مہاراشٹر کے مراٹھواڑہ علاقہ میں کئی مہینوں کی ناقابل برداشت گرمی کے بعد آخرکار ٹھنڈ پڑنے لگی تھی۔ دامنی (تبدیل شدہ نام) رات کی اپنی شفٹ کے لیے تیار ہوتے ہوئے سردی کی اس راحت کا لطف لے رہی تھیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں پی ایس او [پولیس اسٹیشن آفیسر] ڈیوٹی پر تھی اور ہتھیار اور واکی ٹاکی جاری کرنے کی ذمہ داری میری ہی تھی۔‘‘

ایک بار کام کے دوران اسٹیشن ہاؤس آفیسر یعنی پولیس انسپکٹر (ایس ایچ او/پی آئی) نے ان سے کہا کہ وہ پولیس اسٹیشن سے ان کے واکی ٹاکی کے لیے چارج کی ہوئی بیٹریاں اسٹیشن کے احاطہ میں واقع ان کی سرکاری رہائش گاہ پر لے کر آئیں۔ آدھی رات کے بعد کا وقت تھا، اور اس قسم کے کاموں کے لیے انہیں اپنے گھر پر بلانا – جو کہ پروٹوکول کے خلاف ہے – عام بات تھی۔ دامنی بتاتی ہیں، ’’آفیسرز اکثر آلات اپنے گھر لے جاتے ہیں…اور ہمیں اپنے سینئر افسروں کے حکم کی تعمیل کرنی ہوتی ہے۔‘‘

رات کے تقریباً ڈیڑھ بجے دامنی اُس پولیس انسپکٹر کے گھر گئیں۔

تین آدمی اندر بیٹھے ہوئے تھے: پولیس انسپکٹر، ایک سماجی کارکن اور تھانے کا ایک ملازم (پولیس اسٹیشن کے ذریعہ چھوٹے موٹے سرکاری کاموں کے لیے تعینات شہری رضاکار)۔ ’’میں نے انہیں نظر انداز کیا اور کمرے میں میز کی طرف مڑ گئی، تاکہ واکی ٹاکی کی بیٹریاں تبدیل کر سکوں،‘‘ وہ اس رات کو یاد کرتے ہوئے بے چینی کے عالم میں کہتی ہیں۔ یہ نومبر ۲۰۱۷ کی بات ہے۔ جب وہ پیچھے مڑیں، تو اچانک انہوں نے دروازہ بند ہونے کی آواز سنی۔ ’’میں کمرے سے نکلنا چاہتی تھی۔ میں نے اپنی پوری طاقت لگائی، لیکن دو مردوں نے میرے ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑ لیا، مجھے بستر پر پھینک دیا، اور…ایک ایک کر کے انہوں نے میری عصمت دری کی۔‘‘

تقریباً ڈھائی بجے، آنسوؤں سے بھری دامنی گھر سے باہر نکلیں، اپنی بائک پر بیٹھیں اور گھر کی طرف چل پڑیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میرا دماغ سُنّ تھا۔ میں اپنے کریئر اور جو میں حاصل کرنا چاہتی تھی، اس کے بارے میں سوچتی رہی۔ اور، اب یہ؟‘‘

PHOTO • Jyoti Shinoli

مہاراشٹر کا مراٹھواڑہ خطہ طویل عرصے سے پانی کی قلت کا سامنا کر رہا ہے، جس سے زراعت سے ہونے والی مستحکم آمدنی کے مواقع کم ہو گئے ہیں۔ ایسے حالات میں پولیس جیسی سرکاری نوکریاں کافی اہم ہو جاتی ہیں

*****

جتنا انہیں یاد ہے، دامنی ہمیشہ ایک سینئر سرکاری افسر بننا چاہتی تھیں۔ ان کی تین ڈگریاں – انگریزی میں بیچلر آف آرٹس، بیچلر آف ایجوکیشن، اور بیچلر آف لاء – ان کی آرزوؤں اور کڑی محنت کا ثبوت ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں ہمیشہ سے پڑھنے میں اوّل رہی ہوں…میں نے کانسٹیبل کے طور پر انڈین پولیس سروس (آئی پی ایس) میں شامل ہونے اور پھر پولیس انسپکٹر میں شامل ہونے کے امتحان کی تیاری کرنے کا سوچا تھا۔‘‘

سال ۲۰۰۷ میں دامنی پولیس میں شامل ہوئیں۔ شروعاتی کچھ سالوں تک انہوں نے ٹریفک ڈپارٹمنٹ میں اور مراٹھواڑہ کے الگ الگ پولیس اسٹیشنوں میں کانسٹیبل کے طور پر کام کیا۔ دامنی یاد کرتی ہیں، ’’میں سینیئرٹی حاصل کرنے اور ہر معاملے میں اپنی سمجھ بڑھانے کے لیے کڑی محنت کر رہی تھی۔‘‘ پھر بھی، اپنی کڑی محنت کے باوجود، مردوں کے غلبہ والے پولیس اسٹیشنوں میں ان کے تجربات حوصلہ شکنی کرنے والے تھے۔

دلت برادری سے تعلق رکھنے والی دامنی کہتی ہیں، ’’ساتھ میں کام کرنے والے مرد اکثر گھما پھرا کر طعنے مارتے تھے۔ خاص کر ذات، اور ظاہر ہے صنف کی بنیاد پر۔ ایک بار ایک ملازم نے مجھ سے کہا، ’تمہی جر صاحبانچیا مرضی پرمانے راہیلات تَر تمہالا ڈیوٹی وغیرہ کمی لاگیل۔ پئیسے پن دیئو تمہالا‘ [اگر تم صاحب کی مرضی کے مطابق رہوگی، تو تمہیں کم ڈیوٹی کرنی پڑے گی اور پیسے بھی ملیں گے]۔‘‘ وہ ملازم وہی تھانہ انچارج تھا، جس پر دامنی نےعصمت دری کا الزام لگایا ہے۔ اسٹیشن پر چھوٹے موٹے سرکاری کام کرنے کے علاوہ، دامنی بتاتی ہیں کہ وہ پولیس کی طرف سے کاروباریوں سے ’وصولی‘ (قانونی کارروائی یا مار پیٹ کی دھمکی دے کر غیر قانونی طور پر پیسے کا مطالبہ) کرتا تھا، اور پی آئی کی ذاتی رہائش گاہ یا ہوٹلوں اور لاجوں میں ان کے لیے سیکس ورکرز اور خواتین کانسٹیبل ’’لاتا‘‘ تھا۔

دامنی کہتی ہیں، ’’اگر ہم شکایت کرنا بھی چاہیں، تو ہمارے سینئر افسر عام طور پر مرد ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘‘ خواتین پولیس افسران بھی پدرانہ سوچ اور ظلم و استحصال سے اچھوتی نہیں ہیں۔ ریٹائرڈ انڈین پولیس سروس (آئی پی ایس) افسر ڈاکٹر میراں چڈھا بوروَنکر، جنہیں مہاراشٹر کی پہلی خاتون پولیس کمشنر ہونے کا امتیاز حاصل ہے، بتاتی ہیں کہ ہندوستان میں خواتین پولیس اہلکاروں کے لیے کام کی جگہ ہمیشہ غیر محفوظ رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’کام کی جگہ پر جنسی استحصال ایک حقیقت ہے۔ کانسٹیبل سطح کی عورتوں کو اس کا سامنا زیادہ کرنا پڑتا ہے، لیکن سینئر خواتین افسران بھی اس سے اچھوتی نہیں ہیں۔ میں نے بھی اس کا سامنا کیا ہے۔‘‘

سال ۲۰۱۳ میں، خواتین کے خلاف کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی کا نمٹارہ، روک تھام اور حل کا قانون نافذ کیا گیا تھا، تاکہ عورتوں کو کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی سے تحفظ فراہم کیا جا سکے، اور آجروں کو اس کے بارے میں بیداری بڑھانے کی ذمہ داری دی گئی۔ بنگلورو کے الٹرنیٹو لاء فورم کی وکیل پورنا روی شنکر کہتی ہیں، ’’پولیس اسٹیشن اس قانون کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور اس کے التزامات پر عمل کرنا ضروری ہے۔ ایس ایچ او یا پی آئی ’آجر‘ ہوتے ہیں اور نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے ذمہ دار ہوتے ہیں۔‘‘ یہ قانون طے کرتا ہے کہ اندرونی شکایت کمیٹی (آئی سی سی) کی لازمی طور پر تشکیل ہو، تاکہ کام کی جگہ پر ہراسانی کی شکایتوں کو سنبھالا جا سکے – جو پی آئی کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ دامنی کے معاملے میں تھا۔ لیکن ڈاکٹر بوروَنکر ایک سچائی بتاتی ہیں: ’’آئی سی سی اکثر صرف کاغذوں پر ہوتی ہے۔‘‘

لوک نیتی پروگرام فار کمپریٹو ڈیموکریسی، سنٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز (سی ایس ڈی ایس) کے ذریعہ ۲۰۱۹ میں منعقد ’ ہندوستان میں پولیس نظام کی حالت ‘ نامی سروے میں مہاراشٹر سمیت ۲۱ ریاستوں میں ۱۰۵ جگہوں پر ۱۱ ہزار ۸۳۴ پولیس اہلکاروں کا انٹرویو لیا گیا۔ اس سے پتہ چلا کہ تقریباً ایک چوتھائی (۲۴ فیصد) خواتین پولیس اہلکاروں نے اپنے کام کی جگہ یا دائرہ اختیار والے علاقے میں ایسی کمیٹیوں کے نہ ہونے کی اطلاع دی۔ جزوی طور پر یہی وجہ ہے کہ خواتین پولیس اہلکاروں کے ذریعے برداشت کی گئی ہراسانی کی حالت کا اندازہ لگانا ایک بڑا چیلنج ہے۔

دامنی وضاحت کرتی ہیں، ’’ہمیں اس قانون کے بارے میں کبھی بتایا ہی نہیں گیا۔ نہ ہی کوئی کمیٹی تھی۔‘‘

سال ۲۰۲۴ سے، نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو (این سی آر بی) نے کام کی جگہ یا دفتر کے احاطہ میں جنسی ہراسانی کے معاملوں کے اعدادوشمار جمع کیے ہیں، جسے ’عورت کی عزت کو ٹھیس پہنچانے کے ارادے سے حملہ‘ (اب ترمیم شدہ تعزیرات ہند کی دفعہ ۳۵۴، جو نئی بھارتیہ نیائے سنہتا یا بی این ایس کی دفعہ ۷۴ کے مساوی ہے) کے تحت زمرہ بند کیا جاتا ہے۔ سال ۲۰۲۲ میں، نیشنل کرائم ریکارڈز بیورو نے اس زمرہ میں پورے ہندوستان میں کم از کم ۴۲۲ متاثرین کو درج کیا، جن میں سے ۴۶ مہاراشٹر میں تھے – یہ ڈیٹا شاید حقیقی تعداد سے کم ہو۔

*****

نومبر ۲۰۱۷ کی اُس رات جب دامنی گھر پہنچیں، تو ان کے دماغ میں سوالوں کا انبار تھا – آواز بلند کرنے کے ممکنہ نتائج، اور ہر دن کام پر اپنے مبینہ عصمت دری کرنے والوں کے چہرے دیکھنے کا خوف۔ ’’میں مسلسل سوچتی رہی کہ کیا [عصمت دری] میرے سینئرز کے غلط ارادوں کو نہ ماننے کا نتیجہ تھا…اب آگے مجھے کیا کرنا چاہیے،‘‘ دامنی یاد کرتی ہیں۔ چار پانچ دن بعد، دامنی نے ہمت جُٹائی اور کام پر گئیں، لیکن اس واقعہ کے بارے میں کچھ نہ کہنے یا کرنے کا فیصلہ کیا۔ ’’میں بیحد پریشان تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ کس قسم کے قدم اٹھانے چاہئیں [جیسے صحیح وقت کے اندر میڈیکل جانچ، لیکن…مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا،‘‘ دامنی جھجکتے ہوئے کہتی ہیں۔

لیکن ایک ہفتہ بعد، وہ مراٹھواڑہ کے ایک ضلع کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) سے ملنے گئیں اور تحریری شکایت دی۔ ایس پی نے ان سے پہلی اطلاعاتی رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے کو نہیں کہا۔ اس کی بجائے، دامنی کو وہ نتائج بھگتنے پڑے جن سے وہ ڈر رہی تھیں۔ دامنی کہتی ہیں، ’’ایس پی نے ان کے پولیس اسٹیشن سے ان کی سروس بُک منگوائی۔ اس میں ملزم پولیس انسپکٹر نے لکھا کہ میرا کردار صحیح نہیں ہے اور میں نے کام کی جگہ پر بدسلوکی کی ہے۔‘‘

کچھ دن بعد، دامنی نے ایس پی کو دوسرا شکایتی خط لکھا، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ ’’ایسا ایک بھی دن نہیں تھا، جب میں نے اعلیٰ افسران سے ملنے کی کوشش نہ کی ہو،‘‘ وہ یاد کرتی ہیں۔ ’’اسی وقت، میں طے ڈیوٹی بھی کر رہی تھی۔ پھر مجھے پتہ چلا کہ عصمت دری کے سبب میں حاملہ ہو چکی ہوں۔‘‘

اگلے مہینہ، انہوں نے ایک اور چار صفحات کا شکایتی خط لکھا، جسے انہوں نے ایس پی کو ڈاک اور وہاٹس ایپ کے ذریعے بھیجا۔ جنوری ۲۰۱۸ میں، عصمت دری کے الزام کے دو مہینے بعد، ایک ابتدائی انکوائری کا حکم دیا گیا۔ دامنی کہتی ہیں، ’’ایک خاتون اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) انکوائری انچارج تھیں۔ حالانکہ میں نے انہیں اپنے حاملہ ہونے کی رپورٹ دی، لیکن انہوں نے اسے اپنی رپورٹ کے ساتھ منسلک نہیں کیا۔ اے ایس پی نے رپورٹ کے نتیجہ میں لکھا کہ جنسی ہراسانی ہوئی ہی نہیں اور مجھے جون ۲۰۱۹ میں، آگے کی جانچ ہونے تک معطل (سسپنڈ) کر دیا گیا۔

PHOTO • Priyanka Borar

دامنی کہتی ہیں، ’اگر ہم شکایت کرنا بھی چاہیں، تو ہمارے سینئر افسران عام طور پر مرد ہوتے ہیں۔ وہ ہمیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘ خواتین پولیس افسران بھی پدرانہ سوچ اور ظلم و استحصال سے اچھوتی نہیں ہیں

اس دوران، دامنی کو اپنی فیملی کا ساتھ نہیں ملا۔ وہ واقعہ سے ایک سال پہلے، ۲۰۱۶ میں اپنے شوہر سے الگ ہو چکی تھیں۔ چار بہنوں اور ایک بھائی میں سب سے بڑی ہونے کے ناطے، انہیں امید تھی کہ ان کے والد، جو ایک ریٹائرڈ پولیس کانسٹیبل تھے، اور ان کی خاتون خانہ ماں ان کے ساتھ کھڑی ہوں گی۔ وہ کہتی ہیں، ’’لیکن ایک ملزم نے میرے والد کو بھڑکایا…ان سے کہا کہ میں اسٹیشن پر جنسی سرگرمیوں میں ملوث ہوں…کہ میں ’فالتو‘ (بیکار) ہوں…کہ مجھے ان کے خلاف شکایت نہیں کرنی چاہیے اور اس جھمیلے میں نہیں پڑنا چاہیے۔‘‘ جب ان کے والد نے ان سے بات کرنا بند کردیا، تو وہ حیران رہ گئیں۔ ’’اس بات پر یقین کرنا بہت مشکل تھا۔ لیکن میں نے اسے نظر انداز کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور کیا کرتی؟‘‘

حالات اور بھی خراب ہو گئے، دامنی کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ لگاتار نگرانی میں ہیں۔ ’’ملزمین، خاص کر وہ ملازم، ہر جگہ میرا پیچھا کرتا تھا۔ میں ہمیشہ محتاط رہتی تھی۔ میں ٹھیک سے سو نہیں رہی تھی، نہ ہی ٹھیک سے کھا رہی تھی۔ میرا من اور جسم دونوں تھک چکے تھے۔‘‘

پھر بھی انہوں نے اپنا ارادہ نہیں بدلا۔ فروری ۲۰۱۸ میں، انہوں نے ضلع کے ایک تعلقہ میں جیوڈیشل مجسٹریٹ اول درجہ (جے ایم ایف سی) عدالت سے رابطہ کیا۔ ان کا معاملہ اس بنیاد پر خارج کردیا گیا کہ انہیں کسی پبلک سرونٹ کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لیے اپنے سینئر افسران سے اجازت نہیں ملی تھی (ترمیم شدہ کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ ۱۹۷ کے تحت، جو نئی بھارتیہ نیائے سرکشا سنہتا یا بی این ایس ایس کی دفعہ ۲۱۸ کے مساوی ہے)۔ ایک ہفتہ بعد، جب انہوں نے ایک اور درخواست دائر کی، تو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ سیشن کورٹ نے آخرکار پولیس اسٹیشن کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔

’’تین مہینے سے زیادہ وقت تک ناامیدی اور اداسی محسوس کرنے کے بعد، عدالتی حکم نے میری ہمت بڑھائی،‘‘ اس لمحہ کو پھر سے جیتے ہوئے دامنی نے کہا۔ لیکن یہ خوشی جلد ہی ختم ہو گئی۔ ایف آئی آر درج ہونے کے دو دن بعد، مبینہ جرم کے مقام – پولیس انسپکٹر کا گھر – کی جانچ کی گئی۔ وہاں کوئی ثبوت نہیں ملا۔ ایسا ہونا فطری تھا، کیوں کہ اس واقعہ کو تین مہینے سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا، جب دامنی پولیس انسپکٹر کے گھر گئی تھیں۔ اس کے بعد کوئی گرفتاری نہیں کی گئی۔

اسی مہینہ دامنی کو اسقاط حمل کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے بچے کو کھو دیا۔

*****

سال ۲۰۱۹ میں، دامنی کے معاملے میں آخری سماعت کے بعد، پانچ سال سے بھی زیادہ وقت گزر چکا ہے۔ اپنی معطلی کے دوران انہوں نے مسلسل کوشش کی کہ وہ اپنا معاملہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) تک پہنچا سکیں، لیکن انہیں ملنے کا وقت نہیں دیا گیا۔ ایک دن انہوں نے اپنی کہانی سناتے ہوئے ان کی سرکاری گاڑی کے سامنے کھڑے ہو کر انہیں روک لیا۔ ’’میں نے ان سے اپیل کی، ان تمام غیر منصفانہ کارروائیوں کی فہرست بنائی جو میرے خلاف کی گئی تھی۔‘‘ دامنی یاد کرتی ہیں، ’’پھر انہوں نے مجھے بحال کرنے کا حکم دیا۔‘‘ اگست ۲۰۲۰ میں انہوں نے پولیس فورس میں پھر سے کام شروع کیا۔

آج وہ مراٹھواڑہ کے ایک دور افتادہ علاقے میں رہتی ہیں۔ ان کے گھر کے علاوہ، وہاں کے منظرنامہ میں صرف کچھ کھیت کھلہان نظر آتے ہیں، اور آس پاس زیادہ لوگ بھی نہیں رہتے ہیں۔

PHOTO • Jyoti Shinoli

جہاں تک دامنی کو یاد ہے، وہ ایک سینئر سرکاری افسر بننا چاہتی تھیں اور اس علاقہ میں ایک محفوظ مستقبل چاہتی تھیں جہاں بے روزگاری زیادہ ہے

’’میں یہاں محفوظ محسوس کرتی ہوں۔ اس طرف کوئی نہیں آتا، سوائے کچھ کسانوں کے،‘‘ اپنی دوسری شادی سے ہوئی چھ مہینے کی بیٹی کو گود میں لیے ہوئے، وہ راحت کی سانس لیتے ہوئے کہتی ہیں۔ ’’پہلے میں ہمیشہ فکرمند رہتی تھی، لیکن اس کی پیدائش کے بعد سے میں تھوڑی مطمئن ہو گئی ہوں۔‘‘ ان کے شوہر ان کا ساتھ دیتے ہیں اور ان کی بیٹی کی پیدائش کے بعد سے ان کے والد کے ساتھ بھی رشتے بہتر ہونے لگے ہیں۔

وہ اب اُس پولیس اسٹیشن میں کام نہیں کرتیں، جہاں ان کے ساتھ مبینہ طور پر عصمت دری ہوئی تھی۔ اس کی بجائے، وہ اسی ضلع کے ایک دوسرے اسٹیشن میں ہیڈ کانسٹیبل کے عہدہ پر تعینات ہیں۔ صرف دو معاون اور قریبی دوست جانتے ہیں کہ وہ جنسی حملے کی متاثرہ ہیں۔ ان کے موجودہ یا سابقہ کام کی جگہ پر کسی کو یہ معلوم نہیں ہے کہ اب وہ کہاں رہتی ہیں۔ اس کے باوجود، وہ محفوظ محسوس نہیں کرتیں۔

’’اگر میں باہر ہوتی ہوں اور وردی میں نہیں ہوتی، تو اپنے چہرے کو کپڑے سے ڈھانپ لیتی ہوں۔ میں کبھی تنہا باہر نہیں جاتی،‘‘ دامنی کہتی ہیں۔ ’’میں ہمیشہ احتیاط برتتی ہوں۔ وہ میرے گھر تک نہیں پہنچنے چاہئیں۔‘‘

یہ کوئی خیالی خوف نہیں ہے۔

دامنی شکایت کرتی ہیں کہ ملزم اکثر ان کے نئے کام کی جگہ یا ان پولیس چوکیوں پر آتا ہے جہاں انہیں تعینات کیا جاتا ہے – اور انہیں مارتا پیٹتا ہے۔ ’’ایک بار، ضلع عدالت میں میرے معاملے کی سماعت کے دن اس نے بس اسٹاپ پر میرے ساتھ مار پیٹ کی۔‘‘ نئی ماں کے طور پر، ان کی سب سے بڑی فکرمندی اپنی بیٹی کی حفاظت کو لے کر ہے۔ ’’اگر انہوں نے اس کے ساتھ کچھ کر دیا تو؟‘‘ وہ فکرمندی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی بچی کو اور کس کر پکڑ لیتی ہیں۔

اس رپورٹر نے دامنی سے مئی ۲۰۲۴ میں ملاقات کی تھی۔ مراٹھواڑہ کی شدید گرمی، تقریباً سات سال لمبی انصاف کی لڑائی، اور آواز بلند کرنے کی وجہ سے نقصان پہنچائے جانے کا خطرہ ہونے کے باوجود ان کے حوصلے بلند تھے؛ اس کا عزم اور بھی مضبوط تھا۔ ’’میں تمام ملزمین کو سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں لڑنا چاہتی ہوں،‘‘ وہ پختگی سے کہتی ہیں۔

یہ اسٹوری ہندوستان میں جنسی اور صنف سے متعلق تشدد (ایس جی بی وی) کا سامنا کر چکے لوگوں کی دیکھ بھال کی راہ میں آنے والی سماجی، ادارہ جاتی اور ساختیاتی رکاوٹوں پر مرکوز ملک گیر رپورٹنگ کے پروجیکٹ کا حصہ ہے۔ اس پروجیکٹ کو ڈاکٹرز وِداؤٹ بارڈرز انڈیا کا ساتھ ملا ہے۔

اسٹوری کے کرداروں اور فیملی کے ممبران کی شناخت کو پوشیدہ رکھنے کے لیے ان کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

ஜோதி ஷினோலி பீப்பில்ஸ் ஆர்கைவ் ஆஃப் ரூரல் இந்தியாவின் மூத்த செய்தியாளர்; இதற்கு முன் இவர் ‘மி மராத்தி‘,‘மகாராஷ்டிரா1‘ போன்ற செய்தி தொலைக்காட்சிகளில் பணியாற்றினார்.

Other stories by Jyoti Shinoli
Editor : Pallavi Prasad

பல்லவி பிரசாத் மும்பையை சேர்ந்த சுயாதீன பத்திரிகையாளர். யங் இந்தியாவின் மானியப் பணியாளர். லேடி ஸ்ரீராம் கல்லூரியின் ஆங்கில இலக்கிய பட்டதாரி. பாலினம், பண்பாடு மற்றும் மருத்துவம் குறித்து எழுதி வருகிறார்.

Other stories by Pallavi Prasad
Series Editor : Anubha Bhonsle

அனுபா போன்ஸ்லே, 2015 ல் பாரியின் நல்கையை பெற்றவர். சுதந்திர பத்திரிகையாளர் மற்றும் ICFJ Knight நல்கையை பெற்றவர். இவருடைய Mother, where's my country? என்கிற புத்தகம் மணிப்பூரின் சிக்கலான வரலாறு, ஆயுதப் படைகளின் சிறப்பு அதிகார சட்டம் , அதன் தாக்கம் போன்றவற்றை பேசும் புத்தகம்.

Other stories by Anubha Bhonsle
Translator : Qamar Siddique

கமார் சித்திக்கி, பாரியில் உருது மொழிபெயர்ப்பு ஆசிரியராக இருக்கிறார். அவர் தில்லியை சார்ந்த பத்திரிகையாளர் ஆவார்.

Other stories by Qamar Siddique