’’میرے سسرال والوں نے اچھی دلہن لانے کے لیے اسے پیسے دیے تھے۔ یہ تو یہاں عام بات ہے۔‘‘ روما کھیچڑ بیس سال کی ہیں اور اپنی کہانی مجھ سے شیئر کر رہی ہیں۔ ’’دور سے یہاں (راجستھان) آ کر ہر کوئی نہیں رہ سکتا۔ میری جیٹھانی…‘‘

یشودا کھیچڑ (بدلا ہوا نام) اپنی بہو کی بات بیچ میں ہی کاٹ دیتی ہیں۔ ۶۷ سالہ یشودا کہتی ہیں، ’’پچاس ہزار لگا کر اس کو لائے تھے! پھر بھی سات سال کی بچی کو چھوڑ کر بھاگ گئی وہ۔‘‘

پنجاب سے آئی اپنی بڑی بہو کو لے کر یشودا ابھی تک ناراض ہیں کیوں کہ وہ بھاگ گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا، ’’وہ عورت! وہ یہاں تین سال رہی۔ اسے ہمیشہ سے زبان کا مسئلہ تھا۔ اس نے ہماری زبان کبھی نہیں سیکھی۔ ایک بار رکشا بندھن پر بولی کہ وہ شادی کے بعد پہلی بار اپنے بھائی اور گھر والوں سے ملنے جانا چاہتی ہے۔ ہم نے جانے دیا۔ اور پھر وہ کبھی واپس نہیں لوٹی۔ چھ سال ہو گئے ہیں۔‘‘

یشودا کی دوسری بہو روما کسی اور دلال کے ذریعے جھن جھنوں پہنچی تھی۔

اسے نہیں معلوم کہ اس کی شادی کس عمر میں ہوئی تھی۔ ایک گرد آلود الماری میں اپنا آدھار کارڈ تلاش کرتے ہوئے وہ بتاتی ہے، ’’میں کبھی اسکول نہیں گئی، اس لیے میں آپ کو نہیں بتا سکتی کہ میری پیدائش کس سال ہوئی تھی۔‘‘

اس کی پانچ سال کی بیٹی کو میں کمرے میں چارپائی پر کھیلتے ہوئے دیکھ رہی ہوں۔

روما کہتی ہیں، ’’شاید میرا آدھار کارڈ میرے شوہر کے پرس میں ہے۔ شاید میں ابھی تقریباً ۲۲ سال کی ہوں۔‘‘

Left: Yashoda says that Ruma learnt to speak in Rajasthani within six months of her marriage, unlike her elder daughter-in-law.
PHOTO • Jigyasa Mishra
Right: Ruma is looking for her Aadhaar card copy to confirm her age
PHOTO • Jigyasa Mishra

بائیں: یشودا بتاتی ہیں کہ روما نے ان کی بڑی بہو کے برعکس شادی کے چھ مہینے کے اندر ہی راجستھانی میں بات کرنا سیکھ لیا تھا۔ دائیں: روما اپنی عمر کی تصدیق کے لیے آدھار کارڈ کی کاپی تلاش کر رہی ہیں

وہ مزید کہتی ہیں، ’’میں گولا گھاٹ (آسام) میں پیدا ہوئی تھی۔ ماں باپ کی ایک حادثہ میں موت کے بعد میری پرورش بھی وہیں ہوئی۔ تب میں صرف پانچ سال کی تھی۔ تبھی سے میری فیملی میں بس میرے بھیا، بھابھی، نانا اور نانی ہی ہیں۔‘‘

آسام کے گولا گھاٹ ضلع میں ۲۰۱۶ میں ایک اتوار کی دوپہر روما نے دیکھا کہ نانا نانی کے گھر اس کے بھائی کے ساتھ دو عجیب سے کپڑے پہنے راجستھانی لوگ آئے تھے۔ ان میں سے ایک، نوجوان لڑکیوں کو بطور دلہن لانے والا دلال تھا۔

روما کہتی ہیں، ’’ہمارے شہر میں دوسری ریاستوں کے لوگ عام طور پر نہیں دکھائی دیتے تھے۔‘‘ ان لوگوں نے اس کی فیملی سے وعدہ کیا کہ وہ اچھا شوہر لائیں گے جسے کوئی جہیز نہیں چاہیے۔ انہوں نے بغیر پیسے اور خرچ کے شادی کرنے کی بھی پیشکش کی۔

گھر آئے ایک آدمی کے ساتھ ’اچھی لڑکی‘ روما کو وداع کردیا گیا۔ ہفتہ بھر کے اندر ہی دونوں اسے آسام میں اس کے گھر سے ڈھائی ہزار کلومیٹر دور، جھن جھنوں ضلع کے کشن پورہ گاؤں لے آئے۔

اتنی دور شادی کے لیے حامی بھرنے کے عوض انہیں جو پیسے دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، وہ پیسے روما کی فیملی تک کبھی نہیں پہنچے۔ سسرال کے لوگ، یعنی کھیچڑ فیملی کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے دلال کو جو پیسے ادا کیے تھے، اس میں لڑکی کے گھر والوں کو دیے جانے والے پیسے بھی شامل تھے۔

روما کہتی ہیں، ’’زیادہ تر گھروں میں آپ کو دوسری ریاستوں کی بہوئیں ملیں گی۔‘‘ مقامی لوگ اور علاقے میں کام کرنے والی کارکنوں کے مطابق، راجستھان میں نوجوان لڑکیاں اکثر مدھیہ پردیش، بہار، مغربی بنگال، اوڈیشہ اور اتر پردیش سے لائی جاتی ہیں۔

Left: Ruma right outside her in-law's house.
PHOTO • Jigyasa Mishra
Right: Ruma with her husband Anil and her daughter
PHOTO • Jigyasa Mishra

بائیں: روما اپنے سسرال کے گھر کے باہر۔ دائیں: روما اور انل (روما کے شوہر) سوچ رہے ہیں کہ اس ہولی پر وہ روما کے گھر جائیں

راجستھان میں دلہن حاصل کرنا بہت مشکل ہے- سی ایس آر، یعنی (صفر سے ۶ سال تک کی عمر کے) بچوں کے جنسی تناسب کے معاملے میں یہ ریاست سب سے خراب ریاستوں میں سے ایک ہے۔ ریاست کے ۳۳ ضلعوں میں جھن جھنوں اور سیکر کی حالت سب سے زیادہ خراب ہے۔ جھن جھنوں کے گاؤوں میں ہر ۱۰۰۰ لڑکوں پر ۸۳۲ لڑکیاں تھیں، جو ہر ۱۰۰۰ لڑکوں پر ۹۲۳ لڑکیوں کے قومی تناسب سے کافی کم ہے۔

حقوق انسانی کارکن وکاش کمار راہر کہتے ہیں کہ لڑکیاں اس لیے کم ہیں کیوں کہ ضلع کے لوگ لڑکا زیادہ چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’بیٹوں کے لیے دلہن بن سکنے والی لڑکیوں کی کمی کی وجہ سے ماں باپ دلالوں کے پاس جاتے ہیں، جو آسانی سے مل جاتے ہیں۔ دلال دوسری ریاستوں کے بے حد غریب گھروں سے لڑکیوں کو ان خاندانوں کے لیے لے آتے ہیں۔‘‘

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے ( این ایف ایچ ایس۔۵ ) میں درج ۲۰۲۰-۲۰۱۹ کے تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ راجستھان کے شہری علاقوں میں گزشتہ پانچ سال میں ہر ۱۰۰۰ لڑکوں پر ۹۴۰ لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ دیہی علاقوں میں یہ تناسب مزید کم ہوا اور ہر ۱۰۰۰ لڑکوں پر ۸۷۹ لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ جھن جھنوں کی ۷۰ فیصد سے زیادہ آبادی گاؤوں میں رہتی ہے۔

راہر، مقامی غیر سرکاری تنظیم ’شکشت روزگار کیندر پربندھک سمیتی (ایس آر کے پی ایس) میں رابطہ کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’لوگ (دلہنوں کے لیے) بیس ہزار سے ڈھائی لاکھ روپے تک دیتے ہیں، جس میں دلالوں کا حصہ بھی شامل ہوتا ہے۔‘‘

لیکن کیوں؟

یشودا کہتی ہیں، ’’اس کے بغیر کوئی (دلہن) کیسے ملے گی؟ یہاں کوئی بھی آپ کو اپنی بیٹی نہیں دیتا جب تک کہ آپ کا بیٹا سرکاری نوکر نہ ہو۔‘‘

From left: Ruma’s father-in-law, Ruma near the wall, and her mother-in-law Yashoda with her grand-daughter on her lap. The family has adopted a dog who follows Yashoda's c ommands
PHOTO • Jigyasa Mishra

بائیں سے: روما کے سسر، دیوار کے سہارے کھڑی روما، اور پوتے کو گود میں لیے ان کی ساس یشودا۔ فیملی نے ایک کتا پال رکھا ہے، جو یشودا کا حکم مانتا ہے

یشودا کے دو بیٹے کھیتی میں والد کی مدد کرتے ہیں اور ان کے چھ مویشیوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ فیملی کے پاس ۱۸ بیگھہ زمین ہے، جس میں وہ باجرا، گیہوں، کپاس اور سرسوں اگاتے ہیں۔ (راجستھان کے اس حصہ میں بیگھہ صفر اعشاریہ ۶۲۵ ایکڑ کے برابر ہوتا ہے۔)

یشودا کہانی سناتے ہوئے کہتی ہیں، ’’میرے بیٹوں کو یہاں لڑکیاں نہیں مل رہی تھیں، اس لیے باہر سے (خرید کر) لانا ہی ہمارے پاس واحد متبادل تھا۔ ہم اپنے بیٹوں کو کب تک اکیلا اور شادی کے بغیر رکھتے؟‘‘

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسداد منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کے انسانی اسمگلنگ کو روکنے، دبانے اور سزا دینے کے لیے بنائے گئے پروٹوکول میں اسمگلنگ کی تعریف اس طرح کی گئی ہے، ’’اپنے فائدے کے لیے استحصال کے مقصد سے جبراً، فریب یا دھوکے سے لوگوں کی تقرری، انہیں لانا لے جانا، منتقلی، کہیں رکھنا یا حاصل کرنا۔‘‘ انڈین پینل کوڈ (آئی پی سی) کی دفعہ ۳۷۰ کے تحت ہندوستان میں یہ قابل سزا جرم ہے۔ اور اس میں سات سے دس سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔

جھن جھنوں کی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، مردل کچھاوا نے اس چلن پر روک کے لیے اپنی کوششوں کے بارے میں ’پاری‘ کو بتایا، ’’راجستھان کے ہر ضلع میں انسانی اسمگلنگ کو روکنے کی ایک اکائی (اینٹی ہیومن ٹریفکنگ یونٹ، اے ایچ ٹی یو) ہے۔ کچھ مہینے پہلے، آسام پولیس نے ایک لڑکی کی اسمگلنگ کے بارے میں ہم سے رابطہ کیا تھا۔ ہم نے تفتیش کی، لڑکی کو بچایا اور اسے واپس بھیج دیا۔ مگر کچھ معاملوں میں اسمگلنگ کی شکار عورتیں لوٹنے سے منع کردیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اپنی مرضی سے یہاں آئی ہیں۔ تب معاملہ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔‘‘

روما یقیناً اپنے گھر والوں سے ملنا چاہیں گی، مگر وہ اپنے سسرال میں ہی رہنا چاہتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’میں عام لڑکی کی طرح یہاں خوش ہوں۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ظاہر ہے، میں بار بار گھر نہیں جاتی کیوں کہ وہ بہت دور ہے۔ مگر ہاں، میں جلد ہی جا کر اپنے بھائی اور فیملی کے دیگر لوگوں سے ملنا چاہوں گی۔‘‘ روما کو اپنے سسرال میں ابھی تک کسی بھی قسم کی جسمانی یا زبانی اذیت سے نہیں گزرنا پڑا ہے۔

Ruma visited her family in Assam twice since her marriage about seven years ago. She speaks to them occassionally over the phone
PHOTO • Jigyasa Mishra

تقریباً سات سال پہلے شادی کے بعد سے اب تک روما دو بار آسام میں اپنی فیملی سے جا کر مل چکی ہیں۔ کبھی کبھی وہ ان سے فون پر بھی بات کر لیتی ہیں

جہاں روما ایک ’عام لڑکی‘ کی طرح محسوس کرتی ہیں، وہیں مغربی بنگال سے ۲۰۱۹ میں اسمگلنگ کے ذریعے لائی گئی ۲۰ سال کی سیتا (بدلا ہوا نام) کی کہانی الگ ہے اور وہ اسے بتانے سے ڈرتی ہیں: ’’میں نہیں چاہتی کہ آپ میرے ضلع یا میری فیملی کے کسی بھی شخص کے نام کا استعمال کریں۔‘‘

’’سال ۲۰۱۹ میں ایک راجستھانی دلال جھن جھنوں میں میری شادی کرانے کی تجویز لے کر میری فیملی سے ملنے آیا۔ اس کا کہنا تھا کہ فیملی پیسے والی ہے۔ اس نے میرے ہونے والے شوہر کی نوکری کے بارے میں جھوٹ بولا۔ پھر اس نے میرے والد کو ڈیڑھ لاکھ روپے دینے کی پیشکش کی اور مجھے فوراً لے جانے کو کہا۔ اس نے ان سے کہا کہ شادی راجستھان میں کریں گے اور وہ تصویریں بھیج دیں گے۔‘‘

سیتا اسی دن گھر سے نکل گئی۔ اس کا خیال تھا کہ اس طرح وہ چار چھوٹے بچوں کے ساتھ قرض سے پریشان اپنے والد کی مدد کر رہی تھی۔

اس نے مزید بتایا، ’’دو دن بعد مجھے ایک کمرے میں بند کر دیا گیا اور ایک آدمی اندر آیا۔ مجھے لگا کہ وہ میرا شوہر ہے۔ اس نے میرے کپڑے پھاڑنے شروع کر دیے۔ میں نے اس سے شادی کے بارے میں پوچھا تو اس نے مجھے تھپڑ مارا۔ میرے ساتھ عصمت دری کی گئی۔ اگلے دو دن میں نے اسی کمرے میں بہت کم کھانا کھا کر گزارے ہوں گے۔ پھر مجھے میرے سسرال لایا گیا۔ تبھی مجھے پتہ چلا کہ میرا شوہر کوئی اور ہے جو مجھ سے آٹھ سال بڑا تھا۔‘‘

جھن جھنوں میں ایس آر کے پی ایس کے بانی راجن چودھری کہتے ہیں، ’’ایسے دلال ہیں جن کے پاس ہر عمر اور مالی حالت والے لوگوں کے لیے دلہنیں ہوتی ہیں۔ میں نے ایک بار ایک دلال سے پوچھا کہ کیا وہ میرے لیے لڑکی لا سکتا ہے۔ دھیان دیں کہ میری عمر ۶۰ سال سے زیادہ ہے۔ مجھے بڑا تعجب ہوا جب اس نے کہا کہ وہ مجھ سے تھوڑے زیادہ پیسے لے گا، مگر کام ہو جائے گا۔ اس نے جو طریقہ بتایا وہ یہ تھا کہ کسی نوجوان لڑکے کو ساتھ لے جائیں اور اسے دولہے کے طور پر دکھائیں۔‘‘ جب فیملی اپنی بیٹی سونپ دیتی، تو دلال اسے راجستھان لا کر اس کی شادی طے کر دیتا۔

Varsha Dangi was trafficked from her village in Sagar district of Madhya Pradesh and brought to Jhunjhunun
PHOTO • Jigyasa Mishra

ورشا ڈانگی کو مدھیہ پردیش کے ساگر ضلع کے ان کے گاؤں سے غیر قانونی طور پر خرید کر جھن جھنوں لایا گیا تھا

راجن کے مطابق، جھن جھنوں میں دلہنوں کی اسمگلنگ کی اصلی وجہ ضلع کا جنسی تناسب ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’رحم مادر میں غیر قانونی طریقے سے بچے کی جنس کی جانچ کر کے بچیوں کو مارنے کے واقعات ضلع کے اندر باہر آسانی سے اور بڑے پیمانے پر ہوتے رہتے ہیں۔‘‘

ورشا ڈانگی، روما کے گھر سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور جھن جھنوں کے السیسر گاؤں میں رہتی ہیں۔ سال ۲۰۰۶ میں ان کی شادی ان سے ۱۵ سال بڑے آدمی سے کر دی گئی تھی۔ جب انہیں مدھیہ پردیش کے ساگر ضلع سے یہاں لایا گیا تھا تب وہ تقریباً ۱۶ سال کی تھیں۔

ورشا (۳۲ سالہ) کہتی ہیں، ’’وہ عمر میں بڑا تھا، لیکن وہ مجھ سے پیار کرتا تھا۔ میں جب سے یہاں آئی ہوں تب سے میری ساس میرے لیے پریشانی کھڑی کر رہی ہیں۔ اور اب جب کہ میرے شوہر کی موت ہو چکی ہے، تو حالات مزید خراب ہیں۔‘‘

وہ کہتی ہیں، ’’یہاں کا ایک بچولیا تھا جو ایم پی (مدھی پردیش) میں آتا تھا۔ میرے گھر والوں کے پاس پیسے نہیں تھے جہیز دینے کے لیے، تو انہوں نے مجھے بھیج دیا یہاں پر بچولیے کے ساتھ۔‘‘

وہ پڑوسی کے گھر میں چھپ کر ہم سے یہ باتیں کر رہی ہیں۔ ’’دھیان رکھنا کہ جب میری ساس یا دیورانی یہاں آئیں تو آپ مجھ سے اس بارے میں بات نہ کرنا۔ اگر ان میں سے کسی نے بھی ہماری باتیں سن لیں، تو میری زندگی جہنم بن جائے گی۔‘‘

ویڈیو دیکھیں: جھن جھنوں میں ’اچھی لڑکیوں‘ کی خرید

’راجستھان کا ایک بچولیا باقاعدگی سے مدھیہ پردیش آیا جایا کرتا تھا۔ میری فیملی کے پاس میری شادی میں جہیز دینے کے لیے پیسے نہیں تھے، اس لیے انہوں نے مجھے اس کے ساتھ یہاں بھیج دیا‘

جب وہ ہم سے باتیں کر رہی تھیں، تو ان کا چار سال کا لڑکا بسکٹ کے لیے انہیں پریشان کر رہا تھا۔ پڑوسن اسے کچھ دیتی ہیں۔ پڑوسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو میں اور میرا بچہ بھوکے مر گئے ہوتے۔ بھابھی اور میرا رسوئی خانہ الگ ہے۔ جب سے میرے شوہر کی موت ہوئی ہے، دو وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔‘‘ سال ۲۰۲۲ میں شوہر کی موت کے بعد سے محدود راشن پر گزر بسر کر رہیں ورشا کی آنکھوں میں یہ بتاتے ہوئے آنسو آ جاتے ہیں۔

ورشا، راجستھانی رواج کا ذکر کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ وہاں بیوہ کو دولہے کی فیملی کے کسی مرد سے شادی کرنے کو مجبور کیا جاتا ہے، چاہے اس کی عمر کچھ بھی ہو۔ ’’ہر روز مجھے گھر سے باہر نکلنے کو کہا جاتا ہے۔ میری ساس کہتی ہیں کہ اگر مجھے زندہ رہنا ہے، تو مجھے کسی کا چوڑا پہننا ہوگا۔‘‘ وہ اس کے پیچھے کی وجہ بتاتی ہیں، ’’انہیں یہ فکر ستا رہی ہے کہ میں پراپرٹی میں اپنے شوہر کا حصہ نہ مانگ لوں۔‘‘

یہ ضلع کافی حد تک دیہی علاقوں پر مشتمل ہے اور یہاں کی ۶۶ فیصد آبادی کاشتکاری میں مصروف ہے۔ ورشا کے شوہر کسان تھے اور ان کی موت کے بعد سے ان کے حصے کی زمین پر کوئی کھیتی نہیں کرتا۔ فیملی کے پاس دو بھائیوں کے درمیان تقسیم کی گئی ۲۰ بیگھہ زمین ہے۔

ورشا کہتی ہیں کہ ان کی ساس بار بار طعنے دیتی ہیں اور ان سے کہتی ہیں، ’’ہم تم کو خرید کر لائے ہیں ڈھائی لاکھ میں۔ جو کام بولا جائے گا وہ تو کرنا ہی پڑے گا۔‘‘

’’میں ’خریدی ہوئی‘ کے پٹے کے ساتھ جی رہی ہوں اور میں اس کے ساتھ ہی مروں گی۔‘‘

Varsha says that after her husband's death her in-laws pressurise her to either live with her younger brother-in-law or leave
PHOTO • Jigyasa Mishra

ورشا کا کہنا ہے کہ شوہر کی موت کے بعد سے ان کے سسرال والے ان پر دباؤ بناتے رہے ہیں کہ یا تو وہ اپنے چھوٹے دیور کے ساتھ رہنا شروع کر دیں یا پھر گھر چھوڑ کر چلی جائیں

*****

یہ دسمبر ۲۰۲۲ کی بات تھی۔ چھ مہینے بعد ’پاری‘ سے فون پر بات چیت کے دوران ان کا لہجہ بدلا ہوا تھا۔ انہوں نے بتایا، ’’آج صبح ہم اپنے گھر آ گئے ہیں۔‘‘ سسرال میں لوگ ان سے لگاتار کہتے تھے کہ یا تو وہ اپنے چھوٹے دیور کے ساتھ رہیں یا گھر سے نکل جائیں۔ انہوں نے مزید بتایا، ’’انہوں نے مجھے مارا پیٹا بھی۔ اس لیے میں نے گھر چھوڑ دیا۔‘‘

انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ یہ اذیت اب مزید برداشت نہیں کریں گی۔ ان کا دیور پہلے ہی شادی شدہ ہے اور اپنی بیوی کے ساتھ رہتا ہے۔ ورشا بتاتی ہیں، ’’ہمارے گاؤں میں بیواؤں کے لیے گھر کے کسی بھی مرد سے شادی کرنا عام بات ہے۔ عمر، ازدواجی حالت کچھ بھی معنی نہیں رکھتا۔‘‘

ٹیکہ لگوانے کے بہانے ورشا اپنے بیٹے کے ساتھ گھر سے نکل گئی تھیں۔ گھر سے نکلنے کے بعد انہوں نے مدھیہ پردیش کے لیے ٹرین پکڑی۔ انہوں نے بتایا، ’’میرے پڑوس کی عورتوں نے ہمارے ٹکٹ کے لیے کچھ پیسے اکٹھا کیے تھے۔ مگر راستے کے لیے میرے پاس پیسے نہیں تھے۔‘‘

’’میں نے ایک بار ۱۰۰ نمبر پر (پولیس کو) فون کیا تھا، لیکن انہوں نے مجھ سے کہا کہ پنچایت میری مدد کرے گی۔ جب میرا معاملہ پنچایت کے پاس گیا تو انہوں نے میری کوئی مدد نہیں کی۔‘‘

نئے عزم اور اعتماد کے ساتھ وہ کہتی ہیں، ’’میں اصل میں چاہتی ہوں کہ دنیا کو پتہ چلے کہ میرے جیسی خواتین کے ساتھ کیسا برتاؤ کیا جاتا ہے۔‘‘

مترجم: محمد قمر تبریز

Jigyasa Mishra

ஜிக்யாசா மிஸ்ரா பொதுச் சுகாதாரம் மற்றும் சமூக விடுதலை பற்றி தாகூர் குடும்ப அறக்கட்டளையின் மானியம் கொண்டு சேகரிக்கும் பணியைச் செய்கிறார். இந்த கட்டுரையை பொறுத்தவரை எந்தவித கட்டுப்பாட்டையும் தாகூர் குடும்ப அறக்கட்டளை கொண்டிருக்கவில்லை.

Other stories by Jigyasa Mishra
Editor : Pratishtha Pandya

பிரதிஷ்தா பாண்டியா பாரியின் மூத்த ஆசிரியர் ஆவார். இலக்கிய எழுத்துப் பிரிவுக்கு அவர் தலைமை தாங்குகிறார். பாரிபாஷா குழுவில் இருக்கும் அவர், குஜராத்தி மொழிபெயர்ப்பாளராக இருக்கிறார். கவிதை புத்தகம் பிரசுரித்திருக்கும் பிரதிஷ்தா குஜராத்தி மற்றும் ஆங்கில மொழிகளில் பணியாற்றுகிறார்.

Other stories by Pratishtha Pandya
Translator : Qamar Siddique

கமார் சித்திக்கி, பாரியில் உருது மொழிபெயர்ப்பு ஆசிரியராக இருக்கிறார். அவர் தில்லியை சார்ந்த பத்திரிகையாளர் ஆவார்.

Other stories by Qamar Siddique