جیسے جیسے جاڑے کی فصل کے کٹنے کا وقت آ رہا ہے، کرشنا امبولکر روزانہ صبح ۷ بجے ہی گھر گھر جا کر وصولی کے لیے نکل پڑتے ہیں، جائیداد اور پانی پر لگے ٹیکس کی وصولی کی مہم ہے۔
’’یہاں کسان اتنے غریب ہیں کہ دیے گئے ہدف کی ۶۵ فیصد وصولی بھی ایک ناممکن کام لگتا ہے،‘‘ جھمکولی میں تعینات پنچایت کے واحد ملازم کہتے ہیں۔
جھمکولی، ناگپور سے ۷۵ کلومیٹر دور ہے جہاں عام طور پر مانا اور گوواری (درج فہرست قبائل) برادری کے لوگ رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لوگ حاشیہ پر پڑے ہوئے اور سہولیات سے محروم لوگ ہیں، اور چھوٹے کسان ہیں اور خشک زمین پر کھیتی کرتے ہیں۔ اگر ان کے پاس اپنا کنواں یا بورویل ہو، تو یہ کسان کپاس، سویابین، تور اور یہاں تک کہ گیہوں بھی اگاتے ہیں۔ چالیس سال کے کرشنا گاؤں کے واحد شخص ہیں جو دیگر پس ماندہ طبقہ (او بی سی) سے تعلق رکھتے ہیں – وہ ذات کے نہاوی (حجام) ہیں۔
اس سال زراعت کو مرکز میں رکھ کر بجٹ بنائے جانے کے نئی دہلی کے کھوکھلے دعووں اور متوسط طبقہ کو ٹیکس میں دی گئی رعایت کے بارے میں مبینہ جوش و وولہ کے باوجود امبولکر پنچایت کے ٹیکس کی وصولی کی وجہ سے تناؤ میں ہیں۔ دوسری طرف فصل کی قیمتوں میں مندی کو لے کر گاؤں کے کسان الگ فکرمند ہیں۔
کرشنا کی تشویش کو آرام سے سمجھا جا سکتا ہے – اگر ٹیکس وصولی کے اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں وہ ناکام رہے، تو انہیں اپنی تنخواہ کے ۱۱ ہزار ۵۰۰ روپے نہیں مل پائیں گے، جن کو پنچایت کے محصولات کے طور پر وصول کیے جانے والے ساڑھے پانچ لاکھ روپیوں سے آنا ہے۔
’’ہماری لاگت پہلے کے مقابلے بڑھ کر دوگنی یا تین گنی ہو گئی ہے۔ مہنگائی کی مار سیدھے ہماری بچت پر پڑ رہی ہے،‘‘ گاؤں کی سرپنچ شاردا راؤت کہتی ہیں، جو گوواری برادری سے تعلق رکھتی ہیں۔ تقریباً ۴۵ سال کی شاردا فیملی کی دو ایکڑ زمین پر کھیتی کرنے کے علاوہ زرعی مزدور کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔
فصلوں کی قیمت یا تو پہلے جیسے ہے یا اس سے کافی کم ہو چکی ہے۔ سویابین اپنی کم از کم قیمت سے تقریباً ۲۵ فیصد کم قیمت پر ۴۸۵۰ روپے فی کوئنٹل کے حساب سے فروخت ہو رہی ہے۔ کپاس برسوں سے ۷۰۰۰ روپے فی کوئنٹل پر اٹکی ہوئی ہے، اور تور ۷۵۰۰-۷۰۰۰ روپے فی کوئنٹل کی قیمت کے درمیان لٹکی ہوئی ہے۔ یہ ایم ایس پی کی نچلی حد سے تھوڑا ہی زیادہ ہے۔ سرپنچ کا کہنا ہے کہ ایک بھی ایسا خاندان نہیں ہے جو کمائی کے کسی بھی ذریعہ سے سال میں ایک لاکھ سے زیادہ کماتا ہو۔ اتفاق سے یہ وہ رقم ہے جو کم از کم ٹیکس کے دائرے میں آنے والے بچا سکیں گے، ایسا حالیہ مرکزی بجٹ کہتا ہے۔
’’ہم سرکار کے بجٹ کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے ہیں،‘‘ شاردا کہتی ہیں۔ ’’لیکن ہمیں معلوم ہے کہ ہمارا بجٹ ڈوب رہا ہے۔‘‘
ترجمہ نگار: محمد قمر تبریز