’’میں حکومت سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ سوئے نہیں..‘‘
یہ تھیں بے مثال ہوسا بائی پاٹل، شعلہ بیاں خاتون مجاہد آزادی، کرشمائی لیڈر، کسانوں، غریبوں اور محروم طبقوں کی مسیحا۔ یہ الفاظ انہوں نے نومبر ۲۰۱۸ میں کسانوں کے پارلیمنٹ تک نکالے گئے زبردست مارچ کی حمایت میں بھیجے گئے اپنے ویڈیو پیغام میں استعمال کیے تھے۔
انہوں نے اُس ویڈیو میں کہا تھا، ’’کسانوں کو اپنی فصلوں کی بہتر قیمت ملنی چاہیے۔ اس انصاف کو حاصل کرنے کے لیے میں خود وہاں آؤں گی‘‘ اور مارچ میں شامل ہوں گی، انہوں نے احتجاجیوں سے کہا تھا۔ یاد رہے کہ اس وقت وہ ۹۳ سال کی ہو چکی تھیں اور ان کی صحت بھی بہت زیادہ اچھی نہیں تھی۔ انہوں نے حکومت کو وارننگ دی تھی کہ وہ ’’سوئے نہیں بلکہ بیدار ہو جائے اور غریبوں کے لیے کام کرے۔‘‘
ہمیشہ بیدار اور الرٹ رہنے والی ہوسا بائی ۲۳ ستمبر، ۲۰۲۱ کو ۹۵ سال کی عمر میں سانگلی میں ابدی نیند سو گئیں۔ مجھے ان کی بہت یاد آئے گی۔
ہَوسا بائی (جنہیں اکثر ہَوسا تائی کہا جاتا تھا؛ مراٹھی زبان میں بڑی بہن کو عزت بخشنے کے لیے ’تائی‘ کہتے ہیں)، ۱۹۴۳ سے ۱۹۴۶ کے درمیان انقلابیوں کی اس ٹیم کا حصہ تھیں، جس نے برطانوی ٹرینوں پر حملہ کیا، پولیس کے ہتھیاروں کو لوٹا اور ڈاک بنگلوں کو نذرِ آتش کیا جسے انگریز انتظامی مقاصد اور عدالتوں کے طور پر بھی استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے طوفان سینا کے ساتھ کام کیا، جو ستارا کی پرتی سرکار یا زیر زمین حکومت کی مسلح شاخ تھی، جس نے ۱۹۴۳ میں ہی برطانوی حکومت سے آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔
۱۹۴۴ میں، انھوں نے گوا میں زیر زمین کارروائی میں بھی حصہ لیا، جو اس وقت پرتگالی حکومت کے تحت تھا، اور آدھی رات کو لکڑی کے ڈبے کے اوپر بیٹھ کر مانڈوی ندی کو پار کیا، تب ان کے ساتھی کامریڈ ان کے ساتھ ساتھ تیر رہے تھے۔ لیکن، وہ ہمیشہ کہتی تھیں، ’’میں نے جنگ آزادی میں کچھ بھی بڑا یا عظیم کارنامہ انجام نہیں دیا۔‘‘ براہ کرم ان کے بارے میں مزید جاننے کے لیے اسے پڑھیں، جو کہ خود میری سب سے پسندیدہ اسٹوریز میں سے ایک ہے: ہَوسا بائی کی اَن کہی شجاعت ۔
ہوسا بائی انقلابیوں کی اس ٹیم کا حصہ تھیں، جس نے برطانوی ٹرینوں پر حملہ کیا، پولیس کے ہتھیاروں کو لوٹا اور ڈاک بنگلوں کو نذرِ آتش کیا
جس دن ان کا انتقال ہوا، میں نے اسی دن صحافت کے طلبہ کو ان کے بارے میں بتایا۔ یہ وہ نسل ہے جسے ہندوستانی جنگ آزادی کے اصلی جانبازوں کے بارے میں بتایا نہیں گیا ہے۔ آج کے نقلی اور فراڈ لوگوں کی بہ نسبت ہوسا بائی، حب الوطنی اور ہندوستانی قومیت پر بولنے کے لیے کہیں زیادہ قابلیت اور صلاحیت رکھتی تھیں۔ ایک ایسی حب الوطنی جو ہندوستانیوں کو متحد کرنے اور انہیں انگریزی حکومت سے آزادی دلانے کے لیے وجود میں آئی تھی، نہ کہ انہیں مذہب اور ذات کی بنیاد پر تقسیم کرنے کے لیے۔ ایک ایسا سیکولر جذبہ جو امید کے جذبے سے سرشار تھا، نفرت کے جذبے سے نہیں۔ آزادی کے پیدل سپاہی، نہ کہ فسادی۔
میں پاری کے ساتھ ان کے انٹرویو کو کبھی نہیں بھولوں گا، جس کے آخر میں انہوں نے ہم سے کہا تھا: ’’تو کیا آپ لوگ مجھے ابھی لے جا رہے ہیں؟‘‘
’’لیکن کہاں، ہوسا تائی؟‘‘
’’پاری میں آپ تمام لوگوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے،‘‘ انہوں نے ہنستے ہوئے جواب دیا تھا۔
میں ’آزادی کے پیدل سپاہی: ہندوستانی جدوجہد آزادی کے آخری جانباز‘ نام سے ایک کتاب لکھ رہا تھا اور ابھی بھی اسی میں مصروف ہوں۔ لیکن میرے لیے اس سے زیادہ صدمہ کی بات کوئی اور نہیں ہے کہ ہوسا بائی – جن کی حیرت انگیز کہانی اس کے اہم ابواب میں سے ایک ہے – اسے پڑھنے کے لیے ہمارے درمیان نہیں ہوں گی۔
مترجم: محمد قمر تبریز