وہ دوڑ سکتی ہے، اور وہ ٹریننگ دے سکتے ہیں۔
اس لیے جیئنت تانڈیکر نے اس کی ٹریننگ کی ذمہ داری لے لی اور اسے اپنے دو کمروں کے کرایے کے گھر میں ٹریننگ دینے لگے۔
تانڈیکر اپنی آٹھ سال کی شاگردہ اُروَشی کے ذریعہ اپنے خوابوں کو جینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ کہانی گاؤں کی چھوٹی لڑکی، اس کے ماں باپ اور ایتھلیٹوں کو ٹریننگ دینے والے نوجوان کوچ کی ہے، جو پیسوں کی تنگی کے باوجود بڑے خواب دیکھ رہے ہیں اور ان کے ارادے مضبوط ہیں۔
دو سال پہلے، اُروَشی نمبرتے جب آٹھ سال کی تھی، تب تانڈیکر کے پاس آئی تھی۔ وہ بھنڈارا شہر کے مضافات میں ایک چھوٹے سے کرایے کے گھر میں رہتے ہیں، جہاں وہ بچی اپنے سارے سامان کے ساتھ ان کے ساتھ رہنے چلی آئی۔ تانڈیکر اب اس کے ماں باپ کی ذمہ داری بھی سنبھال رہے ہیں۔ اُروَشی کے والدین کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ وہ بھنڈارا شہر سے تقریباً ۲۵ کلومیٹر دور ڈوّا گاؤں کے چھوٹے کسان ہیں۔ لیکن اس بچی کی ماں مادھوری کو ایسا محسوس ہوا کہ اگر ان کی بیٹی کو کچھ بننا ہے، تو انہیں اس نوجوان آدمی اور ان کی بیٹی کو لے کر اس کے ذریعہ دیکھے گئے خوابوں پر بھروسہ کرنا ہوگا۔
اُروَشی کی ماں مادھوری بھلے ہی دیکھنے میں دبلی پتلی اور کمزور سی ہوں، لیکن ان کے اندر کافی ہمت ہے۔ وہ اپنے بچوں کو اس مقصد کے ساتھ بڑا کرنا چاہتی ہیں کہ وہ زندگی میں کچھ اچھا کریں۔ اروشی کے والد اور ان کے شوہر کھیتی باڑی کا کام کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ گاؤں کے قریب واقع ایک چھوٹے سی صنعت میں یومیہ اجرت پر مزدوری بھی کرتے ہیں۔
مادھوری، موئی میں دو کمروں کے گھر میں اپنے شوہر اور سسر کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہیں۔ انہوں نے پاری سے بات چیت میں اپنے گھر کے حالات بتائے اور کہا، ’’اگر وہ ہمارے ساتھ رہتی، تو دس سال بعد اس کی زندگی میری طرح ہوتی۔ کسی کی بیوی بن کر وہ بچے سنبھالتی، کھیت میں مزدوری کرتی اور پھر ایک دن مر جاتی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ اس کے ساتھ ایسا ہو۔‘‘
اُروشی، تانڈیکر کو ’ماما‘ کہہ کر بلاتی ہے۔ کوچ نے جب اروشی کی ذمہ داری لی تھی، تو ان کی عمر تقریباً ۳۵سال تھی اور ان کی شادی نہیں ہوئی تھی۔
تانڈیکر دلت ہیں اور چمار ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا خواب ہے کہ بھنڈارا، گونڈیا اور گڑھ چرولی کے دیہی علاقوں سے کچھ اچھے ایتھلیٹ نکل کر باہر آئیں۔ انہیں جو موقع نہیں ملا وہ ان نوجوانوں کو دینا چاہتے ہیں – یعنی ٹریک پر کچھ کر دکھانے کا موقع۔
اروشی ذات سے کُنبی (او بی سی) ہے۔ پھر بھی اس کے والدین کو لگا کہ انہیں نہ صرف ذات پات کی دیواریں توڑنے کی ضرورت ہے، بلکہ اپنی بیٹی کو پدرانہ سماج کے بندھنوں سے آگے لے جانا ضروری ہے۔ سال ۲۰۲۴ میں گرمیوں کی ایک صبح بھنڈارا کے شیواجی اسٹیڈیم میں پاری سے گفتگو کرتے ہوئے تانڈیکر نے بتایا کہ اروشی کافی ذہین اور با صلاحیت بچی ہے۔
وہ بھنڈارا میں ایک اکیڈمی چلاتے ہیں، جس کا نام ہے: اناتھ پنڈک – یعنی یتیموں کی مدد کرنے والا – جو بالکل صحیح نام ہے۔ ان سے ٹریننگ لینے والے تقریباً ۵۰ بچوں میں ہر عمر کے بچے شامل ہیں، جن کی ٹریننگ کا خرچ وہ چھوٹے چھوٹے عطیات کے ذریعہ برداشت کرتے ہیں، جو بمشکل پورا ہوتا ہے۔ تانڈیکر گول چہرے والے چھوٹے قد کے آدمی ہیں، جن کی آنکھیں تیکھی مگر محبت سے بھری ہوئی ہیں۔ وہ گاؤں سے آئے دوڑ لگانے والوں سے کہتے ہیں کہ وہ کسی بھی حال میں ناکامی سے نہ گھبرائیں۔
ہر صبح، وہ اروشی کو لے کر میدان میں آتے ہیں اور دوسرے بچوں کے آنے سے پہلے ہی اسے ٹریننگ دینا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اسے روزانہ اسی طرح باقاعدہ مشق کرنی ہوتی ہے۔
ٹریک سوٹ پہنے ہوئی نوجوان اروشی میدان میں کچھ الگ ہی نظر آتی ہے، اور ٹریننگ کے لیے کافی پرجوش اور متجسس دکھائی دیتی ہے اور اپنے استاد اور ماما کی دیکھ ریکھ میں کڑی محنت کے لیے تیار رہتی ہے۔ اروشی کو ابھی بڑی لمبی دوری طے کرنی ہے: اس نے اسکول کے ایتھلیٹکس مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا ہے، جس کے بعد تانڈیکر اسے ضلع کی سطح پر منعقد ہونے والے مقابلوں میں اتاریں گے، تاکہ وہ آگے چل کر ریاستی اور پھر قومی سطح تک پہنچ سکے۔
تانڈیکر کا ماننا ہے کہ دیہی بچوں کو دوڑ میں شامل ہونا چاہیے، چاہے اس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے۔ وہ انہیں ہندوستان کے کچھ رنرز (دوڑنے والوں) کی کہانیاں سناتے ہیں، تاکہ انہیں پی ٹی اوشا اور ان کے جیسے دیگر لوگوں کی مثالوں سے حوصلہ ملے، جنہوں نے تمام رکاوٹوں کے باوجود بڑی کامیابی حاصل کی تھی۔ ان کے شاگردوں کا ماننا ہے کہ اگر وہ کڑی محنت کریں اور بڑے خواب دیکھیں، تو وہ بھی بڑی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
اپنے تجربات سے سیکھتے ہوئے تانڈیکر اروشی کے کھانے پینے اور غذائیت کا پورا خیال رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ دودھ اور انڈے جیسے بنیادی مقوی کھانوں کا بھی، جو انہیں خود کبھی باقاعدگی کے ساتھ نہیں ملا۔ وہ اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ اروشی کے کھانے میں پروٹین، کاربوہائیڈریٹ اور فیٹس وافر مقدار میں شامل ہو۔ بھنڈارا میں ہی رہنے والی ان کی بہن سیزن کے حساب سے دستیاب مچھلیاں لے کر آتی ہیں۔ اروشی کی ماں بھی اکثر اپنی بیٹی کو دیکھنے وہاں آتی جاتی رہتی ہیں اور اس کے اسکول اور دوسرے معمول کے کاموں میں اس کی مدد کرتی ہیں۔
کوچ نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ ان کی شاگردہ کے پاس اچھے جوتے ہوں، جو انہیں اپنے بچپن میں کبھی نہیں ملے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد بے زمین مزدور تھے، جو کبھی اتنا نہیں کما پاتے تھے کہ اس سے گھر کا خرچ بغیر کسی مشکل کے چل سکے۔ اور وہ اتنا زیادہ شراب پیتے تھے کہ اپنی پوری کمائی روزانہ شراب کی بوتل خریدنے میں خرچ کر دیتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایسے بھی دن آتے تھے، جب انہیں اور ان کے بھائی بہنوں کو بھوکے پیٹ رہنا پڑتا تھا۔
وہ ترچی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہیں، ’’میں نے ٹریک پر دوڑنے کا خواب دیکھا تھا۔ لیکن مجھے موقع نہیں ملا۔‘‘ ان کی اس چھوٹی سی مسکراہٹ کے پیچھے گہری مایوسی چھپی ہوئی تھی۔
لیکن تانڈیکر کو معلوم ہے کہ اروشی اور اس کے جیسے دیگر بچوں کو اگر یہ موقع دلانا ہے، تو انہیں مقوی غذا، اچھے جوتے دینے اور بڑے مقابلوں تک پہنچانے کے لیے اپنا پورا دم خم لگانے کی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق، اس کا مطلب ہے کہ بچوں کو اچھے اسکولوں میں جانا ہوگا اور سخت مقابلہ کرنا ہوگا۔
اس میں ضرورت پڑنے پر معیاری طبی خدمات مہیا کرانا بھی شامل ہے – اگر ٹخنہ میں موچ، پٹھوں میں اکڑن، تھکان یا جسمانی نشوونما سے متعلق مسائل سامنے آتے ہیں تو۔
وہ کہتے ہیں، ’’یہ سب کافی مشکل ہے۔ لیکن کم از کم میں اپنے بچوں کو بڑے خواب دیکھنا ضرور سکھا پاؤں گا۔‘‘
ترجمہ نگار: محمد قمر تبریز