گوکل رات دن آگ سے کھیلتے ہیں۔ وہ لوہے کو گرم کر کے لال کرتے ہیں، اسے پیٹتے ہیں اور پھر شکل و صورت عطا کرتے ہیں۔ لوہے کو پیٹتے وقت اس سے اٹھتی ہوئی چنگاریوں سے ان کے کپڑوں اور جوتے میں چھوٹے بڑے سوراخ ہو جاتے ہیں؛ ان کے ہاتھوں میں جلے ہوئے کے نشان ہندوستانی اقتصادیات کی گاڑی کو آگے بڑھانے میں لگی ان کی محنت کا ثبوت ہیں۔
’’کیا ہُندا ہے [یہ کیا ہوتا ہے]؟‘‘ وہ سوال کرتے ہیں، جب ہم ان سے بجٹ کے بارے میں پوچھتے ہیں۔
جب گوکل سے بات ہو رہی ہے، مرکزی حکومت کے ذریعہ پارلیمنٹ میں سال ۲۰۲۵ کا بجٹ پیش کیے ہوئے ۴۸ گھنٹے سے بھی کم کا وقت گزرا ہے اور خبروں میں اس کی بحث جاری ہے۔ لیکن باگڑیا برادری کے خانہ بدوش لوہار، گوکل کے لیے کچھ نہیں بدلا۔
’’دیکھئے، کسی نے ہمارے لیے کچھ نہیں کیا۔ تقریباً ۸۰۰-۷۰۰ سال گزر گئے اسی طرح۔ ہماری تمام نسلیں پنجاب کی مٹی میں دفن ہیں۔ کسی نے ہمیں کچھ نہیں دیا،‘‘ تقریباً ۴۰ سال کے گوکل بتاتے ہیں۔
![](/media/images/02a-1738642547829-VB-The_Union_Budget_has_.max-1400x1120.jpg)
![](/media/images/02b-1738642547925-VB-The_Union_Budget_has_.max-1400x1120.jpg)
پنجاب کے موہالی ضلع میں واقع مولی بیدوان گاؤں میں، گوکل اپنی عارضی جھونپڑی میں کام کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں
گوکل، پنجاب کے موہالی ضلع میں واقع گاؤں مولی بیدوان کے کنارے ایک عارضی جھونپڑی میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی برادری کے دیگر لوگوں کے ساتھ یہاں رہتے ہیں، جن کی جڑیں راجستھان کے چتوڑ گڑھ سے جڑی ہوئی ہیں۔
’’یہ لوگ اب کیا دیں گے؟‘‘ وہ حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ حکومت نے گوکل جیسے لوگوں کو بھلے ہی کچھ نہ دیا ہو، لیکن وہ جب بھی لوہے کا کوئی ٹکڑا خریدتے ہیں، تو رقم کی ادائیگی کے وقت اس پر حکومت کو ۱۸ فیصد ادا کرتے ہیں؛ کوئلہ کو خریدنے پر پانچ فیصد ادا کرتے ہیں، جس کی آگ پر لوہے کو شکل و صورت عطا کی جاتی ہے۔ وہ ہتھوڑے اور درانتی جیسے اپنے اوزاروں اور کھانے کے ہر دانے کے لیے بھی حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
ترجمہ نگار: محمد قمر تبریز