عبدل کمار ماگرے کو اپنا آخری پٹّو بُنے ہوئے تقریباً ۳۰ سال گزر چکے ہیں۔ وہ کشمیر کی یخ بستہ سردیوں – جب درجہ حرارت مائنس ۲۰ ڈگری سے بھی نیچے چلا جاتا ہے – سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے مشہور اس اونی کپڑے کو بُننے والے چند آخری بچے ہوئے بُنکروں میں سے ایک ہیں۔
عبدل (۸۲ سالہ) یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’میں ایک دن میں تقریباً ۱۱ میٹر کپڑے کی بُنائی کر لیتا تھا۔‘‘ ان کی آنکھوں کی روشنی اب کافی کمزور ہو گئی ہے۔ کمرے کی دوسری طرف جانے کے لیے وہ اپنے ہاتھ سے دیوار ٹٹولتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ ’’جب میں تقریباً ۵۰ سال کا تھا، تب لگاتار بُنائی کرتے رہنے کی وجہ سے میری آنکھیں کمزور ہونے لگی تھیں۔‘‘
عبدل، داور گاؤں میں رہتے ہیں جس کے پس منظر میں وادی گریز کی حبہ خاتون چوٹی نظر آتی ہے۔ سال ۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق، کل ۴۲۵۳ کی آبادی والا یہ گاؤں بانڈی پورہ ضلع میں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پٹّو کی بُنائی کرنے والا اب کوئی بھی بُنکر نہیں بچا ہے، ’’تقریباً دس سال پہلے گاؤں کے تمام گھروں میں سردیوں کے مہینے میں اس کپڑے کی بُنائی کی جاتی تھی، تاکہ وسنت اور گرمیوں کے موسم میں اسے فروخت کیا جا سکے۔‘‘
کچھ کپڑے جنہیں عبدل اور ان کے خاندان کے لوگ سرینگر اور کچھ دوسری ریاستوں میں بھی بیچتے تھے، ان میں فیرن (جسم پر اوپر سے پہنا جانے والا ایک جبہ نما روایتی کپڑا)، دوپاٹھی (کمبل)، جرابیں اور داستانے شامل ہوتے تھے۔
حالانکہ، اپنے ہنر سے بیحد لگاؤ رکھنے کے باوجود عبدل کے لیے اسے زندہ رکھ پانا بہت مشکل ہو گیا ہے، کیوں کہ تیار اون – جو کہ اس کام کے لیے ضروری خام مال ہے، اب آسانی سے دستیاب نہیں ہے۔ عبدل جیسے بُنکر اون حاصل کرنے کے لیے بھیڑ پالتے تھے، اور پٹّو بنانے کے لیے اُن پالتو بھیڑوں کا اون نکالتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ تقریباً ۲۰ سال پہلے تک اون آسانی سے اور کم قیمت میں مل جاتے تھے، کیوں کہ ان کی فیملی خود بھی ۴۵-۴۰ بھیڑیں پالتی تھی۔ وہ یاد کرتے ہیں، ’’ہمیں اچھا خاصا منافع ہوتا تھا۔‘‘ فی الحال ان کی فیملی کے پاس صرف چھ بھیڑیں ہیں۔
بانڈی پورہ ضلع کی وادی تُلیل میں واقع ڈنگی تھل گاؤں کے رہنے والے حبیب اللہ شیخ اور ان کی فیملی نے پٹّو کا کاروبار تقریباً دس سال پہلے ہی چھوڑ دیا تھا۔ ’’پہلے بھیڑیں پالنا ہماری ثقافت کا حصہ تھا۔ گھر گھر میں ۲۰-۱۵ بھیڑیں ہوا کرتی تھیں، جو گھر کی نچلی منزل میں فیملی کے ساتھ ہی رہتی تھیں۔‘‘
حالانکہ، ۷۰ سالہ غلام قادر لون کے مطابق اب حالات بدل گئے ہیں۔ بانڈی پورہ ضلع میں ہی واقع اچھورا چوروَن گاؤں (جسے شاہ پورہ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) کے باشندہ غلام اُن بنکروں میں ہیں جو ابھی بھی پٹّو بنانے کا کام کرتے ہیں۔ ’’پچھلے دس سالوں میں گریز کے موسم میں تبدیلی آ گئی ہے۔ ابھی سردیوں میں بہت زیادہ ٹھنڈ پڑتی ہے۔ اس وجہ سے اب علاقے میں گھاس کم اُگتی ہے، جو کہ بھیڑوں کا بنیادی چارہ ہے۔ اس لیے لوگوں نے بڑی تعداد میں بھیڑ پالنا بند کر دیا ہے۔‘‘
*****
عبدل کمار نے تقریباً ۲۵ سال کی عمر میں پٹو بُننا شروع کر دیا تھا۔ ’’میں اپنے والد کی مدد کیا کرتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نے اس ہنر کی باریکیاں سیکھیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔ ان کی فیملی کو یہ ہنر وراثت میں ملا ہے، لیکن ان کے تینوں بیٹوں میں سے کسی نے بھی اسے نہیں اپنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’پٹو میں آج بھی اتنی ہی محنت ہے جتنی پہلے تھی، مگر اب منافع نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘
جب عبدل نے بُنائی کا کام شروع کیا تھا، تب ایک میٹر پٹو کا کپڑا ۱۰۰ روپے میں فروخت ہوتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کی قیمت میں بے حساب اضافہ ہوا ہے۔ ابھی ایک میٹر پٹو کی قیمت تقریباً ۷۰۰۰ روپے ہے۔ لیکن تیار مال کی اونچی قیمت ہونے کے بعد بھی بُنکروں کا منافع نہیں کے برابر ہے۔ پٹّو کی سالانہ فروخت سے انہیں جو پیسے ملتے ہیں، ایک سال میں اس سے زیادہ خرچ بھیڑوں کو پالنے میں ہو جاتا ہے۔ اور، ہر سال اس خرچ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
عبدل بتاتے ہیں، ’’پٹّو بُننا بہت باریکی اور صفائی کا کام ہے۔ ایک بھی دھاگہ اگر ادھر سے ادھر ہو جائے تو پوری بُناوٹ خراب ہو سکتی ہے، اور کپڑے کو دوبارہ بُننے کی نوبت آ سکتی ہے۔ لیکن اس کڑی محنت کی اپنی قیمت ہے، کیوں کہ گریز جیسے علاقوں میں، جہاں بہت زیادہ ٹھنڈ پڑتی ہے، اس کپڑے کی گرماہٹ کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔‘‘
بُنکر اون سے دھاگہ بنانے کے لیے لکڑی کی جس تکلی یا چکّو کا استعمال کرتے ہیں وہ سائز میں کم و بیش آدمی کے پنجے کے برابر ہوتا ہے۔ دیکھنے میں چکّو کسی گچھی کے سائز کا ہوتا ہے جس کے دونوں سرے نوکدار ہوتے ہیں۔ اس سے بنائے گئے دھاگے کو ہی کرگھے (جسے مقامی لوگ ’وان‘ کہتے ہیں) پر بُنا جاتا ہے۔
پٹو بُننا ایک اکیلے آدمی کے بس کا کام نہیں ہے۔ عموماً فیملی کے تمام لوگ اس کام میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔ مردوں کا بنیادی کام بھیڑوں سے اون اکٹھا کرنا ہوتا ہے، جب کہ عورتیں اُس اون کو کات کر دھاگہ بناتی ہیں۔ انور لون کہتے ہیں، ’’سب سے مشکل کام ان کا ہی ہوتا ہے، کیوں کہ انہیں گھر کے کام کاج بھی نمٹانے ہوتے ہیں۔‘‘ کرگھے یا وان پر بُنائی کا کام عام طور پر فیملی کے مرد کرتے ہیں۔
درد شین برادری کی زونی بیگم (۸۵ سالہ) وادی کے اُن دو چار بُنکروں میں سے ایک ہیں جنہیں پٹّو بنانے کا ہنر آتا ہے۔ ’’یہ ایک اکلوتی کاریگری ہے جو میں جانتی ہوں،‘‘ وہ مقامی شینا زبان میں بتاتی ہیں۔ ان کے ۳۶ سالہ کسان بیٹے اشتیاق ہمیں ترجمہ کر کے ان کی بات کا مطلب سمجھاتے ہیں۔
’’حالانکہ، پٹّو کا کاروبار اب بند ہو چکا ہے، پھر بھی میں ہر دو چار مہینوں پر ’کھوئی‘ [عورتوں کے ذریعے پہنی جانے والی روایتی ٹوپی] جیسی کچھ چیزیں بناتی رہتی ہوں۔‘‘ اپنے پوتے کو گود میں لیے ہوئے زونی ہمیں چکّو کے استعمال سے بھیڑ کے اون سے دھاگہ کاتنے کا عمل دکھاتی ہیں۔ شینا زبان میں یہ اون ’پشہ‘ کہلاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں نے یہ کام اپنی ماں سے سیکھا ہے۔ مجھے یہ سب کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ جب تک میرے دونوں ہاتھ میرا ساتھ دیں گے، میں اس کام کو کرتی رہوں گی۔‘‘
وادی گریز کے پٹّو بُنکر درد شین (جسے صرف درد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہیں جموں و کشمیر میں درج فہرست قبائل کا درجہ حاصل ہے۔ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے پار سے وادی کے تقریباً متوازی آباد اس برادری کے لوگ پٹّو بُنای کی روایت کو شیئر کرتے ہیں، لیکن انہیں اس کا افسوس ہے کہ مدد کی کمی اور نقل مکانی کے سبب مانگ میں آئی کمی سے یہ ہنر تیزی سے غائب ہوتا جا رہا ہے۔
*****
داور سے تقریباً ۴۰ کلومیٹر دور مشرق میں واقع گاؤں بڈوآب میں انور لون رہتے ہیں۔ وہ اب نوے سال سے زیادہ کی عمر کے ہو چکے ہیں۔ تقریباً ۱۵ سال پہلے اپنے ہاتھوں سے بُنے ایک پٹّو کمبل کو ہمارے سامنے پھیلاتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’میں صبح آٹھ بجے اپنا کام شروع کرتا تھا اور چار بجے شام کو ختم کرتا تھا۔‘‘ پورا دن اپنا کام کرنے کے بعد بھی انور صرف ایک میٹر کپڑا ہی بُن پاتے تھے۔
انور نے پٹو بیچنا تقریباً ۴۰ سال پہلے شروع کیا تھا۔ ’’مقامی سطح پر اور گریز سے باہر بھی اچھی مانگ ہونے کے سبب میرا کاروبار پھلا پھولا۔ میں نے گریز آنے والے کئی غیر ملکی سیاحوں کو اپنا پٹّو بیچا ہے۔‘‘
اچھورا چوروَن (یا شاہ پورہ) میں زیادہ تر لوگوں نے پٹّو کا کاروبار کرنا بند کر دیا ہے۔ لیکن دو سگے بھائی – غلام قادر لون (۷۰ سالہ) اور عبدالقادر لون (۷۱ سالہ) نے پورے جوش و خروش کے ساتھ یہ کام ابھی بھی جاری رکھا ہے۔ سردیاں جب اپنے عروج پر ہوتی ہیں اور وادی کا رابطہ کشمیر کے بقیہ حصوں سے ٹوٹ چکا ہوتا ہے، تب بھی زیادہ تر خاندانوں کی طرح نچلے علاقوں میں جانے کی بجائے دونوں بھائی وادی میں ہی رہ کر بُنائی کرنا بہتر سمجھتے ہیں۔
’’مجھے ٹھیک ٹھیک یاد نہیں کہ میں نے کس عمر سے بُنائی کا کام شروع کیا تھا، لیکن میں تب بہت چھوٹا تھا،‘‘ غلام بتاتے ہیں۔ اپنی بُناوٹ میں ہم چارخانہ اور چشم بلبل جیسے کئی ڈیزائن بنایا کرتے تھے۔‘‘
چارخانہ ایک چیک دار پیٹرن ہوتا ہے، جب کہ چشم بلبل ایک باریک ڈیزائن ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بلبل چڑیا کی آنکھ سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ پٹو کے ان ڈیزائنوں کو بہت احتیاط کے ساتھ بنایا جاتا ہے اور یہ مشین سے بنے کپڑوں کی طرح چکنا نہیں ہوتا ہے۔
غلام کہتے ہیں، ’’وقت کے ساتھ پہناوے کا حساب بھی بدل گیا۔ لیکن پٹو آج بھی ویسا ہی ہے جیسا ۳۰ سال پہلے تھا۔‘‘ دونوں بھائی کہتے ہیں کہ اب انہیں بمشکل منافع ہوتا ہے۔ اب مقامی لوگ ہی ان سے خریداری کرتے ہیں، اور وہ بھی سال دو سال میں ایک بار۔
عبدالقادر کہتے ہیں کہ اب نوجوانوں میں اتنا جوش اور تحمل نہیں ہے کہ وہ اس کاریگری کو سیکھ سکیں۔ ’’مجھے لگتا ہے کہ اگلے دس سال میں پٹو کا نام و نشان ختم ہو جائے گا،‘‘ عبدل کے لہجے میں ایک افسوس کی گونج سنائی دیتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’اسے بچانے کے لیے مدد اور نئی ترکیبوں کی ضرورت ہے، اور یہ سرکار کی مدد سے ہی ممکن ہے۔‘‘
عبدل کمار کے بیٹے رحمٰن، جو داور بازار میں پنساری کی دکان چلاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ بُنائی کا کام اب کوئی بھروسہ مند روزگار نہیں رہا۔ ’’منافع کی بہ نسبت محنت بہت کرنی ہوتی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’اب لوگوں کے پاس کمانے کے ڈھیروں راستے ہیں۔ پہلے یا تو پٹو تھا یا زمینداری تھی۔‘‘
گریز ایک دور افتادہ سرحدی علاقہ ہے، جس پر انتظامیہ کی توجہ نہیں کے برابر ہے، لیکن بُنکروں کا کہنا ہے کہ نئی سہولیات اور مدد اس دم توڑتی ہوئی کاریگری میں نئی جان پھونک سکتی ہے اور اس علاقے کے لوگوں کے لیے آمدنی کے نئے راستے کھول سکتی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز