’’ابری جو آئے گا نا ووٹ لینے، تا کہیں گے کہ پہلے پنشن دو،‘‘ لِتتی مرمو کہتی ہیں۔

وہ جھارکھنڈ کے دمکا ضلع کے کُسم ڈیہہ گاؤں کی ایک چھوٹی سی بستی بروٹولا میں اپنے مٹی کے گھر کے باہر دَتّی (چبوترے) پر بیٹھیں پاری سے بات کر رہی ہیں۔

’’اس بار ہم اپنے لیے مکان اور پنشن مانگیں گے،‘‘ ان کے ساتھ بیٹھیں اور پڑوس میں رہنے والی ان کی سہیلی شرمیلا ہیمبرم درمیان میں بول پڑتی ہیں۔

’’وہ بس اسی وقت آتے ہیں،‘‘ وہ سیاسی رہنماوں کا مذاق اڑانے کے انداز میں کہتی ہیں۔ جب وہ انتخابات سے پہلے ظاہر ہوتے ہیں، تو عام طور پر گاؤں کے لوگوں کو پیسے دیتے ہیں۔ شرمیلا کہتی ہیں، ’’وہ لوگ [سیاسی جماعتیں] ہمیں ۱۰۰۰ روپے دیتے ہیں – ۵۰۰ مردوں کے لیے اور ۵۰۰ ہمارے لیے۔‘‘

دونوں خواتین کے لیے یہ رقم کافی اہمیت رکھتی ہے، کیونکہ سرکاری اسکیموں اور سہولیات کا فائدہ انہیں بہت حد تک نہیں ملا ہے۔ لِتَتی کے شوہر کا ۲۰۲۲ میں اچانک انتقال ہو گیا تھا اور شرمیلا کے شوہر ایک ماہ کی بیماری کے بعد ۲۰۲۳ میں گزر گئے تھے۔ دونوں غمزدہ خواتین کا کہنا ہے کہ جب وہ کام کے لیے نکلتی ہیں، تو انہیں ایک دوسرے کا ساتھ رہتا ہے، اور یہ دونوں کے لیے راحت کی بات ہے۔

لِتَتی اور شرمیلا نے اپنے شوہروں کو کھو دینے کے بعد بیوہ پنشن اسکیم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ سروجن پنشن یوجنا اسکیم کے تحت ۱۸ سال سے زیادہ عمر کی بیوہ عورتیں ۱۰۰۰ روپے کے ماہانہ پنشن کی حقدار ہوتی ہیں۔ اس کوشش میں مایوس ہو چکیں لِتَتی کہتی ہیں، ’’ہم نے بہت سے فارم بھرے اور مُکھیا [گاؤں کے سربراہ] کے پاس بھی گئے، لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔‘‘

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Courtesy: Sharmila Hembram

بائیں: جھارکھنڈ کے کُسم ڈیہہ گاؤں میں لتتی کے مٹی کے گھر کے باہر بنی دَتّی (چبوترے) پر بیٹھیں لاکھی ہسرو (بائیں)، لتتی مرمو (درمیان میں) اور شرمیلا ہیمبرم (دائیں)۔ سنتھال قبائلی برادری سے تعلق رکھنے والی لتتی اور شرمیلا یومیہ اجرت پر کام کرنے والی مزدور ہیں۔ دائیں: شرمیلا کے شوہر کی ۲۰۲۳ میں موت واقع ہوگئی تھی۔ انہوں نے سروجن پنشن یوجنا کے تحت بیواؤں کو ملنے والی پنشن اسکیم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، لیکن ناکام رہیں

صرف پنشن ہی نہیں، بلکہ پی ایم اے وائی (پردھان منتری آواس یوجنا) کے تحت آنے والی مرکزی اسکیموں کے تحت ملنے والے گھر سے بھی زیادہ تر قبائلی برادریاں (۴۳ فیصد) بطور خاص سنتھال، پہاڑیہ اور مہلی (مردم شماری ۲۰۱۱) محروم رہی ہیں۔ ’’سر، اس پورے گاؤں میں چکر لگانے کے بعد آپ دیکھیں گے کہ کسی کے پاس کالونی [ پی ایم اے وائی کے تحت ایک گھر] نہیں ہے،‘‘ شرمیلا اپنی بات رکھتی ہیں۔

کسم ڈیہہ سے تقریباً سات کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہِجلا گاؤں کے نیرونی مرانڈی اور ان کے شوہر روبیلا ہنسدا کو کووڈ۔۱۹ کے لاک ڈاؤن سے پہلے اجولا یوجنا اسکیم کے تحت ایک گیس سیلنڈر ملا تھا، لیکن، ’’۴۰۰ روپے کے گیس سیلنڈر کی قیمت اب ۱۲۰۰ روپے ہوگئی ہے۔ ہم اسے کیسے بھریں گے؟‘‘ نیرونی مرانڈی پوچھتی ہیں۔

نل جل یوجنا اور آیوشمان بھارت یوجنا، نیز منریگا کے ذریعے ملنے والی یقینی آمدنی، جیسی دیگر سرکاری اسکیمیں بھی ضلع ہیڈکوارٹر دمکا شہر سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ان کے گاؤں تک نہیں پہنچی ہیں۔ گاؤں میں کئی ہینڈ پمپ خشک ہو چکے ہیں۔ ہِجلا کے ایک رہائشی نے اس رپورٹر کو بتایا کہ ان کے گھروالوں کو پانی لانے کے لیے ایک کلومیٹر دور ندی کنارے پیدل چل کر جانا پڑتا ہے۔

اس کے علاوہ، نوکریوں کا بازار بھی مندا ہے۔ ’’[نریندر] مودی ۱۰ سال سے برسر اقتدار ہیں۔ انہوں نے نوجوانوں کو کتنی نوکریاں دی ہیں؟ بہت ساری سرکاری پوسٹیں خالی پڑی ہیں،‘‘ روبیلا کہتے ہیں، جو یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور ہیں۔ ان کی دو ایکڑ کھیتی کی زمین، جہاں وہ دھان، گندم اور مکئی اُگاتے تھے، شدید خشک سالی کی وجہ سے تین سال سے بے کاشت پڑی ہے۔ ’’ہم پہلے ۱۰ سے ۱۵ فی کلو کے حساب سے چاول خریدتے تھے، اب یہ ۴۰ روپے فی کلو کے حساب سے خریدتے ہیں،‘‘ روبیلا کہتے ہیں۔

روبیلا کئی سالوں سے جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) کے پولنگ ایجنٹ رہے ہیں۔ انہوں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں (ای وی ایم) کو کئی بار خراب ہوتے دیکھا ہے۔ ’’کبھی کبھی مشین میں خرابی آ جاتی ہے۔ اگر آپ ۱۰ سے ۱۱ ووٹ ڈالتے ہیں، تو یہ ٹھیک کام کرتی ہے۔ لیکن بارہویں ووٹ پر غلط کاغذ پرنٹ ہو سکتا ہے،‘‘ روبیلا کہتے ہیں۔ ان کے پاس اس میں بہتری لانے کی ایک تجویز بھی ہے۔ ’’ہونا یہ چاہیے کہ آپ بٹن دبائیے، پیپر لیجئے، اس کی جانچ کر کے مطمئن ہو جائیے اور پھر پیپر کو باکس میں ڈال دیجئے۔ کم و بیش ویسے ہی جیسے پہلے کا طریقہ تھا۔‘‘

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: کسم ڈیہہ گاؤں میں کئی ہینڈ پمپ سوکھ چکے ہیں۔ یہ چند فعال پمپوں میں سے ایک ہے جس سے شرمیلا اور لتتی پانی بھرتی ہیں۔ دائیں: دمکا شہر میں الیکشن کمیشن آف انڈیا کا پوسٹر لوگوں کو ووٹ دینے کی ترغیب دے رہا ہے

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: ہجلا کے رہنے والے روبیلا ہنسدا کہتے ہیں کہ جھارکھنڈ مکتی مورچہ کے رہنما ہیمنت سورین کی گرفتاری کے بعد گاؤں والوں میں غصہ ہے: ’یہ سیاست ہے، اور آدیواسی برادری اسے اچھی طرح سمجھتی ہے۔‘ دائیں: فیملی کو کووڈ۔۱۹ لاک ڈاؤن سے پہلے اجولا یوجنا کے تحت ایک گیس سیلنڈر ملا تھا، لیکن، ’۴۰۰ روپے والے گیس سیلنڈر کی قیمت اب ۱۲۰۰ روپے ہو گئی ہے۔ ہم اسے کیسے بھریں گے؟‘ روبیلا کی بیوی نیرونی مرانڈی کہتی ہیں

یہاں کی لوک سبھا سیٹ درج فہرست قبائل سے تعلق رکھنے والے فرد کے لیے مخصوص ہے۔ جھارکھنڈ میں دمکا سیٹ پر جے ایم ایم کے بانی شیبو سورین کا آٹھ سال تک قبضہ رہا۔ وہ ۲۰۱۹ میں بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کے امیدوار سنیل سورین سے ہار گئے تھے۔ اب بی جے پی کی سیتا سورین جو شیبو سورین کی بڑی بہو ہیں اور جنہوں نے دو مہینے قبل جے ایم ایم چھوڑ کر بی جے پی کا دامن تھاما تھا، جے ایم ایم کے نلین سورین سے مقابلہ کر رہی ہیں۔ جے ایم ایم ’انڈیا اتحاد‘ کا حصہ ہے۔

۳۱ جنوری، ۲۰۲۴ کو جھارکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین کی گرفتاری بھی اس خطہ میں بڑی بے اطمینانی کا سبب ہے۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے انہیں مبینہ زمین گھوٹالہ سے منسلک منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار کیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

روبیلا کہتے ہیں، ’’اس بار ہمارے گاؤں سے ایک ووٹ بھی بی جے پی کو نہیں جائے گا۔ آج آپ کی حکومت ہے، تو آپ نے گرفتار کر لیا۔ یہ سیاست ہے اور آدیواسی اسے اچھی طرح سے سمجھتا ہے۔‘‘

*****

سنتھال قبائلی برادری سے تعلق رکھنے والی لِتتَی اور شرمیلا دونوں تیس سال سے زیادہ کی ہیں اور بے زمین کسان ہیں۔ یہ زرعی سیزن کے دوران ادھیا (بٹائی دار کسان) کے طور پر کام کرتی ہیں اور پیداوار کا ۵۰ فیصد حصہ حاصل کرتی ہیں۔ لیکن گزشتہ تین سالوں سے، شرمیلا کہتی ہیں، ’’ایکو دانا کھیتی نہیں ہوا ہے [ایک بھی دانہ کی کھیتی نہیں ہوئی ہے]۔‘‘ وہ اپنی پانچ بطخوں کے انڈوں کو پانچ کلومیٹر دور دَسورائے ڈیہہ میں مقامی ہفتہ وار ہاٹ (بازار) میں فروخت کرکے اپنی کفالت کرتی ہیں۔

یہ خواتین سال کے باقی دنوں میں عموماً اپنے گاؤں سے چار کلومیٹر دور دمکا شہر میں تعمیراتی مقامات پر کام کرتی ہیں، اور دونوں طرف کے کرایے کے طور پر ٹوٹو (الیکٹرک رکشہ) والے کو ۲۰ روپے ادا کرتی ہیں۔ شرمیلا اس رپورٹر کو بتاتی ہیں، ’’ہم روزانہ ۳۵۰ روپے کماتے ہیں۔  سب کچھ مہنگا ہو گیا ہے۔ ہم کسی طرح سے گزارہ کر رہے ہیں۔‘‘

لِتَتی ان کی باتوں سے اتفاق کرتی ہیں، ’’ہم تھوڑا کماتے ہیں اور تھوڑا کھاتے ہیں،‘‘ وہ اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’اگر کوئی کام نہیں ہے، تو ہمیں ماڑ-بھات [چاول اور پکے ہوئے چاول کا پانی] کھانا پڑتا ہے۔‘‘ خواتین کا کہنا ہے کہ کسی بھی صورت میں ان کے ٹولہ (بستی) میں کوئی کام دستیاب نہیں ہے۔

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: گاؤں میں کوئی کام نہ ہونے اور فیملی کی دیکھ بھال کے لیے، لتتی (بیٹھی ہوئیں) اور شرمیلا (سبز بلاؤز) کام کی تلاش میں دمکا کا سفر کرتی ہیں۔ سال ۲۰۲۲ میں اپنے شوہر کو کھونے والی لتتی کہتی ہیں، ’ہمیں جو بھی کام ملتا ہے کر لیتے ہیں۔‘ دائیں: لتتی اور شرمیلا دمکا ضلع کے کسم ڈیہ کی ایک بستی برتولا میں رہتی ہیں۔ دمکا کی ۴۳ فیصد آبادی قبائلی برادریوں سے تعلق رکھتی ہے اور یہاں کی لوک سبھا سیٹ درج فہرست قبائل کے کسی فرد کے لیے محفوظ ہے

یہاں دمکا ضلع میں قبائلی برادریوں کا انحصار کاشت کاری یا اس سے متعلق کام یا سرکاری اسکیموں پر ہوتا ہے۔ واحد سرکاری اسکیم جس سے کنبے مستفید ہوتے ہیں وہ ہے عوامی تقسیم کے نظام کے ذریعے ملنے والا پانچ کلو راشن۔

ان خواتین کے نام کے لیبر کارڈ نہیں ہیں۔ ’’پچھلے سال کارڈ بنانے والے لوگ آئے تھے، لیکن ہم گھر پر نہیں تھے۔ ہم کام پر گئے تھے. اس کے بعد کوئی واپس نہیں آیا،‘‘ شرمیلا کہتی ہیں۔ کارڈ کے بغیر، وہ مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار گارنٹی (منریگا) کے مقامات پر کام نہیں کرسکتیں۔

’’ہمیں جو بھی کام ملتا ہے کر لیتے ہیں،‘‘ لِتَتی کہتی ہیں اور مزید اضافہ کرتی ہیں، ’’زیادہ ڈھونے کا کام ملتا ہے، کہیں گھر بن رہا ہے، تو اینٹا ڈھو دیے، بالو ڈھو دیے۔‘‘

لیکن اس کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے جیسا کہ شرمیلا کہتی ہے۔ ’’کسی دن کام ملتا ہے، کسی دن نہیں ملتا۔ کبھی کبھی تو آپ کو ہفتہ میں دو یا تین دن کا بھی کام نہیں ملتا ہے۔‘‘ انہوں نے اپنا آخری کام چار دن پہلے کیا تھا۔ لتتی کی طرح شرمیلا بھی اپنے گھر کی واحد کمانے والی رکن ہیں، جہاں وہ اپنے ساس سسراور تین بچوں کے ساتھ رہتی ہیں۔

خواتین کا کام بہت جلد شروع ہو جاتا ہے۔ وہ ٹولے میں موجود واحد فعال ہینڈ پمپ (جو پچاس سے زیادہ گھروں میں پانی کی فراہمی کا ذریعہ ہے) سے پانی لاتی ہیں۔ پھر کھانا پکاتی ہیں اور کدال اور پلاسٹک کی ٹوکریاں لے کر کام کی تلاش میں روانہ ہونے سے پہلے گھر کے دوسرے کاموں کو نمٹاتی ہیں۔ وہ اپنا نتھو بھی ساتھ لے جاتی ہیں، جو سیمنٹ کی بوریوں سے بنا ہوا ایک چھوٹا سا گدا ہوتا ہے جسے وزن اٹھانے سے پہلے وہ اپنے سر پر رکھتی ہیں۔

PHOTO • Ashwini Kumar Shukla
PHOTO • Ashwini Kumar Shukla

بائیں: جب شرمیلا اور ِلتَتی کام پر چلی جاتی ہیں، تو ان کے بچوں کی دیکھ بھال ان کے دادا دادی کرتے ہیں ۔ دائیں: شرمیلا کے گھر کے اندر بچے کھیل رہے ہیں

جب یہ خواتین کام کی تلاش میں دمکا جاتی ہیں، تو ان کے بچوں کی دیکھ بھال ان کے ساتھ رہنے والے ان کے دادا دادی کرتے ہیں۔

’’اگر کوئی کام نہیں ہوتا، تو گھر میں کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ جتنے دن ہم کماتے ہیں، اتنے دن ہی ہم کچھ سبزیاں خرید پاتے ہیں،‘‘ تین بچوں کی ماں لِتَتی کہتی ہیں۔ مئی کے پہلے ہفتہ میں جب وہ سبزی خریدنے بازار گئیں تو آلو کی قیمت ۳۰ روپے فی کلو تھی۔ ’’دام دیکھ کر دماغ خراب ہو گیا،‘‘ وہ شرمیلا کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہتی ہیں۔

’’ہمیں جھاڑو پونچھا جیسا کوئی کام دے دیں،‘‘ لتتی پاری کے اس رپورٹر کو بتاتی ہیں، ’’تاکہ ہمیں ہر روز ادھر ادھر چکر لگانے کی ضرورت نہ پڑے۔ ہمیں ایک جگہ کام مل جائے گا۔‘‘ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ان کے گاؤں میں زیادہ تر لوگ اسی حالت میں ہیں، صرف چند ایک کے پاس ہی  سرکاری نوکری ہے۔

شرمیلا اس بات سے متفق ہیں: ’’نیتا لوگ ووٹ کے لیے آتا ہے، اور چلا جاتا ہے، ہم لوگ ویسے ہی جس کا تس…‘‘

مترجم: شفیق عالم

Ashwini Kumar Shukla

அஷ்வினி குமார் ஷுக்லா ஜார்க்கண்டை சேர்ந்த ஒரு சுயாதீன பத்திரிகையாளரும் புது தில்லியில் இருக்கும் வெகுஜன தொடர்புக்கான இந்திய கல்வி நிறுவனத்தின் பட்டதாரியும் (2018-2019) ஆவார். பாரி- MMF மானியப் பணியாளராக 2023ம் ஆண்டில் இருந்தவர்.

Other stories by Ashwini Kumar Shukla
Editor : Sarbajaya Bhattacharya

சர்பாஜயா பட்டாச்சார்யா பாரியின் மூத்த உதவி ஆசிரியர் ஆவார். அனுபவம் வாய்ந்த வங்க மொழிபெயர்ப்பாளர். கொல்கத்தாவை சேர்ந்த அவர், அந்த நகரத்தின் வரலாற்றிலும் பயண இலக்கியத்திலும் ஆர்வம் கொண்டவர்.

Other stories by Sarbajaya Bhattacharya
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam