اگر ہماری نسل کی عورتیں تعلیم یافتہ ہوتیں، تو حالات بالکل مختلف ہوتے،‘‘ کشن گڑھ سیدھا سنگھ والا میں اپنے برآمدے میں بیٹھیں سرجیت کور کہتی ہیں۔ ان کے پوتے پوتی بھی بغل میں بیٹھے ہیں۔ جب پانچویں جماعت میں سرجیت کا اسکول چھڑوا دیا گیا تھا، تو ان کی عمر بھی کم و بیش یہی رہی ہوگی۔

’’تعلیم انسان کی تیسری آنکھ کے برابر ہے،‘‘ ۶۳ سال کی سرجیت زور دے کر کہتی ہیں۔

’’ان کی ۷۵ سالہ پڑوسن، جسوندر کور بھی ان کی  باتوں سے اتفاق کرتے ہوئے اپنا سر ہلاتی ہیں۔ ’’عورتیں گھر سے باہر نکلتی ہیں تو وہ دنیا کے بارے میں بہت کچھ نیا سیکھتی ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔

حالانکہ، ان کو اپنی اسکولی تعلیم مکمل کرنے کا موقع نہیں مل پایا، لیکن جیسا کہ وہ بتاتی ہیں، ایک دوسرے واقعہ نے انہیں زندگی میں بہت کچھ نیا سیکھنے کا موقع دیا۔ سرجیت اور جسوندر اپنے گاؤں کی اُن ۱۶ خواتین میں شامل تھیں، جنہوں نے ۲۱-۲۰۲۰ کے کسانوں کے تاریخی دھرنے میں ۱۳ مہینوں تک دہلی کی سرحد پر خیمہ ڈالا ہوا تھا۔ تقریباً ایک سال سے بھی زیادہ عرصے تک ان کے جیسے لاکھوں کسانوں نے مرکزی حکومت کے ذریعے نافذ کیے گئے تین متنازع زرعی قوانین کی مخالفت میں دہلی کی سرحدوں کو دھرنے کے مقام میں تبدیل کر دیا تھا۔ کسانوں کو اس بات کا خدشہ تھا کہ حکومت کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کے نظام کو کمزور کر کے پرائیویٹ تاجروں اور کارپوریشنوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ کسانوں کی تحریک پر پاری کی مکمل کوریج یہاں پڑھیں۔

جب اس رپورٹر نے مئی ۲۰۲۴ میں کشن گڑھ سیدھا سنگھ والا کا دورہ کیا، تو پنجاب کے دوسرے سبھی گاؤوں کی طرح یہاں بھی فصلوں کی کٹائی کی تیاریاں اپنے شباب پر تھیں۔ گاؤں والے یکم جون کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے بھی اپنی کمر کس رہے تھے۔ برسر اقتدار پارٹی کے کسان مخالف طور طریقوں کے خلاف بد اطمینانی کی وجہ سے سیاسی ماحول گرم تھا۔

’’اگر بی جے پی دوبارہ جیتتی ہے، تو وہ کسی نہ کسی شکل میں ان زرعی قوانین کو پھر سے لائے گی،‘‘ ۶۰ سال کی جرنیل کور کہتی ہیں۔ ان کے خاندان کی کشن گڑھ سیدھا سنگھ والا میں ۱۰ ایکڑ زمین ہے۔ ’’ہمیں سوچ سمجھ کر ووٹ دینا ہوگا۔‘‘

(اپ ڈیٹ: شرومنی اکالی دل کی ہرسمرت کور بادل نے ۲۰۲۴ کے لوک سبھا انتخابات میں بھٹنڈا سیٹ سے جیت حاصل کر لی ہے۔ الیکشن کے نتائج کا اعلان ۴ جون، ۲۰۲۴ کو کیا گیا تھا۔)

PHOTO • Arshdeep Arshi
PHOTO • Arshdeep Arshi

بائیں: کشن گڑھ گاؤں میں اپنے گھر پر سرجیت کور۔ پنجاب کے مانسا ضلع کے اسی گاؤں میں جسوندر کور کے گھر لی جا رہی تصویر

’’دسمبر ۲۰۲۱ میں کسان آندولن کے ختم ہونے کے بعد ہم نے جو کچھ بھی سیکھا ہے، وہ گاؤں کے لوگوں کے ذہن میں ابھی بھی تازہ ہے۔ سرکار ہم سے روزی روٹی چھیننے پر آمادہ ہے،‘‘ جسوندر کور کہتی ہیں، ’’ہم اسے ایسا کیسے کرنے دے سکتے ہیں؟‘‘ ان کی آواز میں غصہ ہے۔

ان کی دوسری تشویشیں بھی ہیں۔ ’’چند سال پہلے تک کشن گڑھ سیدھا سنگھ والا کا شاید ہی کوئی بچہ دوسرے ممالک میں رہائش اختیار کرنے گیا تھا،‘‘ سرجیت کہتی ہیں۔ یہ کہتے ہوئے وہ شاید اپنی بھتیجی کشل دیپ کور کے بارے میں سوچ رہی تھیں، جو حال ہی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خاطر کینیڈا کے بریمٹن چلی گئیں، جس کی کمی انہیں آج بھی ستاتی ہے۔ ’’بے روزگاری کی وجہ سے اس کو جانا پڑا،‘‘ سرجیت بتاتی ہیں۔ ’’اگریہاں کام ہوتا، تو لوگ باہر کیوں جاتے؟‘‘ وہ دو ٹوک لہجے میں پوچھتی ہیں۔

اس لیے آنے والے انتخابات میں اس گاؤں کے ووٹروں کے لیے فصلوں کی کم از کم امدادی قیمت اور ان کے بچوں اور اگلی نسلوں کے لیے روزگار سنگین مسائل کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔

’’وہ [سیاسی لیڈر] ہر الیکشن میں ہم گاؤں والوں کو بڑھاپے کا پنشن، سڑک، اور گندے نالوں جیسے مسائل میں الجھائے رکھتے ہیں،‘‘ سرجیت کہتی ہیں۔ ’’مجھے اچھی طرح یاد ہے، طویل عرصے سے گاؤں کے لوگ انھیں مسائل پر ووٹ دیتے آئے ہیں۔‘‘

PHOTO • Arshdeep Arshi
PHOTO • Arshdeep Arshi

بائیں: سرجیت کور اپنے کھیت میں پیاز اور لہسن کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ دائیں: اس تصویر میں وہ اپنے کھیت میں کٹائی کے لیے تیار فصلوں کے درمیان گھومتی نظر آ رہی ہیں

PHOTO • Arshdeep Arshi
PHOTO • Arshdeep Arshi

بائیں: مشینوں سے عورتوں کا کھیتوں میں کافی وقت بچ جاتا ہے۔ یہی ایک بڑی وجہ ہے کہ وہ احتجاجی مظاہروں میں حصہ لے پاتی تھیں اور ہیں۔ دائیں: فصل کی بھوسی اکٹھا کی جا رہی ہے

*****

پنجاب کے جنوب میں واقع مانسا ضلع کا کشن گڑھ سیدھا سنگھ والا گاؤں بِسویداری نظام کے خلاف پیپسو موزارا تحریک کے لیے مشہور ہے۔ اس تحریک کے سبب ہی بے زمین کسانوں کو ایک لمبی لڑائی کے بعد ۱۹۵۲ میں کھیتوں کا مالکانہ حق حاصل ہوا تھا۔ تحریک کے دوران، ۱۹ مارچ ۱۹۴۹ کو تحریک میں شامل چار لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔ بہرحال، ان کے وارثین کو ۲۱-۲۰۲۰ کے کسان آندولن کے دوران دہلی میں اعزاز سے نوازا گیا۔

گاؤں والوں کی تاریخی سرگرمی کے بعد بھی زیادہ تر عورتوں نے حالیہ کسان آندولن سے پہلے کبھی کسی احتجاجی مظاہرے میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اب انہیں بے صبری سے ایسے موقع کا انتظار رہتا ہے، جس سے وہ دنیا کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکیں۔ ’’پہلے ہمارے پاس وقت کی قلت تھی،‘‘ سرجیت کور کہتی ہیں۔ ’’ہم کھیتوں میں کام کرتے تھے، کپاس نکالتے تھے اور ان سے سوت کاتتے تھے۔ لیکن اب، سب کچھ مشینوں کے ذریعے کیا جانے لگا ہے۔‘‘

ان کی جیٹھانی منجیت کور کہتی ہیں، ’’اب یہاں کپاس کی کھیتی نہیں ہوتی ہے، اور لوگ کھدّر [کھادی] نہیں پہنتے ہیں۔ گھر پر بُنائی کرنے کی پوری روایت ہی ختم ہو چکی ہے۔‘‘ انہیں لگتا ہے کہ اس تبدیلی کے آنے سے عورتوں کے لیے تحریکوں میں حصہ لینا پہلے کے مقابلے زیادہ آسان ہو گیا ہے۔

حالانکہ، گاؤں کی کچھ خواتین کو قیادت میں حصہ داری ملی ہے، لیکن بات چیت کرنے کے ان کے انداز سے ایسا صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ حصہ داری عملی کم اور علامتی زیادہ تھی۔

PHOTO • Arshdeep Arshi
PHOTO • Arshdeep Arshi

بائیں: جنوبی پنجاب کے مانسا ضلع کے ایک گاؤں کشن گڑھ سیدھا سنگھ والا، پیپسو موزارا تحریک کے لیے مشہور ہے، جہاں سال ۱۹۵۲ میں بے زمین کسانوں نے مالکانہ حق حاصل کیا۔ دائیں: بھابھی سرجیت کور اور منجیت کور روزمرہ کی زندگی کے بارے میں بات کر رہی ہیں

PHOTO • Arshdeep Arshi
PHOTO • Arshdeep Arshi

بائیں: منجیت کور گھر پر بُنائی کر رہی ہیں۔ دائیں: منجیت کور کے شوہر کلونت سنگھ (مائک پر)، بی کے یو (ایکتا) کے ڈکونڈا- دھنیر گروپ کے لیڈر ہیں

منجیت ۶۰۰۰ کی آبادی والے کشن گڑھ سیدھا سنگھ والا گاؤں کی پہلی خاتون سرپنچ تھیں۔ دونوں خواتین کی شادی سگے چچیرے بھائیوں سے ہوئی ہے۔ ’’جب پہلی بار میں الیکشن میں کھڑی ہوئی، تو مجھے بغیر کسی مخالف کے متفقہ طور پر منتخب کر لیا گیا تھا۔‘‘ اسی سال ۱۹۹۸ میں اس سیٹ کو خواتین کے لیے محفوظ کیا گیا تھا۔ ’’اگلے الیکشن میں میرا مقابلہ مردوں کے ساتھ تھا اور میں اس میں بھی تقریباً ۵۰۰-۴۰۰ ووٹوں کے فرق سے جیتی،‘‘ منجیت گھر پر بُنائی کرتے ہوئے بتاتی ہیں۔

حالانکہ، ۱۲ دیگر خواتین بھی قیادت کی باگ ڈور سنبھالنے میں مدد کرتی تھیں، لیکن منجیت بتاتی ہیں کہ فیصلہ لینے کا کام عموماً مردوں کے پاس ہی ہوتا تھا۔ ’’میں واحد تھی جسے یہ معلوم تھا کہ کام کیسے کیا جاتا ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ اس کا کریڈٹ وہ اپنی دسویں پاس ہونے اور اپنے شوہر کلونت سنگھ کو دیتی ہیں، جو بھارتیہ کسان یونین (ایکتا) ڈکونڈا کے ایک بڑے لیڈر اور سابق پرپنچ ہیں۔ وہ اس عہدہ پر ۱۹۹۳ سے اگلے پانچ سالوں کے لیے منتخب کیے گئے تھے۔

لیکن سرجیت کہتی ہیں، ’’یہ ایک مشکل الیکشن ہے، جہاں لوگ ایک دوسرے پر کسی خاص امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے زور ڈالتے ہیں۔ عورتوں کو ان کے شوہر یا رشتہ داروں کے ذریعے کسی متعینہ امیدوار کے حق میں ووٹ ڈالنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ لوک سبھا کے انتخابات میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔‘‘

سال ۲۰۰۹ سے بھٹنڈا پارلیمانی حلقہ کی نمائندگی شرومنی اکالی دل (ایس اے ڈی) کی ہرسمرت کور کرتی رہی ہیں۔ یہ گاؤں اسی پارلیمانی حلقہ کے تحت آتا ہے۔ آئندہ انتخابات میں ہرسمرت ایک بار پھر دعویدار ہیں۔ دوسرے امیدواروں کے طور پر بی جے پی کی پرم پال کور جو ایک سابق آئی اے ایس ہیں، کانگریس کی طرف سے سابق رکن اسمبلی جیت موہندر سنگھ سدھو، اور عام آدمی پارٹی (آپ) کی طرف سے پنجاب کے وزیر زراعت گرمیت سنگھ کھڈیاں کھڑے ہیں۔

PHOTO • Courtesy: Manjit Singh Dhaner
PHOTO • Arshdeep Arshi

کشن گڑھ گاؤں کی عورتیں بی کے یو (ایکتا) ڈکونڈا کے صدر منجیت سنگھ دھنیر کی قیادت میں مارچ ۲۰۲۴ میں دہلی میں منعقد احتجاجی مظاہرے میں شامل ہوئی تھیں۔ دائیں: منجیت کور (سب سے بائیں) اور سرجیت کور (منجیت کے بغل میں کھڑی) اپنے گاؤں کی دیگر خواتین کے ساتھ اس سال کے شروع میں لدھیانہ کے جگراؤں میں کسان مزدور مہا پنچایت میں حصہ لینے آئی تھیں

سال ۲۱-۲۰۲۰ کی دہلی تحریک متعدد خواتین کے لیے ایک انقلابی موڑ ثابت ہوا۔ لوگ مانتے ہیں کہ اس بار کوئی بھی بہلا کر یا دباؤ ڈال کر انہیں اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتا ہے۔ ’’عورتیں پہلے اپنے گھروں میں قیدی کی طرح تھیں۔ یہ دھرنے اور مظاہرے ہمارے لیے اسکولوں کی طرح ہیں، جنہوں نے ہمیں بہت کچھ سکھایا ہے،‘‘ سرجیت کہتی ہیں۔

اُس سال ۲ نومبر، ۲۰۲۰ کو دہلی پہنچنے کے اپنے سفر کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’ہماری کوئی تیاری نہیں تھی۔ سب کو یہی لگ رہا تھا کہ سیکورٹی فورسز ہم کسانوں کو آگے نہیں بڑھنے دیں گی، اور ہم وہیں بیٹھ جائیں گے جہاں وہ ہمیں روکیں گے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ وہ اُن دو چار معمولی سامانوں کا ذکر کرنا نہیں بھولتیں، جنہیں وہ بہادر گڑھ کے قریب ٹیکری بارڈر پر لمبے دھرنے پر بیٹھنے کے لیے اپنے ساتھ لے کر آئی تھیں۔ ’’ہمارے پاس کھانا پکانے کا سامان نہیں تھا، اس لیے ہم نے جگاڑ سے اپنا کام چلایا۔ نہ ہمارے لیے بیت الخلاء اور غسل خانے کا ہی کوئی انتظام تھا۔‘‘ اس کے بعد بھی یہ عورتیں دھرنے کے مقام پر سال بھر سے بھی زیادہ عرصے تک ٹکی رہیں۔ ان کی بس ایک ہی مانگ تھی کہ تینوں قوانین کو فوراً واپس لیا جائے۔

اعلیٰ تعلیم کی کمی کے باوجود سرجیت کہتی ہیں کہ پڑھنے اور نئی چیزیں سیکھنے میں ان کی ہمیشہ سے دلچسپی تھی، ’’عورتوں کو یہ لگتا ہے کہ اگر وہ تعلیم یافتہ ہوتیں، تو انہوں نے تحریک میں اور بہتر تعاون کیا ہوتا۔‘‘

*****

ہرسمرت کور بادل نے حال ہی میں گاؤں میں پرچار کے سلسلے میں دورہ کیا تھا۔ ’’یہ لوگ [لیڈر] صرف انتخابات کے وقت آتے ہیں،‘‘ اپنے کھیت سے توڑے گئے شہتوت کا ذائقہ لیتے ہوئے سرجیت کہتی ہیں۔

PHOTO • Arshdeep Arshi
PHOTO • Arshdeep Arshi

بائیں: سرجیت کور اپنی بہو اور پوتے پوتیوں کے ساتھ کھیت کے پاس۔ دائیں: سرجیت کور اپنے کھیت سے شہتوت توڑ رہی ہیں

ستمبر ۲۰۲۰ میں بادل نے کسان مخالف بل اور قانون لائے جانے کی مخالفت کرتے ہوئے مرکزی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔ ’’انہوں نے عہدہ تب چھوڑا، جب کسانوں نے شرومنی اکالی دل کے خلاف احتجاج کرنا شروع کردیا،‘‘ استعفیٰ کے پیچھے کی منشا پر شک کا اظہار کرتے ہوئے سرجیت کہتی ہیں۔ اس سے پہلے وہ اور سابق وزیر اعلیٰ پرکاش سنگھ بادل کسانوں کو تینوں زرعی قوانین کے فائدے سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے،‘‘ تنقید کے لہجے میں وہ کہتی ہیں۔

ہر لحاظ سے مشکل حالات میں ۱۳ مہینے کے طویل عرصے تک اپنے ساتھی کسانوں کے ساتھ اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے سرجیت، بادل کے موجودہ چناؤ پرچار سے متاثر ہوئے بغیر اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔ ’’میں ان کی تقریر تک سننے نہیں گئی،‘‘ وہ پورے اعتماد کے ساتھ کہتی ہیں۔

مترجم: قمر صدیقی

Arshdeep Arshi

அர்ஷ்தீப் அர்ஷி சண்டிகரில் இருந்து இயங்கும் ஒரு சுயாதீன ஊடகர், மொழிபெயர்ப்பாளர். நியூஸ்18 பஞ்சாப், இந்துஸ்தான் டைம்ஸ் ஆகியவற்றில் முன்பு வேலை செய்தவர். பாட்டியாலாவில் உள்ள பஞ்சாபி பல்கலைக்கழகத்தில் ஆங்கில இலக்கியத்தில் எம்.ஃபில். பட்டம் பெற்றவர் இவர்.

Other stories by Arshdeep Arshi
Editor : Vishaka George

விஷாகா ஜார்ஜ் பாரியின் மூத்த செய்தியாளர். பெங்களூருவை சேர்ந்தவர். வாழ்வாதாரங்கள் மற்றும் சூழலியல் சார்ந்து அவர் எழுதி வருகிறார். பாரியின் சமூக தளத்துக்கும் தலைமை தாங்குகிறார். கிராமப்புற பிரச்சினைகளை பாடத்திட்டத்திலும் வகுப்பறையிலும் கொண்டு வரக் கல்விக்குழுவுடன் பணியாற்றுகிறார். சுற்றியிருக்கும் சிக்கல்களை மாணவர்கள் ஆவணப்படுத்த உதவுகிறார்.

Other stories by Vishaka George
Translator : Qamar Siddique

கமார் சித்திக்கி, பாரியில் உருது மொழிபெயர்ப்பு ஆசிரியராக இருக்கிறார். அவர் தில்லியை சார்ந்த பத்திரிகையாளர் ஆவார்.

Other stories by Qamar Siddique