’گاندھی اور نہرو کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ امبیڈکر کے بغیر وہ نہ تو قوانین لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی آئین۔ اس کی صلاحیت صرف اور صرف انہی [امبیڈکر] کے پاس تھی۔ یہ رول انہوں نے کسی سے مانگا نہیں تھا۔‘
— شوبھا رام گہروار، جادوگر بستی، اجمیر، راجستھان
’انگریزوں نے اس جگہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا جہاں ہم بم بناتے تھے۔ وہ جگہ اجمیر کے نزدیک ایک جنگل میں، پہاڑی کے اوپر تھی۔ قریب میں ہی پانی کا ایک چشمہ تھا جہاں ایک شیر پانی پینے آیا کرتا تھا۔ ہم لوگ چونکہ اپنی پستول سے کبھی کبھی ہوا میں فائر کر دیتے تھے، اس لیے شیر ہم سے ڈرتا تھا۔ وہ خاموشی سے آتا، پانی پیتا اور پھر واپس چلا جاتا تھا۔ ورنہ، ہم ہوا میں نہیں بلکہ اس کے اوپر گولیاں داغ دیتے۔
’لیکن اُس دن، انگریزوں کو ہمارے چھپنے کی جگہ کا پتہ چل گیا۔ پھر، انہوں نے اسے چاروں طرف سے گھیرنا شروع کر دیا۔ ظاہر ہے، اُن دنوں انگریزوں کی ہی حکومت تھی۔ خود کو چاروں طرف سے گھرا ہوا دیکھ کر، ہم نے وہاں کچھ دھماکے کر دیے – میں نے نہیں، بلکہ میرے کچھ بڑے دوستوں نے، کیوں کہ میں اس وقت بہت چھوٹا تھا۔ اتفاق سے، اسی وقت شیر بھی وہاں پانی پینے کے لیے آیا ہوا تھا۔
’شیر نے پانی نہیں پیا، بلکہ دھماکے کی آواز سن کر وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا، اور برطانوی پولیس کے پیچھے پیچھے دوڑنے لگا۔ شیر کو اپنے پیچھے آتا دیکھ کر سبھی تیزی سے دوڑنے لگے۔ افراتفری کے عالم میں کچھ انگریز پہاڑی سے نیچے لڑھک گئے اور کچھ سڑک پر ہی گر گئے۔ اس واقعہ میں دو پولیس والوں کی موت ہو گئی۔ اس کے بعد پولیس والوں کو دوبارہ اس جگہ آنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ وہ ہم سے بری طرح ڈر گئے۔ وہ توبہ کرتے تھے۔‘
لیکن شیر کو کچھ نہیں ہوا۔ وہ صحیح سلامت تھا اور اگلے دن پانی پینے کے لیے وہاں دوبارہ پہنچ گیا۔
یہ ہیں عظیم مجاہد آزادی شوبھا رام گہروار، جو اب ۹۶ سال کے ہو چکے ہیں، اور ۱۴ اپریل ۲۰۲۲ کو اجمیر میں اپنے گھر پر ہم سے باتیں کر رہے ہیں۔ وہ اب بھی اسی دلت بستی میں رہتے ہیں جہاں تقریباً ایک صدی پہلے ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ انہوں نے کبھی بھی کسی آرم دہ رہائش کی تلاش میں اس جگہ کو چھوڑنے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ وہ چاہتے تو ایسا کر سکتے تھے، کیوں کہ وہ دو بار میونسپل کاؤنسلر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ ۱۹۳۰ اور ۱۹۴۰ کی دہائیوں کے دوران برطانوی راج (حکومت) کے ساتھ اپنی لڑائیوں کے بارے میں تفصیل سے بتاتے ہیں۔
جس جگہ کے بارے میں وہ بات کر رہے ہیں، کیا وہ بم بنانے کی کوئی انڈر گراؤنڈ فیکٹری تھی؟
’ارے، وہ ایک جنگل تھا۔ فیکٹری نہیں…فیکٹری میں تو قینچی بنتی ہے۔ وہاں ہم بم بناتے تھے۔‘
وہ بتاتے ہیں، ’ایک بار چندر شیکھر آزاد ہم سے ملنے آئے تھے۔‘ وہ ۱۹۳۰ کا دوسرا نصف یا ۱۹۳۱ کے ابتدائی دن رہے ہوں گے۔ انہیں صحیح تاریخ یاد نہیں ہے۔ ’مجھ سے صحیح تاریخ کے بارے میں مت پوچھئے،‘ شوبھا رام کہتے ہیں۔ ’میرے پاس سب کچھ تھا، میرے سبھی کاغذات، میرے سبھی نوٹ اور ریکارڈ، سب کچھ اسی گھر میں تھا۔ لیکن ۱۹۷۵ میں آئے سیلاب کی وجہ سے میں نے سب کچھ کھو دیا۔‘
چندر شیکھر آزاد ان لوگوں میں شامل تھے، جنہوں نے بھگت سنگھ کے ساتھ مل کر ۱۹۲۸ میں ہندوستان سوشلسٹ رپبلکن ایسوسی ایشن کو دوبارہ کھڑا کیا تھا۔ آزاد نے ۲۷ فروری، ۱۹۳۱ کو الہ آباد کے الفریڈ پارک میں برطانوی پولیس کے ساتھ مڈبھیڑ کے دوران اس وقت خود کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا، جب ان کی بندوق میں صرف ایک گولی بچی تھی۔ یہ قدم انہوں نے اس لیے اٹھایا کیوں کہ وہ ہمیشہ ’آزاد‘ رہنے اور کبھی بھی زندہ نہ پکڑے جانے کی اپنی قسم پر برقرار رہنا چاہتے تھے۔ موت کے وقت وہ صرف ۲۴ سال کے تھے۔
آزادی کے بعد، الفریڈ پارک کا نام بدل کر چندر شیکھر آزاد پارک کر دیا گیا۔
راجستھان کے ۹۸ سالہ مجاہد آزادی خود کو گاندھی اور امبیڈکر، دونوں کا پیروکار مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’میں نے صرف انہی اصلوں پر عمل کیا جن سے مجھے اتفاق تھا‘
’آزاد ہم سے وہاں [بم بنانے کے کیمپ میں] ملنے کے لیے آئے،‘ اجمیر میں شوبھا رام گہروار ہمیں بتاتے ہیں۔ ’انہوں نے ہمیں بتایا کہ بم کو مزید اثردار کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے ہمیں ایک بہتر فارمولہ دیا۔ جس جگہ پر مجاہدین آزادی کام کر رہے تھے، وہاں کی مٹی سے انہوں نے تلک (پیشانی پر مٹی لگانا) بھی لگایا۔ پھر انہوں نے ہم سے کہا کہ وہ شیر کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ہم نے انہیں وہاں رات میں ٹھہرنے کے لیے کہا۔
’پھر، شیر آیا اور پانی پی کر چلا گیا، اور ہم نے ہوا میں گولی چلائی۔ چندر شیکھر جی نے ہم سے فائر کرنے کی وجہ پوچھی۔ تو ہم نے انہیں بتایا کہ شیر یہ جانتا ہے کہ ہم اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں، اس لیے وہ خاموشی سے واپس چلا جاتا ہے۔‘ یعنی یہ ایک ایسا بندوبست تھا جہاں شیر آسانی سے آ کر پانی پی سکے اور مجاہدین کو سیکورٹی بھی حاصل ہو جائے۔
’لیکن میں آپ کو جس دن کے بارے میں بتا رہا ہوں، اس دن وہاں برطانوی پولیس پہلے پہنچ گئی تھی۔ اور جیسا کہ میں نے کہا، وہاں پر افراتفری اور ہنگامہ مچ گیا۔‘
شوبھا رام اس عجیب و غریب لڑائی یا متعلقہ جھڑپ میں ذاتی طور پر شامل ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ البتہ، اس پورے واقعہ کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے ضرور دیکھا تھا۔ اپنی عمر کے بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ آزاد جب وہاں آئے تھے، تب وہ ۵ سال سے کچھ زیادہ بڑے رہے ہوں گے۔ ’وہ بھیس بدل کر آئے تھے۔ ہمارا کام بس ان کو جنگل اور پہاڑی میں واقع بم بنانے کی جگہ تک لے کر آنا تھا۔ ہم دو لڑکے انہیں اور ان کے ایک ساتھی کو وہاں اس کیمپ میں لے کر آئے تھے۔‘
یہ دراصل، انگریزوں کو فریب دینے کے لیے کیا گیا تھا۔ انہیں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا گویا کوئی معصوم چچا اپنے بھتیجوں کے ساتھ کہیں جا رہا ہو۔
’آزاد نے ورکشاپ کو دیکھا – یہ فیکٹری نہیں تھی – اور ہماری پیٹھ تھپتھپائی۔ اور ہم بچوں سے کہا: ’’آپ تو شیر کے بچے ہیں۔ آپ بہادر ہیں اور موت سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ ہمارے گھر والوں نے بھی یہی کہا تھا، ’’موت آ جائے تب بھی کوئی بات نہیں۔ ویسے بھی تم لوگ آزادی حاصل کرنے کے لیے یہ سب کر رہے ہو۔‘‘
*****
’گولی نے مجھے ہلاک یا ہمیشہ کے لیے معذور نہیں کیا۔ بلکہ وہ میری ٹانگ کو چھوتے ہوئے آگے نکل گئی۔ یہ دیکھئے؟‘ اور وہ ہمیں اپنی دائیں ٹانگ دکھاتے ہیں، جہاں گھٹنے سے تھوڑا نیچے گولی لگنے کا داغ بالکل صاف دکھائی دے رہا ہے۔ گولی ان کی ٹانگ میں پیوست نہیں ہوئی تھی۔ لیکن یہ کافی درد بھرا زخم تھا۔ ’میں بیہوش ہو گیا تھا، وہ لوگ مجھے اسپتال لے گئے،‘ شوبھا رام بتاتے ہیں۔
یہ ۱۹۴۲ کے آس پاس کی بات ہے، جب وہ ’تھوڑا بڑے‘ ہو گئے تھے – یعنی تقریباً ۱۶ سال کے – اور آمنے سامنے کی لڑائی میں حصہ لے رہے تھے۔ آج، شوبھا رام گہروار ۹۶ سال کے ہو چکے ہیں اور تن و مند دکھائی دے رہے ہیں – چھ فٹ سے زیادہ لمبے، تندرست، بالکل سیدھے جسم والے اور پوری طرح سے فعال۔ اور راجستھان کے اجمیر میں اپنے گھر پر ہم سے یہ باتیں کر رہے ہیں۔ نو دہائیوں پر مشتمل اپنی مصروف زندگی کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ ابھی، وہ ہمیں اس وقت کے بارے میں بتا رہے ہیں جب انہیں گولی لگی تھی۔
’میٹنگ چل رہی تھی، اور ایک آدمی برطانوی راج کے خلاف ’’تھوڑا بے قابو ہو کر‘‘ بولنے لگا۔ اس کی وجہ سے پولیس نے کچھ مجاہدین آزادی کو اٹھا لیا۔ لیکن وہ آسانی سے ہار ماننے والے نہیں تھے۔ انہوں نے پولیس کو پیٹنا شروع کر دیا۔ یہ سب سوتنترتا سینانی بھون [مجاہدین آزادی کے دفتر] میں ہوا۔ ظاہر ہے، یہ نام ہم نے آزادی حاصل ہونے کے بعد رکھا تھا۔ تب اس عمارت کا کوئی خاص نام نہیں تھا۔
’وہاں پر روزانہ ایک عوامی میٹنگ ہوا کرتی تھی، جس میں مجاہدین آزادی لوگوں کو بھارت چھوڑو تحریک کے بارے میں تفصیل سے بتایا کرتے تھے۔ اس میں برطانوی راج کے کارناموں کو اجاگر کیا جاتا تھا۔ پورے اجمیر سے لوگ روزانہ سہ پہر کو ۳ بجے وہاں جمع ہو جاتے تھے۔ ہمیں کسی کو بلانا نہیں پڑتا تھا – وہ اپنے آپ ہی وہاں آتے تھے۔ اسی میٹنگ میں یہ سخت تقریر کی گئی تھی، اور گولی باری کا واقعہ پیش آیا تھا۔
’اسپتال میں جب مجھے ہوش آیا، تو پولیس میرے پاس آئی تھی۔ انہوں نے اپنا کام کیا؛ انہوں نے کچھ لکھا۔ لیکن انہوں نے مجھے گرفتار نہیں کیا۔ صرف اتنا کہا: ’’اسے گولی لگی ہے۔ اتنی سزا کافی ہے اس کے لیے۔‘‘
وہ بتاتے ہیں کہ پولیس نے کوئی مہربانی نہیں کی تھی۔ اگر انہوں نے ان کے خلاف مقدمہ درج کیا ہوتا، تو انہیں قبول کرنا پڑتا ہے کہ انہوں نے شوبھا رام پر گولی چلائی ہے۔ جب کہ انہوں نے نہ تو کوئی اشتعال انگیز تقریر کی تھی اور نہ ہی کسی اور کے خلاف تشدد کیا تھا۔
’انگریز اپنی جان بچانا چاہتے تھے،‘ شوبھا رام کہتے ہیں۔ ’ہماری موت کی انہیں کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اتنے سالوں میں لاکھوں لوگوں کی جانیں گئیں تب جا کر ملک کو یہ آزادی ملی ہے۔ کروکشیتر کی طرح، سوریہ کنڈ بھی جانبازوں کے خون سے بھر گیا تھا۔ آپ کو یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے۔ ہمیں یہ آزادی آسانی سے نہیں ملی تھی۔ اس کے لیے ہم نے اپنا خون بہایا ہے۔ کروکشیتر سے بھی زیادہ خون بہایا ہے۔ اور یہ تحریک صرف اجمیر میں ہی نہیں، بلکہ ہرجگہ چل رہی تھی۔ ہر جگہ لڑائی جاری تھی۔ ممبئی میں، کلکتہ [اب کولکاتا] میں…
’گولی سے زخمی ہونے کے بعد، میں نے فیصلہ کیا کہ میں شادی نہیں کروں گا،‘ وہ کہتے ہیں۔ ’کسے معلوم تھا کہ میں اس لڑائی میں بچوں گا یا نہیں؟ اور میں سیوا [سوشل سروس] کرنے اور فیملی چلانے کا کام ایک ساتھ نہیں کر سکتا تھا۔‘ شوبھا رام اپنی بہن شانتی اور ان کے بچوں اور پوتے پوتیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کی بہن ۷۵ سال کی ہیں اور شوبھا رام سے اکیس سال چھوٹی ہیں۔
’میں آپ کو ایک بات بتاؤں؟‘ شانتی ہم سے کہتی ہیں۔ اور پھر انتہائی سکون و اطمینان کے ساتھ بولنا شروع کرتی ہیں۔ ’آج اگر یہ زندہ ہیں تو صرف میری وجہ سے۔ میں نے اور میرے بچوں نے زندگی بھر ان کی دیکھ بھال کی ہے۔ میری شادی ۲۰ سال کی عمر میں ہی کر دی گئی تھی اور اس کے کچھ سال بعد ہی میں بیوہ ہو گئی تھی۔ میرے شوہر کا ۴۵ سال کی عمر میں انتقال ہو گیا تھا۔ میں نے شوبھا رام کا ہمیشہ خیال رکھا ہے اور اس پر مجھے بہت فخر ہے۔ اب میرے پوتے پوتیاں اور ان کی بیویاں بھی ان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔
’کچھ سال پہلے، یہ کافی بیمار ہو گئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اب بچیں گے نہیں۔ یہ ۲۰۲۰ کی بات ہے۔ تب میں نے ان کو اپنی گود میں رکھ کر ان کے لیے دعائیں کیں۔ اسی وجہ سے اب آپ انہیں زندہ و سلامت دیکھ رہے ہیں۔‘
*****
تو، اُس خفیہ کیمپ میں جو بم بنائے جاتے تھے اُن کا کیا ہوا؟
’جہاں جہاں سے اس کی مانگ ہوتی تھی، ہم وہاں وہاں اسے پہنچانے کا کام کرتے تھے۔ اور ایسی بہت ساری جگہیں تھیں۔ میرے خیال سے، ان بموں کو لے کر میں نے ملک کے ہر کونے کا سفر کیا ہے۔ ہم لوگ اکثر ٹرین سے سفر کیا کرتے تھے اور اسٹیشن پر اترنے کے بعد، دوسری گاڑیوں سے آگے جاتے تھے۔ برطانوی پولیس بھی ہم سے ڈرتی تھی۔‘
یہ بم دیکھنے میں کیسے تھے؟
’ایسے [وہ اپنے ہاتھوں سے ایک دائرہ کار شکل بنا کر دکھاتے ہیں]۔ اس سائز کا – گرینیڈ (دستی بم) کی طرح۔ ان کی کئی قسمیں تھیں جو ان کے پھٹنے کے ٹائم پر منحصر ہوا کرتا تھا۔ کچھ تو فوراً ہی پھٹ جاتے تھے؛ کچھ چار دنوں کے بعد پھٹتے تھے۔ ہمارے لیڈر ایک ایک چیز بتاتے تھے کہ اسے کیسے لگانا ہے، اور پھر ہمیں وہاں سے واپس بھیج دیتے تھے۔
’اس وقت ہماری بہت مانگ تھی! میں کرناٹک گیا ہوں۔ میسور، بنگلور، ہر جگہ گیا ہوں۔ دیکھئے، بھارت چھوڑو تحریک کے لیے اجمیر ایک بڑا مرکز تھا۔ بنارس [وارانسی] بھی تھا۔ اور بھی جگہیں تھیں جیسے کہ گجرات کا بڑودہ اور مدھیہ پردیش کا دموہ۔ لیکن اجمیر کو لوگ زیادہ توجہ دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اس شہر میں یہ تحریک کافی مضبوط ہے اور وہ یہاں کے مجاہدین آزادی کے نقش قدم پر چلیں گے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دوسری جگہوں پر بھی ایسے بہت سے مجاہدین آزادی موجود تھے۔‘
لیکن وہ ٹرین میں کیسے سفر کر لیتے تھے؟ اور پکڑے جانے سے کیسے بچ جاتے تھے؟ جب کہ انگریزوں کو ان پر شک تھا کہ پوسٹل سنسرشپ سے بچنے کے لیے وہ اپنے لیڈروں کو خفیہ خطوط پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔ اور یہ بھی جانتے تھے کہ کچھ چھوٹے لڑکے بم بھی پہنچا رہے ہیں۔
’ان دنوں ڈاک سے بھیجے گئے خط کو چیک کیا جاتا تھا، انہیں کھول کر پڑھا جاتا تھا۔ اس سے بچنے کے لیے، ہمارے لیڈروں نے نوجوانوں کا ایک گروپ بنایا اور ہمیں کسی مخصوص جگہ لیٹر پہنچانے کی ٹریننگ دی۔ ’’تمہیں یہ خط بڑودہ میں ڈاکٹر امبیڈکر کے پاس لے جانا ہے۔‘‘ یا پھر کسی اور آدمی کو، کسی دوسری جگہ پر پہنچانا ہے۔ ان خطوط کو ہم اپنے انڈرویئر میں، اپنی شرمگاہوں کے پاس رکھتے تھے۔
’برطانوی پولیس ہمیں روک کر ہم سے سوال کرتی تھی۔ اگر وہ ہمیں کسی ٹرین میں دیکھ لیتے، تو ہم سے پوچھتے: ’’تم نے تو کہا تھا کہ تم فلاں جگہ جا رہے ہو، لیکن اب کہیں اور جا رہے ہو۔‘‘ لیکن ہم اور ہمارے لیڈر جانتے تھے کہ یہ سب ہو سکتا ہے۔ اس لیے اگر ہم بنارس جا رہے ہوتے تھے، تو شہر سے کچھ دور پہلے ہی ٹرین سے اتر جاتے تھے۔
’ہمیں پہلے ہی بتا دیا جاتا تھا کہ ڈاک [لیٹر] کو بنارس پہنچانا ہے۔ لیڈرز ہمیں مشورہ دیتے تھے: ’’شہر سے تھوڑا پہلے زنجیر کھینچ دینا اور ٹرین سے نیچے اتر جانا۔‘‘ لہٰذا، ہم ویسا ہی کرتے تھے۔
’ان دنوں، ٹرین میں بھاپ کے انجن ہوتے تھے۔ ہم لوگ انجن والے ڈبے میں داخل ہو جاتے اور ریلوے کے ڈرائیور کو پستول دکھا دیتے تھے۔ ’’تمہیں مارنے کے بعد ہی ہم مریں گے،‘‘ یہ کہہ کر ہم اسے ڈرا دیتے تھے۔ اس کے بعد ہمیں اس میں بیٹھنے کی جگہ مل جاتی تھی۔ کبھی کبھی سی آئی ڈی، پولیس، ہر کوئی وہاں چیک کرنے کے لیے پہنچ جاتا تھا۔ لیکن یہ لوگ ہمیں ڈھونڈ نہیں پاتے تھے اور ٹرین کے ڈبوں میں صرف عام مسافروں کو ہی بیٹھا ہوا پاتے تھے۔
’ہدایت کے مطابق، ہم کسی مخصوص جگہ پر ٹرین کی زنجیر کھینچ دیتے تھے۔ اس کی وجہ سے وہاں پر ٹرین دیر تک رک جاتی تھی۔ پھر، کچھ مجاہدین آزادی اندھیرا ہونے پر ہمارے لیے وہاں گھوڑا لے کر پہنچ جاتے۔ ہم ان پر سوار ہو کر وہاں سے فرار ہو جاتے۔ اور اس طرح، ٹرین کے پہنچنے سے پہلے ہی ہم بنارس پہنچ گئے!
’ایک بار میرے نام سے وارنٹ نکلا۔ دھماکہ خیز مادہ لے جاتے وقت انہوں نے ہمیں پکڑ لیا۔ لیکن ہم انہیں پھینک کر وہاں سے بھاگ گئے۔ پولیس نے انہیں اپنے قبضے میں لے لیا اور تحقیق کرنے لگے کہ ہم کس قسم کے دھماکوں کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ ہمارے پیچھے پڑ گئے۔ لہٰذا، یہ فیصلہ ہوا کہ ہم اجمیر چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں۔ مجھے [تب] بامبے بھیج دیا گیا۔‘
اور ممبئی میں انہیں کس نے چھپنے کی جگہ دی؟
’پرتھوی راج کپور نے،‘ وہ فخر سے کہتے ہیں۔ یہ مشہور اداکار ۱۹۴۱ میں اپنی شہرت کے عروج پر پہنچنے والا تھا۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ وہ ۱۹۴۳ میں قائم کردہ انڈین پیپلز تھیٹر ایسوسی ایشن کے بانی رکن بھی تھے، لیکن اس کی تصدیق کرنا بہت مشکل ہے۔ پرتھوی راج کپور اور بامبے تھیٹر اور فلمی دنیا کے کچھ دوسرے مشہور لوگوں نے جدوجہد آزادی میں کافی مدد کی تھی، اور اس میں شامل بھی ہوئے۔
’انہوں نے ہمیں ترلوک کپور کے پاس بھیج دیا، جو ان کے کوئی رشتہ دار تھے۔ میرے خیال سے، انہوں نے بعد میں ’ہر ہر مہادیو‘ نام کی ایک فلم میں اداکاری کی تھی۔‘ ترلوک دراصل پرتھوی راج کے چھوٹے بھائی تھے، لیکن شوبھا رام کو یہ بات معلوم نہیں تھی۔ وہ اپنے دور کے ایک انتہائی کامیاب اداکار تھے۔ ’ہر ہر مہادیو‘ فلم نے ۱۹۵۰ میں سب سے زیادہ پیسہ کمایا تھا۔
’پرتھوی راج نے ہمیں کچھ دنوں کے لیے ایک کار دے دی تھی، جس سے ہم پورے بامبے میں گھومتے رہے۔ میں اُس شہر میں تقریباً دو مہینے تک رہا۔ پھر ہم لوگ واپس لوٹ گئے کیوں کہ دوسرے کاموں کے لیے ہماری ضرورت تھی۔ کاش، میں آپ کو وارنٹ دکھا پاتا! وہ میرے نام سے تھا۔ کئی دوسرے نوجوانوں کے نام سے بھی وارنٹ تھے۔
’لیکن ۱۹۷۵ کے سیلاب نے سب کچھ تباہ کر دیا،‘ وہ انتہائی افسوس کے ساتھ کہتے ہیں۔ ’میرے تمام کاغذات چلے گئے۔ ان میں کئی سرٹیفکیٹ بھی تھے، کچھ جواہر لال نہرو نے دیے تھے۔ آپ ان کاغذات کو دیکھ کر پاگل ہو جاتے۔ لیکن سب کچھ بہہ گیا۔‘
*****
’میں گاندھی اور امبیڈکر میں سے کسی ایک کا انتخاب کیوں کروں؟ کیا میں دونوں کا انتخاب نہیں کر سکتا؟‘
یہاں اجمیر میں، ہم لوگ امبیڈکر کے مجسمہ کے پاس کھڑے ہیں۔ آج اس عظیم انسان کی ۱۳۱ویں جینتی ہے، اور ہم اپنے ساتھ شوبھا رام گہروار کو بھی لے کر آئے ہیں۔ اس بزرگ گاندھیائی نے ہم سے درخواست کی تھی کہ ہم انہیں یہاں لے کر آئیں، تاکہ وہ مجسمہ کو پھول کی مالا پہنا سکیں۔ تبھی، ہم نے ان سے یہ سوال کیا تھا کہ وہ ان دونوں میں سے کس کے ساتھ ہیں۔
جواب میں انہوں نے اپنی انہی باتوں کو دوسرے طریقے سے سمجھانا شروع کر دیا جو وہ اپنے گھر میں ہمیں پہلے ہی بتا چکے تھے۔ ’دیکھئے، امبیڈکر اور گاندھی، دونوں نے بہت اچھا کام کیا۔ کار چلانے کے لیے دونوں طرف پہیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس میں تضاد کہاں ہے؟ اگر مجھے مہاتما کے کچھ اصولوں میں دم نظر آیا تو میں نے ان کی پیروی کی۔ اور جہاں مجھے امبیڈکر کی تعلیمات میں دَم نظر آیا، میں نے ان کی پیروی شروع کر دی۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ گاندھی اور امبیڈکر، دونوں نے اجمیر کا دورہ کیا تھا۔ جہاں تک امبیڈکر کی بات ہے، ’ہم ان سے ریلوے اسٹیشن پر ملتے اور انہیں مالا پہناتے تھے۔ یہ تب ہوتا تھا، جب وہ کسی ٹرین سے سفر کر رہے ہوتے اور وہ ٹرین یہاں کے اسٹیشن پر رک جاتی تھی۔‘ شوبھا رام جب ان دونوں سے ملے تب کافی چھوٹے تھے۔
’سال ۱۹۳۴ میں، جب میں بہت چھوٹا تھا، مہاتما گاندھی یہاں آئے تھے۔ ٹھیک اسی جگہ پر، جہاں ہم اس وقت بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسی جادوگر بستی میں۔‘ تب شوبھا رام تقریباً ۸ سال کے رہے ہوں گے۔
’امبیڈکر کے معاملے میں، ایک بار میں اپنے لیڈروں کی طرف سے ان کے لیے کچھ خط لے کر بڑودہ [اب وڈودرا] گیا تھا۔ پولیس چونکہ ڈاکخانہ میں ہمارے خطوں کو کھول کر پڑھ لیتی تھی، اس لیے اہم کاغذات اور خطوط ہم خود ہی لے کر جاتے تھے۔ اس وقت، انہوں نے میری پیٹھ تھپتھپائی اور پوچھا، ’’کیا تم اجمیر میں رہتے ہو؟‘‘
کیا وہ جانتے تھے کہ شوبھا رام کا تعلق کولی برادری سے ہے؟
’جی ہاں، میں نے ان کو بتایا تھا۔ لیکن اس کے بارے میں انہوں نے زیادہ بات نہیں کی۔ وہ اُن چیزوں کو سمجھتے تھے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر کوئی ضرورت پیش آ جائے تو میں انہیں لکھ سکتا ہوں۔‘
شوبھا رام کو ’دلت‘ اور ’ہریجن‘ – دونوں ہی لیبل سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ساتھ ہی، ’اگر کوئی کولی ہے، تو ہونے دیجئے۔ ہم اپنی ذات کیوں چھپائیں؟ ہم جب ہریجن یا دلت کہتے ہیں، تو اس میں کوئی فرق نہیں ہوتا ہے۔ آخرکار، یہ سبھی درج فہرست ذات سے ہی تو ہیں، آپ چاہے انہیں جو بھی کہیں۔‘
شوبھا رام کے ماں باپ میلا ڈھونے کا کام کرتے تھے۔ اور یہ کام وہ زیادہ تر ریلوے پروجیکٹوں کے آس پاس کرتے تھے۔
’ہر آدمی دن میں صرف ایک وقت کھانا کھاتا تھا،‘ وہ بتاتے ہیں۔ ’اور اس فیملی میں شراب کا استعمال کبھی نہیں ہوا۔‘ وہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ وہ اسی سوشل گروپ سے تعلق رکھتے ہیں، ’جس سے [اب سابق] صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند کا تعلق ہے۔ ایک بار وہ ہمارے اکھل بھارتیہ کولی سماج کے صدر تھے‘۔
شوبھا رام کی کمیونٹی کو تعلیم سے باہر کر دیا گیا تھا۔ شاید اسی وجہ سے وہ کافی تاخیر سے اسکول میں داخل ہوئے۔ وہ کہتے ہیں، ’ہندوستان میں اونچی ذات کے لوگ، برہمن، جین اور دوسرے سبھی لوگ انگریزوں کے غلام بن گئے تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جو چھواچھوت میں یقین رکھتے تھے۔
’میں آپ کو بتاتا ہوں، درج فہرست ذات سے تعلق رکھنے والے یہاں کے زیادہ تر لوگ اس زمانے کی کانگریس پارٹی اور آریہ سماج میں شامل نہیں ہوئے، بلکہ انہوں نے شاید اسلام مذہب قبول کر لیا تھا۔ اگر ہم پرانے طور طریقوں پر چل رہے ہوتے، تو آزادی حاصل نہیں کر پاتے۔
’اُس زمانے میں کوئی بھی اچھوتوں کو اسکول میں داخلہ نہیں دیتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ دیکھو یہ کنجر ہے، یا ڈوم ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہمیں باہر کر دیا گیا تھا۔ میں ۱۱ سال کی عمر میں پہلی کلاس میں داخل ہو پایا۔ اُس زمانے میں آریہ سماج کے لوگ عیسائیوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لنک روڈ علاقے کے قریب رہنے والے میری ذات کے کئی لوگ عیسائی بن گئے تھے۔ اس لیے، ہندوؤں کے کچھ مسلک نے ہمیں قبول کرنا شروع کر دیا، وہ دیانند اینگلو ویدک [ڈی اے وی] اسکولوں میں شامل ہونے کے لیے ہماری حوصلہ افزائی بھی کرنے لگے۔‘
لیکن چھواچھوت کا سلسلہ ختم نہیں ہوا۔ اسی لیے کولی سماج نے خود اپنا اسکول شروع کیا۔
’گاندھی جی وہیں پر آئے تھے، سرسوتی بالیکا ودیالیہ میں۔ اسے ہماری کمیونٹی کے بزرگ لوگوں نے شروع کیا تھا۔ یہ اب بھی چل رہا ہے۔ گاندھی ہمارے کام کو دیکھ کر حیران رہ گئے تھے۔ ’’آپ لوگوں نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ میں جتنی توقع کر رہا تھا اس سے بھی کہیں زیادہ اچھا کام کیا ہے،‘‘ انہوں نے کہا تھا۔
’اسے ہم کولیوں نے شروع کیا تھا، لیکن اس میں دوسری ذات سے تعلق رکھنے والے بچے بھی آتے تھے۔ شروع میں تو سبھی بچے درج فہرست ذات کے تھے۔ بعد میں، دوسری برادریوں کے بھی کئی بچے اسکول میں داخل ہونے لگے۔ آہستہ آہستہ، [اونچی ذات کے] اگروالوں نے اسکول پر قبضہ کر لیا۔ رجسٹریشن ہمارے نام سے تھا۔ لیکن انہوں نے انتظامیہ کا کام اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔‘ وہ اب بھی اسکول جاتے ہیں۔ یا کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے دوران تمام اسکولوں کو بند کر دیے جانے سے پہلے جاتے تھے۔
’ہاں، میں اب بھی جاتا ہوں۔ لیکن اسے اب وہی [اونچی ذات کے] لوگ چلاتے ہیں۔ انہوں نے ایک بی ایڈ کالج بھی کھولا ہے۔
’میں نویں کلاس تک ہی پڑھ پایا، جس کا مجھے بیحد افسوس ہے۔ آزادی کے بعد میرے کچھ دوست آئی اے ایس افسر بھی بنے۔ کچھ نے بڑی اونچائیاں حاصل کیں۔ لیکن میں نے خود کو سیوا کے لیے وقف کر دیا۔‘
شوبھا رام ایک دلت ہیں اور خود کو گاندھیائی کہتے ہیں۔ وہ ڈاکٹر امبیڈکر کے بھی مداح ہیں۔ اور ہم سے کہتے ہیں: ’میں گاندھی واد اور کرانتی واد [گاندھیائی راستہ اور انقلابی تحریک] دونوں کے ساتھ تھا۔ دونوں کا آپس میں گہرا تعلق تھا۔‘ اس طرح، وہ بنیادی طور پر تو گاندھیائی تھے، لیکن ساتھ ہی تین سیاسی دھاروں سے بھی جڑے ہوئے تھے۔
شوبھا رام، گاندھی سے جتنا پیار اور ان کی تعریف کرتے ہیں، اتنی ہی ان کی تنقید بھی کرتے ہیں، خاص کر امبیڈکر کے تعلق سے۔
’امبیڈکر کے چیلنج سے گاندھی ڈر گئے تھے۔ گاندھی کو خدشہ تھا کہ درج فہرست ذات سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ بابا صاحب کے ساتھ چلے جائیں گے۔ نہرو بھی یہی سوچتے تھے۔ انہیں تشویش تھی کہ اس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر چل رہی تحریک کمزور پڑ جائے گی۔ ملک جب آزاد ہوا، تب اس تنازع کی وجہ سے ہر کوئی تناؤ میں تھا۔
’انہیں یہ احساس ہو گیا تھا کہ امبیڈکر کے بغیر وہ نہ تو قوانین لکھ سکتے ہیں اور نہ ہی آئین۔ اس کی صلاحیت صرف اور صرف انہی [امبیڈکر] کے پاس تھی۔ یہ رول انہوں نے کسی سے مانگا نہیں تھا، بلکہ ہمارے قوانین کا فریم ورک لکھنے کے لیے دوسرے تمام لوگوں نے خود ہی ان سے درخواست کی تھی۔ وہ برہما کی طرح تھے جنہوں نے اس دنیا کی تخلیق کی ہے۔ ایک ذہین، پڑھا لکھا آدمی۔ لیکن، ہم ہندوستانی بہت برے لوگ تھے۔ ہم نے ۱۹۴۷ سے پہلے اور اس کے بعد بھی، ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا۔ انہیں تحریک آزادی کی کہانی سے باہر نکال دیا گیا۔ لیکن، میرے لیے وہ آج بھی حوصلے کا باعث ہیں۔‘
شوبھا رام یہ بھی کہتے ہیں، ’دل سے میں پوری طرح ایک کانگریسی ہوں۔ سچا کانگریسی۔‘ جس سے ان کی مراد یہ ہے کہ وہ پارٹی کی موجودہ سمت سے خوش نہیں ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ہندوستان کی موجودہ قیادت ایک دن ’اس ملک کو آمریت میں بدل دے گی‘۔ اسی لیے کانگریس کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑاہونا چاہیے اور آئین اور ملک کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔‘
وہ راجستھان کے وزیر اعلیٰ، اشوک گہلوت کی کافی تعریف کرتے ہیں۔ ’انہیں لوگوں کی فکر ہے۔ وہ ہم جیسے مجاہدین آزادی کا خیال رکھتے ہیں۔‘ اس ریاست میں مجاہدین آزادی کو ملنے والی پنشن ملک کی دوسری ریاستوں کے مقابلے سب سے زیادہ ہے۔ گہلوت حکومت نے ۲۰۲۱ میں اس پنشن کو بڑھا کر ۵۰ ہزار روپے ماہانہ کر دیا تھا۔ مرکز کی طرف سے مجاہدین آزادی کو دی جانے والی پنشن زیادہ سے زیادہ ۳۰ ہزار روپے ہے۔
شوبھا رام گاندھیائی ہونے کے دعوے پر قائم ہیں۔ حالانکہ اس وقت وہ امبیڈکر کے مجسمہ کو مالا پہنا کر نیچے اتر رہے ہیں۔
’دیکھئے، میں جن لوگوں کو پسند کرتا تھا انہی کی پیروی کرتا تھا۔ میں نے ان سبھی لوگوں کی سوچ پر عمل کیا جن سے مجھے اتفاق تھا۔ اور ایسے کئی لوگ تھے۔ ایسا کرنے میں مجھے کبھی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ اور نہ ہی ان میں کوئی مسئلہ تھا۔‘
*****
شوبھا رام گہروار ہمیں سوتنترتا سینانی بھون لے کر جاتے ہیں – جو اجمیر میں بوڑھے مجاہدین آزادی کی میٹنگ کی جگہ ہے۔ یہ ایک مصروف بازار کے بالکل درمیان میں واقع ہے۔ سڑک پر چلتے وقت ان کی رفتار اتنی تیز ہے کہ انہیں پکڑنے میں میری سانس پھولنے لگتی ہے۔ وہ چھڑی کا سہارا نہیں لیتے، بلکہ ٹریفک کو چیرتے ہوئے لمبے لمبے قدموں کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
لیکن جب ہم اس اسکول میں پہنچے، جس پر انہیں بہت ناز تھا، تو وہاں جا کر پہلی بار ہم نے ان کی رفتار کو تھمتے ہوئے دیکھا، جب انہوں نے دیوار پر لکھا ہوا دیکھا کہ ’سرسوتی اسکول بند پڑا ہے‘۔ یہ اور کالج دونوں ہی بند کر دیے گئے ہیں۔ ہمیشہ کے لیے، چوکیدار اور وہاں آس پاس موجود لوگوں نے بتایا۔ تھوڑے ہی دنوں میں یہ ریئل اسٹیٹ کے لیے ایک قیمتی جگہ بن سکتی ہے۔
لیکن سوتنترتا سینانی بھون میں وہ جذباتی اور فکرمند، دونوں ہی نظر آئے۔
’۱۵ اگست ۱۹۴۷ کو جب انہوں نے لال قلعہ پر ہندوستانی پرچم لہرایا تھا، تب ہم نے یہاں پر ترنگا لہرایا تھا۔ اُس دن ہم نے اس بھون کو نئی دلہن کی طرح سجایا تھا۔ اور ہم تمام مجاہدین آزادی وہاں اکٹھا ہوئے تھے۔ تب ہم جوان تھے اور خوشی سے جھوم رہے تھے۔
’یہ بھون بہت ہی خاص تھا۔ اس جگہ کا مالک کوئی ایک آدمی نہیں تھا۔ بلکہ کئی مجاہدین آزادی تھے، اور ہم نے اپنے لوگوں کے لیے بہت سے کام کیے۔ کبھی کبھی ہم لوگ دہلی جا کر نہرو سے ملتے تھے۔ بعد میں، ہم نے اندرا گاندھی سے ملاقات کی۔ اب، ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہے۔
’ہمارے درمیان کئی عظیم مجاہدین آزادی تھے۔ میں نے کرانتی سائڈ کے کئی لوگوں کے ساتھ کام کیا۔ اور سیوا سائڈ کے لوگوں کے ساتھ بھی۔‘ وہ ان کے نام گِناتے ہیں۔
’ڈاکٹر شاردانند، ویر سنگھ مہتہ، رام نارائن چودھری۔ رام نارائن، دینک نوجیوتی کے ایڈیٹر دُرگا پرساد چودھری کے بڑے بھائی تھے۔ اجمیر کی بھارگو فیملی تھی۔ مکٹ بہاری بھارگو اس کمیٹی کے رکن تھے، جس نے امبیڈکر کی قیادت میں آئین کا مسودہ تیار کیا۔ اب ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہے۔ گوکل بھائی بھٹ تھے، جو ہمارے ایک عظیم مجاہد آزادی ہیں۔ وہ راجستھان کے گاندھی جی تھے۔‘ بھٹ کچھ دنوں تک شاہی ریاست سیروہی کے وزیر اعلیٰ بھی رہے، لیکن سماجی اصلاح اور آزادی کی لڑائی کی وجہ سے اس عہدہ کو چھوڑ دیا۔
شوبھا رام اس بات پر زور دیتے ہیں کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا آزادی کی لڑائی میں کوئی رول نہیں ہے۔
’وہ؟ انہوں نے تو انگلی بھی نہیں کٹائی۔‘
اب ایک چیز جو انہیں بہت پریشان کرتی ہے، وہ ہے سوتنترتا سینانی بھون کا مستقبل۔
’اب میں بوڑھا ہو چکا ہوں، اس لیے یہاں روزانہ نہیں آ سکتا۔ لیکن صحت مند ہونے پر، یہاں ضرور آتا ہوں اور آدھا گھنٹہ بیٹھتا ہوں۔ یہاں آنے والے لوگوں سے ملتا ہوں اور جہاں تک ممکن ہو سکے، ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
’میرے ساتھ کوئی نہیں ہے۔ میں ان دنوں بالکل اکیلا ہوں۔ زیادہ تر مجاہدین آزادی وفات پا چکے ہیں۔ اور جو بھی دو چار لوگ بچے ہیں، وہ کافی کمزور اور بیمار ہیں۔ اسی لیے، میں اکیلے ہی اس سوتنترتا بھون کی دیکھ بھال کر رہا ہوں۔ مجھے یہ آج بھی پسند ہے، میں اس کی حفاظت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن مجھے یہ دیکھ کر رونا آتا ہے کہ میرے ساتھ آج کوئی نہیں ہے۔
’میں نے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کو خط لکھا ہے۔ ان سے اپیل کی ہے کہ وہ اس بھون کو اپنی تحویل میں لے لیں اس سے پہلے کہ کوئی اور اس پر قبضہ کر لے۔
’یہ جگہ کروڑوں روپے کی ہے۔ اور یہ شہر کے بالکل وسط میں ہے۔ کئی لوگ مجھے لالچ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’شوبھا رام جی، آپ اکیلے کیا کر سکتے ہیں؟ اسے [یہ پراپرٹی] ہمیں دے دیں۔ ہم آپ کو کروڑوں روپے نقد دیں گے۔‘‘ میں ان سے یہی کہتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد اس عمارت کے ساتھ جو چاہے کر لینا۔ آخر، میں کر ہی کیا سکتا ہوں؟ ان کی بات میں کیسے مان لوں؟ لاکھوں لوگوں نے اس کے لیے، ہماری آزادی کے لیے اپنی جان دی ہے۔ اور میں ان پیسوں کا کروں گا کیا؟
’اور میں آپ کی توجہ اس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ کسی کو بھی ہماری پرواہ نہیں ہے۔ مجاہدین آزادی کی خیر خبر لینے والا کوئی نہیں ہے۔ ایسی ایک بھی کتاب نہیں ہے جس کے ذریعے بچوں کو بتایا جا رہا ہو کہ ہم نے آزادی کی لڑائی کیسے لڑی اور اسے کیسے حاصل کیا۔ ہمارے بارے میں لوگ کیا جانتے ہیں؟‘
مترجم: محمد قمر تبریز