ستیہ پریہ کے بارے میں اس رپورٹ کی شروعات کرنے سے پہلے میں اپنی پیری امّاں کے بارے میں بتانا چاہوں گا۔ جب میں صرف ۱۲ سال کا تھا اور کلاس ۶ میں پڑھتا تھا، تب میں اپنے پیری اپّا اور پیری امّاں [والد کے بھائی اور ان کی بیوی] کے گھر میں رہتا تھا۔ میں انہیں امّاں اور اپّا [والدہ اور والد] ہی کہتا تھا۔ وہ میری دیکھ بھال اچھی طرح سے کرتے تھے اور میری فیملی اکثر ہماری چھٹیوں میں ان کے گھر آتی جاتی رہتی تھی۔
پیری امّاں [چچی] میری زندگی میں ایک اہم مقام رکھتی تھیں۔ وہ ہماری ضروریات کا پورا خیال رکھتی تھیں، ہمیں دن بھر کچھ نہ کچھ کھلاتی رہتی تھیں، اور وہ بھی بالکل وقت پر۔ جب میں نے اسکول میں انگریزی سیکھنا شروع کیا، تو میری چچی ہی مجھے بنیادی چیزیں پڑھاتی تھیں۔ وہ باورچی خانہ میں کام کرتی رہتی تھیں اور میں اپنے سوالوں کے ساتھ ان کے پاس جاتا رہتا تھا۔ مجھے بہت سارے الفاظ کو صحیح تلفظ کے ساتھ ادا کرنا نہیں آتا تھا، لیکن انہوں نے مجھے دھیرے دھیرے وہ سب سکھایا۔ تب سے ہی میں ان کو بہت پسند کرتا تھا۔
جب بریسٹ کینسر سے ان کی موت ہو گئی، تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ زندگی جینے سے پہلے ہی موت نے ان کو اپنے پاس بلا لیا۔ میں ان کے بارے میں بہت کچھ کہہ سکتا ہوں، لیکن فی الحال اتنا ہی۔
*****
چچی کے گزرنے کے بعد میں نے ستیہ پریہ سے پوچھا تھا کہ کیا وہ میری چچی کی تصویر دیکھ کر ان کی تصویر بنا سکتی ہیں۔ میرے من میں فنکاروں سے حسد کا جذبہ عام طور پر نہیں رہتا، لیکن ستیہ کا کام دیکھ کر مجھے واقعی حسد ہوئی۔ اتنے تحمل اور باریکی سے یہ کام صرف وہی کر سکتی تھیں۔ ان کا طرز انتہائی حقیقت پسندانہ ہے اور ان کے فن کا موازنہ کسی ہائی ریزولیوشن پوٹریٹ سے کیا جا سکتا ہے۔
ستیہ سے میرا تعارف انسٹاگرام کے ذریعہ ہوا۔ جب میں نے نمونے کے لیے ان کی تصویر بھیجی، تو اس کے پکسل خراب ہو گئے تھے۔ ہمیں یقین نہیں تھا کہ اس تصویر کو دیکھ کر اچھی تصویر بنائی جا سکتی ہے۔ مجھے تو یہ ناممکن ہی لگ رہا تھا۔
کچھ دنوں کے بعد میں نے مدورئی میں صفائی ملازمین کے بچوں کے لیے ایک فوٹوگرافی ورکشاپ منعقد کی تھی۔ یہ میری پہلی ورکشاپ تھی اور ستیہ سے میں ذاتی طور پر پہلی بار وہیں ملا۔ وہ اپنے ساتھ میری چچی کا پوٹریٹ لے کر آئی تھیں۔ ان کی کوشش بیحد شاندار تھی اور میں ان کے کام سے گہرے طور پر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پایا۔
پہلی ورکشاپ میں ہی اپنی پیاری چچی کا پوٹریٹ حاصل کرنا میری زندگی کا ایک یادگار تجربہ تھا۔ میں نے اسی وقت یہ طے کر لیا تھا کہ میں ستیہ کے آرٹ کے بارے میں کبھی کچھ ضرور لکھوں گا۔ میں نے ان کا بنایا جو بھی کام دیکھا تھا، ان سب نے مجھے کافی متاثر کیا تھا اور میں انہیں انسٹاگرام پر فالو کرنے لگا۔ ان کے تئیں میرے من میں احترام کا جذبہ تب اور بڑھ گیا، جب میں ان کے گھر گیا جو ان کے ذریعے بنائی گئی تصویروں سے بھرا ہوا تھا۔ فرش پر، دیواروں پر، ہر جگہ ان کے ذریعے بنائی گئی تصویریں نظر آ رہی تھیں۔
جب ستیہ پریہ اپنی کہانی سنانا شروع کرتی ہیں، تو آپ کو ایسا لگے گا کہ ان کی پینٹنگز بول رہی ہیں۔
’’میں ستیہ پریہ ہوں۔ میں مدورئی میں رہتی ہوں اور ۲۷ سال کی ہوں۔ میری پینٹنگ کا طرز انتہائی حقیقت پسندانہ ہے۔ میں واقعی تصویر بنانا نہیں جانتی ہوں۔ جب میں کالج میں تھی، تب مجھے ایک ناکام محبت سے گزرنا پڑا تھا۔ اپنے بریک اَپ سے باہر نکلنے اور زندگی کو نئے سرے سے جینے کے لیے میں نے پینٹنگ بنانی شروع کی۔ میں نے آرٹ کو اپنی پہلی محبت کی ناکامی کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا۔ آرٹ میرے لیے سگریٹ یا شراب کے نشہ کی طرح تھا – یہ میرے لیے ڈپریشن سے باہر نکلنے کا ایک راستہ تھا۔
پینٹنگ نے مجھے راحت دی۔ میں نے اپنے گھر والوں کو بتا دیا کہ آئندہ میں صرف پینٹنگ ہی بناؤں گی۔ میں نہیں جانتی، یہ کہنے کی ہمت میں نے کیسے جُٹائی۔ پہلے میں آئی اے ایس یا آئی پی ایس [سول سروس] افسر بننا چاہتی تھی، اس لیے میں نے یو پی ایس سی [یونین پبلک سروس کمیشن] کے امتحانات بھی دیے۔ لیکن میں نے دوبارہ اس کے لیے کوشش نہیں کی۔
چھوٹی عمر سے ہی مجھے اپنی شکل و صورت کے لیے بھید بھاؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ کالج اور این سی سی [نیشنل کیڈٹ کور] کے کیمپ میں دوسرے لوگ مجھے نیچا دکھاتے تھے، مجھ سے اچھا برتاؤ نہیں کرتے تھے۔ میرے اسکول کے پرنسپل اور ٹیچر مجھے جان بوجھ کر ہر وقت ڈانٹتے پھٹکارتے رہتے تھے۔
جب میں ۱۲ویں جماعت میں تھی، تو لڑکیوں کے ذریعہ استعمال کی جا چکی سینیٹری نیپکنز لاپروائی سے پھینکے جانے کے سبب اسکول کی نالیاں جام ہو گئی تھیں۔ ہماری پرنسپل کو صرف کلاس ۵، ۶ اور ۷ کی طالبات، یا ان نئی لڑکیوں کو بلانا چاہیے تھا، جنہیں نیا نیا حیض آنا شروع ہوا تھا، اور انہیں بتانا چاہیے تھا کہ نیپکن کو صحیح طریقے سے کیسے ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔
لیکن مجھے نشانہ بنایا گیا۔ جب صبح کی دعائیہ مجلس کے بعد ۱۲ویں جماعت کو یوگا کرنے کے لیے روکا گیا، تب انہوں نے کہا، ’صرف ایسی [میرے جیسی] لڑکیاں ہی ایسا کام [نالیاں گندا] کرتی ہیں۔‘ میں حیران رہ گئی۔ بھلا میں نالیوں کو کیسے گندا کر سکتی ہوں؟
اسکول میں مجھے اسی طرح نشانہ بنایا جاتا تھا۔ ایسا کئی بار ہوا۔ یہاں تک کہ ۹ویں جماعت میں جب محبت میں گرفتار ہو چکے بچے پکڑے جاتے تھے، تو اسے بھی میری ہی غلطی مانا جاتا تھا۔ وہ میرے والدین کو بلا کر ان سے کہتے تھے کہ میں نے ہی ایسے رشتوں میں ان کی مدد کی ہے اور میں نے ہی دونوں کو ایک دوسرے سے ملایا ہے۔ وہ میرے والدین پر دباؤ ڈالتے تھے کہ ’میری کرتوت‘ کے لیے معافی مانگتے ہوئے انہیں ایک خط لکھ کر دیں۔ وہ مجھ سے کہتے تھے کہ میں اپنے گھر سے گیتا لے کر آؤں اور اس پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاؤں کہ میں جھوٹ نہیں بول رہی ہوں۔
اسکول میں ایسا ایک بھی دن نہیں گزرا جب میں بغیر روئے گھر لوٹی ہوں۔ گھر میں مجھ سے کہا جاتا تھا کہ ضرور میں نے ہی کوئی غلطی کی ہوگی یا کچھ کہا ہوگا۔ آخرکار میں نے گھر والوں کو بھی کچھ بتانا بند کر دیا۔
میرے من میں عدم تحفظ کا ایک خوف پیدا ہو گیا تھا۔
کالج میں بھی میرے دانتوں کی وجہ سے میرا مذاق اڑایا جاتا تھا اور میری نقل اتاری جاتی تھی۔ آپ غور سے دیکھیں، تو فلموں میں بھی لوگ ایسی ہی غلط حرکتیں کرتے ہیں۔ کیوں؟ میں بھی تو باقی لوگوں کی طرح ہی انسان تھی۔ لوگ ان حرکتوں کو عام سمجھتے ہیں، کیوں کہ ہر کوئی یہ کام کرتا ہے۔ وہ اس بارے میں سوچنے کی کوئی ضرورت نہیں سمجھتے ہیں کہ ان کے اس برتاؤ سے کسی انسان پر کیا اثر پڑتا ہوگا، اس سے ان کے جذبات کو کتنی ٹھیس پہنچتی ہوگی، یا ان کے چڑھانے سے کسی کے اندر کیسی حقارت پیدا ہوتی ہوگی۔
آج بھی ایسے واقعات میرے اوپر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب کوئی میری فوٹو بھی لیتا ہے، تو میں تحفظ سے عاری محسوس کرنے لگتی ہوں۔ گزشتہ ۲۶-۲۵ برسوں سے میں یہی محسوس کر رہی ہوں۔ کسی انسان کے جسم کا مذاق اڑانا بہت عام بات مانی جانے لگی ہے۔
*****
میں اپنی تصویر کیوں نہیں بناتی؟ میں اپنی بات خود نہیں رکھوں گی تو اور کون رکھے گا؟
میں سوچتی تھی میرے جیسی شکل والوں کی پینٹنگ بنانا کیسا ہوگا؟
میں نے شروع میں چہروں کی تصویریں بنائیں۔ لیکن میں نے بعد میں یہ محسوس کیا کہ ہم لوگوں کے بارے میں صرف ان کی خوبصورتی کے سبب ہی نہیں، بلکہ ان کی ذات، مذہب، صلاحیت، پیشہ، صنف اور جنس کے سبب بھی رائے بناتے ہیں۔ اور اس لیے میں نے اپنی غیر روایتی خوبصورتی کو اپنا موضوع بنا کر اپنی پینٹنگ بنائی۔ آرٹ میں اگر ہم ٹرانس ویمن کی نمائندگی کے لحاظ سے سوچیں، تو تصویروں میں صرف انہیں نمائندگی ملتی ہے جو عورتوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ دوسرے ٹرانس ویمن کی تصویریں کون بنائے گا؟ یہاں ہر چیز کا ایک پیمانہ ہے، اور ان پیمانوں میں میری کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں یہ سوچتی ہوں کہ میں لوگوں کو اپنے آرٹ میں کیوں شامل کرتی ہوں؛ میں چاہتی ہوں کہ میرے آرٹ میں نظر آنے والے لوگ خوش رہیں۔
معذوری کے شکار لوگوں کو اپنے آرٹ کا موضوع کوئی نہیں بناتا ہے۔ جسمانی طور سے معذور لوگوں نے بہت سے اہم کام کیے ہیں، لیکن ان پر آرٹ کبھی بھی مرکوز نہیں رہا ہے۔
کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ آرٹ کا تعلق خوبصورتی سے ہے اور ہر آدمی اسے خوبصورتی کے تناظر میں ہی دیکھتا ہے؟ میں آرٹ کو عام لوگوں کے سروکار کے طور پر دیکھتی ہوں اور اسے ان کی زندگی کے حقائق کو دکھانے کا ذریعہ مانتی ہوں۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں، ’اوہ، لیکن آپ تو صرف فوٹوگراف دیکھ کر تصویر بناتی ہیں۔‘ ہاں، میں صرف فوٹوگراف دیکھ کر تصویر بناتی ہوں۔ انتہائی حقیقت پسندی (ہائپر ریالزم) فوٹوگرافی سے ہی نکلی تھی۔ کیمرے کی ایجاد اور فوٹوگرافی کی شروعات کے بعد ہی یہ طرز وجود میں آیا۔
میں دوسروں سے کہنا چاہتی ہوں، ’ان لوگوں کو دیکھئے، انہیں جاننے اور سمجھنے کی کوشش کیجئے۔‘
معذوری کے شکار لوگوں کو عموماً ہم کیسے دکھاتے ہیں؟ ہم انہیں ’مخصوص‘ بتا کر چھوٹا کر دیتے ہیں۔ کسی کو بھی اس نظریہ سے دیکھنے کی کیا ضرورت ہے کہ وہ کوئی ’مخصوص انسان‘ ہے؟ وہ بھی ہماری طرح عام انسان ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر ہم کوئی کام کرنے کے قابل ہیں، اور کوئی دوسرا اس کام کو نہیں کر سکتا ہے، تو ہمیں ایسا نظام تیار کرنے کی ضرورت ہے کہ اُس انسان تک بھی چیزوں کی رسائی ہو۔ ہم صرف اتنی سی بات کے لیے انہیں ’مخصوص ضروریات‘ والے انسان کے طور پر دیکھیں، تو کیا یہ ٹھیک ہوگا؟ ہم ان کے لیے شمولیتی نظام تیار کر کے وہ جیسے ہیں انہیں ویسا نہیں رہنے دے سکتے؟
ان کی بھی اپنی آرزوئیں اور ضرورتیں ہیں۔ جب عام جسمانی صلاحیتوں والے لوگوں کو باہر نکلنے کو نہیں ملتا تو وہ برداشت نہیں کر پاتے۔ جسمانی لحاظ سے معذوری کے شکار لوگوں کو ایسا نہیں لگتا ہوگا؟ کیا اس انسان کو کسی تفریح طبع کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا اس انسان کے اندر تعلیم یافتہ ہونے کی خواہش نہیں ہوتی؟ کیا ان کے من میں سیکس اور محبت سے جڑے جذبات نہیں ہوتے ہوں گے؟ ہم ان کی کوئی پرواہ نہیں کرتے؛ ہم انہیں جاننے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ جسمانی طور سے معذور لوگوں کی نمائندگی کرنے والی کوئی پینٹنگ نہیں ہے۔ نام نہاد عام دھارے کی میڈیا میں ان کی کوئی بات نہیں ہوتی ہے۔ ہم سماج کو یہ کیسے یاد دلائیں کہ ان کا بھی کوئی وجود ہے اور ان کی بھی کچھ ضرورتیں ہیں؟
اب آپ [پلنی کمار] ہی چھ سالوں سے بھی زیادہ عرصے سے صفائی ملازمین کے لیے کام کر رہے ہیں۔ کیوں؟ صرف اسی لیے کہ جب ہم ایک ہی موضوع پر لگاتار کام کرتے ہیں، تو دھیرے دھیرے دوسرے لوگ بھی اس بارے میں جاننے لگتے ہیں۔ کسی بھی موضوع کے وجود کو درج کرنے کی ایک خاص اہمیت ہے – کسی کی تکلیف ہو، فوک آرٹ ہو، یا انسان کی معذوریاں اور لاچاریاں ہوں۔ ہمارے سبھی آرٹ سماج کے لیے سہارے کی شکل میں ہونے چاہئیں۔ میں آرٹ کو اسی سپورٹ سسٹم کے طور پر دیکھتی ہوں۔ یہ لوگوں کی کہانیاں کہنے کا ذریعہ ہے۔ ہم جسمانی طور سے معذور کسی بچے کو کیوں نہ دکھائیں؟ اس کی مسکراہٹ کو کیوں نہ دکھائیں؟ کیا یہ ضروری ہے کہ ایسا کوئی بچہ ہمیشہ اُداس اور غموں میں ڈوبا ہوا دکھائی دے؟
انیتا امّاں پر مرکوز اپنے پروجیکٹ میں وہ ہمارے ساتھ کام کرنا جاری نہیں رکھ پائیں، کیوں کہ ہمیں کہیں سے کوئی مالی یا جذباتی مدد نہیں مل سکی۔ انہیں بہت سی پریشانیوں سے گزرنا پڑ رہا تھا۔ ہمیں اس موضوع پر لوگوں کو بیدار کرنا تھا، تبھی ہم لوگوں سے مالی مدد حاصل کر سکتے تھے۔ جب ہم یہ کرتے ہیں، تب ہم لوگوں کے سامنے مالی مدد کرنے کی تجویز پیش کر سکتے ہیں۔ جذباتی مدد کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے۔ میں اپنے فن کا استعمال اسی مقصد سے کرنا چاہتی ہوں۔
میں ذریعہ کے طور پر سفید اور سیاہ رنگوں کا استعمال کرتی ہوں، کیوں کہ یہ رنگ مجھے لوگوں کو اس شکل میں دکھانے کا موقع فراہم کرتے ہیں جیسا میں لوگوں کو دکھانا چاہتی ہوں۔ یہ دیکھنے والوں کو موضوع سے بھٹکنے نہیں دیتے ہیں۔ ہم [ماڈل یا موضوع] حقائق اور جذبات کو ان دو رنگوں کے توسط سے زیادہ وضاحت کے ساتھ نمایاں کر سکتے ہیں۔
میری پسندیدہ پینٹنگ وہ ہے جو میں نے انیتا امّاں پر بنائی ہے۔ میں نے انیتا اماں کے پوٹریٹ پر کافی سنجیدگی سے محنت کی ہے اور اس سے میرے جذبات جڑے ہوئے ہیں۔ جب میں اس پوٹریٹ پر کام کر رہی تھی، تب میرا دل اندر سے کافی درد محسوس کر رہا تھا۔ میرے اوپر اس کا گہرا اثر پڑا تھا۔
سیپٹک ٹینکوں میں دَم گھُٹنے سے مرنے کے واقعات آج بھی ہوتے ہیں۔ مرنے والوں کے گھر والوں کی زندگی پر اس کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ اس سے متعلق بیداری کی زبردست کمی ہے۔ یہ کام [ہاتھ سے میلا صاف کرنا] کچھ مخصوص ذات سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ان کی مرضی کے خلاف جبراً کروایا جاتا ہے۔ وہ اپنی عزت نفس کی قیمت پر یہ کام کرتے ہیں۔ اس کے بعد بھی سماج ان کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ سرکار ان کے لیے حالات کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں کرتی ہے۔ ان کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہے۔
ایک ہم عصر آرٹسٹ کے طور پر میرا فن میرے ارد گرد کے سماج اور ان کے متعلقات کو نمایاں کرتا ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز