’’بجٹ میں بڑی بڑی رقم کی بات کرتے ہیں۔ لیکن سرکار کی نظر میں میری قیمت تو زیرو ہے!‘‘

چاند رتن ہالدار جب ’سرکاری بجٹ‘ کا سوال سنتے ہیں، تو اپنے اندر کی تلخی کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے۔ ’’کاہے کا بجٹ؟ کس کا بجٹ؟ یہ سب بیوقوف بنانے کے لیے ہوتا ہے بس!‘‘ ۵۳ سالہ چاندو دا کہتے ہیں، جو کولکاتا کے جادوپور میں رکشہ کھینچتے ہیں۔

’’اتنے سارے بجٹ آئے، اتنی ساری اسکیمیں لائی گئیں، لیکن ہمیں دیدی [وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی] یا [وزیر اعظم] مودی سے گھر نہیں ملا۔ میں آج بھی ترپال اور بانس کی قمچیوں سے بنی جھونپڑی میں رہتا ہوں، جو تقریباً ایک فٹ دھنس گئی ہے،‘‘ چاندو دا کہتے ہیں۔ صاف نظر آتا ہے کہ سرکاری بجٹ کو لے کر ان کی امیدوں پر مزید پانی پھر گیا ہے۔

چاندو دا، مغربی بنگال کے سبھاش گرام علاقہ کے رہائشی ہیں اور بے زمین ہیں۔ وہ صبح صبح سیالدہ کی لوکل ٹرین سے جادوپور جاتے ہیں، اور دیر شام تک کام کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہی وہ گھر لوٹ پاتے ہیں۔ ’’بجٹ ہماری لوکل ٹرینوں کی طرح ہی آتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں۔ شہر آنا جانا اب اتنا مشکل ہو گیا ہے۔ ایسے بجٹ کا کیا فائدہ جو ہمارے خالی پیٹ پر لات مارے؟‘‘ وہ سوال کرتے ہیں۔

PHOTO • Smita Khator
PHOTO • Smita Khator

بائیں: مغربی بنگال کے سبھاش گرام علاقہ میں رہنے والے چاند رتن ہلدار، رکشہ کھینچنے کے لیے ہر روز کولکاتا آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’بجٹ ہماری لوکل ٹرینوں کی طرح ہی آتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں۔ شہر آنا جانا اب بہت مشکل ہو گیا ہے۔‘ دائیں: وہ اپنا پیر دکھاتے ہیں، جس میں ٹیومر ہو گیا ہے

اپنے لوگوں کے پیارے ’چاندو دا‘ جادوپور یونیورسٹی کے گیٹ نمبر ۴ کے سامنے سواریوں کا انتظار کرتے ہیں۔ کسی زمانے میں یہاں کافی چہل پہل ہوا کرتی تھی، اور ۲۰ سے زیادہ رکشے ایک لائن میں کھڑے رہتے تھے اور سواریوں کا انتظار کرتے تھے۔ لیکن، اب یہ جگہ ویران نظر آتی ہے اور صرف تین رکشے دکھائی دیتے ہیں، جن میں ایک چاندو کا بھی رکشہ ہے۔ اسی کے سہارے وہ ہر روز ۳۰۰ سے ۵۰۰ روپے کماتے ہیں۔

’’میں ۴۰ سال سے زیادہ عرصے سے کام کر رہا ہوں۔ میری بیوی لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے۔ ہم اپنی دونوں بیٹیوں کی شادی بہت مشکل سے کر پائے۔ کبھی کوئی غلط کام نہیں کیا۔ کبھی ایک پیسہ نہیں چرایا، نہ کوئی دھوکہ دہی کی۔ ہم اپنے لیے دو وقت کے کھانے کا بھی انتظام نہیں کر پا رہے ہیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ ۷، ۱۰ یا ۱۲ لاکھ کی اس بحث کا کوئی مطلب ہے ہماری نظر میں؟‘‘ وہ ۱۲ لاکھ تک کی آمدنی پر ٹیکس کی چھوٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

’’بجٹ میں ان کو چھوٹ ملتی ہے، جو بہت سارا پیسہ کماتے ہیں۔ سرکار ان کو کچھ نہیں کرے گی جو کاروبار کے نام پر بینکوں سے کروڑوں قرض لینے کے بعد ملک سے باہر بھاگ جاتے ہیں۔ لیکن، اگر میرے جیسا رکشہ کھینچنے والا غریب انسان غلط راستے پر پکڑا جائے، تو رکشہ کو ضبط کر لیا جاتا ہے اور پولیس ہمیں تب تک پریشان کرتی ہے، جب تک ہم انہیں رشوت نہیں کھلاتے ہیں۔‘‘

صحت کے شعبہ کے لیے بجٹ میں مجوزہ طریقوں کے بارے میں سن کر، چاندو دا بتاتے ہیں کہ ان کے جیسے لوگوں کو چھوٹے موٹے علاج کے لیے بھی پورا پوا دن لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ ’’خود ہی بتاؤ، اگر اسپتال کے چکر میں مجھے اپنے مزدوری سے ہی ہاتھ دھونا پڑے، تو سستی دواؤں کا فائدہ کیا ہے؟‘‘ وہ اپنے ایک پیر کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جس میں ٹیومر ہو گیا ہے، ’’پتہ نہیں اب اس کی وجہ سے کتنی تکلیف برداشت کرنی پڑے گی۔‘‘

ترجمہ نگار: محمد قمر تبریز

Smita Khator

ஸ்மிதா காடோர், பாரியின் இந்திய மொழிகள் திட்டமான பாரிபாஷாவில் தலைமை மொழிபெயர்ப்பு ஆசிரியராக இருக்கிறார். மொழிபெயர்ப்பு, மொழி மற்றும் ஆவணகம் ஆகியவை அவர் இயங்கும் தளங்கள். பெண்கள் மற்றும் தொழிலாளர் பிரச்சினைகள் குறித்து அவர் எழுதுகிறார்.

Other stories by Smita Khator
Translator : Qamar Siddique

கமார் சித்திக்கி, பாரியில் உருது மொழிபெயர்ப்பு ஆசிரியராக இருக்கிறார். அவர் தில்லியை சார்ந்த பத்திரிகையாளர் ஆவார்.

Other stories by Qamar Siddique