پشمینہ کی ایک شال کے لیے سوت کاتنے میں فہمیدہ بانو کو ایک مہینہ کا وقت لگ جاتا ہے۔ چانگ تھانگ بکریوں سے تراشے گئے اون کو الگ کرنا اور پھر ان سے سوت کی کتائی کرنا ایک انتہائی مشکل اور نازک کام ہے۔ فہمیدہ (۵۰ سالہ) بتاتی ہیں کہ ایک مہینے تک کام کرنے کے بعد انہیں امید ہوتی ہے کہ وہ تقریباً ۱۰۰۰ روپے کما لیں گی۔ وہ کہتی ہیں، ’’اگر میں لگاتار کام کروں، تو ایک دن میں ۶۰ روپے کما سکتی ہوں۔‘‘
اگر پشمینہ شال کی قیمت سے اس کا موازنہ کیا جائے، تو ان کی یہ کمائی کچھ بھی نہیں ہے۔ اس پر ہاتھ سے کی جانے والی کشیدہ کاری اور بُنائی کے عمدہ نمونوں کے لحاظ سے ایک پشمینہ شال کی قیمت ۸۰۰۰ روپے سے ایک لاکھ روپے کے درمیان کچھ بھی ہو سکتی ہے۔
پشمینہ سوت کی کتائی کا کام یہ عورتیں روایتی طور پر اپنے گھریلو کاموں کے درمیان کرتی ہیں۔ لیکن فہمیدہ جیسی عورتوں کو اس کام سے ملنے والی کم اجرت کی وجہ سے اس کے کاریگروں میں تیزی سے گراوٹ آتی جا رہی ہے۔
سرینگر سے تعلق رکھنے والی فردوسہ بھی شادی سے پہلے اون سے دھاگے تیار کرنے کا کام کرتی تھیں، لیکن اب اپنی فیملی اور گھر کی دیکھ بھال میں مصروف ہونے کی وجہ سے اب وہ یہ کام نہیں کرتیں۔ اپنے پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’فیملی کے بڑے بزرگ ہم سے سوت کی کتائی کرواتے تھے، اور کہتے تھے کہ گپیں ہانکنے سے بہتر ہے کہ یہ کام کرو تاکہ تمہارا ذہن مصروف رہے۔‘‘ ان کی دو جوان بیٹیاں کتائی کا کام نہیں کرتیں، کیوں کہ اپنی پڑھائی اور گھر کے دیگر کاموں کی وجہ سے انہیں اس کے لیے وقت نہیں مل پاتا ہے۔ اور اس کام میں اتنا پیسہ بھی تو نہیں ملتا ہے۔
فردوسہ کہتی ہیں کہ سوت کی کتائی کرنا کشمیری ثقافت کا ایک حصہ رہا ہے۔ وہ مقامی سبزی ’ندرو‘ (کمل ککڑی) اور کتائی کے درمیان موجود رشتے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتی ہیں، ’’پہلے یہاں کی عورتیں آپس میں مقابلہ کرتی تھیں کہ کون کمل ککڑی کے ریشے جیسا عمدہ دھاگہ کات سکتا ہے۔‘‘
سوت کی کتائی کے برعکس، پشمینہ شال کی بُنائی میں زیادہ پیسے ملتے ہیں اور یہ کام عموماً مردوں کے ذریعے کیا جاتا ہے، جو اچھی کمائی والا کوئی اور کام ملنے پر درمیان میں اسے چھوڑ بھی سکتے ہیں۔ اجرت سے متعلق جموں و کشمیر کی ۲۰۲۲ کی ایک نوٹیفکیشن کے مطابق، مرکز کے زیر انتظام علاقہ جموں و کشمیر میں آج ایک غیر ہنرمند کارکن (مزدور) ۳۱۱ روپے کی یومیہ اجرت کی توقع کر سکتا ہے، جب کہ نیم ہنرمند کارکن کو ایک دن کام کرنے کے عوض ۴۰۰ روپے اور ہنرمند کارکن کو ۴۸۰ روپے مل سکتے ہیں۔
ریگولر سائز کی ایک شال تیار کرنے میں ۱۴۰ گرام پشمینہ اون لگتا ہے۔ فہمیدہ کو اونچے پہاڑی علاقوں میں پائی جانے والی چانگ تھانگ بکریوں (کیپرا ہیریکس) کے ۱۰ گرام خام پشمینہ اون کو کاتنے میں دو دن لگتے ہیں۔
فہمیدہ نے پشمینہ کی ہاتھ سے کتائی کا کام اپنی ساس، خدیجہ سے سیکھا تھا۔ یہ دونوں خواتین مرکز کے زیر انتظام علاقہ جموں و کشمیر کی راجدھانی سرینگر کے کوہ ماران علاقے میں اپنی فیملی کے ساتھ ایک منزلہ مکان میں رہتی ہیں۔
خدیجہ اس وقت اپنے گھر میں ۱۰ بائی ۱۰ فٹ کے ایک کمرے میں ’ینڈر‘ (چرخہ) پر کام کر رہی ہیں۔ گھر کا ایک کمرہ باورچی خانہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جب کہ دوسرے کمرے میں پشمینہ کی بُنائی کا کارخانہ ہے جہاں پر فیملی کے مرد کام کرتے ہیں؛ گھر کا باقی حصہ بیڈ روم کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
کتائی کی ماہر ۷۰ سالہ خدیجہ نے ابھی کچھ دنوں پہلے ہی ۱۰ گرام پشمینہ اون خریدا تھا، لیکن آنکھ کی بینائی کمزور ہونے کی وجہ سے ابھی تک اس اون سے دھاگہ بنانے کا کام مکمل نہیں کر پائی ہیں۔ انہوں نے ۱۰ سال پہلے موتیا بند کا آپریشن کرایا تھا، جس کے بعد انہیں کتائی کا نازک کام کرنے میں پریشانی ہوتی ہے۔
کتائی کا کام کرنے والی فہمیدہ اور خدیجہ جیسی عورتیں سب سے پہلے لکڑی سے بنی کنگھی کے ذریعے پشمینہ کے اون کو صاف کرتی ہیں – جسے ’کرڈنگ‘ کہا جاتا ہے – تاکہ تمام الجھے ہوئے ریشے بالکل سیدھے ہو جائیں۔ اس کے بعد، وہ اسے گھاس کے سوکھے تنے کو موڑ کر بنائے گئے تکلے پر گھماتی ہیں۔
دھاگے بنانا ایک نازک کام ہے جس میں کافی وقت لگتا ہے۔
سرینگر کے صفا کدل علاقے میں رہنے والی خالدہ بیگم، گزشتہ ۲۵ سالوں سے پشمینہ اون کی کتائی کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ’’مضبوطی کے لیے دو دھاگوں کو جوڑ کر ایک دھاگہ بنایا جاتا ہے۔ کتلے کی مدد سے دو دھاگوں کو موڑ کر اس میں گرہ لگائی جاتی ہے۔‘‘
کتائی کی ماہر کاریگر سمجھی جانے والی خالدہ مزید کہتی ہیں، ’’ایک پوری [۱۰ گرام پشمینہ اون] سے میں ۱۶۰-۱۴۰ گرہیں بنا سکتی ہوں۔‘‘ اس کے لیے وقت اور مہارت درکار ہونے کے باوجود، خالدہ بیگم کو ایک گرہ بنانے کا صرف ایک روپیہ ہی ملتا ہے۔
پشمینہ کے دھاگے کی قیمت اس کے سائز پر منحصر ہوتی ہے – دھاگہ جتنا پتلا ہوگا، اس کی قیمت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ پتلے دھاگے میں زیادہ گرہیں بنتی ہیں، جب کہ موٹے دھاگے سے کچھ ہی گرہیں بن پاتی ہیں۔
’’ہر گرہ میں پشمینہ کے ۹ سے ۱۱ دھاگے ہوتے ہیں جو ۸ سے ۱۱ انچ لمبے یا ۸ انگلیوں کے برابر ہوتے ہیں۔ عورتیں گرہ بنانے کے لیے دھاگے کو اسی طرح ناپتی ہیں،‘‘ ۵۵ سالہ انتظار احمد بابا بتاتے ہیں، جو بچپن سے ہی پشمینہ کا کام کر رہے ہیں۔ ہاتھ سے کتائی کرنے والے کو کام کی نوعیت کے حساب سے، ہر گرہ کے ایک سے ڈیڑھ روپے ملتے ہیں۔
رخسانہ بانو ہر ایک گرہ سے ڈیڑھ روپے کماتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’ایک عورت صرف ۱۰ گرام پشمینہ اون [سے دھاگے] تیار کر سکتی ہے کیوں کہ ہمیں گھر کے دوسرے کام بھی کرنے پڑتے ہیں۔ ایک دن میں ایک ’پوری‘ کو مکمل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔‘‘
رخسانہ کا کہنا ہے کہ وہ اس کام سے ایک دن میں زیادہ سے زیادہ ۲۰ روپے کما سکتی ہیں۔ وہ اپنے شوہر، بیٹی، اور ایک بیوہ نند کے ساتھ نوا کدل کے آرام پورہ علاقے میں رہتی ہیں۔ ۴۰ سالہ رخسانہ بتاتی ہیں، ’’میں نے ابھی تک ۱۰ گرام پشمینہ کی بُنائی کرکے زیادہ سے زیادہ ۱۲۰ روپے کمائے ہیں۔ اس کے لیے مجھے لگاتار تین دن، صبح سے شام تک کام کرنا پڑا اور اس دوران میں صرف چائے اور کھانے کے لیے ہی بیچ میں اٹھتی تھی۔‘‘ انہیں ۱۰ گرام مکمل کرنے میں ۵ سے ۶ دن لگتے ہیں۔
خدیجہ کہتی ہیں کہ پشمینہ کی بُنائی سے اب زیادہ پیسے نہیں ملتے: ’’کئی دنوں تک کام کرنے کے باوجود کوئی کمائی نہیں ہوتی۔‘‘ وہ پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ’’پچاس سال پہلے ایک دن میں ۳۰ سے ۵۰ روپے کی کمائی عام بات تھی۔‘‘
*****
ہاتھ سے پشمینہ کی کتائی کرنے والوں کو کم اجرت اس لیے ملتی ہے کیوں کہ شال خریدنے والے اس کی قیمت ادا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ پشمینہ کا کاروبار کرنے والے نورالہدیٰ کہتے ہیں، ’’گاہک کو جب ہاتھ سے بُنی ۹-۸ ہزار روپے کی پشمینہ شال کی جگہ مشین سے بُنی شال ۵۰۰۰ روپے میں مل جاتی ہے، تو وہ اس کے زیادہ پیسے کیوں دے گا؟‘‘
سرینگر کے بادام واری علاقہ میں چنار ہینڈی کرافٹس کے نام سے پشمینہ شو روم کے مالک، ۵۰ سالہ نورالہدیٰ کہتے ہیں، ’’ہاتھ کی کتائی سے تیار پشمینہ شال کے خریدار اب دو چار ہی بچے ہیں۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ ۱۰۰ [گاہکوں] میں سے صرف دو خریدار ہی ہاتھ کی کتائی سے تیار پشمینہ شال مانگتے ہیں۔‘‘
کشمیر کی پشمینہ کو سال ۲۰۰۵ میں ہی جغرافیائی نشان (جی آئی) والا ٹیگ مل گیا تھا۔ سرکاری ویب سائٹ پر کاریگروں کی ایک رجسٹرڈ تنظیم کے ذریعے پیش کردہ کوالٹی مینوئل (معیار سے متعلق کتابچہ) کے مطابق، ہاتھ کی کتائی اور مشین کی کتائی دونوں سے ہی تیار کی گئی شال کو جی آئی ٹیگ کے لیے اہل مانا گیا ہے۔
عبدالمنان بابا اس شہر میں سو سال پرانا پشمینہ کاروبار چلا رہے ہیں اور ان کے پاس تقریباً ۲۵۰ ایسے سامان ہیں جن پر جی آئی کی مہر لگی ہوئی ہے – جو کہ ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ شال پر لگی ربڑ کی مہر اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ مال اصلی ہے اور اسے ہاتھ سے بنایا گیا ہے۔ لیکن وہ بتاتے ہیں کہ آج کل کے بُنکر مشین سے بنے دھاگے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ’’ہاتھ سے کاتے گئے دھاگے چونکہ کافی نازک ہوتے ہیں، اس لیے بُنکر ان دھاگوں سے پشمینہ شال کی بُنائی نہیں کرنا چاہتے۔ مشین سے کاتا ہوا دھاگہ برابر ہوتا ہے، جس سے انہیں بُنائی کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔‘‘
خوردہ فروش اکثر ہاتھ کی کتائی والے سوت کی جگہ مشین سے تیار دھاگے کو ترجیح دیتے ہیں۔ منان کہتے ہیں، ’’اگر ہمارے پاس ۱۰۰۰ پشمینہ شالوں کا آرڈر آ جائے تو ہم اسے کیسے پورا کر پائیں گے، جب ۱۰ گرام پشمینہ کی کتائی میں کم از کم ۵-۳ دن لگتے ہیں؟‘‘
منان کے والد، عبدالحمید بابا (۶۰ سالہ) کہتے ہیں کہ ہاتھ کی کتائی والی پشمینہ میں اب پہلے جیسی بات نہیں رہی۔ ان کا ماننا ہے کہ کتائی کا یہ ہنر یہاں کے ایک صوفی حضرت میر سید علی ہمدانی کی طرف سے دیا گیا ایک تحفہ ہے، جسے وہ ۶۰۰ سال پہلے کشمیر لے کر آئے تھے۔
عبدالحمید یاد کرتے ہیں کہ کیسے ان کے دادا کے زمانے میں لوگ پشمینہ کا خام اون خریدنے کے لیے گھوڑے سے لداخ جایا کرتے تھے۔ ’’اس زمانے میں سب کچھ خالص ہوا کرتا تھا۔ تقریباً ۵۰۰-۴۰۰ عورتیں ہمارے لیے پشمینہ کے اون کی کتائی کرتی تھیں۔ لیکن اب صرف ۴۰ عورتیں ہی یہ کام کرتی ہیں، وہ بھی صرف اس لیے کہ انہیں کمائی کرنی ہے۔‘‘
مترجم: محمد قمر تبریز