’’ہاتھیوں نے مجھے کئی بار دوڑایا، لیکن مجھے کبھی کوئی چوٹ نہیں آئی،‘‘ روی کمار نیتام مسکراتے ہوئے کہتے ہیں۔

یہ پچیس سالہ گونڈ آدیواسی ارسیکنہار رینج میں جنگل کے راستے سے گزر رہا ہے۔ چھتیس گڑھ کے اُدنتی سیتاندی ٹائیگر ریزرو میں انہیں ہاتھیوں کا سراغ لگانے والے (ٹریکر) کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ ہاتھیوں کے گوبر اور ان کے قدموں کے نشانات کا تعاقب کرتے ہوئے انہیں کس طرح ٹریک کرنا ہے۔

’’میں جنگل میں پیدا ہوا اور یہیں پرورش پائی۔ ان چیزوں کے بارے میں جاننے کے لیے مجھے اسکول جانے کی ضرورت نہیں ہے،‘‘ دھمتاری ضلع کے ٹھینہی گاؤں سے تعلق رکھنے والے روی کہتے ہیں۔ انہوں نے ۱۲ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اور اپنا موجودہ پیشہ اختیار کرنے سے قبل تقریباً چار سال پہلے محکمہ جنگلات میں فائر گارڈ کے طور پر کام کرنے لگے تھے۔

جب ٹریکروں کے ساتھ ہم جنگل میں داخل ہوتے ہیں، تو وہاں ہمیں صرف کیڑے موکوڑوں کی بھنبھناہٹ اور اور سال (شورا روبسٹا) اور ساگوان (ٹیکونا گرانڈس) کے درختوں کی شاخوں سے گزرتی ہوئی ہوا کی سرسراہٹ سنائی دیتی ہے۔ کبھی کبھار کسی پرندے کی پکار یا کسی ٹہنی کے چٹخنے کی آواز آجاتی ہے۔ ہاتھیوں کے ٹریکروں کو آوازوں کے ساتھ ساتھ دوسری نشانیوں پر بھی دھیان دینا پڑتا ہے۔

PHOTO • Prajjwal Thakur
PHOTO • Prajjwal Thakur

بائیں: ’میں جنگل میں پیدا ہوا اور یہیں پرورش پائی،‘ ہاتھیوں پر نظر رکھنے والے روی کمار نیتام کہتے ہیں، ’مجھے ان چیزوں کے بارے میں جاننے کے لیے اسکول جانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘ دائیں: ارسیکنہار جنگل کی حدود میں ہاتھیوں کو ٹریک کرنے والوں کا کیمپ۔ ہاتھی یہاں سے تقریباً ۳۰۰ میٹر کے فاصلہ پر ہیں

ہاتھی اس جنگل میں ابھی حال ہی میں آئے ہیں۔ وہ تین سال پہلے اوڈیشہ سے آئے تھے۔ جنگل کے اہلکار انہیں سیکاسیر ہاتھیوں کے ریوڑ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہاں آنے کے بعد وہ ۲۰-۲۰ کے دو گروپوں میں منقسم ہو چکے ہیں۔ دیودت تارام کا کہنا ہے کہ ایک گروپ گریابند چلا گیا تھا، اور دوسرے گروپ کو یہاں کے مقامی لوگ ٹریک کر رہے ہیں۔ دیودت کی عمر ۵۵ سال ہے۔ انہوں نے فاریسٹ سروس میں بطور گارڈ شمولیت اختیار کی تھی اور اب وہ فاریسٹ رینجر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اپنے ۳۵ سال سے زیادہ کے تجربے کے ساتھ وہ جنگل سے پوری طرح واقف ہیں۔

’’اس علاقہ میں کئی تالاب اور باندھ ہیں جس کی وجہ سے جنگل میں کافی پانی دستیاب رہتا ہے،‘‘ یہ بتاتے ہوئے کہ بڑے جانوروں کو یہ جنگل کیوں پسند ہیں، دیودت کہتے ہیں۔ جنگل میں ہاتھیوں کی پسندیدہ خوراک (مثال کے طور پر مہوا کا پھل) وافر مقدار میں دستیاب ہے۔ یہ جنگل بڑی حد تک انسانی مداخلت سے بھی پاک ہے۔ ’’جنگل گھنا ہے اور یہاں کانکنی کی کوئی سرگرمی بھی نہیں چل رہی ہے۔ یہ ایسے عوامل ہیں جو اس علاقہ کو ہاتھیوں کی رہائش کے لیے موزوں بناتے ہیں،‘‘ دیو دت مزید کہتے ہیں۔

ہاتھیوں کے کھوجی تمام موسموں میں شفٹ کی بنیاد پر دن رات کام کرتے ہیں، ہاتھیوں کو پیدل ٹریک کرتے ہیں اور ان کی نقل و حرکت معلوم کرنے کے لیے گاؤوں کا بھی دورہ کرتے ہیں۔ وہ ہاتھی ٹریکر ایپ پر اپنے حاصل شدہ نتائج کو براہ راست رپورٹ کرتے ہیں۔

PHOTO • Prajjwal Thakur
PHOTO • Prajjwal Thakur

بائیں: فاریسٹ رینجر دیو دت تارام بتا رہے ہیں کہ ہاتھیوں کو ان کے قدموں کے نشانات سے کیسے ٹریک کیا جاتا ہے۔ دائیں: ناتھو رام نیتام ہاتھی کے گوبر کا معائنہ کرتے ہوئے

PHOTO • Prajjwal Thakur
PHOTO • Prajjwal Thakur

بائیں: گشت کرتے ہوئے ہاتھیوں کے کھوجی۔ دائیں: ہاتھیوں کے ٹریکروں کو ایک ایپ پر ڈیٹا اپ لوڈ کرنا ہوتا ہے اور لوگوں کو متنبہ کرنا ہوتا ہے اور وہاٹس ایپ پر رپورٹس بھیجنی ہوتی ہے

’’یہ ایپلیکیشن ایف ایم آئی ایس (فاریسٹ مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم) اور وزارت ماحولیات، جنگلات اور موسمیاتی تبدیلی کے جنگلی حیاتیات کی شاخ نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے۔ معلومات کا استعمال ہاتھیوں کے موجودگی کے مقام سے ۱۰ کلومیٹر کے دائرہ میں رہنے والے لوگوں کو خبردار کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔‘‘ اُدنتی سیتاندی ٹائیگر ریزرو کے ڈپٹی ڈائریکٹر ورون کمار جین کہتے ہیں۔

ہاتھیوں کو ٹریک کرنے والی ٹیم کے پاس کام کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہوتا ہے، وہ ۱۵۰۰ روپے ماہانہ کے معاہدہ پر کام کرتے ہیں، اور زخمی ہونے کی صورت میں کوئی انشورنس کور بھی نہیں ہوتا ہے۔ “اگر ہاتھی رات کو آتے ہیں تو ہمیں بھی رات کو آنا پڑتا ہے، کیونکہ میں اس علاقے کا محافظ ہوں۔ یہ میری ذمہ داری ہے،‘‘ گونڈ قبائلی برادری سے تعلق رکھنے والے ۴۰ سالہ فاریسٹ گارڈ  نارائن سنگھ دھرو کہتے ہیں۔

’’ہاتھی دوپہر  کو ۱۲ سے ۳ بجے تک سوتے ہیں،‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں، ’’اور اس کے بعد ’سردار [نر] ہاتھی‘ آواز لگاتا ہے اور ریوڑ دوبارہ چلنے لگتا ہے۔ ہاتھی اگر کسی انسان کو دیکھتے ہیں تو آواز لگا کر باقی ریوڑ کو خبردار کرتے ہیں۔‘‘ یہ آوازیں ٹریکرز کو بھی اس بات سے خبردار کرتی ہیں کہ ہاتھی قریب ہیں۔ ’’میں نے ہاتھیوں کے بارے میں کچھ نہیں پڑھا ہے۔ میں نے ہاتھیوں کے بارے میں جو کچھ بھی سیکھا ہے وہ ہاتھی ٹریکر کے طور پر کام کرنے کے اپنے تجربے سے سیکھا ہے،‘‘ دھرو بتاتے ہیں۔

’’اگر ہاتھی ایک دن میں ۲۵ سے ۳۰ کلومیٹر پیدل چلتا ہے، تو یہ سزا کی طرح ہو جاتا ہے،‘‘ ناتھورام کہتے ہیں۔ وہ تین بچوں کے باپ ہیں، اور جنگل کی ایک بستی میں دو کمروں والے کچے مکان میں رہتے ہیں۔ وہ محکمہ جنگلات میں فائر نگہبان کے طور پر کام کرتے، تھے لیکن دو سال قبل انہوں نے ہاتھیوں کو ٹریک کرنا شروع کیا تھا۔

PHOTO • Prajjwal Thakur
PHOTO • Prajjwal Thakur

بائیں: فاریسٹ گارڈ اور ہاتھی ٹریکر نارائن سنگھ دھرو کہتے ہیں، ’اگر ہاتھی رات کو آتے ہیں تو ہمیں بھی آنا پڑتا ہے۔‘ دائیں: پنچایت دفتر کے قریب ٹھینہی گاؤں کے رہائشی۔ ہاتھیوں نے ان کی فصلوں کو نقصان پہنچایا ہے

*****

رات کو ٹریکروں کے ذریعہ خبردار کیے جانے پر پورا گاؤں اپنی نیند سے بیدار ہو کر کھیتوں میں ہاتھیوں کو چرتے دیکھنے کے لیے جمع ہو جاتا ہے۔ نوجوان مرد اور بچے ایک محفوظ فاصلہ پر کھڑے ہو کر اپنی ٹارچ کی روشنی میں بڑے بڑے جانوروں کو دیکھتے ہیں۔

گاؤں کے مکین ہاتھیوں کو دور رکھنے کے لیے عام طور پر رات بھر آگ جلاتے رہتے ہیں ۔ ہاتھی کھانے کی تلاش میں رات میں دھان کے کھیتوں میں چرنے کے لیے نکلنا پسند کرتے ہیں۔ جنگل کے گاؤوں کے کچھ رہائشی رات بھر الاؤ کے گرد بیٹھ کر دیکھتے رہتے ہیں، لیکن ریوڑ سے اپنی فصلوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

’’جب ہاتھی پہلی بار یہاں آئے تو محکمہ جنگلات کے لوگ اتنے خوش تھے کہ انہوں نے ہاتھیوں کو گنے، گوبھی اور کیلے جیسے بہت سارے پھل اور بہت ساری سبزیاں فراہم کیں،‘‘ ٹھینہی کے رہائشی نوہر لال ناگ کہتے ہیں۔ نوہر جیسے رہائشی اس خوشی میں شریک نہیں ہوتے اور اپنی فصلوں کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان کو لے کر فکر مند رہتے ہیں۔

PHOTO • Prajjwal Thakur
PHOTO • Prajjwal Thakur

بائیں اور دائیں: ٹھینہی میں ہاتھیوں کے ذریعہ برباد کی گئی فصل

اگلی صبح جب پاری نے ٹھینہی گاؤں کا دورہ کیا، تو ہم نے ہاتھیوں کے نشانات اور ان کے ذریعہ پہنچائے گئے نقصان کو دیکھا۔ ریوڑ نے نئی بوئی ہوئی فصلوں کو تباہ کر دیا تھا اور درختوں کے تنوں پر مٹی لگی تھی جہاں انہوں نے اپنی پیٹھ کھجلائی تھی۔

ادنتی سیتاندی ٹائیگر ریزرو کے ڈپٹی ڈائریکٹر ورون کمار جین کے مطابق محکمہ جنگلات نے ہر ایک ایکڑ زمین کے لیے ۲۲ ہزار ۲۴۹ روپے کا معاوضہ لازمی قرار دیا ہے۔ لیکن مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ لال فیتہ شاہی کی وجہ سے رقم مناسب طریقے سے فراہم نہیں کی جائے گی۔ ’’اب ہم کیا کر سکتے ہیں؟‘‘ وہ پوچھتے ہیں، ’’جو کچھ بھی کرنا ہے وہ جنگل کے اہلکاروں کو کرنا ہے، ہم صرف اتنا جانتے ہیں، ہمیں یہاں ہاتھی نہیں چاہیے۔‘‘

ترجمہ نگار: شفیق عالم

Prajjwal Thakur

பிரஜ்வால் தாகூர், அசிம் பிரேம்ஜி பல்கலைக்கழகத்தின் இளங்கலை மாணவர்.

Other stories by Prajjwal Thakur
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

சர்பாஜயா பட்டாச்சார்யா பாரியின் மூத்த உதவி ஆசிரியர் ஆவார். அனுபவம் வாய்ந்த வங்க மொழிபெயர்ப்பாளர். கொல்கத்தாவை சேர்ந்த அவர், அந்த நகரத்தின் வரலாற்றிலும் பயண இலக்கியத்திலும் ஆர்வம் கொண்டவர்.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam