گوندیا کی خواتین کارکنوں کے بارے میں یہ اسٹوری پہلی بار دی ہندو میں ۲۷ جنوری، ۲۰۰۷ کو شائع ہوئی تھی، لیکن تب سے آج تک ان کی حالت میں زیادہ بہتری نہیں آئی ہے۔ یکم مئی، مزدوروں کے عالمی دن پر اُن خواتین کے اعزاز میں ہم اسے دوبارہ شائع کر رہے ہیں۔
ریونتا بائی کامبلے نے اپنے چھ سال کے بیٹے سے کئی مہینوں سے بات نہیں کی ہے۔ حالانکہ، وہ تیرورہ میں ایک ہی گھر میں رہتے ہیں۔ بوڑھی بائی ناگپورے کا بھی یہی حال ہے، حالانکہ اگر ان کا بڑا بیٹا جگا ہوا ہو، تو وہ کبھی کبھار اس سے مل سکتی ہیں۔ دونوں عورتیں مہاراشٹر کے گوندیا ضلع کے اس حصے کی اُن سینکڑوں خواتین میں سے ہیں، جو دن میں صرف چار گھنٹے اپنے گھر پر گزارتی ہیں اور ہر ہفتے محض ۳۰ روپے یومیہ کمانے کے لیے ۱۰۰۰ کلومیٹر سے زیادہ کا سفر کرتی ہیں۔
صبح کے ۶ بج رہے ہیں اور ہم ان خواتین کے ساتھ اُن کے گھر سے ریلوے اسٹیشن کی طرف جا رہے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر دو گھنٹے پہلے ہی بیدار ہو چکی تھیں۔ ’’میں نے پکانے، دھونے، جھاڑو لگانے اور صفائی کرنے کا کام ختم کر لیا ہے،‘‘ بوڑھی بائی خوشی سے کہتی ہیں۔ ’’اس لیے اب ہم بات کر سکتے ہیں۔‘‘ ہم جب وہاں پہنچے، تو ان کے گھر کا کوئی بھی فرد سوکر اٹھا نہیں تھا۔ ’’بیچارے، تھکے ہوئے ہیں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ کیا بوڑھی بائی تھکی ہوئی نہیں ہیں؟ ’’ہوں، لیکن کیا کیا جائے؟ ہمارے پاس کوئی مبتادل نہیں ہے۔‘‘
اسٹیشن پر اور بھی کئی عورتیں ہیں، جن کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے۔ وہ ایک معاملہ میں غیر معمولی بھی ہیں: وہ گاؤں سے شہر کی طرف مہاجرت کرنے والی مہاجرین نہیں ہیں۔ وہ شہری علاقے کی آزاد کارکن ہیں، جنہیں گاؤوں میں کام کی تلاش رہتی ہے۔ یہ تلاش انہیں اپنی زندگی میں تقریباً ہر دن تیرورہ جیسے مفصل شہر، جو کہ تحصیل ہیڈکوارٹر ہے، سے زرعی مزدور کے طور پر محنت کرنے کے لیے گاؤوں کی طرف لے جاتی ہے۔ اس دوران وہ روزانہ اپنے گھر کے باہر ۲۰ گھنٹے گزارتی ہیں۔ کوئی ہفتہ واری چھٹی نہیں اور نہ ہی تیرورہ میں کوئی نوکری ہے۔ ’’بیڑی کی صنعت ختم ہونے کے بعد، ان کے لیے یہاں کام حاصل کرنا ناممکن ہے،‘‘ گوندیا میں کسان سبھا کے ضلع سکریٹری، مہندر والڈے کہتے ہیں۔
ان میں سے کئی عورتیں ریلوے اسٹیشن سے پانچ کلومیٹر یا اس سے زیادہ دور رہتی ہیں۔ ’’اس لیے ہمیں صبح ۴ بجے اٹھنا پڑتا ہے،‘‘ بوڑھی بائی کہتی ہیں، جن کی عمر شاید ۴۰ سال ہے۔ ’’ہم اپنے سبھی کام ختم کرتے ہیں اور پیدل چلتے ہوئے ۷ بجے اسٹیشن پہنچ جاتے ہیں۔‘‘ تبھی ٹرین آ جاتی ہے اور ہم گروپ کے ساتھ اس پر سوار ہو جاتے ہیں جو دیہی ناگپور کے سلوا جائے گی۔ اس ۷۶ کلومیٹر لمبے سفر کو طے کرنے میں ۲ گھنٹے لگتے ہیں۔ پلیٹ فارم پر اور ٹرین میں تھکی ہاری، بھوکی اور نیم خوابیدہ اور بھی کئی عورتیں ہیں۔ زیادہ تر عورتیں بھیڑ بھاڑ والی ٹرین کے فرش پر ڈبے کی دیوار سے ٹیک لگاکر بیٹھ جاتی ہیں، اور اپنا اسٹیشن آنے سے پہلے تھوڑی دیر سونے کی کوشش کرتی ہیں۔ سلوا، ناگپور ضلع کی موڈا تحصیل میں، ایک ایسا گاؤں ہے جس میں صرف ۱۰۵ گھر ہیں اور آبادی ۵۰۰ سے کم ہے۔
’’ہم رات میں ۱۱ بجے گھر پہنچیں گے،‘‘ ۲۰ سالہ ریونتا بائی کہتی ہیں۔ ’’ہم آدھی رات کو سوتے ہیں۔ اور اگلی صبح ۴ بجے دوبارہ اٹھ کر کام شروع کر دیتے ہیں۔ میں نے طویل عرصے سے اپنے چھ سالہ بیٹے کو بیدار حالت میں نہیں دیکھا ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ ہنستی ہیں: ’’کچھ چھوٹے بچے ہو سکتا ہے کہ اپنی ماں کو دیکھنے کے بعد انہیں پہچان نہ سکیں۔‘‘ ان کے بچوں نے یا تو اسکول جانا چھوڑ دیا ہے کیوں کہ وہ اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ یا وہاں پر ان کی کارکردگی بہت خراب ہے۔ ’’گھر پر انہیں دیکھنے یا ان کی مدد کرنے کے لیے کوئی نہیں ہوتا ہے،‘‘ بوڑھی بائی کہتی ہیں۔ اور کچھ نوجوان، انہیں جو کام مل جاتا ہے اسے کرنے لگتے ہیں۔
’’ظاہر ہے، اسکول میں ان کی کارکردگی بہت خراب ہے،‘‘ تیرورہ میں مقیم ایک ٹیچر، لتا پاپنکر کہتی ہیں۔ ’’انہیں کون قصوروار ٹھہرا سکتا ہے؟‘‘ ایسا لگتا ہے کہ حکومت مہاراشٹر کر سکتی ہے۔ ان بچوں کی کارکردگی کے لیے اسکول ذمہ دار ہیں، جو اپنا فنڈ کھو سکتے ہیں۔ اور ان کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے ٹیچر ہیں، جنہیں خراب نتائج کے لیے سزا بھگتنی پڑ سکتی ہے۔ ایک ایسا نظریہ جو ان کے اسکول جانے کے امکانات کو مزید ختم کر سکتا ہے۔
ٹرین کے لرزتے فرش پر بیٹھی، ۵۰ سالہ شکنتلا بائی اگاشے کہتی ہیں کہ وہ گزشتہ ۱۵ سالوں سے ایسا کر رہی ہیں۔ چھٹی صرف تہواروں کے دوران یا مانسون میں ملتی ہے۔ ’’کچھ ایسے بھی کام ہوتے ہیں جن کے لیے ہمیں ۵۰ روپے مل سکتے ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’لیکن ایسا کبھی کبھار ہوتا ہے۔ زیادہ تر ہمیں ۲۵-۳۰ روپے ملتے ہیں۔‘‘ عورتیں بتاتی ہیں کہ ان کے شہروں میں کوئی کام دستیاب نہیں ہے۔
وہاں کا پیسہ شہروں میں چلا گیا ہے۔ وہاں کی صنعتیں بند ہو گئی ہیں۔ مفصل شہر زوال پذیر ہیں۔ ان تمام عورتوں کو ماضی میں یہاں بیڑی کی صنعت میں کام مل جاتا تھا۔ ’’اس کے جاتے ہی ہم حاشیہ پر آ گئے،‘‘ بوڑھی بائی کہتی ہیں۔ ’’بیڑی ایک آزاد صنعت ہے، جسے ہمیشہ سستے مزدوروں کی تلاش رہتی ہے،‘‘ مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اسٹڈیز سے وابستہ کے ناگ راج کہتے ہیں، جو اس شعبہ میں کام کر چکے ہیں۔ ’’یہ بڑی تیزی سے اپنے مقام تبدیل کرتی ہے۔ اس قسم کی تبدیلی کا انسانوں پر تباہ کن اثر ہوتا ہے۔ اور گزشتہ ۱۵ برسوں میں مزید تباہی ہوئی ہے۔‘‘ بیڑی کا کافی کام ’’گوندیا سے اتر پردیش اور چھتیس گڑھ جا چکا ہے،‘‘ کسان سبھا کے پردیپ پپنکر کہتے ہیں۔
’’ظاہر ہے، ہم ٹرین پر سفر کرنے کے لیے ٹکٹ نہیں خریدتے ہیں،‘‘ عورتیں بتاتی ہیں۔ ’’دونوں طرف کے ٹکٹ پر ۳۰ روپے، جو ہم کماتے ہیں، اس سے زیادہ خرچ کرنے پڑیں گے۔ ہمارا نظام بہت ہی آسان ہے: پکڑے جانے پر، ہم چیکر کو ۵ روپے کی رشوت دیتے ہیں۔‘‘ ٹکٹوں سے ہونے والی آمدنی کو نجی کر دیا گیا ہے۔ ’’وہ اسے ہم سے وصول کرتے ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ ہم اس کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘
’’بعض دفعہ میرا بڑا بیٹا اپنی سائیکل سے مجھے اسٹیشن چھوڑ دیتا ہے،‘‘ بوڑھی بائی بتاتی ہیں۔ ’’پھر وہاں رک کر کام تلاش کرتا ہے، اجرت چاہے جو بھی ہو۔ میری بیٹی گھر پر کھانا پکاتی ہے۔ اورمیرا دوسرا بیٹا اپنے بھائی کے لیے کھانا لے جاتا ہے۔‘‘ المختصر، والڈے کہتے ہیں، ’’ایک آدمی کی مزدوری کے لیے تین لوگ کام کر رہے ہیں۔‘‘ لیکن ان کے شوہر سمیت فیملی کے سبھی پانچ ارکان ایک ساتھ، اکثر ایک دن میں ۱۰۰ روپے سے بھی کم کماتے ہیں۔ کسی کسی دن، ہو سکتا ہے کہ ان میں سے صرف دو نے کچھ کمایا ہو۔ اور ان کے پاس بی پی ایل راشن کارڈ نہیں ہے۔
راستے میں اسٹیشنوں پر مزدوروں کے ٹھیکہ دار ہیں، جو سستی مزدوری پر کارکنوں کو لے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔
صبح کے تقریباً ۹ بجے سلوا پہنچنے کے بعد، ہم ایک کلومیٹر دور واقع گاؤں کی طرف نکل پڑے اور پھر زمین کے مالک، پربھاکر ونجارے کے گھر پر تھوڑی دیر رکنے کے بعد مزید تین کلومیٹر دور واقع کھیتوں کی طرف روانہ ہو گئے۔ بوڑھی بائی آخری دوری اپنے سر پر پانی کے ایک بڑے برتن کے ساتھ طے کرتی ہیں، پھر بھی ہم سبھی کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں۔
وہ لوگ جن کے کھیتوں پر یہ عورتیں معمولی پیسے کے لیے مزدوری کرتی ہیں، وہ بھی پریشان ہیں۔ زرعی بحران نے ونجارے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ان کے پاس تین ایکڑ زمین ہے اور ۱۰ ایکڑ انہوں نے پٹہ پر لے رکھا ہے۔ ’’قیمتیں بہت زیادہ ہیں، ہم مشکل سے کچھ کما پاتے ہیں،‘‘ وہ شکایت کرتے ہیں۔ اور گاؤں کے رہائشی مزدور مایوسی کے عالم میں کہیں اور ہجرت کرچکے ہیں۔ اسی لیے یہ عورتیں یہاں آ رہی ہیں۔
یہ مشرقی ودربھ ہے، شورش زدہ کپاس کے علاقے سے دور۔ ونجارے دھان، مرچ اور دیگر فصلیں اُگاتے ہیں۔ فی الحال انہیں گھاس پھوس نکالنے کے لیے ان عورتوں کی ضرورت ہے۔ وہ شام ۵:۳۰ بجے تک کام کرتی ہیں اور ایک گھنٹہ بعد واپس اسٹیشن پہنچ جاتی ہیں۔
’’لیکن ٹرین رات ۸ بجے آتی ہے،‘‘ بوڑھی بائی کہتی ہیں۔ ’’اس لیے ہم رات میں تقریباً ۱۰ بجے تیرورہ پہنچیں گے۔‘‘ عورتیں جب گھر پہنچتی ہیں، تو ان کے اہل خانہ سو رہے ہوتے ہیں۔ اور صبح کو جب وہ روانہ ہوتی ہیں تب بھی وہ سو رہے ہوتے ہیں۔ ’’ایسے میں خاندانی زندگی کیسی ہو سکتی ہے؟‘‘ ریونتا بائی سوال کرتی ہیں۔
گھر پہنچنے تک، وہ ۱۷۰ کلومیٹر سے زیادہ کی دوری طے کر چکی ہوتی ہیں۔ اور ۳۰ روپے کمانے کے لیے وہ یہ دوری ہفتے میں ہر دن طے کریں گی۔ ’’ہم رات میں ۱۱ بجے گھر پہنچیں گے،‘‘ بوڑھی بائی کہتی ہیں، ’’کھانے اور سونے کے لیے۔‘‘ تب تک جب چار گھنٹے بعد، انہیں دوبارہ اٹھ کر پھر وہی سب کرنا ہوگا۔
مترجم: محمد قمر تبریز