uploads/Articles/P. Sainath/In Yavatmal life goes on/amberwar_1142_ev.jpg

اس ضلع، جس کا صدر کلام ۱۵ جون کو دورہ کرنے والے ہیں، میں ان کسانوں کے کنبوں کی اکثریت ہے، جنہوں نے ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے خودکشیاں زیادہ کی ہیں


’’بینک کی ریکوری ٹیموں نے میرے گھر پر آنا بند کر دیا ہے،‘‘ سرسوتی امبروار نے ہمیں یَوَت مال میں بتایا۔ وہ اس جگہ سے زیادہ دور نہیں رہتیں، جہاں اے پی جے عبدالکلام ۱۵ جون کو دورہ کرنے والے ہیں۔ ان کے شوہر رام داس کی خودکشی وِدربھ میں ایسا پہلا واقعہ تھا جسے میڈیا نے اُٹھایا تھا۔ یہ واقعہ ۱۹۹۸ میں پیش آیا تھا۔ تب سے ہی انھیں مختلف قسم کے دباؤ جھیلنے پڑے، جو قرض دینے والے اپنا پیسہ واپس لینے کے لیے ان کے اوپر ڈالتے رہے۔ لہٰذا، یہ سن کر حیرانی ہوئی کہ بینک کی رقم واپس لینے کے لیے جو لوگ ان کے گھر آیا کرتے تھے، انھوں نے اب آنا بند کر دیا ہے۔

’’کشور بھاؤ نے مجھے ایک خط دیا تھا، جسے میں نے ان لوگوں کو، جب وہ پچھلی بار آئے تھے، تو دکھایا تھا،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’اس کے بعد، انھوں نے آنا بند کر دیا۔‘‘ اس سے بھی حیرانی کی بات یہ ہے کہ کشور تیواری وِدربھ جن آندولون سمیتی (وی جے اے ایس) کے صدر اور زراعت سے متعلق امور پر اس علاقے کے احتجاجیوں میں سرفہرست ہیں۔ وہ بینکوں کے دوست ہرگز نہیں ہیں، کیوں کہ انھوں نے زرعی قرض سے متعلق مسائل کو لے کر ان گنت بار بینکوں کا گھیراؤ کیا ہے۔ تو پھر ان کے خط میں کیا لکھا ہوا تھا؟

عام ترجمہ کرنے پر، اس میں لکھا ہوا ہے: ’’محترم ریکوری افسران، رام داس سورگ سے کئی بار میرے پاس آ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’’میرے پاس پیسے ہیں اور میں اسے لوٹانا چاہتا ہوں۔‘‘ لہٰذا، اپنی ٹیم کو جلد از جلد سورگ روانہ کریں۔ آپ کا عزیز، کشور تیواری۔‘‘ سرسوتی کہتی ہیں کہ اس کے بعد وہ ٹیم دوبارہ کبھی نظر نہیں آئی۔

اس ہفتہ مسٹر تیواری کا صدر کلام کے نام کھلا خط زیادہ مؤدبانہ ہے۔ اس کے ذریعہ ان سے درخواست کی گئی ہے کہ ’’چند منٹ نکال کر یَوَت مال یا وَردھا کے کسانوں کی بدقسمت بیواؤں سے ضرور ملیں۔‘‘

صدرِ جمہوریہ اپنے دن بھر کے دورہ کے دوران اُن سے اور ناگپور کے لوگوں سے ملاقات کریں گے۔ وہ یَوَت مال کے امولک چند کالج کے ایک پروگرام میں شرکت کریں گے۔ ساتھ ہی، وہ وَردھا میں واقع مہاتما گاندھی ہندی انٹرنیشنل یونیورسٹی کا بھی دورہ کریں گے۔ تاہم، ان کے اس دورے میں زرعی تباہ کاری سے متعلق کوئی میٹنگ ابھی تک شامل نہیں کی گئی ہے۔

کاٹن کی قیمتوں کا مسئلہ

یوَت مال، جہاں صدر کا بنیادی پروگرام ہے، وِدربھ کے سب سے خستہ حال حصوں میں سے ایک ہے، جو زراعت کے سب سے بڑے بحران سے دوچار ہے۔ ’’صرف امسال، وِدربھ میں ۴۲۸ کسانوں نے خودکشی کی ہے،‘‘ مسٹر تیواری بتاتے ہیں۔ ’’کاٹن کی قیمت، قرض اور کریڈٹ پر اگر فوری دھیان نہیں دیا جاتا، تو یہ ہم سب کے لیے اب تک کا سب سے تباہ کن سال ہوگا۔‘‘ اور وہ کچھ ہوگا۔ سرکار دفتری طور پر اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ پچھلے سال ’’زرعی تباہی‘‘ کے سبب ایک ہزار ۲۹۶ کسانوں نے خودکشی کی تھی۔ سرکاری ریکارڈ میں یہ بھی درج ہے کہ اسی سال یہاں کے چھ ضلعوں میں مزید ایک ہزار ۳۴۸ کسانوں نے خودکشی کی تھی، لیکن اس بات کو ماننے سے انکار کرتی ہے کہ یہ خودکشی زرعی اسباب کی بناپر کی گئی۔

یَوَت مال اس خطہ کے چھ ضلعوں میں سے ایک ہے، جہاں سب کو ملا کر ۲۰۰۱ سے اب تک کل ۶ ہزار کسان خودکشی کر چکے ہیں۔ سرسوتی ملک بھر کی ان ایک لاکھ سے زائد عورتوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے وسط ۱۹۹۰ سے اب تک زرعی بحران کی وجہ سے خودکشی کرنے کے سبب اپنے شوہروں کو کھو دیا۔ صرف یوت مال میں ان کے جیسی سینکڑوں عورتیں ہیں۔ لیکن، ان کے گھر میں تب سے لے کر اب تک کئی وی آئی پی آ چکے ہیں، جس میں نارائن رانے بھی شامل ہیں، جب وہ شیو سینا سرکار میں وزیر مالیات تھے۔ کئی سال پہلے انھیں جو ایک لاکھ روپے کا معاوضہ ملا تھا، وہ قرض چکانے میں ہی ختم ہو گیا۔

’’میں اپنی بیٹی میناکشی کے مرض پر ۳۰ ہزار روپے خرچ کر رہی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ (دوسری بیٹی کا انتقال ۲۰۰۴ میں ہو گیا تھا۔) ’’ہم نے کئی ایکڑ کھیت اور کچھ مویشی ان برسوں میں بیچ دیے، تاکہ حالات کا سامنا کر سکیں۔ لیکن کاشت کاری مہنگی اور کافی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔‘‘ پھر بھی انھیں چند مواقع دکھائی دے رہے ہیں اور اسی کے بھروسے وہ یہ کام جاری رکھے ہوئی ہیں، اس امید میں کہ حالات ایک نہ ایک دن ضرور بہتر ہوں گے۔


/static/media/uploads/Articles/P. Sainath/In Yavatmal life goes on/varsha.jpg

اسی گاؤں کے پِس گاؤں میں، ورشا رسّے کو جو بھی کام ملتا ہے، وہ فوراً اسے پکڑ لیتی ہیں، بھلے ہی اس کی اجرت کتنی ہی کم کیوں نہ ملتی ہو۔ دو موسموں تک ان کے شوہر ماروتی نے اپنے آٹھ ایکڑ کھیت کو پٹّہ پر دے دیا تھا، اور اس ڈیل میں خود کو بھی مزدور بنا لیا تھا۔ ’’ان کو اپنی بہن کی شادی کرنی تھی،‘‘ پڑوسیوں نے ہمیں بتایا، ’’اور کاشت کاری تباہ ہو رہی تھی۔‘‘ تب، چونکہ زیادہ بارش کی وجہ سے خود ان کی فصل برباد ہو گئی تھی، رسّے نے ۲۰۰۴ میں خودکشی کر لی۔ ان کا قرض ورشا کے لیے اب بھی مسئلہ بنا ہوا ہے، جب کہ ان کا بیٹا اور بیٹی دونوں کی عمر ابھی پانچ سال ہے۔

’’وہ کڑی سے کڑی محنت کرتے ہیں، اور زیادہ فصل بھی پیدا کر سکتے ہیں، لیکن حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں،‘‘ وجے جوانڈیا کہتے ہیں، جو اس علاقہ میں زراعت کے سب سے بڑے دانشور ہیں۔ ’’یہ تمام کسان ناممکنات سے لڑ رہے ہیں۔ سب سے بنیادی مسائل پر ابھی تک توجہ نہیں کی گئی ہے۔ انھیں اپنے قرض کی وجہ سے بیوہ بننا پڑا۔ زندگی کی قیمت بڑھتی جا رہی ہے، یہی حال کاشت کاری کا ہے۔ صرف ان کی آمدنی گھٹ رہی ہے۔‘‘

’’وزیر اعظم کے پیکیج نے انھیں نئے سرے سے قرض لینے میں مدد کی، لیکن انھیں پرانے قرض سے کوئی راحت نہیں ملی۔ اس طرح اب ان کا قرض دو گنا ہو چکا ہے۔ قیمت سے متعلق جو مرکزی مدعا ہے، اس کو سرکار نے حل نہیں کیا ہے۔ نہ ہی کاٹن پیدا کرنے والوں کی لمبی چوڑی سبسڈی کے مسئلہ کو حل کیا گیا ہے۔ اس لیے قیمتیں گھٹ گئیں، جس کی وجہ سے ان کسانوں نے فصل پیدا کرنے پر جو پیسہ لگایا تھا، وہ بھی حاصل نہیں کر سکتے۔ نیا قرض ان کی بچی ہوئی رقم کو بھی ختم کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ اس لیے بینک انھیں اس موسم میں نہیں چھوئیں گے۔ نتیجتاً انھیں ایک بار پھر ساہوکاروں کے پاس جانا پڑ رہا ہے۔‘‘


/static/media/uploads/Articles/P. Sainath/In Yavatmal life goes on/annapoorna.jpg

اَنّ پورنا سروشے ان سے اتفاق کریں گی۔ ’’ہم نے معاوضہ کی رقم سے اپنے تمام قرض ادا کر دیے،‘‘ وہ ناگیشوڑی گاؤں میں کہتی ہیں، ’’لیکن یہ ختم نہیں ہوتا۔‘‘ ان کے لیے اپنے دو بیٹوں اور ایک لڑکی کو اسکول بھیجنا کبھی ممکن نہیں ہو پایا۔ ان کے چار ایکڑ کا جب پٹّہ ختم ہو گیا، تو ان کے شوہر رامیشور نے پچھلے سال خودکشی کر لی، اب یہ خود اس پر کھیتی کرنا چاہتی ہیں۔ ’’اب میں خود اپنی زمین پر مزدوری کروں گی۔‘‘

دریں اثنا، وہ ایک دن میں مزدوری کرنے سے جو ۲۵ روپے ملتے ہیں، اس سے اپنا کام چلانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

منگلا بائی موکھدکر، رامپور کی واحد برہمن فیملی جس نے ایسی خودکشی دیکھی ہے، نے لمبے عرصے تک کام چلا لیا۔ ان کے شوہر پربھاکر راؤ نے جب خودکشی کر لی، تو اس کے بعد نو برسوں میں انھوں نے اپنی آٹھ لڑکیوں میں سے تین کی شادی کر دی۔ بعض کی شادی باپ کی موت سے پہلے ہو چکی تھی۔ ’’کوئی جہیز نہیں،‘‘ وہ ہمیں بتاتے ہوئے اس پر زور دیتی ہیں۔ حالانکہ ہر شادی میں انھیں ۴۰ ہزار روپے خرچ کرنے پڑے۔ وہ اپنے دامادوں سے ایک بھی پیسہ نہیں لیتی ہیں۔ ’’انھوں نے کوئی جہیز نہیں لیا، تو میں کیسے لے سکتی ہوں؟‘‘ وہ لڑکیوں کو پڑھانے میں بھی کامیاب رہیں۔ ’’وہ تمام میٹرک پاس یا فیل ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ ’’تین نے ان کے مرنے کے بعد اسکولنگ مکمل کی۔‘‘

کئی برسوں سے انھیں پٹّہ پر دینے کے بعد، ’’ہم اپنے سات ایکڑ کھیت کو امسال خود ہی جوتیں گے۔‘‘ لیکن، منگلا بائی کو خطرات کا اندازہ ہے۔ ’’ہمارے گاؤں کو دیکھئے۔ یہاں کے تمام کنبے ایک ہی کشتی میں سوار ہیں۔ جب تک کھیتی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی، ہم سبھی ڈوبیں گے۔‘‘

’’یوت مال اور دیگر اضلاع کی یہی حالت ہے،‘‘ مسٹر تیواری کہتے ہیں، ’’یہ بیوائیں کسان ہیں جو صحیح تصویر پیش کر رہی ہیں۔‘‘

جیسا کہ مسٹر تیواری کے ذریعہ صدر کلام کو لکھے گئے خط میں درج ہے: ’’ہمارا یہ شدت سے ماننا ہے کہ وِدربھ میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے اور اسی لیے، یہ کسی ثقاتی یا موسیقی پر مبنی افتتاح کا صحیح وقت نہیں ہے۔۔۔۔ ہم آپ کے کافی ممنون رہیں گے اگر آپ نے ان بدقسمت بیواؤں سے ملنے کے لیے کچھ وقت نکالے۔‘‘


/static/media/uploads/Articles/P. Sainath/In Yavatmal life goes on/mokhadkar_cropped_.jpg


یہ مضمون سب سے پہلے دی ہندو میں ۱۳ جون، ۲۰۰۷ کو شائع ہوا تھا۔

( http://www.hindu.com/2007/06/13/stories/2007061301671100.htm)


பி. சாய்நாத், பாரியின் நிறுவனர் ஆவார். பல்லாண்டுகளாக கிராமப்புற செய்தியாளராக இருக்கும் அவர், ’Everybody Loves a Good Drought' மற்றும் 'The Last Heroes: Foot Soldiers of Indian Freedom' ஆகிய புத்தகங்களை எழுதியிருக்கிறார்.

Other stories by P. Sainath
Translator : Qamar Siddique

கமார் சித்திக்கி, பாரியில் உருது மொழிபெயர்ப்பு ஆசிரியராக இருக்கிறார். அவர் தில்லியை சார்ந்த பத்திரிகையாளர் ஆவார்.

Other stories by Qamar Siddique