گولی باری ہوئی ہی نہیں تھی۔ لیکن، مختلف سرخیوں میں ایک خبر دوڑ رہی تھی – ’’پولیس کی گولی سے کسان کی موت‘‘ – بہادر شاہ ظفر مارگ پر اس مبینہ ’’قتل‘‘ کی خبر تھوڑی ہی دیر میں سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ گولی سے موت ہوئی ہی نہیں تھی۔ لیکن، اس افواہ نے ۲۶ جنوری کو یوم جمہوریہ پر دہلی کے مشہور انکم ٹیکس آفس (آئی ٹی او) جنکشن کی طرف آنے والے مظاہرین کی ان تقسیم شدہ ٹکڑیوں کے درمیان بھرم اور انتشار پھیلا دیا۔ ممکن ہے کہ اس افواہ نے لال قلعہ جیسی دوسری جگہوں پر ہوئے تشدد کو بھی بھڑکایا ہوگا۔
ہر جگہ یہی خبر تھی کہ ٹریکٹر چلا رہے ایک نوجوان کسان کا پولیس کے ذریعے پوائنٹ بلینک رینج سے گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ سوشل میڈیا پر پھیلنے سے پہلے خبر کی صداقت کی جانچ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ جلد ہی یہ خبر کچھ ٹی وی چینلوں پر بھی چلا دی گئی۔ جائے حادثہ پر موجود لوگ اس گولی کانڈ اور پولیس کے مبینہ تشدد کی مذمت کر رہے تھے۔ اور آئی ٹی او جنکشن کے پاس مظاہرین جگہ جگہ پھیل گئے تھے۔
دراصل، مہلوک کی شناخت ۴۵ سالہ نونیت سنگھ کے طور پر کی گئی، جن کی موت ٹریکٹر کے پلٹنے سے ہوئی تھی، نہ کہ کسی کے ذریعے چلائی گئی گولی سے۔ جب تک اس کی تصدیق ہوئی، تب تک اس خبر کے ساتھ ہی لال قلعہ میں تشدد کی خبروں نے کسانوں کی وسیع ٹریکٹر ریلی پر اثر ڈالا، جو کہ پارلیمنٹ کے ذریعے ستمبر ۲۰۲۰ میں پاس کیے گئے تین زرعی قوانین کے خلاف ہو رہی تھی۔
بالکل الگ طرح سے شروع ہوئے دن کا یہ افسوس ناک خاتمہ تھا۔
ہندوستان کے ۷۲ویں یوم جمہوریہ کی شروعات، دھند اور ٹھنڈ کے بعد تیز دھوپ کے ساتھ ہوئی۔ ملک کی راجدھانی دہلی کی سرحدوں پر تقریباً دو مہینے سے ڈٹے کسان، طے شدہ راستے پر پرامن طریقے سے ٹریکٹر ریلی کرکے، تاریخ رقم کرنے والے تھے۔ دوپہر تک راج پتھ پر سرکاری پریڈ ختم ہونے کے بعد، سنگھو بارڈر، ٹیکری بارڈر اور غازی پور بارڈر سے ریلی شروع ہونی تھی۔
یہ پریڈ ملک کے شہریوں کے ذریعے منائی جانے والی سب سے بڑی، شاندار یوم جمہوریہ کی تقریب ہونے والی تھی – اور ایسا ہوا بھی۔ لیکن شام ہونے تک اس پر سے لوگوں کا دھیان اور دلچسپی ختم ہو چکی تھی۔
ہمارے دن کی شروعات دہلی اور اتر پردیش کے درمیان واقع چلہ بارڈر (غازی پور کے پاس) سے ہوئی۔ داخل ہونے والے مقام پر لگے بیریکیڈ تھوڑے عجیب سے تھے: ایندھن ڈھونے والے ٹرک اور ڈی ٹی سی بسیں چھوٹے، زرد رنگ کے لوہے کے گیٹ کے ساتھ کھڑی تھیں۔ چلہ بارڈر پر، سفید اور سبز رنگ کا ایک بڑا کیمپ لگایا گیا تھا، جہاں کسانوں کے گروپ کو ان کے لیڈروں کے ذریعے، پولیس دستے کے تعاون سے متعینہ راستوں پر چلنے کے لیے کہا جا رہا تھا۔
مظاہرین نے یہاں دال اور چاول کی شکل میں عام کھانا کھایا تھا، جو کہ وہاں صبح چار بجے سے ہی تیار کیا گیاتھا۔ دوپہر تک، کسانوں کے گروپ ’’بھارت ماتا کی جے‘‘، ’’جے جوان جے کسان‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ٹریکٹروں پر چڑھنے لگے، جب کہ ان کے پیچھے مشہور مقامی گیت بھی بجتے رہے۔ ایک لمبی قطار میں لگے پولیس والوں اور سفید رنگ کے ڈرون کیمروں کی نگرانی میں ٹریکٹر متعینہ راستے پر نکل رہے ہیں: چلہ-دہلی-نوئیڈا ڈائریکٹ فلائی اوور دادری-چلہ۔
کسان ان قوانین کو منسوخ کرنے کی بات کر رہے ہیں: زرعی پیداوار کی تجارت و کاروبار (فروغ اور سہل آمیزی) کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ کاشت کاروں (کو با اختیار بنانے اور تحفظ فراہم کرنے) کے لیے قیمت کی یقین دہانی اور زرعی خدمات پر قرار کا قانون، ۲۰۲۰ ؛ اور ضروری اشیاء (ترمیمی) قانون، ۲۰۲۰ ہیں۔ انہیں سب سے پہلے ۵ جون، ۲۰۲۰ کو آرڈیننس کی شکل میں پاس کیا گیا تھا، پھر ۱۴ ستمبر کو پارلیمنٹ میں زرعی بل کے طور پر پیش کیا گیا اور اسی ماہ کی ۲۰ تاریخ کو موجودہ حکومت کے ذریعہ جلد بازی میں قانون میں بدل دیا گیا۔
کسان ان قوانین کو اپنے معاش کے لیے تباہ کن سمجھ رہے ہیں کیوں کہ یہ قوانین بڑے کارپوریٹ کو کسانوں اور زراعت پر زیادہ اختیار فراہم کرتے ہیں۔ ان قوانین کی اس لیے بھی تنقید کی جا رہی ہے کیوں کہ یہ ہر ہندوستانی کو متاثر کرنے والے ہیں۔ یہ ہندوستان کے آئین کی دفعہ ۳۲ کو کمزور کرتے ہوئے تمام شہریوں کے قانونی چارہ جوئی کے حق کو ناکارہ کرتے ہیں۔
چلہ ٹریکٹر پریڈ میں کوئی بھی ناگہانی واقعہ پیش نہیں آیا۔ یہ پریڈ جلد ہی ختم ہو گئی، اور ایک گھنٹہ کے اندر تمام لوگ واپس آ گئے۔ ہم نے اس کے بعد سنگھو بارڈر کی طرف بڑھنا شروع کیا، جو یہاں سے ۴۰ کلومیٹر دور تھا اور جہاں اہم پریڈ ہونی تھی۔ آدھے راستے میں، ہمارے ساتھیوں نے اطلاع دی کہ کسانوں کے کچھ گروپ سنگھو سے دہلی جانے کے لیے آئی ٹی او کی طرف روانہ ہوئے ہیں۔ کچھ غیر معمولی واقعہ ہو رہا ہے۔ ہم نے اپنا راستہ بدلا اور ان کے پاس جانے کے لیے آگے بڑھ گئے۔ جیسے ہی وہ آؤٹر رِنگ روڈ سے گزرے، بڑی تعداد میں دہلی کے باشندے سڑک کے کنارے کھڑے ہو گئے اور کسانوں کا استقبال کیا۔ ٹریکٹر پر، بائک پر، اور یہاں تک کہ کاروں میں بھی۔ مجنوں کے ٹیلہ کے پاس میرون رنگ کے کپڑوں میں کچھ بودھ بھکشو بھی زور شور سے ہاتھ لہراتے نظر آئے۔ کار میں اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھی ایک عورت ٹریفک سگنل پر ٹریکٹر پر سوار لوگوں کو پانی کی بوتلیں دے رہی تھی۔
ملک کے لیے اناج پیدا کرنے میں مدد کرنے والے بھاری ٹریکٹروں کے بڑے پہیے ملک کی راجدھانی کی سڑکوں پر گھوم رہے تھے – شاید ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار۔ یہ ایک طاقتور، پرجوش، علامتی منظر تھا۔
اچانک، ماحول میں تبدیلی آ گئی۔ ہم نے سنا کہ احتجاجی گروہوں میں دراڑ پڑ گئی اور وہ بغیر اطلاع کے لال قلعہ کی طرف بڑھ گئے۔ جلد ہی، افواہیں پھیلنے لگیں کہ اس تاریخی یادگار پر مذہبی پرچم لہرائے گئے۔ اس تماشہ کے بعد یہ طے ہوا کہ میڈیا اور لوگوں کی توجہ بنیادی مسائل اور اہم ٹریکٹر پریڈ سے بھی ہٹ جائے۔
لال قلعہ سے باہر آئے ایک ساتھی نے ہمیں دوپہر کے ۳ بج کر ۱۵ منٹ پر فون کیا اور کہا، ’’یہاں سے دور رہو۔‘‘ اسے کچھ چوٹیں آئی تھیں، جب کچھ مظاہرین افواہوں کی وجہ سے غصہ میں آ گئے تھے، اور اس کے کیمرے کا بہت مہنگا لینس بھی توڑ دیا گیا تھا۔ ہم آئی ٹی او کی طرف بڑھتے رہے، جہاں غازی پور، سنگھو، اور لال قلعہ سے چل کر کچھ ٹریکٹر ایک ساتھ آ رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں پولیس ہیڈ کوارٹر کے آس پاس کا علاقہ ٹریکٹروں اور لوگوں سے بھر گیا۔
پنجاب کے گرداس پور سے آئے تین لوگ غصے میں تھے: ’’میں ۲۲ جنوری کو اپنے ٹریکٹر پر سنگھو آیا تھا۔ آج یوم جمہوریہ کے موقع پر ہم لوگ صبح ۴ بجے سے جاگے ہوئے ہیں۔ اس پریڈ میں ۲ لاکھ سے زیادہ ٹریکٹر ہیں۔ ہم اپنا یوم جمہوریہ بھی منا رہے ہیں۔ ان قوانین سے صرف کارپوریٹ کمپنیوں کو فائدہ ہوگا، کسانوں کو نہیں۔‘‘ ایسا لگا کہ وہ ایمانداری کے ساتھ ایک بڑی اور واجب پریڈ کا حصہ بننے آئے ہیں – وہ پرامن مارچ جو اب بھی اپنے متعینہ راستے پر چل رہا تھا۔ یہ بھرم دوسری جگہوں پر بھی مظاہرین کے درمیان نظر آیا۔
لیکن کئی ایسے مظاہرین بھی تھے، جو دہلی میں گھس آئے تھے اور کسی بھی غلط فہمی کے شکار نہیں تھے۔ انہیں اس بات کا پورا اندازہ تھا کہ وہ یہاں کیوں آئے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ جن کے پاس ہنگامے، انتشار، اور توڑ پھوڑ مچانے کا ایجنڈہ تھا – اور انہیں معلوم تھا کہ ان کے کاموں سے غیر معمولی طور پر شائستگی اور پرامن طریقے سے چل رہی ریلی کو نقصان ہوگا، جس میں لاکھوں کسان راجدھانی کی سرحدوں پر حصہ لے رہے تھے۔ ان میں سے کچھ نے مجھ سے کہا: ’’ہاں، اچھا ہوا کہ لال قلعہ پر پرچم لہرایا گیا۔ ہم اسے وہاں خود پھہرانا چاہتے تھے۔‘‘ انہوں نے مجھے دکھایا بھی کہ ان کے پاس جھنڈے تھے۔
۲۶ سالہ پون دیپ سنگھ کہتے ہیں، ’’سرکار ’ہندو راشٹر‘ کی بات کرتی ہے، جیسے اس ملک میں کوئی اور مذہب ہے ہی نہیں۔ آج لال قلعہ پر پھہرایا گیا جھنڈا، اس سوچ کے خلاف ایک چنوتی تھی۔‘‘
کچھ کے من میں پیدا ہوئے بھرم اور کچھ کا مشکوک عزم، انتشار کا راستہ کھول رہا تھا۔
۴۵ سالہ رنجیت سنگھ ہمیں بتاتے ہیں، ’’آج کا یوم جمہوریہ تاریخ میں درج ہوگا۔ آنے والے وقت میں لوگ اس ٹریکٹر پریڈ کو یاد رکھیں گے۔‘‘
اسی دوران نونیت سنگھ کا ٹریکٹر پلٹ گیا اور افواہ پھیلنی شروع ہو گئی۔ ان کا جسم ڈھکا ہوا تھا اور کچھ مظاہرین کا گروپ صدمے میں زمین پر بیٹھا ہوا تھا، جب کہ پولیس ان پر کچھ میٹر کے فاصلہ سے نظر رکھے ہوئی تھی۔
پنجاب کے بلاس پور کے رہنے والے ۲۰ سالہ رونیت سنگھ کے پیر میں بھی گولی لگنے کی افواہ تھی۔ نونیت سنگھ کی لاش کے ساتھ ہی، رونیت سنگھ ایک دوست کی گود میں پڑا تھا اور اپنے زخموں پر پٹی بندھوا رہا تھا۔ انہوں نے میڈیا کو واضح طور پر بتا دیا تھا کہ انہیں گولی نہیں ماری گئی ہے۔ انہوں نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جب پولیس نے آئی ٹی او کے پاس آنسو گیس کے گولے داغے، تو اس کے بعد ہوئے ہنگامے میں انکے پیر میں چوٹ لگ گئی۔ لیکن ان کی آواز ایک ادھیڑ عمر کے آدمی کے ذریعے دبا دی گئی تھی، جس نے سبھی کیمرہ مین کو وارننگ دی تھی کہ اگر وہ سچ نہیں دکھانا چاہتے ہیں، تو ہمیں پریشان نہ کریں اور پیچھے ہٹ جائیں۔
آئی ٹی او کے پاس، موہالی سے آئے محض ۲۰ سال کے آس پاس کی عمر کے نوجوان کسانوں کا ایک اور گروہ اپنے ٹریکٹر پر تھا، جو اپنے گروپ کے لیڈر کے حکم کا انتظار کر رہا تھا کہ آگے کیا کرنا ہے۔ وہ ہم سے بات کرنے سے کترا رہے تھے۔ وہ پوچھ رہے تھے کہ کیا ہم ’’آئی بی‘‘ کے لوگ ہیں۔ جب ہم نے سمجھایا کہ ہم انٹیلی جنس بیورو کے آدمی نہیں ہیں، تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے ٹریکٹر پریڈ میں پولیس کے ذریعے کسی کو گولی مارنے کی بات سنی ہے، اور یہ غلط ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک آندولن پرامن چل رہا تھا، لیکن اس کے بعد لوگوں کو اُکسایا گیا تھا۔
انہوں نے ہمیں بتایا، ’’سرکار کو کسانوں کو نہیں مانا چاہیے، بلکہ اپنے قوانین کو ختم کرنا چاہیے۔‘‘ انہوں نے فخر سے کہا کہ ’’یہ شاید اس ملک کی تاریخ کا سب سے لمبا احتجاجی مظاہرہ ہے۔‘‘
ہم آگے بڑھے، کیوں کہ نونیت سنگھ کی موت کی وجہ کا پتہ لگانا چاہتے تھے اور دیگر مظاہرین سے بات کرنا چاہتے تھے۔ وہاں ہماری ملاقات ۴۵ سال کے اجے کمار سواچ سے ہوئی۔ بنیادی طور پر اتراکھنڈ کے باجپور سے تعلق رکھنے والے سواچ پہلے فوج میں تھے اور اب اتر پردیش کے میرٹھ ضلع میں آباد ہو گئے ہیں۔
سواچ کہتے ہیں، ’’اگر اس ملک میں کھیتی باڑی بند ہو جاتی ہے، تو سرکار بھی بند ہو جائے گی۔ مجھے پنشن ملتی ہے اور اب میں گیہوں اور گنے کی کھیتی کرتا ہوں۔ میں تقریباً ۲۰ سالوں تک فوج میں رہا ہوں۔ کھیتی کا کام کرنے سے پہلے میں نے جموں و کشمیر، راجستھان، اتر پردیش، اور لداخ میں اپنی خدمات دی ہیں۔ میں فوجی اور کسان، دونوں رہا ہوں، لیکن میں ہمیشہ کسان رہوں گا۔ آج میرے لیے یہ ایک اہم دن ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے سبھی کے لیے ہے۔ ہم نے دہلی میں تحریک میں حصہ لینے کے لیے، اپنے گاؤں کے لوگوں سے ۶۰ ہزار روپے جمع کیے تھے۔‘‘
ہریانہ کے سونی پت کی ۴۸ سالہ محترمہ انتل نے اپنی گہری ہرے رنگ کی پگڑی سے ہمارا دھیان کھینچا۔ مکئی، کھیرا، آلو، اور گاجر کی کھیتی کرنے والی محترمہ انتل گزشتہ دو مہینے سے تحریک میں حصہ لے رہی ہیں، اور سنگھو اور گھر کے درمیان ان کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ ’’جب میں سنگھو بارڈر پر رہتی ہوں، تو میرے شوہر ہمارے ۱۰ سال کے بیٹے اور ۱۷ سال کی بیٹی کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ یوم جمہوریہ پر آج پنجاب، ہریانہ، اور اتر پردیش ایک ساتھ جمع ہوئے ہیں۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس سے سبھی کو نقصان پہنچنے والا ہے۔ حال ہی میں تقریباً ۲۰۰ کسانوں کی جان جا چکی ہے، سرکار کو اب ہماری بات ماننی ہی پڑے گی۔ ان سبھی زرعی قوانین سے صرف امبانی اور اڈانی کو فائدہ ہوگا، ہمیں نہیں۔‘‘
جیسے جیسے دن کا سورج ڈھلنے لگا، کچھ ٹریکٹر جو آئی ٹی او پر آئے تھے، واپس ان سرحدوں پر لوٹنے لگے جہاں سے وہ روانہ ہوئے تھے۔ راجدھانی اور آس پاس کے علاقوں میں رہنے والے لوگوں نے ایک بڑی، پرامن، اور شاندار پریڈ کے ساتھ ساتھ، ایک افسوسناک، تباہ کن، اور قابل مذمت تماشہ بھی دیکھا۔
مترجم: محمد قمر تبریز