مدوملئی ٹائیگر ریزرو میں بھلے ہی آرام کرنے کے لیے آنکھیں بند ہو جائیں لیکن کان کھلے رہتے ہیں۔ پرندے اور دیگر جانور ایسی آوازوں میں بات کرتے ہیں جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ انہیں کے درمیان تمل ناڈو کی نیلگری کی پہاڑیوں میں آباد مختلف قبائل کی زبانیں بھی ہیں۔

بیٹّ کورومب لوگ دریافت کرتے ہیں کہ ’’نلیاوڈوتو‘‘ [آپ کیسے ہیں]؟ تو ایرولر لوگ کہتے ہیں ’’سَندکیتیّا؟‘‘

سوال ایک ہی ہے، لیکن استقبالیہ کلمات مختلف ہیں۔

Left: A Hoopoe bird after gathering some food.
PHOTO • K. Ravikumar
Right: After a dry spell in the forests, there is no grass for deer to graze
PHOTO • K. Ravikumar

بائیں: ایک ہدہد پرندہ کھانا جمع کر رہا ہے۔ دائیں: خشک سالی کے بعد جنگلوں میں ہرن کے چراگاہ سوکھ گئے ہیں

مغربی گھاٹ کے اس جنوبی خطہ میں جانوروں اور انسانوں کی آوازوں کی موسیقی دوسرے مقامات کی گاڑیوں اور مشینوں کے شور سے بالکل مختلف ہے۔ یہ ہمارے گھر کی آوازیں ہیں۔

میں مدوملئی ٹائیگر ریزرو کے اندر آباد پوکاپورم (باضابطہ نام بوکاپورم) گاؤں کی ایک چھوٹی سی گلی میں رہتا ہوں، جسے کُرُمبَر پاڈی کہتے ہیں۔ فروری کے آخر سے مارچ کے شروع تک یہ پرسکون مقام ایک پرشور شہر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مدورئی جیسے بڑے شہر کی طرح  تُونگا نگرم [کبھی نہیں سونے والا شہر] بن جاتا ہے۔ یہ تبدیلی دیوی پوکاپورم مریمّن کے لیے وقف مندر سے وابستہ تقریب کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ چھ دنوں تک یہ قصبہ انسانوں کے انبوہ، جشن اور موسیقی میں ڈوبا رہتا ہے۔ اس کے باوجود جب میں اپنے اُور [گاؤں] کی زندگی کے بارے میں سوچتا ہوں، تو یہ کہانی کا صرف ایک پہلو معلوم ہوتا ہے۔

یہ ٹائیگر ریزرو یا میرے گاؤں کی کہانی نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی شخصیت کی کہانی ہے، جو میری زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ ایک عورت کی کہانی ہے جس نے اپنے شوہر سے علاحدگی کے بعد تنہا پانچ بچوں کی پرورش کی۔ یہ میری ماں کی کہانی ہے۔

Left: Amma stops to look up at the blue sky in the forest. She was collecting cow dung a few seconds before this.
PHOTO • K. Ravikumar
Right: Bokkapuram is green after the monsoons, while the hills take on a blue hue
PHOTO • K. Ravikumar

بائیں: امّاں جنگل میں نیلے آسمان کو دیکھنے کے لیے رکتی ہیں۔ چند سیکنڈ پہلے وہ گائے کا گوبر جمع کر رہی تھیں۔ دائیں: مانسون کے بعد بوکا پورم سرسبز نظر آ رہا ہے، جب کہ پہاڑیوں نے نیلی رنگت اختیار کرلی ہے

*****

میرا اصلی نام کے روی کمار ہے، لیکن میں اپنے لوگوں کے درمیان مارن کے نام سے جانا جاتا ہوں۔ ہماری برادری اپنے آپ کو پِٹاکُورمبر کہتی ہے، لیکن سرکاری طور پر ہماری برادری کا نام بیِٹ کورومبا درج ہے۔

اس کہانی کی ہیروئن میری امّاں [ماں] کا اصلی نام ’میتی‘ ہے۔ ہمارے لوگ بھی انہیں اسی نام سے پکارتے ہیں۔ میرے اپّا [والد] کا نام کرشنن ہے۔ انہیں برادری کے لوگ کیتن کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ میرے پانچ بھائی بہن ہیں۔ ان میں سب سے بڑی بہن چترا (ہماری برادری میں کِرکالی)، بڑے بھائی روی چندرن (مادھن)، دوسری بڑی بہن، ششی کلا (کیتی)، اور چھوٹی بہن کماری شامل ہیں۔ میرے بڑے بھائی اور بڑی بہن شادی شدہ ہیں اور تمل ناڈو کے کڈلور ضلع کے پال واڑی گاؤں میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہتے ہیں۔

میری سب سے پرانی یادیں آنگن واڑی سے وابستہ ہیں، جہاں مجھے امّاں یا اپّا میں سے کوئی لے گیا تھا۔ حکومت کے زیر انتظام چلنے والے بچوں کی نگہداشت کے اس مرکز میں، میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ خوشی، غصہ اور غم ہر طرح کے جذبات کا تجربہ کیا۔ سہ پہر ۳ بجے تک میرے والدین مجھے واپس گھر لاتے تھے۔

شراب نوشی کی علت سے قبل میرے اپّا کا رویہ بہت ہی شفقت آمیز تھا، لیکن جب انہوں نےشراب نوشی شروع کر دی تو وہ غیر ذمہ دار اور متشدد ہو گئے۔ ’’ان کی بری صحبت ہی ان کے رویے کی وجہ ہے،‘‘ میری ماں کہا کرتی ہیں۔

Left: My amma, known by everyone as Methi.
PHOTO • K. Ravikumar
Right: Amma is seated outside our home with my sister Kumari and my niece, Ramya
PHOTO • K. Ravikumar

بائیں: میری اماں، جنہیں ہر شخص میتی کے نام سے جانتا ہے۔ دائیں: اماں ہمارے گھر کے باہر میری بہن کماری اور میری بھانجی رامیا کے ساتھ بیٹھی ہیں

مجھے اپنے گھر میں کشیدگی کی پہلی یاد وہ ہے جب ایک دن اپا نشہ کی حالت میں گھر آئے تھے اور اماں پر چیخنے چلانے لگے تھے۔ انہوں نے اماں کی پٹائی کی اور ان کے والدین اور بہن بھائیوں (جو اس وقت ہمارے ساتھ تھے) نے سخت سست کہا۔ مجبوراً انہوں نے اپا کی توہین آمیز باتیں سن لیں اور نظر انداز کرنے کی کوشش کیں۔ اب ایسی کشیدگی روزانہ کا معمول بن چکی تھی۔

جب میں دوسری کلاس میں تھا، تو اس وقت کا ایک واقعہ مجھے واضح طور پر یاد ہے۔ ہمیشہ کی طرح، اپا نشہ اور غصہ کی حالت میں گھر آئے تھے۔ انہوں اماں کو مارا، پھر ہم بھائی بہنوں کی پٹائی کی، اور ہمارے تمام کپڑے اور سامان سڑک پر پھینک دیے۔ پھر ہمیں اپنے گھر سے نکل جانے کو کہا۔ اس رات ہم سڑک پر اپنی ماں سے ایسے لپٹے تھے جیسے جانوروں کے چھوٹے بچے سردیوں میں گرمی کی تلاش میں اپنی ماؤں سے لپٹتے ہیں۔

چونکہ جی ٹی آر مڈل اسکول (قبائلی سرکاری ادارہ، جہاں ہم گئے تھے) میں قیام اور طعام کی سہولیات موجود تھیں، اس لیے میرے بڑے بھائی بہن نے وہیں رکنے کا فیصلہ کیا۔ ایسا لگتا تھا کہ ان دنوں ہمارے پاس جس چیز کی افراط تھی وہ ہماری آہیں تھیں اور ہمارے آنسو تھے۔ ہم اپنے گھر میں ہی رہے، جب کہ اپا وہاں سے چلے گئے۔

لیکن ہمیشہ خوف زدہ رہتے تھے کہ معلوم نہیں کہ کب اگلی لڑائی شروع ہو جائے۔ ایک رات اپا پر کا شراب کا نشہ اس قدر چڑھا کہ وہ امّاں کے بھائی سے بھڑ گئے۔ انہوں نے چاقو کے وار سے میرے ماموں کے ہاتھ کاٹنے کی کوشش کی۔ خوش قسمتی سے چاقو کند تھا، اس لیے زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ فیملی کے دیگر افراد نے مداخلت کرتے ہوئے اپا کو قابو میں کیا۔ اس افراتفری میں میری چھوٹی بہن، جسے اماں نے پکڑ رکھا تھا، گر گئی اور اس کے سر پر چوٹ آئی۔ میں کچھ کرسکنے سے قاصر وہاں جو کچھ ہو رہا تھا اسے بے بسی سے کھڑا دیکھ رہا تھا۔

اگلی صبح سامنے صحن میں میرے ماموں اور اپا کے خون کے سرخ سیاہ دھبے پھیلے ہوئے ملے تھے۔ آدھی رات کو میرے والد لڑکھڑاتے ہوئے گھر آئے اور مجھے اور پھر میری بہن کو میرے دادا کے گھر سے گھسیٹتے ہوئے باہر کھیتوں کے درمیان اپنے چھوٹے سے کمرے میں لے گئے۔ کچھ مہینوں بعد میرے والدین ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔

Left: My mother cutting dry wood with an axe. This is used as firewood for cooking.
PHOTO • K. Ravikumar
Right : The soft glow of the kerosene lamp helps my sister Kumari and my niece Ramya study, while our amma makes rice
PHOTO • K. Ravikumar

بائیں: میری ماں کلہاڑی سے سوکھی لکڑی کاٹ رہی ہیں، جو کھانا پکانے کے لیے ایندھن کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ دائیں: مٹی کے تیل کے چراغ کی مدھم روشنی میں میری بہن کماری اور میری بھانجی رمیا پڑھائی کر رہی ہیں، جبکہ ہماری اماں چاول چن رہی ہیں

گُڈلور کے فیملی کورٹ میں، میں نے اور میرے بہن بھائیوں نے اپنی اماں کے ساتھ رہنے کی خواہش ظاہر کی۔ کچھ مدت کے لیے ہم اپنے نانا نانی کے ساتھ خوشی خوشی رہے۔ ان کا گھر بھی اسی گلی میں تھا جس میں ہمارے والدین کا گھر تھا۔

لیکن ہماری خوشی قلیل مدتی ثابت ہوئی کیونکہ ہم مشکل میں تھے۔ پیٹ بھرنا ایک مسئلہ بن گیا۔ چالیس کلو کا جو راشن میرے نانا کو ملتا تھا وہ ہم سب کے لیے ناکافی تھا۔ ہماری بھوک مٹانے کے لیے میرے نانا اکثر خالی پیٹ سوتے تھے۔ مایوسی کا یہ عالم تھا کہ ہمارا پیٹ بھرنے کے لیے وہ کبھی کبھی مندروں سے پرسادم (مقدس کھانا) لایا کرتے تھے۔ یہ وہی وقت تھا جب اماں نے مزدوری کا کام کرنے کا فیصلہ کیا۔

*****

اماں نے تیسری جماعت میں پڑھائی چھوڑ دی تھی کیونکہ ان کی فیملی تعلیمی اخراجات برداشت کرنے سے قاصر تھی۔ انہوں نے اپنا بچپن اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال میں گزارا، اور ۱۸ سال کی عمر میں ان کی شادی میرے والد سے کر دی گئی۔

اپا پوکاپورم سے ۱۰ کلومیٹر دور نیلگری کے گڈلور بلاک میں واقع سنگارا گاؤں کے ایک بڑے کافی اسٹیٹ میں کینٹین کے لیے لکڑیاں اکٹھا کرتے تھے۔

ہمارے علاقہ کے تقریباً سبھی لوگ وہاں کام کرتے تھے۔ شادی شدہ ہونے کی وجہ سے میری والدہ ہماری دیکھ بھال کے لیے گھر پر ہی رہتی تھیں۔ اپنے شوہر سے علیحدگی کے بعد وہ سنگارا کافی اسٹیٹ میں بطور دہاڑی مزدور شامل ہو گئیں، جہاں انہیں روزانہ ۱۵۰روپے کی اجرت ملتی تھی۔

Left: After quitting her work in the coffee estate, amma started working in her friends' vegetable garden.
PHOTO • K. Ravikumar
Right: Here, amma can be seen picking gourds
PHOTO • K. Ravikumar

بائیں: کافی اسٹیٹ کا کام چھوڑنے کے بعد اماں نے اپنے دوستوں کے سبزیوں کے کھیتوں میں کام کرنا شروع کیا۔ دائیں: یہاں اماں کو لوکی توڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے

وہ روزانہ صبح ۷ بجے دھوپ اور بارش کی پرواہ کیے بغیر کام پر نکل جاتی تھیں۔ میں نے ان کے ساتھی مزدوروں کو یہ کہتے سنا ہے، ’’وہ دوپہر کے کھانے کے وقفوں کے دوران بھی کبھی آرام نہیں کرتی۔‘‘ تقریباً آٹھ سال تک انہوں نے اس کمائی سے اپنا گھر چلایا۔ میں نے انہیں شام کو ۷:۳۰ بجے کام سے واپس آتے دیکھا ہے۔ بعض اوقات ان کی ساڑی مکمل طور پر گیلی ہو چکی ہوتی تھی، اور وہ کانپ رہی ہوتی تھیں، لیکن اپنا سر ڈھانپنے کے لیے ان کے پاس ایک گیلے تولیہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ بارش کے دنوں میں جب ہماری چھت کئی جگہوں سے ٹپکتی، تو وہ پانی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے کبھی اس کونے میں، کبھی اس کونے میں برتن رکھتی جاتی تھیں۔

میں اکثر آگ سلگانے میں ان کی مدد کرتا، اور پھر گھر والے وہاں بیٹھتے اور ہر رات ۱۱ بجے تک ایک دوسرے سے باتیں کرتے۔

کسی کسی رات جب ہم بستر پر لیٹتے، تو ہمارے سونے سے پہلے وہ ہم سے اپنی پریشانیوں کا ذکر کرتی تھیں۔ کبھی کبھی انہیں یاد کر کے وہ رو بھی پڑتی تھیں۔ اگر ہم ان کی روداد سن کر رونے لگتے تو وہ فوراً ہمارا دھیان ہٹانے کے لیے کوئی لطیفہ چھیڑ دیتیں۔ کیا اس دنیا میں کوئی ماں ہے جو اپنے بچوں کا رونا برداشت کر سکے؟

Before entering the forest, amma likes to stand quietly for a few moments to observe everything around her
PHOTO • K. Ravikumar

جنگل میں داخل ہونے سے پہلے اماں اپنے گرد و پیش کا مشاہدہ کرنے کے لیے چند لمحے خاموشی سے کھڑے رہنا پسند کرتی ہیں

اور پھر میری ماں کے آجروں کے ذریعہ چلائے جانے والے مسینا گوڈی میں واقع سری شانتی وجیہ ہائی اسکول میں میرا داخلہ ہو گیا۔ یہ اسکول مزدوروں کے بچوں کے لیے بنا تھا۔ وہاں جا کر مجھے جیل کی طرح گھٹن محسوس ہوئی۔ میری التجا کے باوجود اماں بضد تھیں کہ میں وہیں رہوں، جب میں زیادہ ضد کرتا تو میری پٹائی بھی ہو جاتی تھی۔ پھر ہم اپنے نانا نانی کے گھر سے نکل کر اپنی سب سے بڑی بہن چترا کے سسرال کے دو کمروں کی ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں منتقل ہو گئے۔ اس دوران جی ٹی آر مڈل اسکول میں میری چھوٹی بہن کی تعلیم جاری رہی۔

جب میری بہن ششی کلا کو ۱۰ویں جماعت کے امتحانات میں زبردست دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں نے گھریلو کاموں کو سنبھال کر میری ماں کا کچھ بوجھ ہلکا کرنے کے لیے پڑھائی چھوڑ دی۔ ایک سال بعد ششی کلا کو تروپور کی ٹیکسٹائل کمپنی میں نوکری مل گئی۔ وہ سال میں ایک یا دو بار ہم سے ملنے آتی تھیں۔ پانچ سال تک ان کو ملنے والی ۶۰۰۰ روپے ماہانہ تنخواہ سے ہماری مدد ہوتی رہی۔ میں اور اماں ہر تین ماہ بعد ان سے ملنے جاتے اور وہ ہمیشہ اپنے بچائے ہوئے پیسے ہمیں دے دیتی تھیں۔ میری بہن کے کام کرنے کے ایک سال بعد، میری ماں نے کافی اسٹیٹ کا کام چھوڑ دیا۔ انہوں نے اپنا بہت سا وقت میری بڑی بہن چترا کے بچے اور گھر کی دیکھ بھال کے لیے وقف کر دیا۔

میں سری شانتی وجیہ ہائی اسکول سے ۱۰ویں جماعت مکمل کرنے میں کامیاب ہوا اور ہائر سیکنڈری کے لیے کوٹگیری گورنمنٹ بورڈنگ اسکول چلا گیا۔ مجھے بہتر مواقع فراہم کرنے کے لیے پرعزم میری والدہ نے میرے تعلیمی اخراجات پورا کرنے کے لیے گوبر کے اپلے فروخت کیے۔

اپا نے ہم سے علاحدگی اختیار کرنے سے پہلے ہمارا گھر تباہ کر دیا اور بجلی منقطع کر دی۔ بجلی کے بغیر ہم نے شراب کی بوتلوں سے بنے مٹی کے تیل کے چراغ استعمال کیے، بعد میں ان کی جگہ دو سیمبو [تانبے کے] لیمپ آگئے۔ ان چراغوں نے دس سال تک ہماری زندگیوں کو روشن کیا۔ جب میں ۱۲ویں کلاس میں تھا تو ہمارے گھر میں بجلی دوبارہ بحال ہوئی تھی۔

میری والدہ کو اپنے گھر میں بجلی بحال کرنے میں بہت کچھ برداشت کرنا پڑا۔ نوکر شاہی کا مقابلہ کرنا پڑا اور بجلی سے اپنے خوف پر قابو پانا پڑا۔ جب وہ تنہا ہوتی ہیں تو سبھی لائٹیں بند کر دیتی ہیں اور صرف لیمپ کا استعمال کرتی ہیں۔ جب میں نے ان سے بجلی سے خوف کی وجہ پوچھی تو انہوں نے ایک واقعہ سنایا۔ انہوں نے سنا تھا کہ سنگارا میں ایک عورت بجلی کے جھٹکے سے مر گئی تھی۔

Left: Our old house twinkling under the stars.
PHOTO • K. Ravikumar
Right: Even after three years of having an electricity connection, there is only one light bulb inside our house
PHOTO • K. Ravikumar

بائیں: ٹمٹماتے ہوئے ستاروں کے نیچے ہمارا پرانا گھر ۔ دائیں: بجلی کا کنکشن بحال ہونے کے تین سال بعد بھی ہمارے گھر میں صرف ایک ہی بلب جلتا ہے

اپنی اعلیٰ تعلیم کے لیے میں نے ضلع ہیڈکوارٹر، اُدگ منڈلم (اوٹی) کے آرٹس کالج میں داخلہ لیا۔ میری والدہ نے میری فیس بھرنے، کتابیں اور کپڑے خریدنے کے لیے قرض لیے۔ ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے وہ سبزی کے کھیتوں میں کام کرتی تھیں اور گوبر کے اپلے جمع کرتی تھیں۔ شروع میں انہوں نے مجھے پیسے بھیجے، لیکن میں نے جلد ہی ایک کیٹرنگ سروس میں پارٹ ٹائم کام کرنا شروع کر دیا تاکہ اپنی کفالت کرسکوں اور کچھ پیسے گھر واپس بھیج سکوں۔ میری والدہ، جن کی عمر اب ۵۰ سال سے تجاوز کر چکی ہے، نے کبھی کسی سے مالی مدد نہیں مانگی۔ وہ ہر وقت کام کرنے کے لیے تیار رہتی ہیں، خواہ کوئی بھی کام ہو۔

جب میری سب سے بڑی بہن کے بچے کچھ بڑے ہوئے، تو میری ماں انہیں آنگن واڑی مرکز میں چھوڑ کر جنگل سے گائے کا خشک گوبر جمع کرنے چلی جاتی تھیں۔ وہ پورے ہفتے گوبر اکٹھا کرتیں اور ۸۰ روپے فی بالٹی فروخت کرتیں۔ وہ صبح ۹ بجے گھر سے نکل کر ۴ بجے شام تک ہی واپس آتیں، دوپہر کے کھانے کے لیے جنگلی پھل جیسے کدلیپڑم (ایک کیکٹس کا پھل) پر گزارہ کرتیں۔

جب میں نے پوچھا کہ اتنا کم کھانے کے باوجود وہ کیسے اتنی توانا رہتی ہیں، تو انہوں نے کہا کہ ’’میں بچپن میں جنگلوں اور جنگلی کھیتوں سے بہت زیادہ پھلوں کے گودے، پتوں والی سبزیاں اور قند کھاتی تھی۔ ان دنوں جو کھانا میں کھاتی تھی وہ آج کی توانائی کا سبب ہیں۔‘‘ وہ جنگلی پتوں والی سبزیاں پسند کرتی ہیں! میں نے اپنی ماں کو چاول کی پتلی کھچڑی پر زندہ رہتے دیکھا ہے، اس میں صرف نمک اور گرم پانی ہوتا تھا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ میں نے اماں کو یہ کہتے ہوئے کم ہی سنا ہے کہ ’’مجھے بھوک لگی ہے۔‘‘ وہ ہمیشہ ہم بچوں کو کھاتے دیکھ کر مطمئن نظر آتی تھیں۔

گھر میں ہمارے پاس تین کتے ہیں: دیا، ڈیو اور راساتی، اور کچھ بکریاں بھی ہیں جن کے نام ان کی جلد کے رنگوں پر رکھا گیا ہے۔ یہ جانور ہماری فیملی کا اتنا ہی حصہ ہیں جتنا ہم ہیں۔ امّاں ان کا ویسے ہی خیال رکھتی ہیں جیسے ہمارا خیال رکھتی ہیں، اور وہ بھی ان سے اتنی ہم محبت کرتے ہیں۔ ہر صبح، وہ بکریوں کو سبز پتوں والی سبزیاں اور ابلے ہوئے چاولوں کا پانی کھلاتی اور پانی دیتی ہیں۔

Left: Amma collects and sells dry cow dung to the villagers. This helped fund my education.
PHOTO • K. Ravikumar
Right: The dogs and chickens are my mother's companions while she works in the house
PHOTO • K. Ravikumar

بائیں: اماں گائے کا خشک گوبر اکٹھا کر کے گاؤں والوں کو فروخت کرتی ہیں۔ اس سے میرے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے میں مدد ملتی تھی۔ دائیں: جب میری ماں گھر میں کام کرتی ہیں تو کتے اور بکریاں ان کے ساتھی رہتی ہیں

Left: Amma taking the goats into the forest to graze.
PHOTO • K. Ravikumar
Right: Amma looks after her animals as if they are her own children.
PHOTO • K. Ravikumar

بائیں: اماں بکریوں کو چرانے کے لیے جنگل لے جا رہی ہیں۔ دائیں: اماں اپنے جانوروں کی دیکھ بھال ایسے کرتی ہیں جیسے وہ ان کے اپنے بچے ہوں

میری والدہ انتہائی مذہبی خاتون ہیں، وہ اپنے روایتی دیوتا سے زیادہ جڈ سامی اور ایپّن سے عقیدت رکھتی ہیں۔ ہفتے میں ایک بار وہ گھر کی اچھی طرح صفائی کرتی ہیں اور جڈ سامی مندر جاتی ہیں، اور ان دیوتاؤں کے ساتھ اپنی اندرونی جدوجہد کا اشتراک کرتی ہیں۔

میں نے کبھی اپنی ماں کو اپنے لیے ساڑی خریدتے نہیں دیکھا۔ ان کے پاس موجود ہر ساڑی (مجموعی طور پر صرف آٹھ) میری خالہ اور بڑی بہن کی جانب سے تحفے میں ملی ہے۔ وہ بغیر کسی شکایت یا توقع کے انہیں بار بار پہنتی ہیں۔

گاؤں کے لوگ میرے گھر کے اندر ہونے والی مسلسل لڑائی پر خوش گپیاں کیا کرتے تھے۔ آج انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ میں اور میرے بہن بھائی اپنی روزمرہ کی جدوجہد کے باوجود اپنی زندگی میں اتنی کامیابی کیسے حاصل کرلی۔ مقامی لوگ اب میری والدہ کو مبارکباد دیتے ہیں کہ انہوں نے ہماری پرورش کا بھاری بوجھ ہمیں بغیر احساس دلائے اٹھایا۔

اب مجھے خوشی ہوتی ہے کہ اماں نے مجھے سری شانتی وجیہ ہائی اسکول جانے پر مجبور کیا۔ یہیں سے میں نے انگریزی سیکھی۔ اگر یہ اسکول اور اماں کی ضد شامل حال نہ ہوتی تو میری اعلیٰ تعلیم میں مشکلیں پیش آ سکتی تھی۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں کبھی بھی اپنی اماں کے کیے کا بدلہ چکا سکوں گا۔ میں زندگی بھر ان کا مقروض رہوں گا۔

دن کے اختتام پر جب آرام کرنے کے لیے امّاں اپنی ٹانگیں پھیلاتی ہیں، تو میں ان کے پاؤں کی طرف دیکھتا ہوں۔ وہ پیر جنہوں نے ہر حال میں برسوں تک محنت کی ہے، خواہ وہ کام ان سے گھنٹوں پانی میں کھڑا رہنے کا مطالبہ کیوں نہ کرتا ہو۔ اکثر ایسا ہوتا بھی تھا۔ ان کے پاؤں اب بھی خشک بنجر زمین سے ملتے جلتے ہیں، جن پر کئی دراڑیں ہیں۔ انہیں دراڑوں نے ہماری پرورش کی ہے۔

No matter how much my mother works in the water, her cracked feet look like dry, barren land
PHOTO • K. Ravikumar

میری ماں پانی میں کھڑی ہو کر چاہے جتنی دیر کام کرلیں، لیکن ان کی پھٹی ہوئی ایڑیاں خشک، بنجر زمین کی طرح دکھائی دیتی ہیں

مترجم: شفیق عالم

K. Ravikumar

ரவிகுமார் .கே, முதுமலை புலிகள் சரணாலயத்திலுள்ள பொக்காபுரம் கிராமத்தை சேர்ந்தவர். புகைப்படக் கலைஞர் மற்றும் ஆவணப்பட இயக்குநராகும் விருப்பத்தில் இருப்பவர். பாரி புகைப்படக் கலைஞரான பழனி குமார் நடத்தும் பழனி ஸ்டுடியோவில் புகைப்படக் கலை பயின்றவர். பெட்டகுரும்பர் பழங்குடி மக்களின் வாழ்க்கைகளை ஆவணப்படுத்துவதுதான் ரவியின் விருப்பம்.

Other stories by K. Ravikumar
Editor : Vishaka George

விஷாகா ஜார்ஜ் பாரியின் மூத்த செய்தியாளர். பெங்களூருவை சேர்ந்தவர். வாழ்வாதாரங்கள் மற்றும் சூழலியல் சார்ந்து அவர் எழுதி வருகிறார். பாரியின் சமூக தளத்துக்கும் தலைமை தாங்குகிறார். கிராமப்புற பிரச்சினைகளை பாடத்திட்டத்திலும் வகுப்பறையிலும் கொண்டு வரக் கல்விக்குழுவுடன் பணியாற்றுகிறார். சுற்றியிருக்கும் சிக்கல்களை மாணவர்கள் ஆவணப்படுத்த உதவுகிறார்.

Other stories by Vishaka George
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam