اور ان کی بوجھل آنکھیں کیا دیکھیں گی؟
ایک منتشر لاپرواہ
خواب!
ایک شکستہ آسمانی
ترکیب!
(شری رنگم شرینواس راؤ کی ۱۹۳۵ کی تیلگو نظم ’پاراجیتولو‘ کے انگریزی ترجمہ ’دی ڈیفیٹڈ‘ سے ماخوذ)
انہدامی دستہ صبح ۵ بجے پہنچ گیا تھا۔ ۴۰ سال کی عمر پار کر چکیں ڈی گنگولمّا کہتی ہیں، ’’انہوں نے ہمیں گھروں سے اپنا سامان باہر نکالنے کا بھی موقع نہیں دیا۔‘‘ وہ آندھرا پردیش کے اننت پور قصبہ کے مضافات میں واقع وجئے نگر کالونی میں رہتی ہیں اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والی مزدور ہیں۔ ’’انہوں نے ہماری زندگیوں کو سڑک پر دھکیل دیا ہے۔‘‘
یہاں کے باشندوں کا اندازہ ہے کہ اس کارروائی میں آٹھ بلڈوزر اور تقریباً ۲۰۰ پولیس اہلکار شامل تھے۔ اس میں آٹھ خواتین کانسٹیبل بھی تھیں، جو صبح ۹ بجے پولیس دستے میں شامل ہوئی تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے کالونی کے ۳۰۰ مکانات میں سے کم از کم ۱۵۰ کو مسمار کرنے کی کارروائی شروع کی۔ یہ وہ مکانات تھے جن میں کالونی کے غریب ترین لوگ آباد تھے اور جن میں سے زیادہ تر کی تعمیر گزشتہ ۳ یا ۴ برسوں میں ہوئی تھی۔
پلاسٹک کی ٹوٹی ہوئی بالٹیاں، اسکول کی پھٹی ہوئی کتابیں، دیوی دیوتاؤں کی تباہ شدہ تصاویر، کیچڑ میں سنے ہوئے کپڑوں کے ڈھیر وغیرہ – یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں خوف اور عجلت میں چھوڑ دیا گیا تھا – اب ملبے میں بکھری پڑی تھیں۔
تقریباً چھ کنبے جن کے مکانات منہدم کیے گئے تھے، وہ ۳ اگست کے انہدام سے محض ایک ہفتے قبل یہاں منتقل ہوئے تھے۔ پروین بانو گھر سے ٹیلرنگ کا کام کرتی ہیں۔ ان کے شوہر دہاڑی مزدور ہیں، وہ کہتی ہیں کہ ’’ہم پچھلے ہفتے ہی یہاں منتقل ہوئے تھے۔‘‘ وہ اور ان کے شوہر دونوں اننت پور کی بھوانی کالونی سے وجئے نگر کالونی میں منتقل ہوئے تھے۔ کم کرایہ کی وجہ سے کئی دوسرے کنبے اننت پور کی دوسری کم آمدنی والی بستیوں سے یہاں آئے ہیں۔ پروین کہتی ہیں، ’’اور وہ آئے اور ہمارے گھروں کو توڑ دیا۔ گھروں کی بنیاد ڈالنے سے قبل ہی وہ ہمیں مطلع کرسکتے تھے۔‘‘
وجئے نگر کالونی کے زیادہ تر رہائشی دلت، درج فہرست قبائل اور مسلمان ہیں۔ ان میں سے اکثر گھروں کی صفائی کرنے والے، مزدور، پھل یا پھول بیچنے والے، یا چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والے لوگ ہیں۔ کئی محمد حسین جیسے بھی ہیں جو اننت پور ضلع کے دوسرے حصوں سے نقل مکانی کرکے یہاں آئے ہیں۔ حسین درزی ہیں۔ وہ تقریباً ۲۰ سال قبل دھرماورم سے یہاں اس وقت آئے تھے جب زوال آمادہ زراعت اور بنائی کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے صارفین پر انحصار کرنے والا ان کا کاروبار گرنے لگا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم یہاں اپنی روزی روٹی کے لیے آئے تھے۔‘‘ انہوں نے بھی ۳ اگست کو اپنا مکان کھو دیا تھا، جسے انہوں نے صرف تین سال قبل تعمیر کیا تھا۔
وجئے نگر تین دہائی پرانی کالونی ہے۔ منہدم کیے گئے مکانات پچھلے کچھ سالوں میں تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ مکانات گزشتہ برسوں میں آئی بارش کی کمی کی وجہ سے سوکھ چکیں دو جھیلوں، بکّرائے سمدرم اور چِکّ وڈیالو چیروو کی زمین پر بنائے گئے تھے۔
وجئے نگر کالونی کے بے گھر مکینوں کا کہنا ہے کہ جب جون ۲۰۱۴ میں تیلگو دیشم پارٹی (ٹی ڈی پی) کی نئی حکومت برسراقتدار آئی تھی، تو ٹی ڈی پی کے مقامی کارپوریٹر آر اُمامہیشور نے انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ یہاں اپنے مکانات بنا سکتے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے ایسا کیا۔ انہیں بجلی کے میٹر بھی دیے گئے تھے۔ وہ باقاعدگی سے بل کی ادائیگی کرتے رہے ہیں۔
لیکن محکمہ محصولات کے حکام کی جانب سے جاری انہدام کے نوٹس میں ۸ جون ۲۰۱۷ کی ایک رٹ عرضی، ۲۵ جولائی ۲۰۱۱ کی سپریم کورٹ کی رٹ عرضی کی خصوصی اجازت (اسپشل لیو پٹیشن) اور دو میموز کا حوالہ دیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے انہیں جھیل کی زمین پر تعمیر شدہ مکانات کو گرانا پڑا تھا۔ ’’یہ ایک جھیل ہے،‘‘ اے ملولا کہتے ہیں۔ وہ اننت پور کے ڈویژنل ریونیو افسرہیں۔ ان مکانات کا انہدام انہیں کی نگرانی میں ہوا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ متعدد فیصلوں میں سپریم کورٹ نے مقامی حکام کو تجاوزات کی زمین کو دوبارہ اپنی تحویل میں لینے کی ہدایات دی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ صرف اپنے سینئرز کے حکم پر عمل کر رہے تھے۔ ’’اگر کوئی جھیل پر قضبہ کرے تو کیا آپ اسے قبول کریں گے؟‘‘ وہ دریافت کرتے ہیں۔ وہ زور دے کر کہتے ہیں کہ گرائے گئے گھروں میں سے صرف ۱۰ سے ۱۵ گھروں میں لوگ آباد تھے، جبکہ ’’باقی خالی تھے۔‘‘
تاہم کالونی میں رہنے والوں کا الزام ہے کہ حکومتی اہلکاروں نے ان کے مکانات اور زندگیاں تباہ کرنے سے قبل انہیں پیشگی اطلاع نہیں دی تھی۔ ’’وہ [صرف اسی صبح] گھروں پر نوٹس چسپاں کر کے انہیں مسمار کرتے جا رہے تھے۔ پولیس لوگوں کو دھکیل رہی تھی۔ میں وہاں سے بھاگ گیا،‘‘ یہ کہنا ہے بی انل کمار کا، جن کی عمر تقریباً ۱۲ سال ہے اور جو مقامی میونسپل اسکول میں درجہ ۶ کے طالب علم ہیں۔
دوسرے افراد بھی واقعات کے اس سلسلے کو بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومتی نوٹس ۲۵ جولائی یعنی قبل کی تاریخ کے تھے اور ان کے گھروں کو منہدم کرنے سے چند منٹ پہلے چسپاں کیے گئے تھے۔ ’’وہ یہ نوٹس ہماری آنکھوں کے سامنے چپکا رہے تھے، اور ہمارے گھروں کو منہدم کرتے جا رہے تھے۔ جب ہم میں سے کچھ نے اپنے موبائل سے ان کی تصویر کشی کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے ہمارے فون چھین لیے،‘‘ یہ کہنا ہے پی جگدیش کا، جو وجئے نگر کالونی میں پیدا ہوئے تھے لیکن کچھ سال پہلے ہی یہاں اپنے مکان میں منتقل ہوئے تھے۔
اننت پور قصبے میں مزدوری کرکے اپنا گھر چلانے والی ۲۸ سالہ ایس پروین کہتی ہیں، ’’خنزیروں تک کو [ریاستی حکام کے ذریعہ صحت کی مہم کے دوران] منتقل کرنے سے قبل کچھ وقت دیا جاتا ہے۔‘‘ ۱۶۰ روپے کی یومیہ مزدوری سے ۲۰ کلو وزنی سیمنٹ کی ۱۵۰ اینٹیں بنتی ہیں۔ پروین کے شوہر شہر میں راج مستری کا کام کرتے ہیں۔ ان کی فیملی نے تقریباً ۳ لاکھ روپے کا قرض لے کر ایک سال قبل اس گھر کی تعمیر کی تھی ۔ ۳ لاکھ کا یہ قرض انہوں نے ایک بچت گروپ سے لیا تھا جس کی وہ رکن ہیں۔ وہ نجی ساہوکاروں کی بھی قرض دار ہیں۔ چار افراد پر مشتمل اس فیملی کی ماہانہ آمدنی تقریباً ۱۲۰۰۰ روپے ہے۔ اس فیملی کو ہر ماہ قرضوں پر سود کی صورت میں ۷۰۰۰ روپے ادا کرنے ہوتے ہیں۔ ان پیسوں کا انتظام کرنے کے لیے، وہ دوبارہ قرض لیتے ہیں۔
انہدام کی کارروائی سے رنجیدہ پروین، کلکٹر کے دفتر گئیں اور اپنے جسم پر مٹی کا تیل ڈال کر خود سوزی کی کوشش کی، لیکن پولیس نے ان کی کوشش کو ناکام کر دیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’اگر وہ ہمیں پہلے بتا دیتے تو ہم کم از کم دروازے اور کھڑکیاں نکال کر بیچ سکتے تھے …‘‘ بہرحال، فیملی نے ملبے میں دبی کچھ چیزیں بچا لی ہیں، جن میں ایک دھات کی تجوری، کپڑے اور کچھ برتن شامل ہیں۔ لیکن پنکھے، لائٹیں، برتن اور دوسری مختلف چیزیں تباہ ہوگئیں۔
گنگولمّا نے بھی خود پر مٹی کا تیل چھڑک لیا تھا۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں نے سوچا کہ ایسا کرنے سے وہ رُک جائیں گے… مجھے امید تھی کہ اگر میں خود سوزی کروں گی، تو وہ ہمارے گھروں کو بخش دیں گے۔‘‘ لیکن پولیس والوں نے ان کی خود سوزی کی کوشش کو ناکام کر دیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’وہ ہمارے گھروں کو مسمار کرتے رہے۔‘‘
صرف یہی نہیں، یہاں کے باشندوں کا الزام ہے کہ اس صبح سرکاری اہلکاروں اور پولیس نے ان کے ساتھ مارپیٹ، بدسلوکی اور گالی گلوج کی۔ حالانکہ، ڈویژنل ریونیو افسر ملولا کا اصرار ہے کہ ان کے محکمے کے اہلکاروں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ بی شوبھا کہتی ہیں، ’’مجھے دھکا دیا گیا اور میں گھر کے باہر پانی کے گڑھے میں گر گئی۔‘‘ شوبھا ایک گھریلو خاتون ہیں اور ان کے شوہر کھاد کا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ حاملہ ہیں اور پڑوسیوں کا کہنا ہے کہ جب انہیں دھکہ دیا گیا تھا تو ان کی تین سالہ بیٹی گیتکا ان کی گود میں تھی۔
انہدام کے بعد ایک ہفتے سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے، لیکن اب بھی یہاں بہت سے لوگ صدمے میں ہیں۔ ان کے ذہنوں میں ان کے گھروں کو تباہ کرتے بلڈوزروں کی تصاویر اب بھی تازہ ہیں۔ پی بھارتی کہتے ہیں، ’’میں دو بار بیہوش ہو گیا تھا۔ [فی الحال] ہم کافی تناؤ سے گزر رہے ہیں۔ ہمارے پاس خاطرخواہ مقدار میں کھانے پینے کی چیزیں بھی نہیں ہیں۔ میرے بچوں کو اسکول گئے ایک ہفتہ ہو گیا ہے۔ جب ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے تو ہم انہیں اسکول کیسے بھیج سکتے ہیں؟‘‘
کالونی کے لوگوں کا طعام و قیام اب اپنے گھروں کے ملبوں کے نزدیک ہو رہا ہے۔ انہدام کے دن کچھ مقامی لوگوں نے مل کر ایک پنڈال نصب کیا تھا۔ اس کے فوراً بعد چونکہ رات کو بارش ہوتی تھی، اس لیے انہوں نے ایک عارضی پناہ گاہ بھی تعمیر کی تھی، جس میں بانس کے کھمبوں پر ایسبیسٹس کی چادروں کی چھت بنائی گئی تھی۔ وہ اجتماعی طعام کا سامان مہیا کرانے کے لیے رقم جمع کر رہے ہیں، اور اپنی خوراک کی مقدار میں کمی کر رہے ہیں۔
وجئے نگر کالونی تیلگودیشم پارٹی کی حمایت کا مرکز رہی ہے۔ اس تباہی نے یہاں کے باشندوں کو اپنے قائدین کے ہاتھوں دھوکہ دہی کا احساس دلایا ہے۔ عارضی پناہ گاہ کی تعمیر میں مدد کرنے والے ایک مزدور اور ٹی ڈی پی کے رکن ایم جیا پُترا کہتے ہیں، ’’ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ایک ماں اپنے بچوں کو تباہ کر رہی ہے۔‘‘ یہاں کے کئی باشندے ایسے ہیں جو ٹی ڈی پی کے رکن ہیں۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ پارٹی کی اندرونی رسہ کشی (مقامی کارپوریٹر آر اُما مہیشور اور دیگر کے درمیان اختلافات) نے انہدامی دستے کو ان پر مسلط کیا۔ اُما مہیشور کہتے ہیں، ’’جھیل کے علاقے میں تقریباً ۱۸ کالونیاں ہیں۔ لیکن صرف ہماری ہی کالونی کو منہدم کیا گیا۔‘‘
بے گھر لوگ اپنے معمول کے کاموں اور روزمرہ کی زندگی کو جاری رکھتے ہوئے ملبوں پر قیام کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پھول بیچنے والی ایس شیوما کا کہنا ہے، ’’ہم یہاں رہیں گے اور جتنے لمبے عرصے تک ہو سکے گا لڑیں گے۔‘‘
دیکھیں: اننت پور کے زمیں دوز مکانات فوٹو البم
مترجم: شفیق عالم