اس سال ۱۵ مارچ کو جب راؤ صاحب والکے مراٹھواڑہ کے لاتور ضلع کے یِلّوری گاؤں میں واقع اپنے کھیت سے گھر لوٹنے ہی والے تھے کہ ژالہ باری شروع ہو گئی۔ ’’یہ تباہی کے ۱۹ منٹ تھے،‘‘ وہ یاد کرتے ہیں۔ ’’اولے بہت بڑے تھے اور بڑی تیزی سے برس رہے تھے۔ میں خود کو بچانے میں کامیاب رہا کیونکہ میں فوراً ہی کھیت میں رکھے گھاس کے ڈھیر کے نیچے چھپ گیا۔ میرے چاروں طرف پرندے شور مچانے لگے تھے۔‘‘
اُنیس منٹ بعد جب ۷۰ سالہ والکے گھاس کی ڈھیر سے باہر نکلے، تو وہ اپنے کھیت کو پہچان نہیں پائے۔ ’’مردہ پرندے، اکھڑے ہوئے درخت، تباہ شدہ ٹماٹر اور زخمی جانور چاروں طرف بکھرے پڑے تھے،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’’میں اتنی بڑی تباہی پر یقین نہیں کر سکا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں پرندوں کے مردہ خانے سے گزر رہا ہوں۔ میں محتاط انداز میں آگے بڑھ رہا تھا تاکہ ان پر میرے قدم نہ پڑ جائیں۔‘‘ بہر حال، والکے کا کہنا ہے کہ، وہ خود کو زخمی ہونے سے بچا لینے کے بعد راحت محسوس کر رہے تھے۔
لیکن ولکے کا یہ احساس زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا۔ ان کے کھیت دو مختلف مقامات پر واقع ہیں، اور ہر کھیت کی پیمائش ۱۱ ایکڑ ہے۔ گھر پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ ان کی سب سے چھوٹی بہو، ۲۵ سالہ للیتا، اپنے دوسرے کھیت سے واپس آرہی تھی کہ راستے میں ہی ژالہ باری میں پھنس گئی۔ والکے کہتے ہیں، ’’اس نے اپنے سر پر ایک ٹوکری اٹھا رکھی تھی، لیکن وہاں چھپنے یا پناہ لینے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ چونکہ اس نے ٹوکری پکڑ رکھی تھی، اس لیے اولے اس کی انگلیوں سے ٹکرا گئے اور اس کی تین انگلیاں کٹ کر الگ ہوگئیں۔‘‘
سترہ رکنی والکے فیملی نے طوفان کے تھمتے ہی للیتا کو ہسپتال پہنچایا۔ ’’وہ اپنے دائیں ہاتھ کی تین انگلیاں کھو چکی ہے،‘‘ والکے کہتے ہیں۔ ’’اس کا بہت زیادہ خون بھی بہہ گیا تھا۔ وہ فی الحال اپنی ماں کے گھر پر ہے۔‘‘
اُس ۱۵ مارچ کی ژالہ باری نے مراٹھواڑہ کے لاتور، بیڈ اور عثمان آباد اضلاع کے کچھ حصوں کو متاثر کیا تھا۔ چھ ہفتے بعد ہم یِلّوری سے گزر رہے ہیں۔ اب بھی اکھڑے ہوئے درختوں، ٹوٹے ہوئے تاروں، جھکے ہوئے بجلی کے کھمبوں اور پرندوں کی خوفناک غیر موجودگی کی شکل میں تباہی کے نشانات ہمارے چاروں طرف نمایاں ہیں۔ ’’کیا آپ کو موروں کا وہ چھوٹا گروہ نظر آ رہا ہے؟‘‘ ایک کسان پوچھتا ہے۔ ’’ژالہ باری سے پہلے ان کی تعداد ۳۰۰ سے زیادہ تھی، اب بمشکل ۲۵ کی گنتی کی جا سکتی ہے۔‘‘
جون میں شروع ہونے والے خریف سیزن کی بوائی سے پہلے اس تباہی نے کسانوں کو مکمل طور پر مایوس کر دیا۔ والکے کے ۲۰ ٹن ٹماٹر ضائع ہو گئے، جن کی مالیت تقریباً ۴ لاکھ روپے تھی۔ وہ خریف سیزن کے لیے گندم، جوار اور سویابین کی فصل لگانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔
یلّوری کے ۶۰ سالہ گُنڈاپّا نِیٹورے نے اپنی ۲۳ ایکڑ زمین سے تباہ شدہ فصل کو ابھی تک صاف نہیں کیا ہے۔ ’’اپنے کھیتوں سے گزرنا اور تباہی کے تجربے کو تازہ کرنا بہت مایوس کن ہوتا ہے،‘‘ اپنا کھیت دکھاتے ہوئے وہ مجھ سے کہتے ہیں۔ تباہ شدہ انار زمین پر پڑے سڑ رہے ہیں، ہمارے چاروں طرف زخمی درخت ہیں، اور ان کے تنوں پر اولوں کے نشانات اب بھی باقی ہیں۔
مارچ کے وسط میں جب ژالہ باری ہوئی تھی اس وقت باغبانی میں سرمایہ کاری کرنے والے کسان اپنی پیداوار کاٹتے ہیں اور مانسون کی فصل لگانے کی تیاری کرتے ہیں۔ باغبانی مہنگی ہے، لیکن اس میں منافع بھی اچھا ملتا ہے۔ نیٹورے کہتے ہیں، ’’مجھے فی کلو انار کے عوض ۱۰۰ روپے ملتے ہیں، اور میرے پاس ۴۰ ٹن پھل تھے۔ ان ۱۹ منٹوں کی قیمت مجھے ۴۰ لاکھ روپے سے چکانی پڑی۔‘‘
نیٹورے کی انگور اور ٹماٹر کی فصل کو بھی نقصان پہنچا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر چند دنوں بعد اولے پڑے ہوتے تو شاید وہ اپنی فصلوں کو بچا لیتے۔ وہ کہتے ہیں، ’’میں نے نہ صرف اپنا ذخیرہ کھویا، بلکہ ان ۲۰ لاکھ روپوں کو بھی ڈبو دیا جو میں نے فصلوں پر لگائے تھے۔ میں اپنے پیروں پر دوبارہ کیسے کھڑا ہو سکتا ہوں؟ گزشتہ چند سالوں سے ہمارے یہاں پانی کی شدید قلت تھی۔ میں نے پودوں کو زندہ رکھنے کے لیے پانی کے کئی ٹینکرز خریدے۔ اس سال اچھی فصل کی امید تھی، لیکن ژالہ باری نے سب کچھ تباہ کر دیا۔‘‘
نیٹورے کے سر پر اب تقریباً ۱۷ لاکھ روپوں کے قرض کا بوجھ ہے، اور دو بیٹوں، ایک بہو اور ایک سال کے پوتا کی کفالت کی ذمہ داری ہے۔ وہ اپنے قرضوں کا حساب بتاتے ہیں: ’’[مجھ پر] ۸ لاکھ روپے بینک کے قرضے، ۵ لاکھ روپے نجی قرضے، اور مختلف دکانداروں کے تقریباً ۴ لاکھ روپے واجب الادا ہیں۔‘‘ وہ بتاتے ہیں، ’’بھگوان دکانداروں کا بھلا کرے کہ انہوں نے پیسے کی اگاہی کے لیے اپنے فون کال اور ذاتی دوروں سے مجھے بالکل پریشان نہیں کیا۔‘‘
مراٹھواڑہ کے کسانوں نے ماضی میں بھی ژالہ باری کا سامنا کیا ہے، لیکن ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں سے ان کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ یہاں تک کہ مانسون کی ترتیب بھی متاثر ہوئی ہے، نیٹورے اشارہ کرتے ہیں۔ ’’مجھے یاد ہے کہ ہمارے یہاں کیسے دو یا تین دن تک مسلسل بارش ہوتی تھی۔ اور اب ویسے موسم کا تجربہ کیے کئی سال گزر چکے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
مسلسل بارش زیر زمین پانی کو دوبارہ بھرنے میں بھی مدد گار ہوتی ہے۔ تاہم، موجودہ وقت میں موسم کا مزاج کچھ اس طرح کا بن گیا ہے کہ ایک یا دو گھنٹے تک تیز بارش ہوتی ہے اور پھر کئی دنوں تک موسم خشک رہتا ہے۔ سال ۲۰۱۴ میں، اوسا اور پربھنی تعلقوں میں غیرمعمولی طور پر ۲۰۰ ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی تھی، جس میں سے ۱۲۳ ملی میٹر بارش صرف ۱۰۰ منٹ میں ہوئی تھی۔
لاتور میں مقیم ماحولیاتی صحافی اتُل دیولگاؤنکر کا کہنا ہے کہ اگرسیزن کے دوران خاطر خواہ بارش ہوتی بھی ہے، لیکن اگر اس میں وقفہ نہیں ہوتا ہے، تو پیداوار بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’موسم کی بے ترتیبی ماحولیاتی تبدیلی کی علامت ہے۔ راتوں میں ہونے والی بے موسم بارش اور ژالہ باری کی بڑھتی ہوئی تعداد اس کے اشارے ہیں۔ ہمیں ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے تحقیق میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ان حالات میں زراعت قماربازی کی طرح ہو گئی ہے۔ کسی آسمانی آفت سے نمٹنے کے لیے کسان فصل بیمہ لے سکتے ہیں، لیکن فصل کے نقصانات کا تخمینہ لگانے کا طریقہ مضحکہ خیز ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے ذریعے ۴۰ گاؤوں کے حلقے سے بغیر کسی ترتیب کے منتخب کردہ سات گاؤوں سے فصل کی تباہی کا تخمینہ لگانے کے لیے صرف ۱۰۰۰ مربع میٹر سے کچھ زیادہ زمین کی حد بندی کی جاتی ہے۔ ان سات گاؤوں میں حد بندی شدہ رقبہ پر فصل کو ہوئے نقصان کے ذریعہ پورے حلقے کا معاوضہ طے کیا جاتا ہے۔
یلوری کے چند کسانوں نے گزشتہ سال فصل بیمہ لیا تھا، لیکن اس سال نہیں لیا۔ شیوشنکر اونجلے کہتے ہیں کہ ۲۰۱۶ کی ژالہ باری کے بعد انہیں صرف ۱۴۰۰۰ روپے ملے تھے۔ ’’یہ زخم پر نمک چھڑکنے جیسا تھا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’میرے ۱۰ لاکھ روپے کے انگور ضائع ہو گئے تھے۔ حد بندی شدہ علاقہ یہاں سے کافی دور واقع ہے، اور ژالہ باری کافی حد تک تباہی والے علاقے میں مرکوز رہی تھی۔‘‘
اس طرح کے ژالہ باری اور موسم کی دیگر غیرمتوقع تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کو کم کرنے کے لیے، مئی ۲۰۱۵ میں مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے پوری ریاست میں خودکار طور پر چلنے والے موسمی اسٹیشن نصب کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ اسٹیشن کسانوں کو موسم کی انتہائی وارداتوں سے آگاہ کرائیں گے، تاکہ وہ اپنی فصلوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے کی کوشش کر سکیں۔ اس سال اپریل میں فڈنویس نے ناگپور کے قریب ڈونگرگاؤں میں اس طرح کے پہلے اسٹیشن کا افتتاح کیا تھا۔
حکومت نے مبینہ طور پر ریاست کے زرعی علاقوں میں ۲۰۶۵ اسٹیشن قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، جو ۶۵ لاکھ کسانوں کا احاطہ کریں گے۔ مہاراشٹر کے پرنسپل ایگریکلچر سکریٹری، بجے کمار کا کہنا ہے کہ ۹۰۰ اسٹیشن پہلے ہی نصب کیے جا چکے ہیں۔ ’’ہم اگست کے آخر تک تمام ۲۰۶۵ اسٹیشنوں کو نصب کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پرانے نظام کے تحت صرف بارش ریکارڈ کی جاتی تھی، وہ بھی دستی طور پر۔ یہ موسمی اسٹیشن ہمیں موسم کی پیشن گوئی کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ہر ۱۰ منٹ میں ہمارے سسٹم میں موسم کا ڈیٹا ریکارڈ کیا جاتا ہے۔‘‘
دور افتادہ گاؤوں میں یہ اسٹیشن کتنے مؤثر اور پائیدار ثابت ہوتے ہیں، اس منصوبے کی کامیابی کی کلید ہیں۔ اس سال اگرچہ نقصان ہوا ہے، اور والکے اور نیٹورے جیسے کسان ژالہ باری کی تباہ کاریوں سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ صرف نقصان پر بات کرکے وقت گزارنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ نیٹورے کا کہنا ہے کہ ’’پہلے سب سے ضروری چیزیں کرنی ہوں گی۔ تباہ شدہ اناروں کو صاف کرنا ہوگا۔ اپنے آپ کو سنبھالنا ہوگا اور کھاد اور بیج ادھار لینے ہوں گے۔‘‘
اگر خریف سیزن کی تیاریاں وقت پر شروع نہیں ہوتی ہیں، تو نیٹورے کے چھ مہینے برباد ہوسکتے ہیں۔ ان کے لیے ان ۱۹ منٹوں کو پیچھے چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ ایک اور داؤ آزمانے کا وقت ہے۔
مترجم: شفیق عالم