’’ہم فکرمند تھے کہ موت کے بعد ہمارے والد کی آخری رسومات ٹھیک سے ادا نہیں ہو پائیں گی۔‘‘

پنچ ناتھن سبرامنیم کی موت کے دو مہینے بعد، ان کے بیٹے ایس رمیش آج بھی صدمہ کا اظہار کرتے ہیں: ’’کووڈ- ۱۹ کی علامتوں کے بعد جب ہم نے ان کو تنجاور کے سرکاری اسپتال میں داخل کیا، تو ہم نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ یہاں سے ہمیں انہیں مردہ حالت میں واپس لے جانا پڑے گا۔‘‘

تعجب کی بات یہ ہے کہ ہندوستانی فوج میں ایک اہم عہدہ پر فائز رہنے کے بعد، ریٹائر ہو چکے ۶۸ سالہ سبرامنیم کسی بڑے مرض میں مبتلا نہیں تھے۔ فوج میں ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے اوپر ناز تھا ’’اور انہوں نے اپنی صحت کا اچھی طرح خیال رکھا تھا۔ وہ روزانہ چہل قدمی کرنا کبھی نہیں بھولتے تھے اور اپنی غذا کو لیکر بھی کافی سخت تھے،‘‘ تمل ناڈو کے کُمبکونم قصبہ کے رہائشی، ۴۰ سالہ رمیش بتاتے ہیں۔ ’’ان کو اسپتال میں داخل کراتے وقت بھی، ہم یہی سوچ رہے تھے کہ وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘

لیکن ۱۴ اگست کو جب سبرامنیم کا انتقال ہو گیا، تو رمیش اور ان کی فیملی کے دیگر لوگ کافی پریشان ہوئے – اور ان کی یہ پریشانی صرف اس لیے نہیں تھی کہ انہوں نے ان کو کھو دیا تھا۔ وہ یہ دیکھ چکے تھے کہ ریاست میں کووڈ- ۱۹ کے متاثرین کی آخری رسومات کو لیکر کس قسم کا تعصب برتا جاتا ہے اور اس بات کو لیکر کافی فکرمند تھے کہ آگے کیا کیا جائے۔ ’’ہمیں دوستوں اور رشتہ داروں سے زیادہ مدد نہیں ملی،‘‘ رمیش کہتے ہیں۔ ’’یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کیوں کہ کورونا کی وجہ سے موت ہونا بڑی تشویش کا باعث ہے۔‘‘

تبھی غیر متوقع طور پر، ریاست کی ایک غیر سرکاری تنظیم – تمل ناڈو مسلم مونیتر کڑگم (ٹی ایم ایم کے) کی جانب سے بہت ہی عملی مدد حاصل ہوئی۔ سبرامنیم کی موت کے کچھ دیر بعد ہی، ٹی ایم ایم کے کے چھ رضاکار فیملی کی مدد کے لیے وہاں پہنچ گئے – انہوں نے اسپتال میں لاش حاصل کرنے سے لیکر، ان کے ہوم ٹاؤن کُمبکونَم میں عزت کے ساتھ ان کی تدفین (کچھ ہندو برادریاں اپنے مُردوں کو جلانے کی بجائے انہیں دفن کرتی ہیں) کرنے تک میں مدد کی۔

فیملی کے لیے یہ ایک طرح سے حسن اتفاق تھا۔ حالانکہ ٹی ایم ایم کے کے لیے سبرامنیم ان ۱۱۰۰ لوگوں میں سے ایک تھے، جن کی تدفین انہوں نے مارچ کے آخر سے لیکر اب تک تمل ناڈ اور پڈوچیری بھر کے مختلف علاقوں میں کی تھی۔ یہ تدفین مرنے والے کی برادری یا ذات کی پرواہ کیے بغیر کی جاتی ہے – آخری رسومات فیملی کی مذہبی روایات اور خواہشوں کے مطابق ادا کی جاتی ہیں۔ کووڈ- ۱۹ سے ہونے والی تصدیق شدہ موت کے معاملے میں، ٹی ایم ایم کے نے مقامی انتظامیہ کے ضابطوں پر عمل کرتے ہوئے انہیں آٹھ فٹ گہری قبر میں دفن کیا۔

Top left: Two volunteers place a body in their vehicle. Top right: TMMK volunteers stand beside their ambulance vans, readying for the day’s activity. And volunteers in full PPE stand in respect after unloading a body at a burial ground
PHOTO • Courtesy: TMMK

اوپر بائیں: دو رضاکار لاش کو اپنی گاڑی میں رکھتے ہوئے۔ اوپر دائیں: ٹی ایم ایم کے کے رضاکار اپنی ایمبولینس گاڑیوں کے سامنے کھڑے ہیں، دن کی سرگرمی کے لیے تیار ہیں۔ اور لاش کو قبرستان میں گاڑی سے اتارنے کے بعد پوری طرح پی پی ای میں ملبوس یہ رضاکار اس شخص کے احترام میں کھڑے ہیں

وائرس لگنے کے خطرہ کے ساتھ ہی لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنے مقام سے علیحدہ ہو جانے کا مطلب یہ تھا کہ اکثر و بیشتر، قبرستان اور شمشان میں کارکن دستیاب نہیں تھے، اور اب بھی نہیں ہیں۔ ایمبولینس کا انتظام کرنا بہت مشکل ہے، اور غم زدہ کنبوں کو بڑی قیمتیں چکانی پڑی ہیں، انہیں تعصب اور ہراسانی کا شکار ہونا پڑا ہے۔ سب سے بدنام پہلا کیس ۵۵ سالہ نیورو سرجن، ڈاکٹر سائمن ہرکیولس کا تھا، جن کی وفات ۱۹ اپریل کو ہوئی تھی – کووڈ- ۱۹ سے مرنے والے تمل ناڈو کے شاید وہ پہلے ڈاکٹر تھے۔

ان کی فیملی کو چنئی کے کِلپَوک علاقہ میں واقع قبرستان سے واپس کر دیا گیا تھا، جہاں ان کے خلاف تقریباً ۱۰۰ لوگ جمع ہو گئے تھے۔ اس کے بعد ان کی لاش کو وہاں سے تقریباً چھ کلومیٹر دور، انّا نگر کے ویلنگاڈو قبرستان لے جایا گیا۔ لیکن وہاں پر بھی لوگوں کے مجمع نے لاٹھیوں اور پتھر سے ایمبولینس، اس کے ڈرائیور، اور ایک صفائی ملازم پر حملہ کر دیا۔ آخر میں، ڈاکٹر سائمن کے دوستوں، ڈاکٹر پردیپ کمار اور دو دیگر نے خوف کے ماحول میں انہیں اگلی صبح خاموشی سے دفن کر دیا – لیکن ان کی فیملی کا ایک بھی رکن اس میں شریک نہیں ہو سکا۔

ایسے ناہموار حالات میں، ٹی ایم ایم کے کی طرف سے ان ۱۱۰۰ کنبوں کو مدد ملنا کافی معنی رکھتا ہے۔

’’چنئی کے ہمارے ایک رشتہ دار نے جو نمبر دیا تھا، اس نمبر پر ٹی ایم ایم کے کو کال کرتے ہوئے ہم بدحواس اور نا امید تھے،‘‘ رمیش بتاتے ہیں۔

’’ہم چاہتے تھے کہ کسی طرح سے ہمیں ایک ایمبولینس مل جائے، لیکن انہوں نے درحقیقت ساری ذمہ داری اپنے اوپر لے لی۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ موت کے بعد ہمارے والد کی بے حرمتی ہو۔ وہ ایک عزت دار آدمی تھے۔ شکر ہے، ٹی ایم ایم کے نے اس عزت کو برقرار رکھنے میں مدد کی۔‘‘

قابل ذکر بات یہ ہے کہ انہوں نے کووڈ- ۱۹ سے ہونے والی ۱۰۰ اموات سمیت جن ۱۱۰۰ لوگوں کی تدفین کی، ان میں سے ان کی ایک بھی کوشش رائیگاں نہیں گئی۔

’’گزشتہ چھ سالوں سے ٹی ایم ایم کے کے رضاکاروں کے ساتھ جڑا ہونے کی وجہ سے مجھے کوئی حیرانی نہیں ہے،‘‘ ڈاکٹر این اروِند بابو کہتے ہیں، جو کینسر کے ماہر اور چینئی کے شری بالا جی ڈینٹل کالج اور اسپتال میں پروفیسر ہیں۔ ان کے رضاکار کینسر کی بہت سی سرجری کے دوران خون کا عطیہ اور پیسے جمع کر چکے ہیں، وہ کہتے ہیں۔ ڈاکٹر بابو، جو شہر کے اڈم بکّم علاقہ میں رہتے ہیں، کہتے ہیں کہ انہیں ٹی ایم ایم کے کی اس خوبی کا پتا تب چلا، جب ان کے پڑوس میں اپریل میں شدید لاک ڈاؤن کے دوران ’’تنہا چھوڑ دی گئی ایک بزرگ خاتون کی، شاید بھوک کی وجہ سے موت ہو گئی تھی‘‘۔

’’میں پریشان تھا، اور سوچ رہا تھا کہ اس خاتون کی عزت کے ساتھ تدفین ہونی چاہیے،‘‘ ڈاکٹر بابو یاد کرتے ہیں۔ ٹی ایم ایم کے کے رضاکار وہاں پہنچ گئے، پوسٹ مارٹم کرایا، تدفین کا انتظام کیا اور تب تک اس کام میں لگے رہے، جب تک کہ انہیں ڈیتھ سرٹیفکیٹ نہیں مل گیا۔ یہ بھی ضروری تھا ’’کیوں کہ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ یہ موت کووڈ کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی اور مقامی پولس اسٹیشن سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے میں اس نے مدد کی۔ یہ ایک بامعنی کام تھا۔‘‘

PHOTO • Courtesy: TMMK

ضرورت پڑنے پر وہ کسی بھی وقت تدفین کا انتظام کرتے ہیں، جیسا کہ یہاں دیر رات میں کیا جا رہا ہے

اسی وقت ڈاکٹر بابو کو یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ تنظیم گزشتہ آٹھ برسوں سے چھوڑی ہوئی، نا معلوم لاشوں کی آخری رسومات پوری عزت کے ساتھ ادا کر رہی ہے۔ ’’یہ حیرانی کی بات تھی... وہ انسان کی موت کے بعد اس کی عزت کا خیال رکھتے ہیں، چاہے اس شخص کا پس منظر جو بھی رہا ہو۔‘‘

’’ہم نے کووڈ- ۱۹ سے مرنے والے چند لوگوں کو شروع میں دفن کیا تھا،‘‘ سابق ایم ایل اے اور ٹی ایم ایم کے کے ریاستی صدر، ایم ایچ جواہراللہ کہتے ہیں۔ ’’لیکن ڈاکٹر سائمن کی المناک موت اور ان کی فیملی پر ہونے والے حملہ سے پہلے ہمارے پاس اس کے بارے میں کوئی منصوبہ بند طریقہ نہیں تھا۔ کووڈ سے ہونے والی موت سے لوگ ڈرتے تھے اور سماج ان سے نفرت کرتا تھا، اور ہمیں اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ کرنا ہی تھا۔‘‘

انہوں نے تدفین کرانے کا فیصلہ کیا ’’مرنے والا جس مذہب سے تعلق رکھتا تھا، اسی کے طور طریقوں کے مطابق۔ مقصد تھا انہیں عزت کے ساتھ رخصت کرنا۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا اگر ان کے عقائد کا احترام نہیں کیا جاتا؟‘‘ جواہراللہ پوچھتے ہیں۔

ٹی ایم ایم کے کے رضاکار زمین سے جڑے ہوئے آدمی ہیں، جن میں سے تقریباً سبھی کی عمر ۲۲ سے ۴۰ سال کے درمیان ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی شہرت ہو – کووڈ- ۱۹ مریضوں اور متاثرین کے لیے کام کرنے والے طبی کارکنوں کے تئیں عوام کے موڈ کو دیکھ کر اسے سمجھا جا سکتا ہے۔ پوری ریاست میں ایسے تقریباً ۱۰۰۰ رضاکار ہیں۔ اور، چنئی میں مقیم ٹی ایم ایم کے کے میڈیکل وِنگ کے سربراہ خلیل رحمن کے مطابق، ان میں سے زیادہ تر خوانچہ فروش یا چھوٹی دکانوں کے مالک ہیں، جیسے کہ وہ خود ہیں۔

’’ہم میں سے زیادہ تر لوگ روز کماتے، روز کھاتے ہیں،‘‘ رحمن بتاتے ہیں۔ ’’بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جن کا پس منظر تھوڑا بہتر ہو۔‘‘

متعدد گوشوں سے لوگ ان کی اس خدمت کا احترام کرتے ہیں۔ ’’کیا آپ نے ایک مرکزی وزیر کی تدفین کا ویڈیو دیکھا تھا؟‘‘ ایروڈ ضلع میں گوبی چیٹّی پلیَم قصبہ کے جی وی ادھی یمان پوچھتے ہیں۔ ’’بھلے ہی وہ [ڈی ایم کے کے] سیاسی حریف تھے، جس طرح سے ان کی لاش کو گڑھے میں پھینکا گیا، اور پھر جس طرح ایک آدمی اسے پلٹنے کے لیے نیچے اُترا، اس سے مجھے کافی تکلیف ہوئی۔‘‘ ادھی یمان کے ۸۶ سالہ والد جی پی وینکیٹو، ڈی ایم کے کے سابق ایم ایل اے جنہوں نے ۱۹۶۰ کی دہائی میں ہندی مخالف احتجاجوں میں شرکت کی تھی، کووڈ- ۱۹ کے سبب ۲۳ ستمبر کو ان کی موت ہو گئی تھی۔

’میں گزشتہ آٹھ سالوں سے اس میڈیکل ٹیم کا حصہ ہوں۔ کووڈ کی وجہ سے ہمارا تناؤ بڑھ گیا ہے، لیکن لوگ جب احسان مندی کا اظہار کرتے ہیں، تو کوئی اور چیز معنی نہیں رکھتی‘

ویڈیو دیکھیں: ۱۱۰۰ لاشوں کی تدفین اور بے شمار بدگمانیاں

ان کی فیملی اس وقت مصیبت میں پھنس گئی جب سرکاری سروِس نے یہ کہہ دیا کہ اُس دن ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں جانے کے لیے ایمبولینس دستیاب نہیں ہے۔ ’’میرے والد کوئمبٹور اسپتال میں تھے اور ہمیں ان کو گوبی چیٹّی پلَیَم واپس لانا تھا،‘‘ ادھی یمان کہتے ہیں۔ ’’تبھی ٹی ایم ایم کے مدد کے لیے پہنچا اور انہوں نے ایک فیملی کی طرح ساری ذمہ داری اپنے سر لے لی۔‘‘

ہر تدفین میں اچھا خاصا وقت لگتا ہے۔ پھر بھی، اسپتال میں کاغذی کارروائی کرنے سے لیکر تدفین کا انتظام کرنے میں رشتہ داروں کی مدد کرنے تک، رضاکاروں کو ایک کو مکمل کرنے میں صرف ۳-۴ گھنٹے لگتے ہیں۔ ’’خود اپنے انتظامی مقاصد کے لیے ہم تمل ناڈو کو ۵۶ ضلعوں [سرکاری طور پر، ۳۸ ضلعے ہیں] کے طور پر دیکھتے ہیں، جن میں سے ہر ایک میں ہمارا میڈیکل سروِس ونگ ہے، جس کا ایک سکریٹری ہوتا ہے۔ ہر ضلع میں ۲-۳ ٹیمیں ہیں، جن میں سے ہر ایک میں ۶-۸ رضاکار ہیں،‘‘ خلیل رحمن بتاتے ہیں۔

’’یہ انسانیت کی ایک عظیم خدمت ہے، اور اسے کرتے وقت، رضاکار ہر ایک معاملہ میں پروٹوکال کا پورا خیال رکھتے ہیں،‘‘ تیروپتّور ضلع کے سپرنٹنڈنٹ آف پولس، پی وجے کمار کہتے ہیں۔ ’’مثال کے طور پر، کووڈ سے ہونے والی موت کے معاملے میں وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ گڑھا آٹھ فٹ گہرا ہو – اور تدفین کے وقت پی پی ای سوٹ اچھی طرح پہنتے ہیں۔ ہمارے ضلع میں ۱۰۰ اموات ہوئی ہیں، جن میں ٹی ایم ایم کے نے کم از کم ۴۰ فیصد کی تدفین کی ہے۔‘‘ صحیح تناسب کا تو علم نہیں ہے، لیکن جن ۱۱۰۰ لوگوں کی آخری رسومات اب تک ادا کی جا چکی ہیں، ان میں ہندو، مسلم، عیسائی اور دیگر عقائد کے لوگ بھی شامل ہیں۔

جن علاقوں میں یہ لوگ سرگرم ہیں، وہاں رضاکارانہ کوشش نے وائرس کے بارے میں بیداری پیدا کرنے – اور دہشت کی سطح کو کم کرنے میں مدد کی ہے۔

’’یہ دہشت اس خیال سے پیدا ہوتی ہے کہ لاشوں سے انفکیشن پھیلتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے،‘‘ کولکاتا میں مقیم مالیکیولر بایولوجسٹ اور ٹیچر، ڈاکٹر انربن مترا کہتے ہیں۔ ’’یہ ایک بایو کیمیکل حقیقت ہے کہ لاش نئے وائرس پیدا نہیں کر سکتی، خاص کر وہ لاش جسے اسپتال سے موت کے ۴-۵ گھنٹے بعد باہر نکالا گیا ہو۔ چونکہ لاش سانس نہیں لیتی، اس لیے مردہ آدمی سے قطرہ کا انفیکشن ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب کسی کے جسم سے لعاب، بلغم، اور خون جیسا سیال مادّہ باہر نکل رہا ہو، صرف تبھی اس سے وائرس پھیل سکتا ہے۔ اس لیے بغیر دیر کیے لاش کو جلانا یا دفن کرنا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔‘‘

The volunteers lower a body into a pit eight feet deep, cover up the pit and pour a disinfectant powder across the grave
PHOTO • Courtesy: TMMK
The volunteers lower a body into a pit eight feet deep, cover up the pit and pour a disinfectant powder across the grave
PHOTO • Courtesy: TMMK
The volunteers lower a body into a pit eight feet deep, cover up the pit and pour a disinfectant powder across the grave
PHOTO • Courtesy: TMMK

رضاکار لاش کو آٹھ فٹ گہرے گڑھے میں اتارتے ہیں، گڑھے کو بھرتے ہیں اور پھر پوری قبر کے اوپر انفیکشن دور کرنے والا پاؤڈر چھڑکتے ہیں

’’اگر کسی متاثر کی موت گھر پر ہوئی ہے، تب وائرس اس مکان میں بعد میں بھی فعال رہ سکتا ہے، اس لیے اس گھر کے کوارنٹائن پر سختی سے نظر رکھی جانی چاہیے،‘‘ ڈاکٹر مترا آگاہ کرتے ہیں۔ ’’اور اس کی آخری رسومات متعلقہ حکام کے ذریعے ادا کی جانی چاہئیں جو اسے ہینڈل کرنے کے طور طریقوں سے پوری طرح واقف ہوں۔‘‘

ایسا لگتا ہے کہ ٹی ایم ایم کے تناؤ کے شکار حکام اور انتظامیہ کو بچانے کے لیے سامنے آیا ہے۔

اس قسم کی تدفین میں کتنے پیسے لگتے ہیں؟ ’’اس کی لاگت ایک ہزار سے لیکر ۱۱ ہزار روپے تک ہے، جو رسومات کی ادائیگی، گڑھا کھودنے کے لیے جے سی بی مشین کے کرایہ اور اس قسم کی دیگر چیزوں پر منحصر ہے،‘‘ رحمن کہتے ہیں۔ ’’کووڈ سے ہونے والی موت کے معاملے میں، جو کنبے ان اخراجات کو برداشت کر سکتے ہیں، ہم ان کی مدد جسمانی محنت کے ذریعے کرتے ہیں۔ اگر کوئی فیملی خرچ بالکل بھی برداشت نہیں کر سکتی، تو ہم لوگ آپس میں پیسے جمع کرتے ہیں اور اس کام کو انجام دیتے ہیں۔‘‘ پی پی ای کٹ یا تو مقامی انتظامیہ کی طرف سے فراہم کی جاتی ہے یا انسان دوست افراد اس کے لیے مالی مدد کرتے ہیں۔

گروپ کے لوگ جانتے ہیں کہ کووڈ سے ہونے والی اموات میں زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ ’’ٹیم کے تمام ارکان پی پی ای سوٹ پہنتے ہیں اور یکے بعد دیگرے تدفین کی کارروائی میں شریک ہوتے ہیں – ایک ٹیم ایک بار میں ایک سے زیادہ تدفین نہیں کرتی۔ تدفین کے بعد، رضاکار اپنے گھر لوٹنے سے پہلے خود کو کچھ دنوں تک کوارنٹائن میں رکھتے ہیں۔‘‘ انہیں امیونٹی بوسٹرز بھی دیے جاتے ہیں اور لازمی طور پر ان کی طبی جانچ کی جاتی ہے۔ ’’ظاہر ہے، کووڈ پازیٹو آنے والے شخص کو اس کام سے رخصت کر دیا جاتا ہے،‘‘ جواہراللہ بتاتے ہیں۔

ٹیموں کو پریشان حال کنبوں کے بارے میں اکثر و بیشتر مقامی ہیلتھ انسپکٹر یا اسپتالوں سے جانکاری ملتی ہے۔ رانی پیٹ ضلع کے ارکّونَم بلاک میں بناورم پنچایت کے سابق صدر، این منی یہ مثال بتاتے ہیں: ’’ہمارے گاؤں کی ایک عیسائی خاتون، پُشپا کا کووڈ کی وجہ سے انتقال ہو گیا اور ان کی فیملی اسے ہینڈل نہیں کر سکتی تھی۔ تبھی ہیلتھ انسپکٹر نے مجھے ٹی ایم ایم کے کے بارے میں بتایا۔ رضاکار ایک گھنٹہ کے اندر آگئے اور انہوں نے ذمہ داری اپنے ہاتھ میں لے لی۔ وہ ہمت ور ہیں، اور محتاط رہتے ہیں۔‘‘

اس کے علاوہ، رحمن کہتے ہیں، ’’تمل ناڈو میں ہر پولس اسٹیشن کے پاس ہمارا نمبر ہے، اس لیے لاوارث لاش کے معاملے میں وہ ہمیں کال کر سکتے ہیں، جس کے بعد باقی ذمہ داریاں ہم اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔‘‘

The TMMK volunteers attend to Hindu, Muslim, and Christian funerals alike, conducting each according to the religious traditions of the family
PHOTO • Courtesy: TMMK
The TMMK volunteers attend to Hindu, Muslim, and Christian funerals alike, conducting each according to the religious traditions of the family
PHOTO • Courtesy: TMMK

ٹی ایم ایم کے کے رضاکار ہندوؤں، مسلمانوں اور عیسائیوں کی تدفین میں مساوی طور پر شریک ہوتے ہیں، اور ہر ایک کی آخری رسومات فیملی کے مذہبی عقائد کے مطابق ادا کرتے ہیں

ان کی ان تمام کوششوں میں بڑے پیمانے پر ذاتی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ۴۱ سالہ عبدالرحیم، جو مارچ سے پڑوسی پڈوچیری یونین علاقہ کے کرائیکّل ضلع میں کووڈ سے ہونے والی ۲۷ اموات میں سے تقریباً ۲۵ کی تدفین کرنے والی ٹیم کے رکن رہ چکے ہیں، ان کے لیے اس کا مطلب ہے اپنے چھ سال کے بیٹے سے دور رہنا۔ ’’میں گزشتہ آٹھ سالوں سے ایک میڈیکل ٹیم کا حصہ ہوں۔ کووڈ کی وجہ سے ہمارا تناؤ بڑھ گیا ہے، لیکن جب لوگ احسان مندی کا اظہار کرتے ہیں، تو کوئی اور چیز معنی نہیں رکھتی۔ ہر تدفین کے بعد مجھے اپنی فیملی سے کم از کم ایک ہفتہ تک دور رہنا پڑتا ہے۔ اس سے وہ پریشان ہو جاتے ہیں، لیکن میں ان کی صحت کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتا۔‘‘

ٹی ایم ایم کے کے رضاکار ایسا کیوں کرتے ہیں؟

جواہراللہ اسے فرض کفایہ کہتے ہیں۔ ’’اسلام میں، آخری رسومات کو انجام دینا سماج کی لازمی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی فرد واحد یا افراد کی جماعت اس کام کو کرتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پورے معاشرہ نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی۔ اگر کوئی بھی اسے کرنے کے لیے سامنے نہیں آیا، تو ہر کوئی گنہگار ہوگا۔ ذات پات کی پرواہ کیے بغیر، ہمارا ماننا ہے کہ تدفین کو انجام دینا ہماری ذمہ داری ہے۔‘‘

وہ بتاتے ہیں کہ ان کے رضاکار، ۱۹۹۵ میں ٹی ایم ایم کے کے قیام کے وقت سے ہی انسانی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ ’’وہ تسلسل کی بنیاد پر خون عطیہ کرتے ہیں اور ضرورت مند لوگوں کو مفت میں ایمبولینس سروِس مہیا کرتے ہیں۔ وہ سونامی اور چنئی کے سیلاب جیسے قدرتی آفات کے وقت بھی سرگرم تھے۔‘‘

جواہراللہ جو کہ سیاسی پارٹی، منی تھانیا مکّل کاچی کے بھی صدر ہیں، کہتے ہیں: ’’ہم یہ کام تمل عوام کے طور پر کرتے ہیں؛ ہمارا ماننا ہے کہ ہمیں پریشانی میں دوسروں کی مدد کرنی چاہیے۔ تمل ناڈو کے عوام نے اکثر ہماری کوششوں کی تعریف کی ہے۔‘‘ گہری خاموشی کے بعد، وہ مزید کہتے ہیں: ’’ظاہر ہے، جب آپ اقلیت میں ہوں، تو اس کام کو کرنا ایک اضافی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ لیکن ہمارا مقصد ضرورت مند لوگوں کی خدمت کرنا ہے۔‘‘

کویتا مُرلی دھرن ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن سے ملنے والی آزادانہ صحافت کی گرانٹ کے ذریعے عوامی صحت اور شہری آزادی پر رپورٹ کرتی ہیں۔ اس رپورتاژ کے متن پر ٹھاکر فیملی فاؤنڈیشن کا کوئی ایڈیٹوریل کنٹرول نہیں ہے۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Kavitha Muralidharan

கவிதா முரளிதரன் சென்னையில் வாழும் சுதந்திர ஊடகவியலாளர் மற்றும் மொழிபெயர்ப்பாளர். இந்தியா டுடே (தமிழ்) இதழின் ஆசிரியராகவும் அதற்கு முன்பு இந்து தமிழ் நாளிதழின் செய்திபிரிவு தலைவராகவும் இருந்திருக்கிறார். அவர் பாரியின் தன்னார்வலர்.

Other stories by Kavitha Muralidharan
Translator : Qamar Siddique

கமார் சித்திக்கி, பாரியில் உருது மொழிபெயர்ப்பு ஆசிரியராக இருக்கிறார். அவர் தில்லியை சார்ந்த பத்திரிகையாளர் ஆவார்.

Other stories by Qamar Siddique