’’چٹنی، چٹنی فرائی!‘‘
یہ سرخ چیونٹیاں ہیں، جن سے اروناچل پردیش میں پٹکائی پہاڑوں کے دامن میں واقع کنوباڑی میں لذید چٹنی بنائی جاتی ہے۔ پتوں کے پلیٹوں پر رکھی مٹھی بھر چمکدار سرخ چیونٹیاں اس ہفتہ واری بازار میں جولائی کی اس بھیگتی بارش والی صبح میں ۲۰ روپے میں فروخت ہو رہی ہیں۔
کنوباڑی کے رہائشی پوبن کرمی بتاتے ہیں، ’’یہاں کئی قسم کی چیونٹیاں ملتی ہیں۔ املوئی [سرخ چیونٹیوں] کو زیادہ پسند کیا جاتا ہے کیونکہ انہیں کالی چیونٹیوں کے مقابلے میں پکڑنا زیادہ آسان ہے۔ ان کے کاٹنے سے زیادہ تکلیف بھی نہیں ہوتی ہے اور یہ آم اور کٹہل کے درختوں پر آسانی سے مل جاتی ہیں۔‘‘ اروناچل پردیش، اوئیکوفیلا سمرگڈینا کا گھر ہے؛ اسے ایشین ویور اینٹ (ایشیائی بُنکر چیونٹی) بھی کہا جاتا ہے۔
دس سالہ نین شیلا اور نو سالہ سیم، مہابودھی اسکول کے طالب علم ہیں جہاں میں چند ہفتوں سے پڑھا رہا ہوں؛ یہ دونوں مجھے چیونٹیوں کو پکڑنے کے بارے میں بتا رہے ہیں۔ ’’درخت کی شاخ پر چیونٹیوں کے گھونسلے کی شناخت کرنے کے بعد، اسے کاٹ کر کھولتے ہوئے پانی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ پھر ان مردہ چیونٹیوں کو پتوں اور مٹی سے الگ کر کے خشک کیا جاتا ہے۔‘‘ اس کے بعد انہیں چٹنی بنانے کے لیے تلا جا سکتا ہے، میرے طلباء نے مجھے بتایا کہ اس کا ذائقہ تھوڑا کھٹا ہوتا ہے۔
یہ اروناچل پردیش کے لانگڈنگ ضلع کے کنوباڑی بلاک میں جمعرات کے دن لگنے والا ہفتہ واری بازار ہے۔ کنوباڑی کے رہائشیوں کے لیے دوسرا سب سے بڑا بازار ۷۰ کلومیٹر دور ہے، اس لیے مقامی لوگ اسی بازار کو اپنی روزمرہ کی ضروریات کی خریداری کے لیے ترجیح دیتے ہیں۔ آسام کی سرحد یہاں سے ایک کلومیٹر سے بھی کم فاصلہ پر واقع ہے، اس لیے پڑوسی ریاست کے باشندے بھی اپنے سامان کی خرید و فروخت کے لیے یہاں آتے ہیں۔
شہر کے مہابودھی اسکول کے ٹیچر مسٹر چترا کو ۱۹۸۵ میں بازار جانا یاد ہے۔ وہ اپنے بچپن کے زمانے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اس وقت فروخت کی جانے والی چیزیں کسی بھی طرح کے کیمیکل کے بغیر، بالکل خالص ہوا کرتی تھیں اور لوگ اپنے کھیتوں میں بغیر کسی ملاوٹ کے فصلیں اگایا کرتے تھے۔‘‘
بارش کے باوجود، قطار میں بیٹھے موچی بازار کی طرف جانے والی ایک چھوٹی سی سڑک پر جوتے، چپل اور چھتریوں کی مرمت میں مصروف ہیں۔ یہاں پر وہ سبزی اور پھل فروشوں، مچھلی اور گوشت بیچنے والوں اور دیگر لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔
بازار کا ہر کونہ پان کی پٹریوں [تمباکو کی دکانوں] سے سجا ہوا ہے۔ آسام کے چرائیدیو ضلع سے تعلق رکھنے والے تمباکو فروش جیتو بشین مجھے خشک تمباکو کی مختلف اقسام کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں، ’’بھورے رنگ کے تمباکو کو عام طور پر چونا کے ساتھ چبایا جاتا ہے اور سیاہ تمباکو بہار سے لائے گئے پان [پان کے پتوں] کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔‘‘
ملک کے دوسرے حصوں سے لائے جانے والے آلو، ٹماٹر اور پیاز جیسی مستقل پیداوار کے علاوہ، یہاں بہت سی مقامی سبزیاں بھی آتی ہیں، جیسے فرن، کچو [تارو جڑ]، بانس کی شاخیں، کیلے کے تنے، لہسن، ہری اور کالی مرچ، کھیرا، اور مشہور شاہی مرچ۔
بڑی مقدار میں سازوسامان فروخت کرنے والے دکانداروں کا تعلق آسام کے قریبی علاقوں سپیکھاتی اور سوناری سے ہے جبکہ چھوٹے دکاندار مقامی کسان ہیں۔ کھلی جگہوں پر یا ٹین کی چھت والے برآمدے کے سائے میں بیٹھ کر، وہ اپنی چیزوں کو ترپال یا پرانی کھاد کی بوریوں کو ایک ساتھ سِل کر بنائی گئی چادروں پر رکھ کر بیچتے ہیں۔ مقامی سبزیاں بڑی تیزی سے فروخت ہوجاتی ہیں۔
’’خنزیر کا گوشت یہاں کے پسندیدہ گوشتوں میں سے ایک ہے کیونکہ یہ سستا اور لذیذ ہوتا ہے،‘‘ پومسین لیبرم (۲۶) کہتے ہیں، جو میرے ساتھ ہی بازار آئے ہیں۔ بازار میں تازہ اور خشک گوشت اور مچھلی، بشمول خنزیر کا گوشت، بطخ، جھینگے اور کیکڑے وافر مقدار میں ملتے ہیں۔
انگوٹھے کے سائز کی سرخ مرچوں – شاہی مرچ یا گھوسٹ پیپر – کا چمکدار سرخ ڈھیر سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اسے آسامی میں بھٹ جولوکیا اور لانگڈنگ میں رہنے والے وانچو قبیلہ کی زبان میں بونگن ہنگبو بھی کہا جاتا ہے۔ مرچیں، جو کبھی دنیا میں سب سے زیادہ تیکھی سمجھی جاتی تھیں اور اب بھی ہندوستان میں اسے ہی سب سے زیادہ تیکھا سمجھا جاتا ہے، کو یا تو بڑے ڈھیروں میں یا ۸-۶ پھلیوں کے چھوٹے گچھوں میں ترتیب سے رکھا جاتا ہے۔
آسام کے چرائیدیو ضلع میں مرچیں فروخت کرنے والے بسنت گوگوئی بتاتے ہیں، ’’دسمبر- جنوری میں لگاتے ہیں اور ۴-۳ مہینے بعد اس کو مرچا آتا ہے۔‘‘
گوگوئی ایک کسان ہیں، جو اپنی ۱۲-۱۱ بیگھہ (یا ڈیڑھ ہیکٹیئر) زمین کے ایک بیگھہ پر شاہی مرچ اُگاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پودے کی تپش اور تیکھے پن کی وجہ سے جانور اس فصل کو نقصان نہیں پہنچاتے، ’’لیکن بارش ہی زیادہ نقصان کرتا ہے۔‘‘ تیز بارش سے چھوٹے پھول جھڑ جاتے ہیں، جس سے پیداوار متاثر ہوتی ہے۔
بسنت کہتے ہیں، ’’شاہی مرچ کی کئی قسمیں ہیں۔ ناگالینڈ کی مرچ زیادہ تیکھی ہوتی ہے۔ جو ہم اگاتے ہیں ان کا مسالہ کم ہو گیا ہے۔ ہمارے بچپن میں یہ زیادہ مسالہ دار ہوتی تھی۔‘‘ وہ ہفتے میں دو بار مرچیں توڑتے ہیں اور اس کی ۸-۶ پھلیوں کو ۲۰ روپے میں بیچتے ہیں۔ ان مرچوں سے انہیں ہر ہفتہ تقریباً ۳۰۰ سے ۵۰۰ روپے مل جاتے ہیں۔
بسنت اپنے کھیت پر چائے، تمول (سپاری)، ناشپاتی، تورئی، بھٹ کریلا، کاجی نیمو (آسامی لیموں) اور کچھ دوسری چیزیں بھی اگاتے ہیں۔ ہر جمعرات کو، وہ آسام میں اپنے گاؤں بوکا پوتھر سے ۱۰ کلومیٹر سائیکل چلا کر کنوباڑی آتے ہیں۔ اپنے گھر سے وہ صبح پانچ بجے نکلتے ہیں اور تقریباً ایک گھنٹہ بعد بازار پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں اپنی چھوٹی سی دکان لگانے کے بعد، وہ دوپہر ڈیڑھ بجے تک اپنی تمام مصنوعات کے فروخت ہو جانے کا انتظار کرتے ہیں، اس کے بعد گھر لوٹ جاتے ہیں۔
وہ کھیرباڑی کے اتواری بازار میں بھی اپنی پیداوار فروخت کرتے ہیں، جو چرائیدیو میں ان کے گھر کے قریب ہی ایک چھوٹا سا بازار ہے۔ لیکن وہ خاص طور پر کنوباڑی بازار میں ہی اپنی پیداوار فروخت کرنا پسند کرتے ہیں۔
’’ جب سے ہمیں سمجھنے لگا تب سے یہاں آتے ہیں۔ ایک بار بھی نہیں آئے تو اچھا نہیں لگتا [جب سے ہم نے شعور سنبھالا ہے تب سے یہاں آ رہے ہیں۔ اگر کبھی یہاں نہیں آ پائے، تو ایسا لگتا ہے کہ کچھ چھوٹ گیا ہو]۔‘‘
مترجم: سبطین کوثر