یہ جادو کے کسی انوکھے کھیل کی طرح ہے۔ ڈی فاطمہ اپنی دکان کے پچھلے حصے میں رکھے گئے ایک نیلے ڈبے کو کھول کر اس میں سے ایک ایک کر کے اپنا خزانہ نکالتی ہیں۔ اس میں رکھی ہوئی سبھی مچھلیاں کسی آرٹ جیسی نظر آتی ہیں – بڑی اور وزنی مچھلیاں، جو کبھی توتوکوڈی سے دور گہرے سمندر میں تیرتی ہوں گی، لیکن جنہیں اب ہنرمند ہاتھوں، نمک اور کڑی دھوپ کی مدد سے سُکھا کر محفوظ کر لیا گیا ہے۔
فاطمہ (۶۴ سالہ) ایک کٹّ پارئی مین (رانی مچھلی) اٹھاتی ہیں اور انہیں اپنے چہرے کے قریب لاتی ہیں۔ مچھلی کی لمبائی ان کے ان کے خود کے قد سے آدھی ہے اور اس کی گردن ان کے ہاتھوں کے برابر چوڑی ہے۔ مچھلی کے منھ سے لے کر اس کی پونچھ تک کاٹے جانے کا گہرا نشان ہے، جہاں سے انہوں نے نمک بھرنے سے پہلے ایک دھار دار چاقو کی مدد سے گوشت کو چیر کر اندر کی سبھی آنتیں اور دوسرے اندرونی حصے نکال دیے ہیں۔ نمک بھری ہوئی ایک کٹّ پارئی کو اتنی سخت دھوپ میں سوکھنے کے لیے ڈالا گیا ہے، جو کسی بھی چیز کو خشک کر دینے کا مادّہ رکھتی ہے – چاہے وہ مچھلی ہو، زمین ہو یا پھر جیتا جاگتا آدمی ہو…
ان کے چہرے اور ہتھیلیوں کی لکیریں اس مشکل کہانی کو بیان کرتی ہیں۔ یہ کسی اور دور کی کہان ہے – اُس دور کی جب ان کی آچی (دادی) مچھلیوں میں نمک لگانے اور انہیں بیچنے کا کام کرتی تھیں۔ وہ شہر بھی کوئی اور تھا اور وہ راستے بھی کوئی اور تھے۔ تب سڑک کے بغل سے بہنے والی نہر چند فٹ ہی چوڑی ہوا کرتی تھی۔ اس نہر کے ٹھیک بغل میں ان کا پرانا گھر تھا۔ لیکن ۲۰۰۴ میں آئی سونامی نے ان کے اور آس پاس کے سبھی گھروں کو نیست و نابود کر دیا۔ حالانکہ، ان سے نئے گھر کا وعدہ کیا گیا، لیکن ایک مشکل تھی۔ نیا گھر ’’رومبھ دورم [بہت دور]‘‘ تھا۔ فاصلہ کو انداز سے بتانے کے لیے وہ اپنے سر کو ایک طرف جھکاتی ہوئی اشارتاً اپنا ایک ہاتھ اوپر اٹھاتی ہیں۔ بس سے انہیں تقریباً آدھا گھنٹہ کا وقت لگتا تھا، اور انہیں مچھلی خریدنے کے لیے ویسے بھی سمندری ساحل پر آنا ہی پڑتا تھا۔
نو سال بعد فاطمہ اور ان کی بہنیں اپنے پرانے محلے تیریسپورم پھر سے لوٹ آئیں، جو توتوکوڈی شہر کا باہری علاقہ ہے۔ ان کا گھر اور دکان – دونوں اس نہر کے بغل میں ہیں جسے اب چوڑا کر دیا گیا ہے، جس کا پانی اب بہت دھیمی رفتار میں بہتا ہے۔ دوپہر کافی خاموش اور پرسکون ہے – اتنی ہی خاموش اور پرسکون جتنی یہ سوکھی ہوئی مچھلیاں ہیں۔ ان عورتوں کی نمک اور دھوپ میں ڈوبی ہوئی زندگی انھیں پر منحصر ہے۔
شادی سے پہلے فاطمہ اپنی دادی کے مچھلی کے کاروبار میں ہاتھ بٹاتی تھیں۔ تقریباً بیس سال پہلے اپنے شوہر کی موت کے بعد وہ اس کاروبار میں دوبارہ لوٹ آئیں۔ فاطمہ کو وہ منظر یاد ہے جب صرف آٹھ سال کی عمر میں وہ جال سے ساحل پر اتاری گئی مچھلیوں کے انبار دیکھا کرتی تھیں۔ وہ مچھلیاں اتنی تازہ ہوا کرتی تھیں کہ پانی سے نکالے جانے کے بعد بھی ان کے اندر دیر تک جان باقی رہتی تھی، جس کی وجہ سے وہ دیر تک تڑپتی رہتی تھیں۔ تقریباً ۵۶ سال بعد اب ان کی جگہ ’’ آئس مین (مچھلی)‘‘ نے لے لی ہے، وہ بتاتی ہیں۔ اب کشتیاں برف لاد کر سمندر میں جاتی ہیں اور واپسی میں اسی برف میں پیک مچھلیوں کے ساتھ ساحل پر لوٹ آتی ہیں۔ بڑی مچھلیوں کی فروخت لاکھوں روپے میں ہوتی ہے۔ ’’اُس زمانے میں، ہم آنے اور پیسے میں کاروبار کرتے تھے۔ سو روپے بڑی رقم ہوا کرتی تھی، اب ہزاروں اور لاکھوں میں یہ کاروبار ہوتا ہے۔‘‘
ان کی آچی کے زمانے میں عورتیں کہیں بھی بلا روک ٹوک گھوما کرتی تھیں۔ ان کے سر پر تاڑ کے پتّے کی ٹوکریوں میں سوکھی ہوئی مچھلیاں بھری ہوتی تھیں، اور ’’وہ آرام سے ۱۰ کلومیٹر تک پیدل گھومتی ہوئی پٹّی کاڈو [چھوٹی بستیوں] میں اپنا مال بیچا کرتی تھیں۔‘‘ اب وہ المونیم کے برتن میں اپنی سوکھی مچھلیوں کو رکھتی ہیں اور انہیں بیچنے کے لیے بسوں سے آتی جاتی ہیں۔ اب وہ آس پاس کے گاؤوں کے ساتھ ساتھ پڑوس کے بلاکوں اور ضلعوں تک چلی جاتی ہیں۔
’’کورونا سے پہلے ہم ترونیل ویلی روڈ اور تروچیندور روڈ کے گاؤوں تک جایا کرتے تھے،‘‘ پاری نے اگست ۲۰۲۲ میں جب فاطمہ سے ملاقات کی تھی، تب انہوں نے اپنے ہاتھ سے ہوا میں ایک خیالی نقشہ بناتے ہوئے ہمیں سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ ’’اب ہر پیر کے دن صرف ایرال قصبہ کے سنتئی [ہفتہ واری بازار] تک ہی جاتے ہیں۔‘‘ وہ اپنے سفر کا حساب جوڑ کر بتاتی ہیں: بس ڈپو تک آٹو سے آنے جانے کا کرایہ اور بس میں باسکیٹ رکھنے کے لیے پورا ٹکٹ جوڑ کر کل جمع دو سو روپے۔ ’’پھر، بازار میں بیٹھنے کے لیے مجھے پانچ سو روپے کی فیس الگ سے دینی ہوتی ہے۔ ہم کڑی دھوپ میں [کھلے آسمان کے نیچے] بیٹھتے ہیں۔ پھر بھی ان کے مطابق، یہ زیادہ مہنگا سودا نہیں ہے کیوں کہ وہ ہفتہ واری بازار میں پانچ سے لے کر سات ہزار کی سوکھی مچھلی بیچ لیتی ہیں۔
لیکن مہینے کا مطلب صرف چار پیر کے دن ہی نہیں ہوتے۔ فاطمہ اس کاروبار کی مشکلوں اور باریکیوں کو اچھی طرح سمجھتی ہیں۔ ’’بیس پچیس سال پہلے تک ماہی گیروں کو توتوکوڈی سے سمندر میں زیادہ دور جانا نہیں پڑتا تھا۔ انہیں پاس میں ہی بڑی مقدار میں مچھلیاں مل جاتی تھیں۔ لیکن اب تو انہیں سمندر میں دور جانا پڑتا ہے، اور وہاں بھی بہت زیادہ مچھلیاں دستیاب نہیں ہیں۔‘‘
اپنے ذاتی تجربات کی بنیاد پر، مچھلیوں کے ذخیرہ میں آئی اس کمی کی وجہ بتانے میں فاطمہ منٹ بھر کا بھی وقت نہیں لیتی ہیں، ’’اُس زمانے میں لوگ مچھلی پکڑنے کے لیے رات میں نکلتے تھے اور دوسرے دن شام تک لوٹ آتے تھے۔ اب ماہی گیر ایک بار ۲۰-۱۵ دنوں کے لیے نکلتے ہیں اور کنیا کماری پار کرتے ہوئے سیلون اور انڈمان تک چلے جاتے ہیں۔‘‘
یہ ایک بڑا علاقہ ہے، جہاں مسائل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ توتوکوڈی میں مچھلیوں کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے، اور اس پر فاطمہ یا کسی کا بھی کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ بلکہ، ان کی زندگی ہی ان مسائل کے کنٹرول میں ہے اور ساتھ ساتھ ان کی روزی روٹی بھی۔
جس بارے میں فاطمہ بات کر رہی ہیں، اس کا تعلق بہت زیادہ مقدار میں مچھلیوں کو پکڑنے کا چلن ہے۔ یہ اتنا عام سوال ہے کہ آپ صرف ایک بار گوگل کیجئے، اور ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں آپ کو تقریباً ایک کروڑ ۸۰ لاکھ جواب مل جائیں گے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے غذائی اور زرعی ادارہ (ایف اے او) کی رپورٹ کے مطابق، ’’عالمی سطح پر سال ۲۰۱۹ میں مویشی پروٹین کا ۱۷ فیصد اور کل پروٹین کا ۷ فیصد سمندری غذاؤں سے آتا تھا۔‘‘ اس کا مطلب ہے کہ ہر سال ہم سمندر سے ’’۸۰ سے ۹۰ میٹرک ٹن جنگلاتی سمندری کھانا حاصل کرتے ہیں،‘‘ ’امیرکن کیچ اینڈ فور فش‘ کے مصنف پال گرین برگ کہتے ہیں۔ یہ بیحد تشویشناک صورتحال ہے کیوں کہ جیسا گرین برگ کہتے ہیں، ’’یہ چین کے کل انسانی وزن کے برابر ہے۔‘‘
یہاں ایک بات غور کرنے کی ہے کہ سبھی مچھلیاں تازہ نہیں کھائی جاتی ہیں۔ کئی دوسرے گوشت اور سبزیوں کی طرح انہیں بھی آئندہ استعمال کے لیے محفوظ کر لیا جاتا ہے، اور اس کے لیے ان میں نمک ملانے کے بعد انہیں دھوپ میں سُکھانے کا پرانا طریقہ اپنایا جاتا ہے۔
*****
ہم پرندوں کے اُن
جُھنڈوں کو بھگانے کے لیے ان کے پیچھے دوڑتے ہیں
جو شارک کے گوشت کے
چربی دار ٹکڑوں کے لالچ میں آتی ہیں
جنہیں ہم نے دھوپ میں
سوکھنے کے لیے پھیلا ہے۔
تمہاری اچھائیوں کا
ہم کیا کریں؟
ہم سے مچھلی کی بو
آتی ہے! چلو جاؤ یہاں سے!
نٹری نئی ۴۵ ، نیتل تنئی (ساحل سمندر کے گیت)
ان سطور کو لکھنے والا شاعر گمنام ہے، لیکن انہیں ہیروئن کی سہیلی ہیرو سے کہتی ہے۔
یہ دور قدیم کی شاندار لائنیں ۲۰۰۰ سال پرانے تمل سنگم ادب کا ایک حصہ ہیں۔ اس میں ساحل سمندر سے نمک لدی گاڑیوں پر سفر کرنے والے تاجروں کے متعدد دلچسپ حوالے دیکھے جا سکتے ہیں۔ کیا نمک ملا کر کڑی دھوپ میں غذائی اشیاء کو سُکھانے کی ایسی کوئی دوسری مثال ماضی میں ملتی ہے؟
’’بالکل ملتی ہے،‘‘ غذائی مطالعہ کے ماہر ڈاکٹر کرشنیندو رائے کہتے ہیں، ’’آگے کی جانب مائل، خاص طور سے سمندری آبی زرعی علاقے کا شاید مچھلی پکڑنے کے کام کے ساتھ بالکل الگ رشتہ تھا۔ اس کی ایک وجہ کشتی بنانے کی کاریگری اور اس میں لگنے والی ہنرمند محنت تھی۔ اس کام کے لیے یہ دونوں بنیادی شرطیں تھیں۔ یہ دونوں ہی ہنر بنیادی طور پر ماہی گیر برادری سے آئے، جیسا کہ ہم بہت بعد کے سالوں میں وائیکنگ، جینوئز، وینیشین، پارچوگیز، اور اسپینش معاملوں میں دیکھ سکتے ہیں۔
نیویارک یونیورسٹی میں بطور پروفیسر کام کرنے والے ڈاکٹر رائے مزید کہتے ہیں، ’’ٹھنڈی جگہ پر محفوظ کرنے سے پہلے مچھلی کے بیش قیمتی پروٹین کو بچانے کا واحد طریقہ ان میں نمک ملانا، جوش دینا [اسموکنگ]، ہوا میں سُکھانا [ایئر ڈرائنگ] اور خمیر سازی [فش ساس کے لیے] تھا، تاکہ وہ جہاز کے لمبے سفر کے دوران خراب نہ ہوں۔ اس لیے بحیرہ روم کے آس پاس کی رومن سلطنت میں گروم [خمیر شدہ مچھلی کی چٹنی] کی خاص اہمیت تھی۔ رومن سلطنت کے زوال کے بعد وہ بھی آہستہ آہستہ نظروں سے غائب ہو گئی۔‘‘
جیسا کہ ایف اے او کی ایک دوسری رپورٹ میں ذکر کیا گیا ہے، ’’تمل ناڈو میں عموماً ایک گھریلو طریقہ کار رائج ہے، جو عام طور پر نقصان پہنچانے والے بیکٹیریا اور اینزائم کو ختم کرنے اور جراثیم میں اضافہ اور پھیلاؤ کو روکنے والے حالات پر مبنی ہے۔‘‘
ایف اے او کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے، ’’نمک ملا کر دھوپ میں سُکھانا مچھلیوں کو محفوظ کرنے کا ایک سستا عمل ہے۔ مچھلیوں میں نمک ملانے کے دو عام طریقے ہیں – ڈرائی سالٹنگ، جس میں مچھلیوں پر سیدھے نمک لگایا جاتا ہے، اور دوسری برائننگ، جس میں نمک اور پانی کے آمیزہ میں مچھلیوں کو کئی مہینے تک ڈبو کر رکھا جاتا ہے۔
طویل اور سنہری تاریخ، اور پروٹین کا سستا اور آسان ذریعہ ہونے کے بعد بھی کروواڈو کو مقبول ثقافت میں ایک مزاحیہ شے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کی جیتی جاگتی مثال تمل سنیما میں دیکھی جا سکتی ہے۔ ذائقوں کے ترتیب میں اس کا مقام کہاں ہے؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔
ڈاکٹر رائے کہتے ہیں، ’’اس ترتیب کے پیچھے ایک کثیر رخی سوچ کام کرتی ہے۔ جہاں کہیں کسی بھی شکل میں برہمن واد کے متوازی علاقائیت کی توسیع غلبہ حاصل کرنے کی شکل میں ہوئی ہے، وہاں پانی اور خاص طور سے کھارے پانی پر منحصر زندگی اور معاش سے متعلق تضاد اور شک ہم اکثر دیکھ سکتے ہیں…چونکہ علاقے اور پیشے کا جزوی تعلق ذات سے بھی تھا، اس لیے مچھلی پکڑنے کے کام کو حقیر اور کم تر مان لیا گیا۔‘
ڈاکٹر رائے کہتے ہیں، ’’مچھلی وہ آخری جنگلاتی شے ہے جسے ہم پکڑتے اور خوب کھاتے ہیں۔ یہ بہت قیمتی اور حقیر دونوں ہی ہو سکتی ہے۔ سنسکرت زرہ ہندوستان کے کئی حصوں میں اسے حقیر مانا جاتا تھا جہاں قابل کاشت زمین، مندر اور آبی وسائل میں متعلقہ سرمایہ کاری کے ساتھ علاقائیت، خاندانی زندگی اور اناج کی پیداوار کو ایک اقتصادی اور ثقافتی شے کے طور پر بیش قیمتی سمجھا جاتا ہے۔‘‘
*****
دھوپ کے درمیان ایک چھوٹی سی سایہ دار جگہ میں سہائے پورنی ایک پومین [ملک فش] تیار کر رہی ہیں۔ سرّ…سرّ…سرّ – اپنے دھاردار چاقو سے وہ تیریسپورم نیلامی مرکز میں تین سو میں خریدی گئی تین کلو کی ایک مچھلی کی جلد صاف کر رہی ہیں۔ وہ جہاں بیٹھ کر کام کرتی ہیں، وہ جگہ فاطمہ کی دکان کے ٹھیک سامنے نہر کے اُس پار ہے۔ نہر میں پانی کم اور کیچڑ زیادہ ہے، اس لیے اس کا رنگ سیاہ نظر آتا ہے۔ مچھلی کی جلد کے چھلکے اڑ کر ادھر ادھر بکھر رہے ہیں – کچھ چھلکے پومین مچھلی کے آس پاس گر رہے ہیں اور کچھ اپنی چمک بکھیرتے ہوئے چھٹک کر دو فٹ دور مجھ سے آ ٹکراتے ہیں۔ میرے کپڑوں پر پڑے چھلکوں کو دیکھ کر وہ ہنستی ہیں۔ ان کی یہ ہنسی بہت چھوٹی، لیکن معصوم ہے۔ ان کو دیکھ کر ہم بھی ان کی ہنسی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ سہائے پورنی اپنا کام جاری رکھتی ہیں۔ وہ دو بار بڑی صفائی سے چاقو چلاتی ہیں اور دونوں پنکھ مچھلی سے الگ ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ مچھلی کو گردن سے کاٹتی ہیں اور درانتی کی مدد سے سر کو الگ کر دیتی ہیں۔ تڑ…تڑ…تڑ – چھ بار – اور مچھلی کا تن اور سر ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ہیں۔
ان کے پیچھے بندھا ایک سفید کتا سب دیکھ رہا ہے۔ گرمی کی وجہ سے اس کی زبان باہر لٹک رہی ہے۔ سہائے پورنی اس کے بعد آنتوں کو نکالتی ہیں اور اندرونی حصے کی اچھی طرح صفائی کرتی ہیں۔ پھر وہ چاقو کی مدد سے مچھلی کے پٹھوں میں چھوٹی اور پتلی لکیریں بناتی ہیں۔ ایک ہاتھ سے وہ مٹھی میں بھر کر نمک لیتی ہیں اور اسے مچھلی کے اندر باہر اچھی طرح سے مَلتی ہیں۔ نمک کے سفید اور باریک دانوں کو گلابی گوشت کے چیرے گئے حصوں میں بھرا جاتا ہے اور اس طرح سے مچھلی اب سُکھائے جانے کے لیے تیار ہوتی ہے۔ وہ اپنی درانتی اور چاقو کو صاف کرنے کے بعد اپنے ہاتھوں کو دھوتی ہیں اور انہیں کپڑے سے پونچھ کر سُکھاتی ہیں۔ ’’آئیے،‘‘ وہ کہتی ہیں، اور ہم ان کے پیچھے پیچھے ان کے گھر تک پہنچ جاتے ہیں۔
تمل ناڈو کی سمندری مچھلیوں کی گنتی ۲۰۱۶ کے مطابق، ریاست میں مچھلی کے کاروبار میں دو لاکھ ۶۲ ہزار عورتیں اور دو لاکھ ۷۴ ہزار مرد شامل ہیں۔ یہ گنتی اس بات کا بھی انکشاف کرتی ہے کہ ۹۱ فیصد سمندری ماہی گیروں کے خاندان خط افلاس کے نیچے (بی پی ایل) آتے ہیں۔
دھوپ سے ہٹ کر بیٹھنے کے بعد میں سہائے پورنی سے پوچھتی ہوں کہ وہ ایک دن میں کتنا کما لیتی ہیں۔ ’’یہ پوری طرح آنڈ وَر [عیسی مسیح] کی مرضی پر منحصر ہے۔ ہم سب اس کی مہربانی سے ہی زندہ ہیں۔‘‘ ہماری بات چیت میں عیسی مسیح کا ذکر بار بار ہوتا ہے۔ ’’اگر اس کی مہربانی سے ہماری تمام سوکھی مچھلیاں فروخت ہو جائیں، تو ہم ساڑھے دس بجے صبح تک گھر لوٹ آئیں گے۔‘‘
ان کا یہ خاموش عقیدہ ان کے کام کرنے کی جگہ پر بھی برقرار رہتا ہے۔ مچھلیوں کو سُکھانے کے لیے انہیں جو جگہ دی گئی ہے وہ نہر کے بغل میں ہے۔ اس جگہ کو کسی بھی نظریہ سے موزوں نہیں کہا جا سکتا ہے، لیکن ان کے پاس اور چارہ ہی کیا ہے؟ یہاں وہ صرف سخت دھوپ سے ہی نہیں، بلکہ بے وقت ہونے والی بارش سے بھی پریشان رہتی ہیں۔ ’’ابھی حالیہ دنوں کی بات ہے، نمک ملانے کے بعد میں نے مچھلی کو سُکھانے کے لیے دھوپ میں رکھا تھا اور تھوڑی دیر آرام کرنے کے لیے گھر پہنچی ہی تھی…اچانک ایک آدمی بھاگتا ہوا آیا اور اس نے بتایا کہ بارش ہو رہی ہے۔ میں جلدی سے دوڑی، لیکن آدھی مچھلیاں بھیگ چکی تھیں۔ آپ چھوٹی مچھلیوں کو نہیں بچا سکتے، وہ خراب ہو جاتی ہیں۔‘‘
سہائے پورنی جو اب ۶۷ سال کی ہو چکی ہیں، نے مچھلی سُکھانے کا کام اپنی چیتی – یعنی ماں کی چھوٹی بہن سے سیکھا تھا۔ لیکن، وہ بتاتی ہیں کہ مچھلی کا کاروبار بڑھنے کے بعد بھی سوکھی ہوئی مچھلیوں کی کھپت میں گراوٹ آئی ہے۔ ’’اس کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ مچھلی کھانا چاہتے ہیں وہ آرام سے تازہ مچھلیاں خرید سکتے ہیں۔ بلکہ کئی بار وہ سستی بھی مل جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ، آپ روز روز ایک ہی چیز نہیں کھانا چاہیں گے۔ چاہیں گے کیا؟ اگر آپ ہفتے میں دو دن مچھلی کھائیں گے، تو آپ ایک دن بریانی کھائیں گے، دوسرے دن سامبھر، رسم، سویا بریانی، اور اس طرح دوسری چیزیں بھی…‘‘
اصلی وجہ البتہ باہم متضاد طبی صلاح ہے۔ ’’ کروواڈی مت کھائیے، اس میں بہت زیادہ نمک ہوتا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں، اس سے بلڈ پریشر بڑھتا ہے۔ اس لیے، لوگ اس سے پرہیز کرنے لگے ہیں۔‘‘ جب وہ ڈاکٹر کے مشورے اور کاروبار میں گراوٹ کے بارے میں بات کرتی ہیں، تو ساتھ ساتھ اپنے سر کو بھی ہلاتی رہتی ہیں۔ اپنے نچلے ہونٹ کو کاروبار کی بے یقینی کے اظہار کے طور پر وہ بار بار باہر کی طرف دھکیلتی ہیں۔ ان کے چہرے پر بچوں جیسی معصومیت دکھائی دیتی ہے، جس میں ناامیدی اور لاچاری دونوں کے جذبات ملے جلے ہیں۔
جب کروواڈو تیار ہو جاتا ہے، تب وہ اسے اپنے گھر کے ایک دوسرے کمرے میں رکھتی ہیں۔ اس کمرے کا استعمال کاروبار کے کاموں کے لیے ہی ہوتا ہے۔ ’’بڑی مچھلیاں کئی مہینوں تک محفوظ رہتی ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ انہیں اپنے ہنر پر بھروسہ ہے۔ جس طرح سے وہ مچھلیوں کے اندرونی حصوں کی صفائی کر کے ان میں نمک بھرتی ہیں، اس سے ان کا زیادہ دنوں تک محفوظ رہنا طے ہو جاتا ہے۔ ’’گاہک اسے کئی کئی ہفتوں تک رکھ سکتے ہیں۔ اگر ان پر تھوڑی ہلدی اور نمک مل کر اخبار میں لپیٹ دیا جائے، اور ایک ایئر ٹائٹ (ہوا مزاحم) ڈبے میں بند کر دیا جائے تو ان مچھلیوں کو فریج میں لمبے وقت تک رکھا جا سکتا ہے۔‘‘
ان کی ماں کے زمانے میں کروواڈو زیادہ کھائی جاتی تھی۔ سوکھی ہوئی مچھلیوں کو تل کر ان کو باجرے کے دلیہ کے ساتھ کھایا جاتا تھا۔ ’’ایک بڑے سے پتیلے میں کچھ سہجن کے ٹکڑے، کٹے ہوئے بینگن اور مچھلی کو ملا کر شوربہ بنایا جاتا تھا اور اسے دلیہ پر انڈیل کر کھایا جاتا تھا۔ لیکن اب ہر ایک چیز ’بنی بنائی‘ فروخت ہوتی ہے،‘‘ وہ ہنس کر کہتی ہیں، ’’ہے نا؟ اب تو بازار میں چاول بھی ’تیار‘ ملتا ہے، اور لوگ اس کے ساتھ الگ سے ویجیٹیبل کوٹو [دال کو ملا کر پکی ہوئی سبزی] اور تلے ہوئے انڈے کھاتے ہیں۔ تقریباً ۴۰ سال پہلے میں نے ویجیٹیبل کوٹو کا نام بھی نہیں سنا تھا۔‘‘
عام طور پر سہائے پورنی روزانہ صبح کو ساڑھے چار بجے گھر سے نکل جاتی ہیں اور ۱۵ کلومیٹر کے دائرے میں پڑنے والے آس پاس کے گاؤوں میں بس سے جاتی ہیں۔ ’’گلابی بسوں پر سفر کرنے کے ہمیں پیسے نہیں دینے ہوتے ہیں،‘‘ عورتوں کے لیے بس کے مفت سفر سے متعلق تمل ناڈو حکومت کی اسکیم کا حوالہ دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں، جس کا اعلان وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن نے ۲۰۲۱ میں کیا تھا۔ ’’لیکن اپنی ٹوکری کے لیے ہمیں پوری ٹکٹ کٹانی ہوتی ہے۔ یہ ۱۰ روپے بھی ہو سکتا ہے یا ۲۴ روپے بھی۔‘‘ کئی بار وہ کنڈکٹر کو دس کا نوٹ پکڑا دیتی ہیں۔ ’’تب وہ تھوڑی عزت سے پیش آتا ہے،‘‘ وہ ہنس پڑتی ہیں۔
اپنی منزل تک پہنچنے کے بعد سہائے پورنی کو گاؤں میں گھوم گھوم کر مچھلی بیچنی ہوتی ہے۔ یہ مشکل اور تھکانے والا کام ہے، وہ بتاتی ہیں۔ اس کاروبار میں مقابلہ آرائی بھی ہے۔ ’’جب ہم تازہ مچھلیاں بیچتے تھے، تب حالت زیادہ بدتر تھی۔ مرد اپنی ٹوکریاں دوپہیہ گاڑی پر لے کر آتے تھے، اور جب تک ہم دو گھروں میں گھومتے، تب تک وہ دس گھروں کے چکر لگا چکے ہوتے تھے۔ ان کی گاڑیوں کی وجہ سے ان کی محنت میں کٹوتی ہو جاتی تھی۔ دوسری طرف، ہم پیدل چل چل کر نہ صرف تھک جاتے تھے، بلکہ کمائی کے معاملے میں بھی ان سے شکست کھا جاتے تھے۔‘‘ اس لیے انہوں نے کروواڈو بیچنے کا کام نہیں چھوڑا۔
الگ الگ موسموں میں سوکھی مچھلیوں کی مانگ بھی الگ الگ ہوتی ہے۔ ’’گاؤوں میں جب تہوار منائے جاتے ہیں، تب لوگ کئی دنوں تک یا کئی بار ہفتوں تک گوشت خوری کو ممنوع مانتے ہیں۔ چونکہ اس روایت کو بہت سارے لوگ مانتے ہیں، تو اس کا اثر ہمارے کاروبار پر پڑنا بھی لازمی ہے۔‘‘ سہائے پورنی کہتی ہیں، ’’حالانکہ یہ نیا چلن ہے۔ پانچ سال پہلے اتنی زیادہ تعداد میں لوگ مذہبی روایات کو نہیں مانتے تھے۔‘‘ تہوار میں، اور تہوار کے بعد جب خاندانوں کی مشترکہ دعوتکے لیے بکروں کی بلی (قربانی) چڑھائی جاتی ہے، تب لوگ رشتہ داروں کو دعوت دینے کے لیے بڑی مقدار میں سوکھی مچھلیوں کا آرڈر دیتے ہیں۔ ’’کئی بار تو وہ ایک کلو مچھلی بھی خریدتے ہیں،‘‘ ان کی بیٹی نینسی (۳۶ سالہ) بتاتی ہیں۔
کاروبار کے نظریہ سے خراب مہینوں میں ان کی فیملی قرض پر منحصر رہتی ہے۔ نینسی، جو ایک سماجی کارکن ہیں، کہتی ہیں، ’’دس پیسے کا سود، روزانہ کا سود، ہفتہ واری سود، ماہانہ سود۔ مانسون اور مچھلی پکڑنے پر پابندی کے دنوں میں ہم اسی طرح اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ کئی لوگوں کو تو ساہوکار کے یہاں یا بینک میں اپنی زیور بھی گروی رکھنا پڑ جاتا ہے۔ لیکن ہمیں قرض لینا ہی پڑتا ہے۔‘‘ ان کی ماں ان کے جملے کو پورا کرتی ہیں، ’’اناج خریدنے کے لیے۔‘‘
کروواڈو کے کاروبار میں لگنے والی محنت اور اس سے ہونے والا منافع ایک جیسا نہیں ہے۔ اس صبح سہائے پورنی نے نیلامی میں جتنی مچھلی [ سالئی مین یا سارڈن کی ایک بھری ہوئی ٹوکری] ۱۳۰۰ روپے میں خریدی تھی، اس سے انہیں ۵۰۰ روپے کا منافع ہوگا۔ اس منافع کے عوض ان مچھلیوں کی صفائی کرنے، نمک ملانے اور انہیں سُکھانے میں انہیں دو دن محنت کرنی ہوگی۔ اس کے بعد انہیں بس میں لاد کر دو دنوں تک بیچنا ہوگا۔ اس حساب سے ان کی روز کی کمائی صرف ۱۲۵ روپے ہوتی ہے۔ ہے کہ نہیں؟ میں ان سے جاننا چاہتی ہوں۔
وہ متفق ہوتے ہوئے اپنا سر ہلاتی ہیں۔ اس بار ان کے چہرے پر کوئی مسکراہٹ نہیں ہے۔
*****
تیریسپورم میں کروواڈو کے کاروبار کی اقتصادیات اور متعلقہ انسانی وسائل کا پس منظر ایک غیر یقینی کی حالت میں ہے۔ ہمارے پاس تمل ناڈو کی سمندری مچھلیوں کی گنتی کے کچھ اعداد و شمار دستیاب ہیں۔ توتیکورن ضلع میں مچھلیوں کے تحفظ اور پروسیسنگ کے کام میں مصروف کل ۴۶۵ افراد میں ۷۹ لوگ تیریسپورم میں یہ کام کرتے ہیں۔ پوری ریاست کے ماہی گیروں میں صرف نو فیصد آبادی ہی اس کاروبار میں ہے، جس میں عورتوں کی تعداد حیرت انگیز طریقے سے ۸۷ فیصد ہے۔ ایف اے او رپورٹ کے مطابق، یہ عالمی اعداد و شمار کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ دنیا میں ’’چھوٹی سطح کی ماہی گیری کے شعبے میں مصروف عمل افرادی قوت کا تقریباً آدھا حصہ خواتین کے تعاون پر منحصر ہے۔‘‘
اس کاروبار میں منافع اور نقصان کا صحیح صحیح حساب لگانا ایک مشکل کام ہے۔ ایک بڑی پانچ کلو کے وزن کی مچھلی جو ایک ہزار روپے میں فروخت ہونی چاہیے تھی، وہ تھوڑی سی پلپلی ہو جانے پر صرف چار سو روپے میں مل جاتی ہے۔ عورتیں ان مچھلیوں کو ’گُلگُل‘ کہتی ہیں اور انگلی کے علامتی دباؤ سے اس مچھلی کے پلپلے پن کا اظہار کرتی ہیں۔ تازہ مچھلی کے خریداروں کے ذریعے چھانٹ دیے جانے کے بعد کروواڈو تیار کرنے والی ان عورتوں کے لیے یہ منافع کا سودا ہے۔ انہیں تیار کرنے میں وقت بھی کم لگتا ہے۔
فاطمہ کی بڑی مچھلی، جو پانچ کلو کی ہے، ایک گھنٹہ میں تیار ہو جاتی ہے۔ اتنے ہی وزن کے برابر کی چھوٹی مچھلیاں اس سے دو گنا وقت لیتی ہیں۔ نمک کی ضرورت میں بھی فرق ہو جاتا ہے۔ بڑی مچھلیوں کو اپنے وزن سے آدھا نمک کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ چھوٹی اور تازہ مچھلیوں کو اپنے وزن کے آٹھویں حصے کے برابر نمک کی ضرورت پڑتی ہے۔
مچھلیوں کو سُکھانے کا کاروبار کرنے والے لوگ نمک سیدھے اُپّلم یا نمک کے کھیتوں سے خریدتے ہیں۔ اس کی مقدار اس بات پر منحصر ہے کہ خریدار کے یہاں نمک کی کھپت کتنی ہے۔ نمک کی ایک کھیپ کی قیمت اس کی مقدار کے مطابق۱۰۰۰ روپے سے ۳۰۰۰ روپے ہوتی ہے۔ نمک کی بوریوں کو تین پہیوں والی سائیکل یا ’کُٹّیانئی‘ (جس کا لفظی معنی ’چھوٹا ہاتھی‘ ہوتا ہے) پر لاد کر منگایا جاتا ہے۔ یہ دراصل ایک چھوٹا ٹیمپو ٹرک ہوتا ہے۔ نمک کو گھر کے قریب ہی نیلے پلاسٹک کے لمبے ڈرم میں بھر کر رکھا جاتا ہے۔
فاطمہ بتاتی ہیں کہ کروواڈو بنانے کا طریقہ ان کی دادی کے زمانے سے بہت نہیں بدلا ہے۔ مچھلیوں میں چیرے لگائے جاتے ہیں، انہیں صاف کیا جاتا ہے، اور ان کی جلد کے چھلکے ہٹائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد ان پر نمک لپیٹ کر انہیں کڑی دھوپ میں سُکھایا جاتا ہے۔ وہ مہارت کے ساتھ اپنا کام کرتی ہیں۔ اس بات کی یقین دہانی کے ساتھ وہ مجھے مچھلیوں سے بھری ٹوکریاں دکھاتی ہیں۔ ایک ٹوکری میں کاٹ کر سُکھائی ہوئی کروواڈو ہیں، جن پر ہلدی پاؤڈر پوتا گیا ہے۔ ایک کلو کروواڈو ۱۵۰ سے ۲۰۰ روپے کے حساب سے فروخت ہوگا۔ کپڑے کی ایک گٹھری میں اولی مین (باراکوڈا) اور اس کے نیچے پلاسٹک کی ایک بالٹی میں سوکھی ہوئی سالئی کروواڈو (سوکھی ہوئی سارڈن) رکھی ہے۔ بغل کے اسٹال سے ان کی بہن فریڈرک اونچی آواز میں کہتی ہیں، ’’اگر ہمارا کام ’ناکرے موکرے‘ (گندا/میلا کچیلا) ہوگا، تو ہماری مچھلی کون خریدے گا؟ بہت سارے لوگ، یہاں تک کہ پولیس والے بھی ہمارے خریدار ہیں۔ اپنے کروواڈو کے سبب ہم نے اپنی ایک پہچان بنائی ہے۔‘‘
ان بہنوں نے زخم اور درد بھی کم نہیں برداشت کیا ہے۔ فریڈرک مجھے اپنی ہتھیلیاں دکھاتی ہیں۔ ان ہتھیلیوں میں چاقو سے کٹنے کے کئی چھوٹے بڑے نشان ہیں۔ ہر ایک نشان ان کے ماضی کے بارے میں کچھ کہتا ہے۔ یہ نشان ان کی ہتھیلیوں کی ان لکیروں سے بالکل الگ ہیں جو ان کا مستقبل بیان کرتی ہیں۔
’’مچھلی لانے کا کام میرے بہنوئی کا ہے، ہم چاروں بہنیں ان کو سُکھاتی اور بیچتی ہیں،‘‘ اپنے اسٹال کے اندر سایہ میں بیٹھنے کے بعد فاطمہ بتاتی ہیں۔ ’’ان کی چار سرجری ہو چکی ہے، وہ اب سمندر میں نہیں جاتے ہیں۔ اس لیے تیریسپورم نیلامی مرکز یا توتوکوڈی کی مرکزی بندرگاہ سے ہزاروں روپے کی مچھلیوں کی کھیپ وہی خرید کر لاتے ہیں۔ وہ جس مقدار اور قیمت میں مچھلیاں لاتے ہیں، اسے ایک کارڈ پر لکھ لیتے ہیں۔ میں اور میری بہنیں ان سے ہی مچھلی خریدتی ہیں اور بدلے میں انہیں ان کا کمیشن ادا کر دیتی ہیں۔ ہم انھیں مچھلیوں کا کروواڈو بناتے ہیں۔‘‘ فاطمہ اپنے بہنوئی کو ’’ماپلّئی‘‘ کہہ کر بلاتی ہیں، جو عام طور پر داماد کو کہا جاتا ہے، اور اپنی چھوٹی بہنوں کو وہ ’’پونّو‘‘ کہتی ہیں۔ عموماً چھوٹی لڑکیوں کو یہی کہہ کر بلایا جاتا ہے۔
ان میں سبھی ۶۰ سال سے اوپر کی عمر کی ہیں۔
فریڈرک اپنے نام کا تمل روپ استعمال کرتی ہیں – پیٹری۔ اپنے شوہر کے انتقال کے بعد وہ تن تنہا ہی گزشتہ ۳۷ سالوں سے کام کر رہی ہیں۔ اپنے شوہر جان زیویئر کو بھی وہ ماپلّئی ہی کہہ کر بلاتی ہیں۔ ’’مانسون کے مہینوں میں ہم مچھلیوں کو نہیں سُکھا پاتے ہیں۔ ایسے ہمیں ہمارے گزارہ بھی مشکل سے ہو پاتا ہے، اور مجبوراً ہمیں اونچی شرح سود پر قرض لینا پڑتا ہے – ہر مہینے ایک روپے پر ۵ سے ۱۰ پیسے کی شرح پر،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ اس طرح سال بھر میں انہیں ۶۰ سے ۱۲۰ فیصد تک سود کی رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔
دھیمی رفتار میں بہتی نہر کے کنارے اپنے عارضی اسٹال کے باہر بیٹھیں فاطمہ کہتی ہیں کہ انہیں ایک نئے آئس باکس کی ضرورت ہے۔ ’’مجھے ایک بڑا آئس باکس [برف کا ڈبہ] چاہیے، جس کا ڈھکن مضبوط ہو اور جس میں، میں مانسون میں اپنی تازہ مچھلیاں رکھ کر فروخت کر سکوں۔ ہم ہمیشہ اپنی جان پہچان والوں سے تو قرض نہیں لے سکتے ہیں کیوں کہ سب کا کاروبار نقصان میں ہے۔ کس کے پاس اتنے پیسے ہیں؟ کئی بار تو ایک پیکٹ دودھ خریدنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
سوکھی مچھلیوں سے جو کمائی ہوتی ہے وہ گھریلو ضروریات، کھانے پینے اور علاج میں خرچ ہو جاتے ہیں۔ خرچے کی آخری وجہ بتاتے ہوئے ان کی آواز میں تھوڑا زیادہ زور دکھائی دیتا ہے – ’’پریشر اور شوگر کی گولیاں۔‘‘ جن مہینوں میں مچھلی پکڑنے والی کشتیوں پر پابندی لگی ہوتی ہے، انہیں اناج خریدنے کے لیے پیسے قرض لینے پڑتے ہیں۔ ’’اپریل اور مئی کے دوران مچھلیاں انڈے دیتی ہیں، اس لیے انہیں پکڑنے پر پابندی لگی ہوتی ہے۔ اور، مانسون کے مہینوں میں – اکتوبر سے جنوری تک – نمک ملنے اور مچھلی کو سُکھانے میں پریشانی آتی ہے۔ ہماری آمدنی اتنی نہیں ہے کہ ہم بچت کر سکیں یا برے دنوں کے لیے پیسے بچا سکیں۔‘‘
فریڈرک کو یقین ہے کہ ایک نیا آئس باکس، جس کی قیمت تقریباً ۴۵۰۰ روپے ہے، اور لوہے کا ایک ترازو اور المونیم کی ایک ٹوکری ان کی زندگی بدل دے گی۔ ’’یہ میں صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ سب کے لیے چاہتی ہوں۔ اگر ہمیں یہ سب مل جائیں، تو ہم بقیہ چیزوں کو سنبھال لیں گے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
*****
تمل ناڈو کے معاملے میں ہاتھ سے اگائی گئی اور پروسیس کی گئی فصلوں (خاص طور پر بزرگ خواتین مزدوروں کے ذریعے) میں ایک پوشیدہ قیمت چھپی ہوتی ہے، جو ان کے وقت اور ان کی محنت کے مقابلے میں کم از کم مالی ادائیگی ہے۔
مچھلی سُکھانے کا کاروبار اس سے الگ نہیں ہے۔
’’صنف کی بنیاد پر عدم ادائیگی والی محنت، تاریخ میں کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عبادت و پوجا، طریقہ علاج، کھانا پکانے کا ہنر، تعلیم وغیرہ کی پیشہ ورانہ حیثیت اور بدگمانی، جادو ٹونا اور بد اعتقادی سے جڑی دوسری کہانیوں جیسی عورت سے نفرت کی ذہنیت کے ساتھ ساتھ پیدا ہوئی ہے،‘‘ ڈاکٹر رائے تفصیل سے بتاتے ہیں۔ مختصراً، عورت کی عدم ادائیگی والی محنت کو مدلل اور صحیح ٹھہرانے کے لیے ماضی کے بے شمار من گھڑت اور دقیانوسی خیالات کا سہارا لینے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی گئی ہے۔ ’’پیشوں کی تعمیر اور تخریب کوئی اتفاق نہیں ہے، بلکہ ضروری واقعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی پیشہ ور شیف مردانہ اظہار کی ایک بھونڈی نقل محسوس ہوتے ہیں، کیوں کہ وہ ہمیشہ گھریلو پکوان کو عمدہ اور جدید کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس سے پہلے یہی کام پجاریوں کا طبقہ کیا کرتا تھا۔ ڈاکٹروں نے بھی یہی کیا، اور پروفیسروں نے تو یہ کیا ہی ہے۔‘‘
توتوکوڈی قصبہ کے دوسری طرف ایک نمک بنانے والی کاریگر ایس رانی کے باورچی خانہ میں ہم اپنی آنکھوں سے کروواڈو کوڈمبو (سالن) کپ پکتا ہوا دیکھتے ہیں۔ تقریباً سال بھر پہلے ستمبر ۲۰۲۱ میں، ہم نے انہیں کھیت میں نمک بناتے ہوئے دیکھا تھا۔ تب اتنی زیادہ گرمی تھی کہ زمین بھی تپ رہی تھی اور پانی کو تو کسی نے جیسے ابال دیا تھا۔ تب وہ نمک کے چمکتے ہوئے دانوں کی فصل تیار کر رہی تھیں۔
رانی، جو کروواڈو خریدتی ہیں، وہ ان کے پڑوس میں تیار ہوتی ہے اور وہ مقامی نمک کی مدد سے بنی ہوتی ہے۔ اس کا سالن بنانے کے لیے وہ لیموں کی گولائی کے برابر املی پانی میں گھلنے کے لیے ڈال دیتی ہیں۔ اس کے بعد وہ ایک ناریل توڑتی ہیں، اور ایک درانتی کی مدد سے آدھے ناریل کا گودا نکال لیتی ہیں۔ اس گودے کو کاٹ کر وہ ان ٹکڑوں کو ایک بجلی سے چلنے والے مکسر میں ڈال دیتی ہیں اور ان کو بالکل باریک پیس لیتی ہیں۔ کھانا پکانے کے ساتھ ساتھ رانی بات چیت بھی کرتی رہتی ہیں۔ میری طرف دیکھتی ہوئی وہ کہتی ہیں، ’’ کروواڈو کوڈمبو ایک دن بعد کھانے پر بھی اتنا ہی ذائقہ دار لگتا ہے۔ دلیہ کے ساتھ اس کا میل مزیدار ہے۔‘‘
اس کے بعد وہ سبزیوں کو دھوتی اور کاٹتی ہیں – دو سہجن، کچے کیلے، بینگن اور تین ٹماٹر۔ کچھ کری پتے اور ایک پیکٹ مسالہ پاؤڈر کو شامل کیے جانے کے بعد مرکبات کی فہرست مکمل ہو جاتی ہے۔ مچھلی کی خوشبو پا کر ایک بلی بھوک کی وجہ سے میاؤں کی آواز نکال رہی ہے۔ رانی پیکٹ کھولتی ہیں اور اس میں سے کئی قسم کی کروواڈو نکالتی ہیں – نگر، اسل کُٹّی، پارئی اور سالئی ۔ ’’میں نے یہ چالیس روپے میں خریدا ہے،‘‘ وہ بتاتی ہیں، اور آج کا سالن بنانے کے لیے ان میں سے آدھی مچھلی نکال لیتی ہیں۔
آج ایک اور پکوان بھی تیار ہو رہا ہے۔ رانی بتاتی ہیں کہ یہ انہیں پسند ہے – کروواڈو اویئل ۔ اسے وہ املی، پیاز، ہری مرچ، ٹماٹر اور کروواڈو ملا کر پکاتی ہیں، اور اس میں مسالے، نمک اور کھٹائی کا بہت متوازن استعمال ہوتا ہے۔ یہ ایک مقبول کھانا ہے، اور اسے مزدور عام طور پر نمک کے کھیتوں میں لے جانا پسند کرتے ہیں۔ رانی اور ان کی سہیلیاں آپس میں پکوانوں کو تیار کرنے کا طریقہ شیئر کرتی ہیں۔ زیرے، لہسن، سرسوں اور ہینگ کو ایک ساتھ کوٹا جاتا ہے اور آمیزہ کو ٹماٹر اور املی کے ابلتے ہوئے شوربے میں ملا دیا جاتا ہے۔ آخر میں، کوٹی ہوئی کالی مرچ اور سوکھی ہوئی مچھلی ملا دی جاتی ہے۔ رانی بتاتی ہیں، ’’اسے ملگوتنّی کہتے ہیں۔ یہ ان عورتوں کے لیے بہت فائدہ مند ہے جنہوں نے ابھی ابھی بچے کو جنم دیا ہے، کیوں کہ ان میں ادویاتی مسالے ڈالے گئے ہیں۔‘‘ اسے دودھ پلانے والی عورتوں کے لیے بھی اچھا بتایا گیا ہے۔ کروواڈو ملائے بغیر اگر ملگوتنّی پکائی جائے تو اس پکوان کو رسم کہتے ہیں، جو تمل ناڈو کے باہر بھی مقبول ہے۔ انگریز بہت پہلے ہی اس کھانے کو اپنے ساتھ لیتے گئے، اور کئی کانٹی نینٹل مینیو میں یہ ’مولگٹانی‘ سوپ کے نام سے دستیاب ملتا ہے۔
رانی کروواڈو کو پانی بھرے ایک برتن میں ڈال دیتی ہیں، اور مچھلی کو صاف کرتی ہیں۔ وہ مچھلی کے پنکھ، سر اور پونچھ نکال دیتی ہیں۔ ’’یہاں ہر کوئی کروواڈو کھاتا ہے،‘‘ سماجی کارکن اوما مہیشوری کہتی ہیں۔ ’’بچے اسے اسی طرح پسند کرتے ہیں، اور میرے شوہر جیسے کچھ لوگوں کو اسموکڈ پسند ہے۔ کروواڈو کو لکڑی کے چولہے میں راکھ میں دبا کر پکایا جاتا ہے، اور اچھی طرح پک جانے کے بعد اسے گرما گرم ہی کھایا جاتا ہے۔ ’’اس کی خوشبو لاجواب ہوتی ہے۔ سُٹّو کروواڈو ایک مخصوص کھانا ہے،‘‘ اوما بتاتی ہیں۔
جب تک کوڈمبو میں ابال نہیں آ جاتا، رانی اپنے گھر کے باہر ایک پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھی رہتی ہیں۔ ہم گپ شپ کرتے ہیں۔ میں رانی سے فلموں میں کروواڈو کا مذاق اڑائے جانے کے بارے میں پوچھتی ہوں۔ وہ مسکراتی ہیں اور کہتی ہیں، ’’کچھ ذاتیں گوشت مچھلی نہیں کھاتی ہیں۔ انہیں ذاتوں کے لوگ جب فلمیں بناتے ہیں تو ایسے منظر ان میں ڈال دیتے ہیں۔ کچھ کے لیے یہ ناتم [بدبودار] ہے۔ ہمارے لیے یہ منم [خوشبودار] ہے۔‘‘ اور اس بات کے ساتھ ہی توتوکوڈی کے نمک کے کھیتوں کی رانی کروواڈو سے متعلق اس تنازع کا تصفیہ کر دیتی ہیں…
اس تحقیقی مطالعہ کو بنگلورو کی عظیم پریم جی یونیورسٹی کے ریسرچ فنڈنگ پروگرام ۲۰۲۰ کے تحت مالی تعاون حاصل ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز