’’ شاسن کا برن کدر کرت ناہیں آمچیا محنتیچی [حکومت کو ہماری کڑی محنت کا خیال کیوں نہیں آتا]؟‘‘ آنگن واڑی کارکن منگل کرپے سوال کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں، ’’ دیشالا نروگی، سُدرڑھ ٹھیونیات آمچا موٹھا ہات بھار لاگتو [ہم ملک کو صحت مند اور مضبوط رکھنے میں اتنا تعاون دیتے ہیں]۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ کیسے ان کے جیسی آنگن واڑی کارکن حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں اور ان کے چھوٹے بچوں کے لیے ریاست کی اسکیمیں چلاتی ہیں۔
منگل (۳۹) مہاراشٹر کے احمد نگر ضلع کے راہتا تعلقہ کے دورہالے گاؤں میں آنگن واڑی چلاتی ہیں۔ ان کی طرح ریاست بھر میں دو لاکھ عورتیں ہیں جو آنگن واڑی کارکن اور معاون کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ وہ ترقی خواتین و اطفال کی وزارت کے تحت ترقی اطفال کی مربوط خدمات (آئی سی ڈی ایس) کی تمام صحت، غذائیت اور ابتدائی تعلیم کی پہل کو نافذ کرتی ہیں۔
ریاست کے ذریعہ نظرانداز کیے جانے کے خلاف سینکڑوں کارکن ۵ دسمبر ۲۰۲۳ کو شروع ہوئے ریاست گیر غیر مدتی احتجاجی مظاہرہ میں حصہ لے رہی ہیں۔
منگل ان مظاہرین کے بنیادی مطالبات کے بارے میں کہتی ہیں، ’’ہم نے پہلے بھی کئی بار احتجاجی مظاہرہ کیا ہے۔ ہم سرکاری ملازم کے طور پر منظوری چاہتے ہیں۔ ہم ہر مہینے ۲۶ ہزار روپے کی تنخواہ چاہتے ہیں۔ ہمیں ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن، سفر اور ایندھن کا بھتہ ملنا چاہیے۔‘‘
اس اسٹوری کے شائع ہونے تک مظاہرے کے تیسرے دن بھی ریاست کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا تھا۔ سینکڑوں کارکنوں نے ۸ دسمبر ۲۰۲۳ کو شرڈی شہر میں ضلع کلکٹر کے دفتر تک مارچ کیا۔
آنگن واڑی کارکن مندا رُکارے (۵۸) کہتی ہیں، ’’کیا ہم باعزت زندگی گزارنے کا مطالبہ کرکے کچھ غلط کر رہے ہیں۔‘‘ چونکہ ان کی عمر ۶۰ سال کے آس پاس ہے، تو انہیں فکر ہے کہ ’’میں کچھ سالوں میں ریٹائر ہو جاؤں گی۔ جب میں کوئی بھی جسمانی محنت نہیں کر پاؤں گی، تو میری دیکھ بھال کون کرے گا؟‘‘ گزشتہ ۲۰ سالوں سے مندا ریاست کے احمد نگر ضلع میں واقع اپنے روئی گاؤں میں آنگن واڑی میں کام کر رہی ہیں۔ وہ پوچھتی ہیں، ’’مجھے بدلے میں سماجی تحفظ کے طور پر کیا ملے گا؟‘‘
فی الحال آنگن واڑی کارکنوں کو ۱۰ ہزار روپے اور معاونین کو ۵۰۰۰ روپے کا ماہانہ اعزازیہ ملتا ہے۔ منگل بتاتی ہیں، ’’جب میں نے شروعات کی تھی، تب مجھے ۱۴۰۰ ملتے تھے۔ تب (۲۰۰۵) سے ان سالوں میں صرف ۸۶۰۰ روپے ہی بڑھے ہیں۔‘‘
منگل تائی گہوانے وستی آنگن واڑی میں ۵۰ بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ ان میں سے ۲۰، تین سے چھ سال کی عمر کے ہیں، جہاں ’’روزانہ مجھے یہ یقینی بنانا ہوتا ہے کہ بچے مرکز میں آئیں۔‘‘ اس لیے وہ اکثر انہیں اپنے اسکوٹر پر خود لاتی ہیں۔
صرف اتنے سے ان کا کام پورا نہیں ہوتا۔ وہ، ’’ناشتہ اور دوپہر کا کھانا بھی بناتی ہیں، اور یہ طے کرتی ہیں کہ بچے، خاص کر سوء تغذیہ کے شکار بچے ٹھیک سے کھانا کھائیں۔‘‘ ان کا دن یہیں ختم نہیں ہوتا۔ انہیں ہر بچے کا ریکارڈ رکھنا ہوتا ہے اور پوشن ٹریکر ایپ کو اپ ڈیٹ کرنا ہوتا ہے، جس میں ڈیٹا درج کرنے میں کافی وقت لگتا ہے اور یہ ایک محنت طلب کام ہے۔
منگل تائی کہتی ہیں، ’’ڈائری اور دوسری اسٹیشنری کی لاگت، پوشن ایپ کے لیے انٹرنیٹ رچارج، گھروں تک جانے کے لیے ایندھن، سب کچھ ہماری جیب سے آتا ہے۔ ملنے والے پیسوں میں سے کچھ خاص نہیں بچتا۔‘‘
وہ گریجویٹ ہیں اور گزشتہ ۱۸ سالوں سے یہ کام کر رہی ہیں۔ اپنے دو جوان بچوں – بیٹے سائیں (۲۰) اور بیٹی ویشنوی (۱۸) کے لیے وہ اکیلی سرپرست کے طور پر گھر چلا رہی ہیں۔ سائیں انجینئرنگ کی ڈگری کے لیے پڑھ رہا ہے اور ویشنوی نیٹ کے امتحان کی تیاری کر رہی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں چاہتی ہوں کہ میرے بچوں کو سب سے اچھی تعلیم ملے۔ ہمارا سالانہ خرچ ہزاروں میں جاتا ہے۔ صرف ۱۰ ہزار روپے میں دوسرے اخراجات کے ساتھ گھر چلانا مشکل ہوتا ہے۔‘‘
اس لیے منگل آمدنی کے دیگر ذرائع تلاش کرنے کے لیے مجبور ہیں۔ وہ یہ سمجھانے کی کوشش کرتی ہیں کہ انہیں دوسرے کام کیوں تلاش کرنے پڑتے ہیں، ’’میں گھر گھر جا کر پوچھتی ہوں کہ کیا وہ کچھ سلوانا چاہتے ہیں، مثلاً بلاؤز یا ڈریس۔ میں لوگوں کے لیے چھوٹے ویڈیو بھی ایڈٹ کرتی ہوں۔ انگریزی میں کوئی درخواست تیار کروانے میں مدد کرتی ہوں۔ ایسا کوئی بھی چھوٹا موٹا کام۔ میں اور کیا کروں؟‘‘
آنگن واڑی کارکنوں کی جدوجہد آشا، یعنی منظوری یافتہ سماجی صحت کارکنوں جیسی ہی ہے۔ (پڑھیں: بیماری اور صحت میں گاؤں کی دیکھ بھال )۔ دونوں ہی صحت سے متعلق خدمات اور زچگی، ٹیکہ کاری، غذائیت سے لے کر تپ دق جیسی مہلک بیماریوں اور یہاں تک کہ کووڈ۔۱۹ جیسے وبائی مرض کے لیے بنیادی فراہم کنندگان کے طور پر کام کرتی ہیں۔
اپریل ۲۰۲۲ میں ہندوستانی سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلہ میں سوء تغذیہ اور کووڈ۔۱۹ کے خلاف آنگن واڑی کارکنوں اور معاونین کے رول کو ’مرکزی‘ اور ’اہم‘ مانا تھا۔ عدالت نے ہدایت دی تھی کہ اہل آنگن واڑی کارکن اور معاونین ’سالانہ ۱۰ فیصد کے عام سود کے ساتھ گریچوئٹی کی حقدار ہیں۔‘
جسٹس اجے رستوگی نے اپنے وداعی تبصرہ میں ریاستی اور مرکزی حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ ’ان کی نبھائی گئی ذمہ داری کی نوعیت کے موافق ان کے لیے بہتر سروس شرطیں فراہم کرنے کے طور طریقوں کا پتہ لگائیں۔‘
منگل تائی، مندا جیسی لاکھوں آنگن واڑی کارکن اور معاونین (ہیلپرز) اس کے نافذ ہونے کا انتظار کر رہی ہیں۔
منگل تائی کہتی ہیں، ’’ہم اس بار سرکار سے تحریری یقین دہانی چاہتے ہیں۔ تب تک ہماری ہڑتال جاری رہے گی۔ یہ اس عزت کے بارے میں ہے جس کے ہم حقدار ہیں۔ یہ ہمارے وجود کی لڑائی ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز