کیکووے-اُو نے چھوٹی عمر میں اپنی ماں اور دادی کو بچھوا بوٹی یا تھیوو کے چھالوں سے بُنائی کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ اپنی ماں کے ذریعہ ادھورا چھوڑے ہوئے ٹکڑے کو اٹھا کر خود مشق کرنے لگتی تھیں۔ لیکن انہیں یہ کام رازداری میں کرنا پڑتا تھا، کیونکہ ان کی ماں نے ادھورے ٹکڑے کو ہاتھ لگانے سے انہیں سختی سے منع کیا ہوتا تھا۔ اس طرح کیکووے-اُو نے رازدارانہ طور پر آہستہ آہستہ ناگا شالوں کو بُننے کا ہنر سیکھ لیا، وہ بتاتی ہیں۔
آج، وہ ایک ماہر دستکار ہیں، جو کاشتکاری اور گھریلو کام کے درمیان بُنائی کے لیے وقت نکال لیتی ہیں۔ ’’چاول پکانے کے لیے پانی کے ابلنے کا انتظار کرتے ہوئے، یا اگر کوئی ہمارے بچوں کو سیر کے لیے لے جاتا ہے، تو ہم اتنا بُننے کی کوشش کرتے ہیں،‘‘ وہ اپنی شہادت کی انگلی کی لمبائی کا اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں۔
کیکووے-اُو اپنے دو پڑوسیوں – ویہوسُولُو اور ایزیے ہیلو چٹسو – کے ساتھ رُکیزو کالونی میں واقع اپنے ٹین کی چھت والے گھر میں بیٹھی ہیں۔ کیکووے-اُو کے اندازہ کے مطابق، ناگالینڈ کے پھیک ضلع کے پُھتسیرو گاؤں کے ۲۶۶ کنبوں میں سے تقریباً ۱۱ فیصد لوگ بُنائی کا کام کرتے ہیں۔ یہ کام زیادہ تر چکھیسانگ برادری کے ذیلی گروپ کُوزامی سے تعلق رکھنے والی خواتین (جو درج فہرست قبائل کے طور پر درج ہیں) کرتی ہیں۔ ’’ہمارے شوہر مدد کرتے ہیں،‘‘ کیکووے-اُو کہتی ہیں، ’’وہ کھانا بھی پکا سکتے ہیں، لیکن وہ خواتین کی طرح ’ماہر‘ نہیں ہیں۔ ہمیں کھانا پکانا، کاشتکاری کرنا، بُنائی کرنا اور دوسرے کام کرنے پڑتے ہیں۔‘‘
کیکووے-اُو کی طرح ویہوسولو اور ایزیے ہیلو چٹسو نے بھی چھوٹی عمر میں ہی بُنائی کا کام شروع کر دیا تھا۔ سیکھنے کا عمل چھوٹے کاموں کو انجام دینے کے ساتھ شروع ہوتا ہے جیسے دھاگے کو پھرکی میں لپیٹنا، سمیٹنا یا بانا باندھنا۔
ایزیے ہیلو چٹسو اب ۳۵ سال کی ہو چکی ہیں۔ انہوں نے بُنائی کا کام اس وقت شروع کیا تھا جب وہ ۲۰ سال کی تھیں۔ ’’میں مختلف قسم کے کپڑے (شال اور چادریں) بنتی ہوں۔ میں ایسے تقریباً ۳۰ عدد کپڑے بُن لیتی تھی لیکن اب بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کی وجہ سے میں ہفتے میں شاید ہی ایک یا کبھی دو شال بُن سکتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔
’’صبح اور شام کو میں اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہوں اور دن میں بُنائی کرتی ہوں،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں، لیکن اپنے چوتھے بچے کی امید کی وجہ سے انہوں نے فی الحال کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔
خواتین اپنے روایتی لباس، میخلا (روایتی ناگا سارونگ) اور شالیں، اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے بُنتی ہیں۔ ویہوسولو، جو چوتھی نسل کی بنکر ہیں، انگامی قبیلہ کے لیے بھی کپڑے بُنتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں انہیں خاص طور پر سالانہ ہارن بل فیسٹیول کے آس پاس بُنتی ہوں۔ اس وقت مانگ زیادہ ہوتی ہے۔‘‘
ناگالینڈ کی ریاستی حکومت کے زیر اہتمام منعقد ہونے والا ہارن بل فیسٹیول ایک ۱۰ روزہ فیسٹیول ہوتا ہے جو ۱ دسمبر سے شروع ہوتا ہے۔ یہ فیسٹیول روایتی ثقافت اور طرز زندگی کو ظاہر کرتا ہے اور اس دوران سیاحوں کی ایک بڑی تعداد ہندوستان اور بیرون ملک سے آتی ہے۔
*****
ہر ناگا قبیلہ کی اپنی الگ شال ہوتی ہے، جو برادری کے لیے مخصوص ہوتی ہے اور چکھیسانگ شالوں کو ۲۰۱۷ میں جغرافیائی اشارے (جی آئی ) ٹیگ ملا تھا۔
پھیک گورنمنٹ کالج میں تاریخ کی استاد ڈاکٹر ژوکوشیئی راکھو کہتی ہیں، ’’شالیں دوسری چیزوں کے ساتھ شناخت، حیثیت اور جنس کی بھی علامت ہیں۔ کوئی تقریب یا تہوار شال کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔‘‘
’’روایتی شالیں ہماری ثقافتوں اور اقدار کی نشاندہی کرتی ہیں،‘‘ نیتشوپیو (اتھالے) تھپی وضاحت کرتی ہیں۔ وہ ناگالینڈ کے مخصوص کپڑوں کو فروغ دینے اور ان کے تحفظ کے لیے وقف ذریعہ معاش کے پروگرام چِیزامی ویوزکی پروجیکٹ کوآرڈینیٹر ہیں۔
’’ہر ایک شال یا میخیلا کو مختلف زمروں میں رکھا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، غیرشادی شدہ افراد، شادی شدہ جوڑوں، کم عمر خواتین یا مردوں کے لیے مختلف شالیں ہوتی ہیں اور کچھ شالوں کا تعلق آخری رسومات سے بھی ہوتا ہے،‘‘ وہ وضاحت کرتی ہیں۔ آتشول کے مطابق، نیزہ، ڈھال، متھون، ہاتھی، چاند، سورج، پھول اور تتلیاں کچھ عام شکلیں ہیں جو چکھیسانگ شالوں پر ابھاری جاتی ہیں۔
لیکن جن خواتین سے پاری نے بات کی ان میں سے زیادہ تر شالوں کی تقسیم اور ان پر بنائی ہوئی شکلوں کی اہمیت سے ناواقف تھیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اگرچہ یہ دستکاری ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتی رہی ہے، لیکن ان سے وابستہ کہانیاں منتقل نہیں ہوئی ہیں۔ کیکووے-او اور ان کے پڑوسی بھی اس بات سے بھی ناواقف ہیں کہ چکھیسانگ شالوں کو جی آئی ٹیگ دیا گیا ہے۔ بہرحال، ان کا کہنا ہے کہ بُنائی سے حاصل آمدنی سے مالی مشکلات کو حل کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ ویہوسولو، تانے میں دھاگے کو باندھ کر اور اسے لکڑی کے تھاپی سے سخت کرتے ہوئے پاری کو بتاتی ہیں، ’’ہم فصل تیار ہونے تک کھیتی سے کچھ نہیں کماتے ہیں، لیکن بُنائی کا معاملہ مختلف ہے۔ مشکل حالات سے نمٹنے کے لیے بنے ہوئے کپڑوں کو کسی بھی وقت فروخت کیا جا سکتا ہے۔‘‘
*****
بنکر عام طور پر پھیک ضلع کے سب ڈویژن پُھتسیرو بازار سے خام مال خریدتے ہیں۔ بُنائی میں دو قسم کے دھاگے استعمال کیے جاتے ہیں۔ روئی اور اون اب زیادہ عام ہیں۔ بڑے پیمانہ پر تیار کیے جانے والے دھاگوں کی آسانی سے دستیابی کی وجہ سے روایتی طور پر پودوں سے حاصل ہونے والے قدرتی ریشوں کا رواج آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے۔
ویہوسولو کہتی ہیں، ’’سب سے زیادہ مانگ والے موسم، نومبر-دسمبر کے دوران، ہم عام طور پر ایک مخصوص دکان سے تھوک میں خریداری کرتے ہیں۔ اکثر ہماری تیار شدہ مصنوعات اسی دکان میں فروخت ہوتی ہیں یا وہی آرڈر کا بندوبست کرتے ہیں۔‘‘ ایک کلو مقامی اون اور دو پلائی کے دھاگے کی قیمت ۵۵۰ روپے ہوتی ہے اور تھائی لینڈ کے دھاگے کی قیمت ۶۴۰ روپے فی کلو ہوتی ہے۔
بنکر بانس اور لکڑی سے بنے روایتی ناگا کمر کرگھے پر بنائی کرتے ہیں۔
کیکووے-او چیجھیرہو یا پیچھے کا تسمہ اور راڈزو یا لکڑی کی لپیٹنے والی مشین کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ تسمہ ایک کیپے (لکڑی کی ڈنڈے) سے جڑا ہوا ہے۔ یہ تناؤ پیدا کرتا ہے اور بنے ہوئے سرے کو لپیٹ دیتا ہے۔ تاہم، ’راڈزو‘ کے بغیر بھی لپیٹنے والی بیم، جسے ’راڈزو کُلو‘ کہا جاتا ہے، کو تناؤ پیدا کرنے کے لیے دیوار یا کسی معاون ڈھانچہ سے افقی طور پر باندھا جا سکتا ہے۔
بُننکر پانچ سے آٹھ اوزار استعمال کرتے ہیں جو بُنائی کے عمل کے لیے ضروری ہیں: لوجی یا لکڑی کی تھاپی جو شال کے معیار، نرمی اور مضبوطی کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے؛ بنائی کی شٹل جسے میپھیتشُوکا کے نام سے جانا جاتا ہے جو ایک سادہ چھڑی ہے جس میں سوت لپیٹا جاتا ہے۔ پیچیدہ نمونوں کو ڈیزائن کرنے کے لیے بانس کی پتلی چھڑیوں کا استعمال کیا جاتا ہے، جسے لونو تھسوکا کہا جاتا ہے اور جو تانے سے جڑی ہوتی ہے۔ لوپو بانس کی پتلی چھڑی کو کہتے ہیں جو بنائی کے دوران تانو کو اوپری اور نچلے گروپوں میں الگ کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ بانس کی پتلی قمچیاں جنہیں کیجھے تھسوکا اور ناچے تھسوکا کہا جاتا ہے، دھاگے کو الگ اور ترتیب میں رکھنے کے لیے تانے کی قمچی (لیز راڈ) کے طور پر کام کرتی ہیں۔
*****
یہاں کی اہم فصل دھان ہے جس کی کاشت مئی-جون میں کی جاتی ہے۔ یہ فصل اپنے استعمال کی لیے اگائی جاتی ہے۔ اپنی زمین کے چھوٹے سے پلاٹ پر ویہوسولو، کھوی (الویم چائنیز) بھی کاشت کرتی ہیں۔ یہ ایک قسم کی خوشبودار جڑی بوٹی ہوتی ہے جو سلاد اور دیگر پکوانوں میں استعمال ہوتی ہے اور جسے ویہوسولو مقامی بازار میں فروخت کرتی ہیں۔
’’بوائی اور کٹائی کے درمیانی عرصہ میں کھیتی کا معمول کا کام ہوتا ہے، جیسے کہ گھاس کی نکائی، فصلوں کی کی دیکھ ریکھ اور جنگلاتی حیات سے حفاظت،‘‘ وہ مزید کہتی ہیں۔ اس کے بعد بُنائی پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے بہت کم وقت باقی رہ جاتا ہے۔
کیکووے-او کو یاد ہے کہ کاشتکاری میں خاطر خواہ تعاون نہ کرنے اور اس کی بجائے اپنا وقت بُنائی میں صرف کرنے پر ان کے اہل خانہ کی طرف سے انہیں طعنہ دیا جاتا تھا۔ لیکن انہوں نے اپنا ارادہ نہیں بدلا۔ ’’اگرچہ میں اکثر کھیت میں نہیں جاتی تھی، بُنائی نے ہمارے لیے معاش کا ایک اہم ذریعہ فراہم کر دیا تھا۔ اپنی شادی سے پہلے میں اپنے بھائی کے بچوں کی ٹیوشن فیس ادا کرنے میں کبنے کی مدد کرتی تھی اور تہواروں کے دوران جس طرح سے بھی ہو سکتا تھا ان کی مدد کرتی تھی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ کیکووے نے مزید کہا کہ جب کھیتی کا موسم نہیں ہوتا تھا، تو بُنائی سے جو رقم وہ حاصل کرتی تھیں وہ کنبے کے راشن پر خرچ ہوتا تھا۔
خواتین کا کہنا ہے کہ ان کی اجرت کافی نہیں ہے۔
ویہوسولو کہتی ہیں ، ’’اگر ہم یومیہ اجرت پر کام کریں تو ہم تقریباً ۵۰۰ سے ۶۰۰ روپے کما سکتے ہیں اور اگر بنائی کرتے ہیں تو ہم ہفتے میں تقریباً ۱۰۰۰ سے ۱۵۰۰ روپے کما سکتے ہیں۔‘‘ کیکووے-او کا مزید کہنا ہے کہ کم یومیہ اجرت کی وجہ یہ ہے کہ ’’یومیہ اجرت والے مزدور روزانہ تقریباً ۶۰۰ سے ۱۰۰۰ روپے کماتے ہیں، لیکن خواتین کو صرف ۱۰۰ سے ۱۵۰ روپے ملتے ہیں۔‘‘
’’پوئیسا پائلی ہوئیشے [جب تک معاوضہ مل رہا ہے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے]،‘‘ ایزیے ہیلو چٹسو ایک ہلکے پھلکے انداز میں کہتی ہیں اور پھر ایک سنگین تشویش کا اظہار کرتی ہیں، ’’یہاں حکومت کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملتی ہے۔‘‘
صحت کے مسائل بھی ہیں۔ زیادہ دیر تک ایک ہی پوزیشن میں بیٹھنا یا جھکنا ہمربیکھا (کمر درد) کا باعث بنتا ہے، جو ویہوسولو کے مطابق ان کے کام کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔
اس کے علاوہ بازار میں مشین سے بنی اشیاء سے مسابقت بھی ہے۔ کیکووے-او کہتی ہیں، ’’لوگ بغیر کسی شکایت کے بازار سے ایسے کپڑے خریدتے وقت زیادہ قیمت ادا کرتے ہیں،‘‘ لیکن جب بات مقامی بنکروں کی بنائی ہوئی اشیاء کی ہو، تو چاہے ایک ڈھیلا دھاگہ ہی کیوں نہ ہو، لوگ رعایت کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘
اس اسٹوری کو مرنالنی مکھرجی فاؤنڈیشن (ایم ایم ایف) کی فیلوشپ کا تعاون حاصل ہے۔
مترجم: شفیق عالم