھ بنیادی طریقے دستیاب نہیں کرائے جا سکتے ہیں؟‘‘ ہاں۔ یقینی طور پر۔
آخرکار، جیسا کہ عورتیں کہتی ہیں، مالک ہمیشہ منافع کماتے ہیں۔ جھانسی ان نمک کے کھیتوں کا موازنہ تاڑ کے درختوں سے کرتی ہیں۔ دونوں ہی سخت، سورج کی تپتی دھوپ کا سامنا کرنے میں اہل، اور ہمیشہ ہی کارآمد ہیں۔ وہ بار بار ’دھدّو‘ لفظ (بول چال کی زبان میں پیسے کے لیے استعمال ہونے والا ایک تمل لفظ) استعمال کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ نمک کے کھیت ہمیشہ اپنے مالک کو پیسہ دیتے ہیں۔
’’مگر ہمیں نہیں دیتے،‘‘ کام ختم کرنے کے بعد، چھوٹے سے کاغذ کے کپ میں چائے پیتے ہوئے یہ عورتیں مجھ سے کہتی ہیں۔ ’’ہماری زندگی کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ ہر جگہ آپ کسانوں کے بارے میں پڑھتے ہیں، لیکن میڈیا ہم سے صرف تبھی بات کرتا ہے، جب ہم احتجاجی مظاہرہ کرتے ہیں۔‘‘ اور پھر تلخ لہجے میں پوچھتی ہیں، ’’وہ صرف تب ہمارے بارے میں لکھتے ہیں، جب ہمارے ساتھ کچھ بہت برا ہو جاتا ہے۔ مجھے بتائیے، کیا سبھی لوگ نمک نہیں کھاتے۔‘‘
اس تحقیقی مطالعہ کو بنگلورو کی عظیم پریم جی یونیورسٹی کے ریسرچ فنڈنگ پروگرام ۲۰۲۰ کے تحت مالی تعاون حاصل ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز