ہم ایک جھاڑی دار جنگل میں ’ڈیولس بیک بون‘ (شیطان کی ریڑھ) کی تلاش میں ہیں۔ اسے ہی پیرنڈئی (سیسس کواڈرینگولرس) کہا جاتا ہے۔ میں اور رتھی اس مربع شکل کی ڈالیوں والی بیل کی تلاش میں ہیں۔ اس میں بہت سی خوبیاں ہیں۔ عام طور پر نرم ڈالیوں کو توڑ کر صاف کیا جاتا ہے اور لال مرچ پاؤڈر، نمک اور تل کے تیل کے ساتھ ملا کر محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ صحیح طریقے سے بنایا گیا اچار ایک سال تک خراب نہیں ہوتا۔ اور چاول کے ساتھ اس کا ذائقہ لاجواب ہوتا ہے۔

یہ جنوری کی ایک گرم دوپہر ہے اور جنگل کا ہمارا راستہ ایک قدیم، سوکھے ہوئے نالے کا تعاقب کرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔ اس نالے کا ایک اثر انگیز تمل نام ہے: ایلّئی اتا امّن اوڈئی ۔ اس کا مطلب بغیر سرحدوں والی دیوی ماں کی دھارا ہے۔ یہ ایک ایسا جملہ ہے جو آپ کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ پتھروں اور ریت کے اوپر سے گزرنے والا، کہیں چوڑا اور کہیں گیلا، یہ راستہ مجھے کچھ اور بھی دیتا ہے۔

رتھی چلتے چلتے کہانیاں سناتی ہیں: سنتروں اور تتلیوں کی چند خیالی اور تفریحی کہانیاں اور چند حقیقی اور دل دہلا دینے والی کہانیاں۔ مثلاً نوے کی دہائی میں جب وہ ہائی اسکول میں تھیں اس وقت کے کھانے اور ذات پات کے تصادم کی سیاست کی کہانیاں۔ ’’میری فیملی بھاگ کر توتوکوڑی چلی گئی تھی…‘‘

ایک پیشہ ور قصہ گو، لائبریری کنسلٹنٹ اور کٹھ پتلی باز کے طور پر رتھی اپنے گاؤں میں دو دہائیوں بعد واپس آئی ہیں۔ وہ بولتی دھیرے دھیرے ہیں، لیکن پڑھتی کافی تیزی سے ہیں۔ ’’کووڈ کے وبائی مرض کے دوران صرف سات مہینوں میں، میں نے بڑے اور چھوٹے بچوں کی ۲۲۰۰۰ کتابیں پڑھ ڈالیں۔ روزانہ کسی نہ کسی موقع پر میرے معاون مجھ سے پڑھنا بند کرنے کی التجا کرتے تھے۔ ورنہ میں ڈائیلاگ میں بات کرنے لگتی،‘‘ اور وہ ہنس دیتی ہیں۔

ان کی ہنسی ندی کے بہاؤ جیسی ہے۔ ان کا نام بھی بھاگیرتھی ندی کے نام پر رکھا گیا ہے، جس کا مخفف رتھی ہے۔ وہ ہمالیہ کے جنوب میں تقریباً ۳۰۰۰ کلومیٹر دور رہتی ہیں جہاں ان کے نام کی ندی گنگا کہلاتی ہے۔ ان کا گاؤں تینکلم، تمل ناڈو کے ضلع ترونیل ویلی میں واقع ہے اور پہاڑیوں اور جھاڑی دار جنگلوں سے گھرا ہوا ہے۔ وہ انہیں اچھی طرح جانتی ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے گاؤں کے تمام لوگ انہیں پہچانتے ہیں۔

’’آپ جنگل کیوں جا رہی ہیں؟‘‘ چند خواتین مزدور دریافت کرتی ہیں۔ ’’ہم پیرنڈئی لانے جا رہے ہیں،‘‘ رتھی جواب دیتی ہیں۔ ’’وہ عورت کون ہے؟ آپ کی دوست ہے؟‘‘ ایک چرواہا پوچھتا ہے. ’’ہاں، ہاں،‘‘ رتھی مسکراتی ہیں، میں ہاتھ لہراتی ہوں اور ہم دونوں آگے بڑھ جاتے ہیں…

Pirandai grows in the scrub forests of Tirunelveli, Tamil Nadu
PHOTO • Courtesy: Bhagirathy
The tender new stem is picked, cleaned and preserved with red chilli powder, salt and sesame oil and will remain unspoilt for a year
PHOTO • Courtesy: Bhagirathy

پیرنڈئی تمل ناڈو کے ترونیل ویلی ضلع کے جھاڑی دار جنگلات میں اگتا ہے۔ رتھی کو ایک پیرنڈئی کا پودا (دائیں) ملتا ہے۔ اس کی نازک اور نئی کونپلوں کو توڑ لیا جاتا ہے اور انہیں صاف کرکے لال مرچ پاؤڈر، نمک اور تل کے تیل میں ملا کر محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ یہ ایک سال تک خراب نہیں ہوتا ہے

*****

کھانے کے پودوں کی تلاش ایک وسیع اور روایتی عمل ہے، جو مختلف ثقافتوں اور بر اعظموں تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ اشتراک کے خیال (معاشرے کے تمام اراکین کے لیے دستیاب طبعی، قدرتی اور دیگر وسائل) کے ساتھ گہرائی سے جڑا ہوا ہے، جہاں خطے کی جنگلی پیداوار کو مقامی، موسمی اور پائیدار طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

بنگلورو شہر میں غذائی اشیاء کی تلاش کی شہری جدوجہد پر مبنی کتاب چیزنگ سوپّو کے مصنفین لکھتے ہیں کہ ’’جنگلی پودوں کو جمع کرنے اور استعمال کرنے سے مقامی نسلی ماحولیاتی اور نسلی نباتاتی علم کو محفوظ رکھنے میں مدد ملتی ہے۔‘‘ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ تینکلم کی طرح یہاں بھی عموماً عورتیں ہی جنگلی پودوں کو اکٹھا کرتی ہیں۔ ’’وہ اپنے ارد گرد کے مقامی جنگلی پودوں کی جانکار اور ماہرین ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ پودوں کے کن حصوں کو خوراک، ادویات یا ثقافتی ضرورتوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اور انہیں تلاش کرنے کا بہترین موسم کون سا ہے۔ ان کے پاس مزیدار کھانوں کی ترکیبیں بھی ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہیں۔‘‘

موسمی پیداوار کو پورے سال تک استعمال میں رکھنے کا ایک آسان اور دلکش طریقہ ان کو محفوظ کرنا ہے۔ محفوظ کرنے کے سب سے زیادہ مقبول طریقوں میں سُکھانا اور گیلے اچار بنانا شامل ہیں۔ جنوبی ہندوستان میں، خاص طور پر تمل ناڈو میں، اچار بنانے کے لیے زیادہ مقبول عام سرکہ کی بجائے تل کے تیل کا استعمال ہوتا ہے۔

’’تل کے تیل میں سیسمِن اور سِسمول ہوتا ہے۔ یہ مرکبات قدرتی اینٹی آکسیڈنٹ (عمل تکسید کو روکنے والے) ہیں اور ایک محافظ کے طور پر کام کرتے ہیں،‘‘ میری سندھیا جے کہتی ہیں۔ انہوں نے فوڈ ٹیکنالوجی میں ایم ٹیک کیا ہے اور ’آڈی‘ (سمندر) نام سے مچھلی کے اچار کا ان کا اپنا برانڈ ہے۔ مچھلی کے اچار میں سندھیا کچی گھانی والے تل کے تیل کو ترجیح دیتی ہیں، ’’جو بنیادی طور پر شیلف لائف بڑھانے، غذائی فوائد، ذائقہ اور رنگ کے لیے ہوتا ہے۔‘‘

PHOTO • Aparna Karthikeyan

پودوں کی تلاش ایک وسیع اور روایتی عمل ہے، جو مختلف ثقافتوں اور بر اعظموں میں پھیلا ہوا ہے، اور اس سے حاصل جنگلی پیداوار کو مقامی، موسمی اور پائیدار طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ رتھی کو ہر دورے میں تقریباً چار گھنٹے لگتے ہیں، اور وہ بیلوں کی تلاش میں ۱۰ کلومیٹر تک پیدل چلتی ہیں۔ ’لیکن جب میں انہیں گھر لے آتی ہوں،‘ تو وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں، ’تو مجھے نہیں معلوم کہ ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے‘

رتھی کی فیملی کئی کھانوں میں تل کے تیل کا استعمال کرتی ہے، مثلاً اچار اور گوشت کے شوربے میں۔ لیکن کھانے کی سماجی درجہ بندی سے انہیں کوفت ہوتی ہے۔ ’’جب گاؤں میں کوئی جانور مارا جاتا تھا، تو اس کے اچھے حصے اعلیٰ ذات کے لوگوں کے پاس جاتے تھے۔ اور اُوجھڑی [جانوروں کی انتڑیوں اور اندرونی اعضاء] ہمارے حصے میں آتی تھی۔ ہمارے پاس گوشت پکانے کی کوئی تاریخ نہیں ہے، کیونکہ ہمیں کبھی بھی بہترین گوشت نہیں دیا جاتا تھا۔ ہمیں صرف خون دیا جاتا تھا!‘‘ وہ بتاتی ہیں۔

’’استحصال، جغرافیہ، نباتات، حیوانات اور جانوروں کی مقامی انواع، اور ذات پات کے درجہ بندی نے دلت، بہوجن اور آدیواسی برادریوں کے کھانے کے کلچر کو اس طرح سے متاثر کیا ہے کہ سماجی سائنسداں ابھی تک اس کی نقشہ سازی کی کوشش ہی کر رہے ہیں،‘‘ اپنے ایک مضمون بلڈ فرائی اینڈ ادر دلت ریسیپی فرام مائی چائلڈ ہڈ (میرے بچپن کے بلڈ فرائی اور دیگر دلت کھانے) میں ونے کمار لکھتے ہیں۔

رتھی کی ماں وڑی ومّل ’’خون، آنتوں اور دیگر حصوں کو صاف کرنے کا ایک حیرت انگیز طریقہ جانتی ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’پچھلے اتوار کو اماں نے خون پکایا تھا۔ خون کے ساسیج اور خون کی پُڈنگ شہر کے لذیذ کھانے ہیں۔ بھیجا فرائی بھی ایک شاندار کھانا سمجھا جاتا ہے۔ جب میں شہر گئی تو اشیاء کی قیمتوں کے تعین کو عجیب پایا۔ گاؤں میں ۲۰ روپے میں جو کچھ ملتا تھا اس کے لیے وہاں بہت سارے پیسے ادا کرنے پڑتے تھے۔‘‘

ان کی والدہ بھی پیڑ پودوں کی گہری جانکاری رکھتی ہیں۔ ’’اگر آپ مڑ کر دیکھیں تو ان بوتلوں میں دوائیں، جڑی بوٹیاں اور تیل موجود ہیں،‘‘ رتھی نے مجھے اپنے کمرے میں ان چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔ ’’میری والدہ ان کے نام اور استعمال کا طریقہ جانتی ہیں۔ ایسا سمجھا جاتا ہے کہ پیرنڈئی میں ہاضمہ کے لیے بہترین خواص موجود ہیں۔ امّا مجھے بتاتی ہیں کہ انہیں کون سا پودا یا جڑی بوٹی چاہیے۔ میں جنگل میں جا کر انہیں تلاش کرتی ہوں اور صاف کرکے انہیں دیتی ہوں۔‘‘

’’یہ موسمی پیداوار ہیں اور بازار میں دستیاب نہیں ہیں۔‘‘ ان کے ہر دورے میں تقریباً چار گھنٹے صرف ہوتے ہیں اور وہ پودوں کی تلاش میں ۱۰ کلومیٹر تک پیدل چلتی ہیں۔ ’’لیکن جب میں انہیں گھر لے آتی ہوں،‘‘ رتھی ہنستے ہوئے کہتی ہیں، ’’تو مجھے نہیں معلوم کہ ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟‘‘

*****

Rathy in the forest plucking tamarind.
PHOTO • Aparna Karthikeyan
tamarind pods used in foods across the country
PHOTO • Aparna Karthikeyan

جنگل میں رتھی (بائیں) املی توڑ رہی ہیں۔ املی کی پھلی (دائیں) پورے ملک میں کھانے کی اشیاء میں استعمال ہوتی ہے

جنگل کی سیر دلفریب ہے۔ اس میں بچوں کی پاپ-اپ کتابوں کی طرح، ہر موڑ پر حیرت موجود ہوتی ہے: یہاں تتلیاں، وہاں پرندے، یہاں خوبصورت سایہ دار بڑے درخت۔ رتھی بیریوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو ابھی تک توڑنے کے لیے پکی نہیں ہیں۔ ’’چند دنوں میں، یہ مزیدار ہو جائیں گی،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ہم پیرنڈئی کے لیے ادھر ادھر بھٹکتے ہیں، لیکن وہ سب توڑے جا چکے ہیں۔

’’کسی نے ہم سے پہلے انہیں توڑ لیا ہے،‘‘ رتھی کہتی ہیں۔ ’’لیکن کوئی بات نہیں واپسی پر ہمیں کچھ مل جائیں گے۔‘‘

اس کی بھرپائی کے لیے وہ املی کے ایک بڑے درخت کے نیچے رکتی ہیں، ایک بڑی شاخ کو جھکا کر چند پھلیاں توڑ لیتی ہیں۔ اپنے انگوٹھے اور شہادت کی انگلیوں سے بھورے خول کو ہٹا کر ہم کھٹا میٹھا پھل کھانے لگتے ہیں۔ ان کی پڑھنے کی ابتدائی یادوں میں املی بھی شامل ہے۔ ’’میں کتاب لے کر ایک کونے میں چلی جاتی تھی اور املی کی ہری پھلیاں کھاتی تھی۔‘‘

جب وہ تھوڑی بڑی ہوئیں تو گھر کے پیچھے کے احاطے میں لگے کوڑوکاّپولی مَرم (منکی پوڈ کے درخت) پر بیٹھ کر کتابیں پڑھتی تھیں۔ ’’اماں نے اسے کاٹ دیا کیونکہ جب میں ۱۴ یا ۱۵ سال کی تھی تو میں اس پر چڑھ جایا کرتی تھی!‘‘ اور وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتی ہیں۔

یہ ٹھیک دوپہر کا وقت ہے اور سورج ہمارے سروں پر ہے۔ یہ جنوری کے مہینہ کے لیے ایک غیر معمولی طور پر شدید اور تھکا دینے والا دن ہے۔ رتھی کہتی ہیں، ’’تھوڑا آگے جاکر ہم پُلیوتو پہنچ جائیں گے۔ یہ گاؤں میں پانی کا ایک ذریعہ ہے۔‘‘ خشک دھارا کے کناروں پر پانی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے موجود ہیں۔ تتلیاں مٹی کے گڑھوں پر رقص کر رہی ہیں۔ وہ اپنے پروں کو کھولتی ہیں (تو اندر سے چمکدار نیلا رنگ ظاہر ہوتا ہے) اور بند کرتی ہیں (تو باہر سے ایک عام بھورا رنگ نمایاں ہوتا ہے)۔ جب مجھے لگتا ہے کہ یہ مزید جادوئی نہیں ہو سکتی… تو کچھ اور جادو ہو نظر آنے لگتا ہے۔

پُلیوتو، یعنی تالاب گاؤں کی دیوی کے ایک قدیم مندر سے ملحق ہے۔ رتھی بتاتی ہیں کہ اس کے ٹھیک سامنے بھگوان گنیش کا ایک نیا مندر بن گیا ہے۔ ہم ایک بڑے برگد کے درخت کے نیچے بیٹھ کر سنترے کھاتے ہیں۔ ہمارے آس پاس کی ہر چیز نرم ہے: جنگل میں دوپہر کی روشنی، سنترے کی میٹھی خوشبو؛ نارنجی اور کالی مچھلیاں۔ اور رتھی آہستہ آہستہ مجھے ایک کہانی سناتی ہیں۔ ’’اسے پِتھ  پِپ اینڈ پیل کہتے ہیں،‘‘ وہ سنانا شروع کرتی ہیں۔ میں مگن ہو کر سنتی ہوں۔

Rathy tells me stories as we sit under a big banyan tree near the temple
PHOTO • Aparna Karthikeyan
Rathy tells me stories as we sit under a big banyan tree near the temple
PHOTO • Aparna Karthikeyan

مندر (دائیں) کے نزدیک ایک بڑے برگد کے نیچے رتھی مجھے کہانیاں سناتی ہیں

رتھی کو ہمیشہ کہانیاں پسند تھیں۔ ان کی ابتدائی یاد ان کے والد سمدرم کی ہے، جو ایک بینک مینیجر تھے اور ان کے لیے مِکی ماؤس کامکس لاتے تھے۔ ’’مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے میرے بھائی گنگا کو ایک ویڈیو گیم، میری بہن نرمدا کو ایک کھلونا، اور مجھے ایک کتاب دی تھی!‘‘

رتھی کو پڑھنے کی عادت ان کے والد سے ورثے میں ملی تھی۔ ان کے پاس کتابوں کا بہت بڑا ذخیرہ تھا۔ اس کے علاوہ ان کے پرائمری اسکول میں ایک وسیع لائبریری تھی۔ ’’انہوں نے کتابوں پر روک نہیں لگائی اور یہاں تک کہ میرے لیے عام طور پر بند رہنے والے نایاب سیکشن کو بھی کھول دیا، جس میں نیشنل جیوگرافک اور انسائیکلوپیڈیا رکھے تھے۔ یہ سب اس لیے تھا کیوںکہ مجھے کتابیں پسند تھیں!‘‘

انہیں کتابوں سے اس قدر پیار تھا کہ انہوں نے اپنا بچپن پڑھنے میں ہی گزارا۔ ’’روسی زبان سے ترجمہ شدہ اس کتاب کے متعلق ہمارا گمان تھا کہ ہم کھو چکے ہیں۔ مجھے عنوان یاد نہیں، صرف تصاویر اور کہانی یاد ہیں۔ پچھلے سال میں نے اسے ایمیزون سے حاصل کیا تھا۔ اس کا موضوع سمندری شیر اور کشتی رانی ہے۔ کیا آپ اسے سننا پسند کریں گی؟‘‘ اور وہ کہانی بیان کرتی ہیں۔ ان کی آواز واقعات کے ساتھ دھیمی اور تیز ہو رہی ہے، جیسے سمندر میں اٹھتی گرتی پانی کی لہر۔

ان کا بچپن بھی سمندر کی طرح متلاطم تھا۔ اپنے ہائی اسکول کے زمانے میں وہ اپنے ارد گرد ہونے والے تشدد کو یاد کرتی ہیں۔ ’’چھرے بازی، بسوں کو جلانے کی وارداتیں اکثر سنائی دیتی تھیں۔ ہمارے گاؤں کا  کلچر تھا کہ تہواروں اور تقریبوں میں فلمیں دکھائی جائیں۔ وہ تشدد کا سب سے بڑا ذریعہ تھیں۔ جب میں آٹھویں جماعت میں تھی تو تشدد اپنے عروج پر تھا۔ کیا آپ نے فلم کرنن دیکھی ہے؟ ہماری زندگیاں ویسی ہی تھیں۔‘‘ کرنن ۱۹۹۵ میں کوڈیَن کُلم میں ذات پات کے فسادات کا ایک افسانوی اظہار ہے۔ اس فلم میں اداکار دھنوش مرکزی کردار میں ہیں۔ ’’کہانی کرنن کے گرد گھومتی ہے، جو ایک پسماندہ دلت برادری سے تعلق رکھنے والا ایک نڈر اور ہمدرد نوجوان ہے اور جو ظلم کے خلاف مزاحمت کی علامت بن جاتا ہے۔‘ ’اونچی ذات کے گاؤں والوں کو مراعات اور طاقت حاصل ہے، جب کہ دلت امتیازی سلوک کا سامنا کرتے ہیں۔‘

نوے کی دہائی کے آخر تک جب ذات پات سے متعلق تشدد اپنے عروج پر تھا، تو نوکری کے سلسلے میں رتھی کے والد کا قیام ایک دوسرے شہر میں تھا۔ اور وہ اور ان کے بہن بھائی اپنی ماں کے ساتھ گاؤں میں ہی رہتے تھے۔ لیکن کلاس ۹، ۱۰، ۱۱ اور ۱۲ کے لیے وہ ہر سال ایک الگ اسکول گئیں۔

ان کی زندگی اور تجربات نے ان کے کیریئر کے انتخاب کو متاثر کیا۔ ’’دیکھئے، میں ۳۰ سال پہلے ترونیل ویلی میں ایک قاری تھی۔ مجھے کتابیں تجویز کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ میں نے پرائمری اسکول میں شیکسپیئر کو اٹھا لیا تھا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ میری پسندیدہ کتابوں میں سے ایک [جارج ایلیٹ کی] مل آن دی فلوس ہے؟ اس کا موضوع رنگ پرستی اور کلاسکیت ہے۔ اس میں سیاہ جلد والی ایک خاتون مرکزی کردار میں ہے۔ یہ ناول انڈر گریجویٹ کورس میں نصاب کا حصہ ہے۔ لیکن چونکہ کسی نے اسے اسکول کو عطیہ کیا تھا، اس لیے میں نے اسے کلاس ۴ میں پڑھا اور خود کو مرکزی کردار کے قریب تر پایا۔ مجھے بھی اس کی کہانی سے دکھ پہنچا تھا…‘‘

Rathy shows one of her favourite books
PHOTO • Aparna Karthikeyan
Rathy shows her puppets
PHOTO • Varun Vasudevan

رتھی اپنی پسندیدہ کتابوں میں سے ایک (بائیں) اور کٹھ پتلیاں (دائیں) دکھا رہی ہیں

کئی سال بعد جب رتھی نے بچوں کی کتابیں دوبارہ دریافت کیں، تو انہوں نے اپنے کیرئیر کا فیصلہ کیا۔ ’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپ کے پاس بچوں کی کتابیں ہیں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ’ وئیر دی وائلڈ تھنگز آر‘ اور ’ فرڈینینڈ‘ جیسی کتابیں موجود ہیں۔ یہ کتابیں ۸۰ یا ۹۰ سال سے دستیاب ہیں اور شہروں کے بچوں نے انہیں پڑھا تھا۔ اس نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اگر چھوٹی عمر میں ان کتابوں تک میری رسائی ہوتی تو کیا ہوتا؟ میرا سفر مختلف ہوتا۔ میں بہتر نہیں کہہ رہی ہوں، لیکن مختلف ضرور ہوتا۔‘‘

حالانکہ، ریڈنگ (پڑھائی) کو اب بھی ایک ایسے عمل کے طور پر دیکھا جاتا ہے جیسے کہ وہ اکادمک کام سے الگ ہو۔ ’’اسے تفریح ​​کے طور پر دیکھا جاتا ہے،‘‘ وہ سر ہلاتی ہیں، ’’ہنر میں اضافے کے طور پر نہیں۔ والدین بھی صرف علمی اور سرگرمی کی کتابیں خریدتے ہیں، وہ یہ نہیں دیکھتے کہ کہانی کی کتابیں پڑھ کر لطف اندوز ہوتے ہوئے بھی بچے کیسے سیکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، دیہی اور شہری علاقوں میں بہت بڑا فرق ہے۔ گاؤوں کے بچے کم از کم دو سے تین پیمانے پر (پڑھنے کی سطح پر) شہروں میں اپنے ہم منصبوں سے پیچھے ہیں۔‘‘

اور یہی وجہ ہے کہ رتھی کو گاؤں کے بچوں کے ساتھ کام کرنا پسند ہے۔ وہ گاؤں کی لائبریریوں کی تیاری کے علاوہ اب چھ سالوں سے لِٹ فیسٹ اور بک فیسٹ کا اہتمام کر رہی ہیں۔ وہ اکثر کہتی ہیں کہ آپ کو اہل لائبریرین مل جاتے ہیں جو بہترین کیٹلاگ بنا سکتے ہیں، لیکن وہ نہیں جانتے کہ کتاب کے اندر کیا ہے۔ ’’اگر وہ یہ مشورہ نہیں دے سکتے کہ آپ کیا پڑھ سکتے ہیں، تو اس کا کوئی مطلب نہیں ہے!‘‘

رتھی سازشی انداز میں اپنی آواز نیچی کر لیتی ہیں۔ ’’ایک دفعہ ایک لائبریرین نے مجھ سے پوچھا ’میڈم آپ بچوں کو لائبریری میں کیوں جانے دے رہی ہیں؟‘ آپ کو میرا ردعمل دیکھنا چاہیے تھا!‘‘ اور دوپہر میں ان کی انوکھی ہنسی بکھر جاتی ہے۔

*****

گھر واپسی کے دران ہمیں پیرنڈئی مل جاتی ہے۔ وہ پودوں اور جھاڑیوں پر سختی سے مڑے ہوئے ہیں۔ رتھی مجھے ہلکی سبز ٹہنیاں دکھاتی ہیں جو ہمیں توڑنی ہیں۔ بیل ایک جھٹکے سے ٹوٹ جاتی ہے۔ وہ اسے اپنے ہاتھ میں جمع کرتی ہیں، پیرنڈئی کا ایک چھوٹا سا صاف ستھرا ڈھیر، 'ڈیویلس بیک بون‘ [شیطان کی ریڑھ] اس نام پر ہمیں پھر سے ہنسی آ جاتی ہے۔

Foraging and harvesting pirandai (Cissus quadrangularis), the creeper twisted over plants and shrubs
PHOTO • Aparna Karthikeyan
Foraging and harvesting pirandai (Cissus quadrangularis), the creeper twisted over plants and shrubs
PHOTO • Aparna Karthikeyan

پیرنڈئی (سیسس کواڈرینگولرس) تلاش کرنا اور توڑنا، پودوں اور جھاڑیوں کے اوپر لپٹی ہوئی بیلیں

رتھی یقین دلاتی ہیں کہ بارش کے بعد ان پودوں سے نئی کونپلیں نکلیں گی۔ ’’ہم کبھی بھی گہرے سبز حصوں کو نہیں توڑتے۔ یہ افزائش نسل والی مچھلی کو ہٹانے کے مترادف ہے، ہے نا؟ پھر آپ اس کا معمولی حصہ کیسے لے سکتے ہیں؟‘‘

گاؤں کی طرف واپسی کا سفر تیزی سے طے ہوتا ہے۔ سورج سخت ہے، کھجور کے درخت اور جھاڑی والے جنگل بھورے اور خشک ہو گئے ہیں۔ گرمی سے زمین تپ رہی ہے۔ مہاجر پرندوں کا ایک جھنڈ (بلیک آئیبس) ہمارے قریب آتے ہی اڑ جاتا ہے۔ وہ اپنے پیروں کو سمیٹتے اور پروں کو پھیلاتے ہوئے خوبصورتی سے پرواز کرتے ہیں۔ ہم گاؤں کے چوک پر پہنچتے ہیں، جہاں ڈاکٹر امبیڈکر کی مورتی کھڑی ہے۔ ان کے ہاتھ میں آئین ہے۔ ’’میرے خیال میں تشدد کے بعد ہی ان کے مجسمے کو لوہے کی جالی کے اندر محفوظ کیا گیا تھا۔‘‘

رتھی کا گھر امبیڈکر کے مجسمے سے چند منٹ کے فاصلے پر ہے۔ اپنی نشست گاہ میں واپس آ کر، وہ مجھے بتاتی ہیں کہ انہیں کہانیاں کیتھارٹک (خود اختسابی کا باعث) لگتی ہیں۔ ’’ایک قصہ گو کے طور پر میں اسٹیج پر بہت سارے جذبات ادا کرتی ہوں، جو میں دوسری صورت میں سامنے نہیں لاؤں گی۔ یہاں تک کہ مایوسی اور تھکن جیسے انتہائی سادہ جذبات کو بھی آپ چھپاتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن یہ وہ جذبات ہیں جنہیں میں اسٹیج پر ظاہر کرتی ہوں۔‘‘

رتھی بتاتی ہیں کہ تماشائی انہیں نہیں دیکھتے، بلکہ اس کردار کو دیکھتے ہیں، جنہیں وہ ادا کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ غم کو بھی اسٹیج پر اظہار کا ذریعہ مل جاتا ہے۔ ’’میں ایک خوبصورت نقلی بین کرتی ہوں، جس سے لوگ کمرے کی طرف بھاگتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے کسی کے رونے کی آواز سنی ہے۔‘‘ میں پوچھتی ہوں کہ کیا وہ میرے لیے آہ وزاری کر سکتی ہیں، لیکن رتھی ہنس پڑتی ہیں۔ ’’یہاں نہیں، یہاں بالکل نہیں، کم از کم تین رشتہ دار دوڑتے ہوئے پوچھیں گے کہ کیا ہوا…‘‘

اب میرے جانے کا وقت ہو گیا ہے، اور رتھی بڑی مقدار میں پیرنڈئی کے اچار پیک کرتی ہیں۔ یہ تیل سے بھرپور اور لہسن سے لیس ہے۔ اور اس کی خوشبو جنت کی طرح ہے، اور مجھے ایک گرم دن میں لمبی چہل قدمی کی یاد دلاتا ہے، سبز ٹہنیوں اور کہانیوں کی تلاش کے دن کی یاد…

Cleaning and cutting up the shoots for making pirandai pickle
PHOTO • Bhagirathy
Cleaning and cutting up the shoots for making pirandai pickle
PHOTO • Bhagirathy

پیرنڈئی کے اچار بنانے کے لیے ٹہنیوں کی صفائی اور کٹائی

Cooking with garlic
PHOTO • Bhagirathy
final dish: pirandai pickle
PHOTO • Bhagirathy

لہسن (بائیں) کے ساتھ انہیں پکایاجا رہا ہے، اور آخر میں تیار پیرنڈئی کا اچار (دائیں)؛ اسے بنانے کا طریقہ ذیل میں دیا گیا ہے

رتھی کی ماں وڑی ومّل کے ہاتھ کے بنے پیرنڈئی کے اچار کو بنانے کا طریقہ:

پیرنڈئی کو صاف کر کے باریک کاٹ لیں۔ اور اچھی طرح دھو کر ایک چھنی میں اچھی طرح سے چھان لیں۔ پانی بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ ایک برتن لیں اور پیرنڈئی کے لیے وافر مقدار میں تل کا تیل ڈالیں۔ گرم ہونے پر سرسوں کے دانے شامل کریں، اور اگر چاہیں تو میتھی اور لہسن کی پھلیاں بھی ڈال دیں۔ اسے اس وقت تک اچھی طرح بھونیں جب تک کہ ان کا رنگ تانبے جیسا نہ ہو جائے۔ پہلے سے پانی میں بھگوئی املی کا گودا نچوڑ لیں۔ پیرنڈئی کی وجہ سے پیدا ہونے والی جلن کو املی کاٹتی ہے۔ (کبھی کبھی دھوتے اور صاف کرتے وقت بھی  اس پودے سے آپ کے ہاتھوں میں کھجلی ہو سکتی ہے۔)

املی کا پانی شامل کریں، اس کے بعد نمک، ہلدی پاؤڈر، لال مرچ پاؤڈر اور ہینگ ڈالیں۔ اس وقت تک چلاتے رہیں جب تک کہ پیرنڈئی اچھی طرح پک نہ جائے اور سارا مکسچر اکٹھا نہ ہو جائے اور اوپر تل کا تیل تیرنے نہ لگے۔ اچار کو ٹھنڈا ہونے دیں، اور اسے بوتل میں ڈال دیں۔ اسے ایک سال تک رکھ سکتے ہیں۔

اس تحقیقی مطالعہ کو بنگلورو کی عظیم پریم جی یونیورسٹی کے ریسرچ فنڈنگ پروگرام ۲۰۲۰ کے تحت مالی تعاون حاصل ہے۔

مترجم: شفیق عالم

Aparna Karthikeyan

அபர்ணா கார்த்திகேயன் ஒரு சுயாதீன பத்திரிகையாளர், எழுத்தாளர் மற்றும் PARI-யின் மூத்த மானியப் பணியாளர். 'Nine Rupees an Hour'என்னும் அவருடைய புத்தகம் தமிழ்நாட்டில் காணாமல் போகும் வாழ்வாதாரங்களைப் பற்றிப் பேசுகிறது. குழந்தைகளுக்கென ஐந்து புத்தகங்கள் எழுதியிருக்கிறார். சென்னையில் அபர்ணா அவரது குடும்பம் மற்றும் நாய்களுடன் வசிக்கிறார்.

Other stories by Aparna Karthikeyan

பி. சாய்நாத், பாரியின் நிறுவனர் ஆவார். பல்லாண்டுகளாக கிராமப்புற செய்தியாளராக இருக்கும் அவர், ’Everybody Loves a Good Drought' மற்றும் 'The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom' ஆகிய புத்தகங்களை எழுதியிருக்கிறார்.

Other stories by P. Sainath
Translator : Shafique Alam

Shafique Alam is a Patna based freelance journalist, translator and editor of books and journals. Before becoming a full-time freelancer, he has worked as a copy-editor of books and journals for top-notched international publishers, and also worked as a journalist for various Delhi-based news magazines and media platforms. He translates stuff interchangeably in English, Hindi and Urdu.

Other stories by Shafique Alam