گونڈ آدیواسی ہر چار سال میں ایک بار، لمبا سفر طے کر کے چھتیس گڑھ کے کانکیر ضلع کی انتا گڑھ تحصیل (اُتّر بَستر) میں واقع تقریباً ۲۰۰ لوگوں کی آبادی والے گاؤں، سیمرگاؤں جاتے ہیں۔ یہ جاترا (تہوار) اپنے آباء و اجداد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے منعقد کی جاتی ہے اور اس جلوس میں کونڈا گاؤں، نارائن پور اور ارد گرد کے دیگر اضلاع سے بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوتے ہیں۔ گونڈ آدیواسیوں کا ماننا ہے کہ ان کی کمیونٹی کے بزرگ مرنے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں؛ ان کی پوجا آبائی دیوی دیوتاؤں کے طور پر کی جاتی ہے، جو جاترا کے دوران وہاں آتے رہتے ہیں۔ مجھے مارچ ۲۰۱۸ میں اس تہوار میں شریک ہونے کا موقع ملا تھا۔
پہاندی پاری کوپار لنگو کرساڈ جاترا کے نام سے مشہور ’دیوتاؤں کا یہ اجلاس‘ تین دنوں میں تقریباً ۲۰ ہزار لوگوں کو اپنی طرف راغب کرتا ہے۔ یہ جشن گونڈ آدیواسیوں کی افسانوی روایت کے سب سے معمر بزرگ پاری کوپار لنگو کے نام سے منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دیوتا ہیں، جو گونڈ کمیونٹی کو اپنی شناخت کا احساس کرانے والی بہت سی ثقافتی اور موسیقی کی وراثتوں سے جڑے ہوئے ہیں۔
کونڈا گاؤں ضلع کے کھالیمُر بینڈ گاؤں سے تعلق رکھنے والے گونڈ آدیواسی اور تہوار کے منتظمین میں سے ایک، بشنو دیو پڈّا کہتے ہیں، ”اس سے پہلے، یہ جاترا ہر ۱۲ سال میں ایک بار ہوتی تھی، اس کے بعد ہر نو سال میں، پھر سات سال میں اور اب چار سال میں ایک بار ہونے لگی ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں، ”کم لوگوں کے یہاں آنے کی وجہ سے اس کی شہرت کم تھی، لیکن اب اسے زبردست جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں سن کر اور پڑھ کرلوگوں کی بڑی تعداد یہاں آنے لگی ہے۔‘‘ موبائل فون اور موٹر سائیکلوں اور مشترکہ ٹیکسیوں نے لوگوں کو تہوار کے مقام تک پہنچنے اور اسے مقبول بنانے میں کافی مدد کی ہے۔
بشنو دیو سے یہ پوچھنے پر کہ تہوار میں لوگ کیا کرتے ہیں، وہ جواب دیتے ہیں، ’’کویا [جنہیں یہاں کا قدیم باشندہ کہا جاتا ہے، لیکن بَستر، تلنگانہ اور آندھرا پردیش میں بالترتیب گونڈ، موریا اور کویا کا تعلق ایک ہی آدیواسی گروپ سے ہے] میں کل ۷۵۰ گوتر [قبیلے] ہیں، جن میں سے تقریباً ۷۲ گوتر بَستر میں پائے جاتے ہیں۔ ان قبیلوں کے لوگ منڈکو پین [دیوتاؤں] کو اپنے ساتھ لاتے ہیں، جو یہاں ایک دوسرے سے ملتے جُلتے ہیں۔ [گوتروں کو ٹوٹم (خاندانی دیوتا کی علامت) – بکری، شیر، سانپ اور کچھوے جیسی مختلف مخلوقات اور جانوروں کی علامتوں کے ذریعہ پیش کیا جاتا ہے۔ گونڈ اپنے ٹوٹم کی پوجا کرتے ہیں اور اس نسل کو محفوظ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں]۔
تو ’پین‘ کون ہیں؟ کانکیر شہر کے گونڈ کارکن کیشو سوری، جو معاش کے مسائل پر ایک غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ کام کرتے ہیں، بتاتے ہیں، ’’ پین ہمارے آباء و اجداد ہیں۔ جو بزرگ اب اس دنیا میں نہیں رہے وہ ہمارے لیے سورگیہ [آنجہانی] نہیں ہیں؛ بلکہ وہ پین بن جاتے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ وہ اب بھی ہمارے ساتھ ہیں اور ہم ان کی پوجا کرتے ہیں۔ ہم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے پین کی بھی زیارت کرتے ہیں۔ گونڈ اپنے اپنے پین کے ساتھ جمع ہوتے ہیں، اور سبھی لوگ ایک دوسرے سے باتیں کرتے ہیں اور جشن مناتے ہیں۔‘‘
ایسا مانا جاتا ہے کہ پین (وہ آباء و اجداد جو اب دیوی دیوتا بن چکے ہیں) جاترا میں ناچتے، گاتے، روتے اور ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں۔ لوگ یہاں ان سے اپنے مسائل شیئر کرنے آتے ہیں، اور وہ انہیں ان مسائل کا حل بتاتے ہیں۔ کچھ آدیواسی انہیں گیندے کے پھولوں کا ہار پہناتے ہیں، اور مجھے بتایا گیا کہ پین کو یہ پھول کافی پسند ہیں – اسی لیے جاترا میں یہ پھول بکثرت فروخت کیے جاتے ہیں۔
کانکیر ضلع کے گھوٹیا گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک پجاری دیو سنگھ کُریتی کہتے ہیں، ’’ہم آنگا [دیوتاؤں] کو لے جاتے ہیں اور لنگو ڈوکرا [عمر میں جو بڑا ہو اسے پیار سے ڈوکرا کہتے ہیں، یہ اصطلاح دیوتا کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے] کو اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ ہم انہیں پھول، سُپاری، لالی اور لیموں چڑھاتے ہیں۔ ہم [ان کے لیے] خنزیر اور بکرے کی قربانی بھی دیتے ہیں۔ روایتی طور پر، لوگ اس تہوار میں شرکت کرنے کے لیے دور دراز سے آتے ہیں، اکثر رات کے وقت پیدل چلتے ہیں، لکڑی کی پالکیوں میں آنگا ، پھول، مرغیاں اور بکرے جیسے نذرانے کے ساتھ یہاں تک کا سفر طے کرتے ہیں۔ اس سال، میں نے کچھ گاڑیاں بھی دیکھیں جن پر کچھ لوگ آنگا کو لے کر آئے تھے – کیشو سوری جن کے ساتھ میں اس تہوار کو دیکھنے گیا تھا، انہوں نے بتایا کہ یہ ایک نئی پیشرفت محسوس ہوتی ہے۔
میں نے تقریباً ۵۰ سال کے ایک سرکاری ملازم، جے آر منڈاوی سے اس سلسلے میں پوچھا، جو بولیرو (گاڑی) سے اپنے آنگا کو لے کر آئے تھے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں گھوڑا گاؤں سے آتا ہوں، لیکن ہمارے دیو (دیوتا) کانکیر ضلع کے تیلاوت گاؤں میں ہیں۔ پہلے ہم آنگا کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر لاتے تھے اور پیدل سفر کرتے تھے، لیکن چونکہ اب ہماری فیملی میں کم ہی لوگ رہ گئے ہیں، اس لیے اتنا لمبا سفر [تقریباً ۸۰ کلومیٹر] پیدل طے کرنا مشکل ہے۔ اس لیے ہم نے آنگا سے اجازت مانگی اور جب آنگا اُدوم کماری [تمام آنگا کا تعلق لنگو دیو سے ہے] نے اجازت دے دی، تو ہم انہیں اس گاڑی سے یہاں لے آئے۔‘‘
کانکیر ضلع کے ڈوم ہرّا گاؤں سے تعلق رکھنے والے مئیتو رام کُریتی، جو جاترا میں اپنی آنگا کو کندھوں پر اٹھا کر لائے تھے، مجھے بتاتے ہیں، ’’یہ جگہ ہمارے آباء و اجداد کی ہے۔ ہم ایک بزرگ ماں کو اپنے ساتھ لائے ہیں؛ وہ لنگو دیو کی رشتہ دار ہیں۔ ہماری دیوی وہیں جاتی ہیں، جہاں سے انہیں [دوسرے دیوی دیوتاؤں سے ملنے کی] دعوتیں موصول ہوتی ہیں، اور وہ بھی انہیں اپنے یہاں آنے کی دعوت دیتی ہیں۔‘‘
اس سے پہلے کہ وہ تہوار کی اُس مقدس جگہ پر پہنچیں، جسے لنگو کی رہائش گاہ تصور کیا جاتا ہے، یہ لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ درختوں کے نیچے آرام کرتے ہیں۔ وہ لکڑی کی آگ پر چاول، سبزیاں، چکن اور کھانے پینے کی دیگر چیزیں بناتے ہیں، اور اُبلی ہوئی راگی (جوار) کا پانی پیتے ہیں۔ کانکیر ضلع کے کولیاری گاؤں سے تعلق رکھنے والے گھسّو منڈاوی بھی ان لوگوں میں سے ایک ہیں۔ وہ بتاتے ہیں، ’’ہم لنگو دیو کے بڑے بھائی موڈ ڈوکرا کو لے کر آئے ہیں۔ ان کا چھوٹا بھائی اور ان کے بیٹے اور بیٹیاں بھی یہاں موجود ہیں۔ یہ ایک پرانی روایت ہے اور لنگو ڈوکرا کے اہل خانہ ایک دوسرے سے ملنے کے لیے یہاں جمع ہوتے ہیں۔‘‘
جس میدان میں یہ تہوار منایا جاتا ہے، وہاں تصویر کھینچنے اور ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں، گونڈ آدیواسیوں کی ثقافت و روایت کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے، خاص طور پر ویڈیو کے ذریعے۔ اس لیے وہ محتاط ہوگئے ہیں۔ میں نے بھی ان کا احترام کرتے ہوئے، اُس میدان کے باہر سے ہی تصویریں کھینچنے کی کوشش کی۔
مترجم: سبطین کوثر