’’ ڈولو کونِتھا میں لڑکے اتنے ماہر نہیں ہیں، جتنے کہ ہم،‘‘ ۱۵ سالہ وجے لکشمی بے باکی سے کہتی ہیں۔
ایسا لگ بھی رہا ہے۔ پتلی دبلی لڑکیاں، ان کی پتلی کمر کے چاروں طرف بندھے بھاری ڈھول، مہارت کے ساتھ ایک گول دائرہ میں رقص، قلا بازی میں چستی۔ اور شاندار لے اور تال کی ہم آہنگی۔
یہ نوجوان لڑکیاں ہیں۔ ان میں سب سے بڑی ابھی تک بالغ نہیں ہوئی ہے۔ لیکن، ڈھول اور رقص کی جس شکل کو پیش کرنے میں سب سے زیادہ جسمانی قوت کی ضرورت پڑتی ہے، حیرانی کی بات ہے کہ اسے یہ لڑکیاں پوری توانائی اور آسانی کے ساتھ پیش کر رہی ہیں۔ ڈولو کونِتھا کرناٹک کا ایک مقبول فوک ڈانس ہے۔ کنڑ زبان میں’ ڈولو‘ ڈھول کو کہتے ہیں، جب کہ ’ کونِتھا‘ کا مطلب ہے رقص۔ اسے ’ گنڈو کلے‘ بھی کہتے ہیں، جس کا مطلب ہے ’’مردوں کا ہنر‘‘ یا ’’مردوں کا فن‘‘۔ تندرست و توانا مرد ۱۰ کلو وزن تک کے ڈھول اپنی کمر میں باندھ لیتے ہیں اور نہایت خوش مزاجی اور پھرتی سے ڈانس کرتے ہیں۔ ڈانس کے بارے میں روایتی سوچ ہے کہ اسے کرنے کے لیے مردوں کا تندرست و توانا اور طاقتور ہونا ضروری ہے۔
لیکن، اس سوچ کو تب بڑا جھٹکا لگا، جب چند نوجوان خواتین نے اس روایت کو توڑنا شروع کیا۔ یہیں ہیسر گھٹّا میں، جو بنگلورو کے کنارے، سٹی سنٹر سے تقریباً ۳۰ کلومیٹر دور، دھان کے کھیتوں اور ناریل کے درختوں سے بھرا ہوا علاقہ ہے۔ اور اسی سرسبز علاقہ میں موجود ہے لڑکیوں کا یہ گروپ، جو ثقافتی چلن کو بدلنے میں لگا ہوا ہے۔ اس سوچ کو چیلنج کرنے میں لگا ہوا ہے کہ اس قسم کا ’ ڈولو کونِتھا‘ خواتین کے لیے نہیں ہے۔ انھوں نے پرانی کہاوت کو نظر انداز کرتے ہوئے بھاری ڈھول کو اپنا لیا ہے۔
یہ لڑکیاں پورے جنوبی ہندوستان کی ہیں۔ مختلف علاقوں اور ریاستوں میں سڑکوں پر زندگی گزارنے والی ان لڑکیوں کو اس زندگی سے نجات دلانے میں ایک غیر منافع بخش ٹرسٹ نے مدد کی ہے، جس کا نام ہے اسپرش۔ اس تنظیم نے ان لڑکیوں کو گھر مہیا کرانے کے ساتھ ساتھ ایک نئی زندگی بھی عطا کی ہے۔ یہ سبھی لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں – اور ساتھ ہی ناچنے اور گانے میں بھی مصروف ہیں۔ وہ ہفتہ بھر اسکول کی کتابوں میں ڈوبی رہتی ہیں اور ہفتہ کے آخری دنوں میں اپنے ڈھول کے تال پر ناچتی ہیں۔
میں اس ہاسٹل میں ان کا انتظار کر رہی تھی، جہاں پر اب یہ رہتی ہیں۔ اور جب وہ آئیں، تو ان سب کے چہرے ہنسی سے کھلے ہوئے تھے۔ حیرانی کی بات ہے کہ دن بھر اسکول میں گزارنے کے باوجود یہ اتنی خوش ہیں۔
لیکن ڈھول سے پہلے، اسکول کی باتیں اور خواب: ’’فزکس (طبیعیات) آسان ہے،‘‘ بنیادی طور سے تمل ناڈو کی رہنے والی، ۱۷ سالہ کَنَک وی نے کہا۔ بایولوجی (حیاتیات) کافی مشکل ہے ’’اس میں انگریزی کی تمام تر بکواس ہونے کی وجہ سے۔‘‘ اسے سائنس پسند ہے، ’’خاص کر فزکس، کیوں کہ ہم جو کچھ پڑھ رہے ہیں وہ ہماری زندگی کے بارے میں ہے۔‘‘ پھر بھی، ’’میرا کوئی خواب نہیں ہے،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ اور پھر مسکراتے ہوئے اس میں اضافہ کرتی ہیں، ’’مجھے بتایا گیا ہے کہ جن کی کوئی سوچ نہیں ہوتی، ایسے لوگ سب سے زیادہ کامیابی حاصل کرتے ہیں۔‘‘
نرسمّا ایس (۱۷) کا کہنا ہے، ’’مجھے آرٹ پسند ہے۔ نقش نگاری (ڈرائنگ) اور خاکہ کشی (ڈیزائننگ) میرا محبوب مشغلہ ہے۔ میں عام طور سے پہاڑوں اور ندیوں کے خاکے بناتی ہوں۔ جب میں بڑی ہو رہی تھی، تو میرے ساتھ میرے والدین نہیں تھے اور میں کوڑے چُنا کرتی تھی۔ اس لیے، قدرتی چیزوں کے خاکے بنانا کافی سکون دیتا ہے۔ اس سے مجھے اپنے ماضی کو بھلانے میں مدد ملتی ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں۔
نرسمّا کو آندھرا پردیش کے چتور سے لایا گیا، جہاں وہ نو سال کی عمر میں کوڑا چننے کا کام کرتی تھیں۔ ان سے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے کہ ان کے خواب کیا کیا ہیں۔ وہ اپنے آپ ہی گِنانا شروع کر دیتی ہیں – فیشن ڈیزائننگ، نرسنگ اور ادا کاری وغیرہ وغیرہ۔ اپنی زندگی کے سب سے یادگار لمحہ کے بارے میں پوچھنے پر وہ پورے فخر سے اس منظر کو یاد کرتی ہیں، جب انھوں نے ایک اسکٹ (ڈرامہ) میں بچپن کی شادی کے خلاف لڑنے والی ماں کا رول ادا کیا تھا۔ ’’والدین اپنے بچوں کے ساتھ ایسا کیوں کرتے ہیں؟‘‘ وہ سوال کرتی ہیں۔ ’’یہ تو کھلے ہوئے پھول کو توڑنے جیسا ہے۔‘‘
بات کرتے کرتے، یہ لڑکیاں ڈانس کے لیے تیار بھی ہو رہی ہیں، جب ان کی چھوٹی کمر میں بڑے بڑے ڈھول باندھے جا رہے ہیں، جو ان کے سائز کا آدھا یا اس سے بڑے ہیں۔
اور تبھی – بجلی سی دوڑ جاتی ہے۔ اس ڈانس میں کافی جسمانی طاقت کی ضرورت پڑتی ہے، لیکن دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے کہ یہ لڑکیاں بڑی آسانی سے اسے کر رہی ہیں۔ ان کی زبردست توانائی کو دیکھ کر میں اپنے پیر کو تھرکنے سے نہیں روک سکی۔
جب انھوں نے اپنا ڈانس ختم کیا، تو میں جو ایک معمولی ناظر تھی، ان کی اس اچھل کود کر دیکھ کر اپنے اندر تکان محسوس کرنے لگی۔ حالانکہ، ان کے اندر تکان کا شائبہ تک نہیں ہے، اور وہ شام کی کلاس کے لیے ایسے جانے لگیں گویا پارک میں ٹہلنے جا رہی ہوں۔ یہ گروپ ڈولو کونِتھا کو ایک تفریحی اور ثقافتی عمل کے طور پر اپنائے ہوئے ہے۔ انھوں نے اب تک نہ تو کسی عوامی پروگرام میں اسے پیش کیا ہے اور نہ ہی اس سے کچھ کمایا ہے۔ حالانکہ، یہ اگر چاہیں تو ایسا کر سکتی ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)