تھنگکا یعنی ریشمی یا سوتی کپڑوں پر کی جانے والی پینٹنگ میں عام طور پر بدھ مذہب کے دیوتا کی تصویر کشی کی جاتی ہے۔ اسے دوبارہ زندگی عطا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ماتھو گاؤں کے رہائشی دورجے آنگچوک کہتی ہیں، ’’اگر بحالی میں معمولی غلطی بھی سرزد ہو جائے، مثلاً کونا ذرا سا مڑ جائے [اور] جو اصل سے [الگ] دکھائی دے، تو لوگ ناراض ہو سکتے ہیں۔‘‘
لیہہ سے ۲۶ کلومیٹر دور واقع گاؤں ماتھو کی دورجے کہتی ہیں، ’’یہ ایک نازک کام ہے۔‘‘ ماتھو کی آبادی ۱۱۶۵ (مردم شماری ۲۰۱۱) ہے، جہاں رہنے والے تقریباً تمام لوگ بدھ مذہب کے ماننے والی ہے۔
آنگچوک اور ان کی برادری سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کے خوف کا اس وقت ازالہ ہو پایا، جب نو ہنر مند تھنگکا (جنہیں تھنکا بھی کہا جاتا ہے) بحال کنندگان کی ایک ٹیم نے سینکڑوں سال پرانی پینٹنگ کے نمونوں میں قید قدیم آرٹ کو سمجھنے، پہچاننے اور انکشاف کرنے کے لیے سینکڑوں سال پیچھے کا سفر کیا۔ ان نمونوں میں ہر صدی کے اپنے عناصر، انداز اور نقش نگار شامل ہیں۔
ان خواتین کو آرٹ کی بحالی کی تربیت دینے والی فرانس کی ایک آرٹ بحال کنندہ نیلی ریاف کہتی ہیں، ماتھو کی ان خواتین نے جن تھنگکا کو بحال کیا ہے وہ سب ۱۵ سے ۱۸ویں صدی کے درمیان کی ہیں۔ تسیرینگ اسپالڈن کہتی ہیں، ’’ابتدائی طور پر گاؤں والے تھنگکا کو بحال کرنے والی خواتین کے خلاف تھے، لیکن ہمیں معلوم تھا کہ ہم کچھ غلط نہیں کر رہے تھے۔ ہم اپنی تاریخ کے لیے کچھ کر رہے تھے۔‘‘
بودھ راہبہ تھکچے ڈولما کہتی ہیں، ’’تھنگکا مہاتما بدھ اور دیگر مختلف بااثر لاماؤں اور بودھی ستووں کی زندگی کی تعلیمات کا بہترین ذریعہ ہیں۔‘‘ ڈولما نو تشکیل شدہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ لداخ کے کرگل ضلع کی دور افتادہ تحصیل زانسکر میں واقع کارشا کی راہبات کے مٹھ میں موجود ہیں۔
تسیرینگ اور دیگر بحالی کنندگان، جن کا تعلق کاشتکار کنبوں سے ہے، ہمالین آرٹ پریزرورز (ایچ اے پی) نامی تنظیم کا حصہ ہیں اور وہ تھنگکا کو بحال کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔ ’’تھنگکا کو دیگر تاریخی پینٹنگز کے مقابلے میں بحال کرنا مشکل ہے، کیونکہ ریشمی کپڑا نایاب اور انتہائی خالص معیار کا ہوتا ہے۔ پینٹ یا کپڑے کو نقصان پہنچائے بغیر صرف گندگی کو ہٹانا مشکل ہوتا ہے،‘‘ نیلی کہتی ہیں۔
تسیرینگ کہتی ہیں، ’’ہم نے ۲۰۱۰ میں ماتھو گومپا [موناسٹری یا مٹھ] میں تحفظ کا کام سیکھنا شروع کیا تھا۔ دسویں جماعت کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بیکار بیٹھنے سے یہ کام بہتر تھا۔‘‘
تسیرنگ کے علاوہ اس کام میں شامل دیگر خواتین ہیں: تھِنلیس آنگمو، اُرگین چوڈول، اسٹینزن لڈول، کُنزانگ آنگمو، رنچِین ڈولما، اشے ڈولما، اسٹینزن آنگمو اور چُنزِن آنگمو۔ اس کام کے لیے انہیں ۲۷۰ روپے یومیہ کی پیشکش کی گئی۔ تسیرینگ کا کہنا ہے، ’’ہمارے دور افتادہ گاؤں اور ملازمت کے چند مواقع کے مدنظر یہ ایک بڑی رقم ہے۔‘‘ وقت گزرنے کے ساتھ، ’’ہمیں ان پینٹنگز کو بحال کرنے کی افادیت کا احساس ہوا۔ پھر ہم نے آرٹ اور تاریخ کو اور بھی گہرائی سے سمجھنا شروع کیا۔‘‘
سال ۲۰۱۰ میں ماتھو موناسٹری میوزیم نے تباہ شدہ تھنگکا کے تحفظ کو مہمیز دی۔ ’’تھنگکا اور مذہبی اہمیت کے دیگر نوادرات کو بحال کرنے کی فوری ضرورت تھی۔ ہم نے ۲۰۱۰ کے آس پاس اس بحالی کے کام کو سیکھنا شروع کیا،‘‘ تسیرینگ کہتی ہیں۔ انہوں نے چند دیگر خواتین کے ساتھ مل کر اس موقع سے فائدہ اٹھانے اور بحالی کی تربیت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
تھنگکا کی بحالی میں لگنے والا وقت اس کے سائز پر منحصر ہوتا ہے۔ اس میں چند دنوں سے لے کر چند مہینوں تک کا وقت لگ سکتا ہے۔ ’’سردیوں میں تھنگکا کی بحالی کو روکنا پڑتا ہے کیونکہ سردیوں کے موسم میں کپڑا خراب ہو جاتا ہے۔‘‘
اسٹینزن لڈول ایک بڑے رجسٹر کو کھولتی ہیں جس میں کام کے نمونوں کی درجہ بندی بڑے احتیاط سے کی گئی ہے۔ ہر صفحہ پر دو تصاویر ایک ساتھ رکھی گئی ہیں: ایک بحالی سے پہلے اور دوسری بحالی کے بعد آئی بہتری کو دکھا رہی ہے۔
رات کے کھانے کے لیے سبزیاں کاٹتے ہوئے تھنلیس کہتی ہیں، ’’ہم بہت خوش ہیں کہ ہم نے یہ کام سیکھا؛ اس نے ہمیں آگے بڑھنے کے لیے ایک الگ کریئر دیا ہے۔ ہم سب شادی شدہ ہیں، ہمارے بچے اپنا کام خود کر لیتے ہیں، اس لیے ہم بحالی کے کاموں میں کافی وقت صرف کرتے ہیں۔‘‘
تھنلیس کہتی ہیں، ’’ہم صبح ۵ بجے اٹھتے ہیں اور اپنے تمام گھریلو کام اور کھیتی کے کام کو نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ ان کی ساتھی تسیرینگ ان کی حمایت کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’’کھیتی بہت ضروری ہے، خود کفیل رہنے کے لیے۔‘‘
خواتین کے لیے دن لمبا ہو جاتا ہے۔ تھنلیس کہتی ہیں، ’’ہم گائے کا دودھ نکالتے ہیں، کھانا پکاتے ہیں، اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں، پھر ان مویشیوں پر نظر رکھنی ہوتی ہے جو چرنے نکلے ہیں۔ ان سب کے بعد، ہم ایچ اے پی میں آتے ہیں اور کام شروع کرتے ہیں۔‘‘
بحالی کنندگان کا کہنا ہے کہ تقریباً تمام فنڈز نئے تھنگکا بنانے میں صرف ہو جاتے ہیں۔ بدھ مذہب کے اسکالر ڈاکٹر سونم وانگچُک کا کہنا ہے کہ ’’آج کل شاید ہی کوئی ان صدیوں پرانے تھنگکا کی وراثتی قدر کو سمجھتا ہے، اور لوگ انہیں بحال کرنے کی بجائے ضائع کر دیتے ہیں،‘‘ ڈاکٹر سونم لیہہ میں واقع ہمالین کلچرل ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے بانی ہیں۔
’’اب کوئی ہمیں کچھ نہیں کہتا کیونکہ کئی سال گزر چکے ہیں اور ہم یہ کام باقاعدگی سے کر رہے ہیں،‘‘ گاؤں والوں کی ابتدائی مزاحمت کے بارے میں مختصراً بتاتے ہوئے تسیرینگ کہتی ہیں۔ لیہہ، شیسریگ لداخ میں مقیم ایک آرٹ کنزرویشن نقاش خانہ (اٹلیئر) کی بانی نور جہاں بتاتی ہیں، ’’شاید ہی کوئی مرد اس کام کو کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔‘‘ یہاں لداخ میں زیادہ تر خواتین آرٹ کی بحالی کا کام کرتی ہیں۔ اور ان کا کام صرف تھنگکا کی بحالی تک محدود نہیں ہے، بلکہ وہ یادگاروں اور دیواروں کی پینٹنگز کی بحالی میں بھی پیش پیش ہیں۔
سیرینگ کہتی ہیں، ’’ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ یہاں آئیں اور ہمارا کام دیکھیں۔‘‘ سورج پہاڑوں کے درمیان غروب ہو رہا ہے اور تسیرنگ اور دیگر خواتین جلد ہی گھر واپس لوٹ جائیں گی۔ لیکن بحالی کے مہنگے مواد کی کمی ایک بڑی تشویش کا باعث ہے، اسٹینزن لڈول یہ محسوس کرتے ہوئے کہتی ہیں: ’’یہ کام ہمارے لیے اس لیے اہم نہیں ہے کہ ہم اس سے بڑا منافع کماتے ہیں، بلکہ اس لیے اہم ہے کہ ایسا کرنے سے ہمیں سکون حاصل ہوتا ہے۔‘‘
اس کام نے انہیں ان قدیم پینٹنگز کو بحال کرنے کی مہارت سے کہیں زیادہ دیا ہے۔ اس نے ان کے اندر مزید اعتماد پیدا کیا ہے۔ ’’اس کی وجہ سے دوسروں کے ساتھ ہماری بات چیت کے طریقے بھی آہستہ آہستہ بدل گئے ہیں۔ پہلے ہم صرف لداخی میں بات کرتے تھے،‘‘ تسیرینگ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں، ’’لیکن اب انگریزی اور ہندی میں روانی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
مترجم: شفیق عالم