’’سیمنٹ چا جنگل آچ جھالیلا [یہ پوری طرح سے سیمنٹ کے ایک جنگل میں تبدیل ہو چکا ہے]،‘‘ کولہاپور ضلع کے اُچگاؤں کے کاشتکار سنجے چوہان کہتے ہیں۔ گزشتہ دس برسوں میں اُچگاؤں میں کارخانوں کی تعداد اور صنعت و کاروبار میں جتنی تیزی سے اضافہ ہوا ہے اتنی ہی تیزی سے زیر زمین پانی کی سطح بھی کم ہوئی ہے۔
’’ہمارے کنوؤں کا پانی اب خشک ہو چکا ہے،‘‘ ۴۸ سالہ سنجے کہتے ہیں۔
گراؤنڈ واٹر ایئر بُک آف مہاراشٹر (۲۰۱۹) کے مطابق، ریاست کے کئی حصوں میں تقریباً ۱۴ فیصد کنوؤں کا پانی کافی حد تک خشک ہو گیا ہے۔ متاثرہ علاقوں میں کولہاپور، سانگلی اور ستارا کے نام قابل ذکر ہیں۔ کنواں کھودنے والے ٹھیکہ دار، رتن راٹھوڑ بتاتے ہیں کہ گزشتہ دو دہائیوں میں کنوؤں کی اوسط گہرائی ۳۰ فٹ سے بڑھ کر ۶۰ فٹ تک جا پہنچی ہے۔
سنجے کے مطابق، اب اُچگاؤں کے ہر گھر میں ایک بورویل ہے۔ اسی لیے زمین کا پانی بہت تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ ’’بیس سال پہلے اُچگاؤں میں صرف ۲۰-۱۵ بورویل ہی تھے۔ آج ان کی تعداد ۷۰۰ سے ۸۰۰ کے درمیان ہے،‘‘ اُچگاؤں کے سابق نائب سرپنچ مدھوکر چوہان بتاتے ہیں۔
اچگاؤں میں پانی کی روزانہ کھپت ۲۵ سے ۳۰ لاکھ لیٹر تک ہے، لیکن ’’[…] گاؤں کو ہر دوسرے دن صرف ۱۲-۱۰ لاکھ لیٹر پانی ہی مل پاتا ہے،‘‘ مدھوکر کہتے ہیں۔ ان کے مطابق، حالت یہ ہو گئی ہے کہ کسی بھی دن پانی کا بڑا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔
یہ فلم ان کسانوں کی زندگی پر مرکوز ہے جو کولہا پور میں زیر زمین پانی کی کم ہوتی سطح سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز