تپن مونڈل کو ان کے شناسا ’انّا‘ کہہ کر بھی بلاتے ہیں، کیوں کہ کئی لوگوں کے مطابق ان کی شکل و صورت فلم اسٹار رجنی کانت سے ملتی ہے۔ رجنی کانت ایک ’بڑے بھائی‘ کے طور پر اپنے شائقین کے درمیان اسی نام سے مشہور ہیں۔ لیکن وڈودرا میں مونڈل دیوی دیوتاؤں کی خاص انداز کی مورتیوں کی وجہ سے زیادہ جانے جاتے ہیں جن کی اونچائی ۵ سے ۹ فٹ تک ہوتی ہے، اور جو چکنی مٹی سے بنائی جاتی ہے۔ وہ شہر میں شاید اکیلے مورتی ساز ہیں، جو مورتیوں کو بنانے کے لیے پلاسٹر آف پیرس کی بجائے چکنی مٹی کا استعمال کرتے ہیں۔

گن پتی اور دوسرے دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں بناتے وقت وہ اس فن میں مغربی بنگال کی تکنیکوں کا خوبصورتی سے امتزاج کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’چکنی مٹی سے بنی مورتیاں درحقیقت کمارتُلی کی مخصوص پہچان ہیں۔ دو ہزار کلومیٹر دور بنگال سے یہاں اس فن کی تکنیک کو میں لے کر آیا۔‘‘

شری رام کرشن پرتیمالیہ نام کا تپن کا مورتی خانہ وڈودرا کے وسطی علاقے پنچ وٹی میں ہے، اور اس شہر میں چل رہے ۳۰ مورتی خانوں میں سے ایک ہے۔ ایسبیسٹس کی ڈھلان والی چھت کے نیچے چل رہے اس مورتی خانہ کے گلیارے میں جگہ جگہ پر سانچے، رنگ، اوزار اور چکنی مٹی کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ جب کوئی تہوار آتا ہے اور مورتیوں کی مانگ اپنے عروج پر ہوتی ہے، تو سڑک کی دوسری طرف بانس پر پلاسٹک تان کر مورتی خانہ کو عارضی طور پر بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس شامیانہ کا استعمال گن پتی کی اونچی مورتیاں بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔

مورتی خانہ میں سال بھر کام چلتا رہتا ہے۔ تہواروں اور مانگوں کے مطابق یہاں گن پتی، وشو کرما، سرسوتی، اور دوسرے دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں بنتی رہتی ہیں۔ تپن اور ان کے معاون مورتی ساز آرڈر اور پیشگی کی بنیاد پر ہر سال ۵ سے ۹ فٹ کی تقریباً دس مورتیاں بناتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان مورتیوں کی قیمت ۲۰ ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، وہ تین فٹ کی تقریباً ۳۰-۲۰ اور اس سے بھی چھوٹے سائز کی ۵۰-۴۰ مزید مورتیاں بناتے ہیں۔ چھوٹی مورتیوں کی قیمت ۲۰۰۰ سے ۱۰ ہزار روپے کے درمیان ہوتی ہے۔

'The clay idols are imprints of Kumartuli, which I have brought here from Bengal', says Tapan Mondal
PHOTO • Aditya Tripathi

تپن مونڈل کہتے ہیں، ’چکنی مٹی سے بنی مورتیاں درحقیقت کمارتُلی کی خاص پہچان ہیں، جنہیں بنگال سے یہاں لے کر آنے والا میں ہوں‘

تپن جو اب ۴۶ سال کے ہو چکے ہیں، نے مورتی بنانے کا یہ ہنر اپنے والد ادھیر مونڈل سے سیکھا تھا۔ تب وہ بچے ہی تھے۔ ان دنوں ان کی فیملی مغربی بنگال کی اُلوبیریا تحصیل کے گوری پور گاؤں میں رہتی تھی، جو کولکاتا میں کمہاروں کی پرانی بستی کمار تُلی سے تقریباً ۴۲ کلومیٹر دور ہے۔ تپن پرانی باتوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’۱۹۸۴ میں ہمارے ایک پرانے شناسا، مورتی بنانے والے کارخانہ میں ہیلپر کے طور پر کام کرنے کے ارادے سے میرے والد کو اور مجھے یہاں لے کر آئے تھے۔ اس کے بعد ہم ہر سال ایک مہینہ کے لیے یہاں آنے لگے۔‘‘ کام ختم ہو جانے کے بعد وہ مغربی بنگال لوٹ جاتے تھے، اور اگلے سال درگا پوجا میں مورتیوں کا آرڈر ملنے سے پہلے دوبارہ وڈودرا پہنچ جاتے تھے۔

سال ۱۹۹۲ میں اپنے والد کے لوٹ جانے کے بعد بھی تپن یہیں رک گئے اور کچھ مہینوں کے لیے ایک تعمیراتی مقام پر کام کرنے لگے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’مجھے زیادہ وزن اٹھانے والا کام بہت پسند نہیں تھا، لیکن درگا پوجا کے دنوں کو چھوڑ کر میں پیٹ پالنے کے لیے اور کیا کرتا؟ ایک دن ایک گجراتی صاحب نے مجھے سائٹ پر مزدوروں کے لیے بنے کوارٹر میں دیوی دیوتاؤں کی تصویریں بناتے ہوئے دیکھ لیا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں گنیش کی تصویر بنا سکتا ہوں؟‘‘ پھر وہ تپن کو سینٹرل وڈودرا میں واقع مانڈوی کے ایک مورتی ساز کے پاس لے گئے۔ مورتی ساز نے کم عمر کے تپن کو اپنے کارخانہ میں کام کرنے کے لیے رکھ لیا، جہاں پہلے سے ۱۲-۱۰ دوسرے کاریگر کام کر رہے تھے۔ ’’اس وقت مجھے تعمیراتی مقام پر کام کرنے کے عوض ۲۵ روپے ملتے تھے، اس لیے میں نے روز کے ۳۵ روپے مانگے اور وہ مان گئے۔ مجھے اور کیا چاہیے تھا؟ مورتی بنانے کا میرا شوق بھی پورا ہونے جا رہا تھا اور آمدنی الگ ہونے والی تھی۔‘‘

The process of Ganapati making
PHOTO • Aditya Tripathi

منورنجن کرمکار (سب سے اوپر بائیں) کا خود کا کل گچھیا گاؤں میں ایک مورتی خانہ ہے، جب کہ ارون روئیداس ایک دہاڑی مزدور ہیں اور کملا چک میں شادیوں میں بجائے جانے والے بینڈ میں گانے بجانے کا بھی کام کرتے ہیں۔ دونوں ہی مٹی کی مورتیاں بنانے کی خاص کاریگری میں مونڈل کی مدد کرنے کے لیے گن پتی اُتسو سے کچھ مہینے پہلے وڈودرا پہنچ جاتے ہیں

مورتی ساز گووند اجمیری نے تپن سے پوچھا کہ کیا وہ دیوی کالی کی مورتی بنا سکتے ہیں۔ تپن نے انہیں ایک مورتی بنا کر دی، حالانکہ وہ پلاسٹر آف پیرس (پی او پی) کی تھی۔ بہرحال، ان کے ہنر سے متاثر ہو کر اجمیری نے انہیں ٹھیکہ کی بنیاد پر خاص آرڈروں کے لیے اپنے ساتھ رکھ لیا۔ اس کا سیدھا مطلب تھا کہ ان کی آمدنی میں اچھا اضافہ ہونے والا تھا۔ تپن بتاتے ہیں، ’’میں ان کے یہاں ۱۹۹۶ تک رہا۔ اس درمیان میری پہچان کئی یووک منڈلوں [نوجوانوں کی تنظیم] سے ہو گئی تھی جو مشترکہ طور پر گن پتی اتسو منعقد کیا کرتے تھے۔ ان میں سے ایک منڈل کے لوگ ان کے پاس ایک تجویز لے کر آئے۔ انہوں نے میرے لیے مٹی، گھاس، بانس، اور رنگوں کا انتظام کر دیا۔ میں نے ان کے ذریعے مانڈوی کے ڈانڈیا بازار میں دی گئی جگہ پر ان کے لیے ایک مورتی بنا دی۔ سال ۱۹۹۶ میں پووا والی گلی نام کی جگہ کے ایک منڈل کے لیے وڈودرا کی سب سے اونچی – آٹھ فٹ کی – مورتی میرے ہی ہاتھوں سے بنائی گئی، اور مجھے محنتانہ کے طور پر ۱۰۰۰ روپے ملے۔‘‘

سال ۲۰۰۰ تک کام اور آمدنی کے لیے تپن کی جدوجہد جاری رہی۔ تپن بتاتے ہیں، ’’جیسے ہی یہ بات پھیلی کہ میں چکنی مٹی سے مورتیاں بناتا ہوں، کچھ جگہ مورتی سازوں نے یہ افواہ اڑا دی کہ چکنی مٹی سے بنی اونچی مورتیاں کمزور ہوتی ہیں اور آسانی سے ٹوٹ جاتی ہیں۔‘‘ لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی بتانا نہیں بھولتے کہ ناریل کی رسی سے بندھے خشک پوال کے اندرونی ڈھانچہ کی وجہ سے بنگال کی مورتیاں لچکدار ہوتی ہیں۔ پوال کے ڈھانچہ پر مٹی کی کاریگری سے بنی مورتیوں میں دراڑ پڑنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’بنگال میں درگا پوجا کی مورتیاں ہم اسی طرح بناتے ہیں، اور اس لحاظ سے میں کچھ نیا کرنے نہیں جا رہا تھا۔‘‘

material of painting
PHOTO • Aditya Tripathi

تپن مونڈل کی مورتی سازی میں بنگال کے ہنر اور مغربی ہندوستان کے رنگ اور دیگر خوبیوں کا خوبصورت امتزاج ہے

سال ۲۰۰۲ میں تپن نے دھیرے دھیرے ہیلپرز کی ایک ٹیم بنائی اور سب نے مل کر ایک یووک منڈل کے لیے ۹ فٹ اونچی مٹی کی ایک مورتی بنائی۔ ساتھ ہی انہوں نے چھوٹے خریداروں کے لیے بہت سی چھوٹی مورتیاں بھی بنائیں۔ دھیرے دھیرے ان صارفین کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ ویسے بھی پی او پی کی بنی مورتیوں کے وسرجن (غرقاب) سے پھیلنے والی آلودگی کے سبب لوگوں کی تشویشیں بڑھنے لگی تھیں۔ تپن بتاتے ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی مورتی ساز صرف کولکاتا کی گنگا کے کنارے سے منگائی گئی مٹی کا ہی استعمال کرتے ہیں۔ ’’ہر سال ٹھیک دیوالی کے بعد میں خود ہوڑہ جاتا ہوں اور ٹرکوں پر مٹی لاد کر یہاں لاتا ہوں۔ کبھی کبھی جب مٹی کم پڑ جاتی ہے، تب ہم گجرات میں بھاؤ نگر سے مٹی منگاتے ہیں۔ لیکن گنگا کی مٹی کے ذرات سب سے باریک ہوتے ہیں اور ان سے مورتیوں میں ایک انوکھا چکناپن آ جاتا ہے۔ گنگا کی مٹی کو مقدس بھی مانا جاتا ہے۔‘‘

تپن کی کاریگری میں اب بنگالی مورتی سازی کے ساتھ ساتھ مغربی ہندوستان کی مورتی سازی کی باریکیوں کا امتزاج دکھائی دیتا ہے۔ بنگالی اثرات کے برعکس گن پتی کی مورتیوں کی آنکھیں چھوٹی رکھی جاتی ہیں۔ جن رنگوں کا وہ استعمال کرتے ہیں وہ بھی ایکریلک اور واٹر کلر ہوتے ہیں، جب کہ مغربی بنگال کے کئی مورتی ساز اپنی مورتیوں کے لیے قدرتی رنگوں کا استعمال کرتے ہیں۔ تپن کے مورتی خانہ میں جو مورتیاں بنتی ہیں، انہیں عموماً مراٹھا پیشواؤں کے دور کی یاد تازہ کرنے والے زیورات سے آراستہ کیا جاتا ہے۔

An artist decorating an idol
PHOTO • Aditya Tripathi
An artist decorating an idol
PHOTO • Aditya Tripathi

مونڈل کے مورتی خانہ کا ایک کاریگر، ستیش پرمار ایک مورتی کو سجاتے ہوئے۔ بنگالی مورتی ساز زیورات کو اس طرح بناتے ہیں کہ انہیں دیکھتے ہی فوراً مراٹھا پیشواؤں کا دور یاد آ جاتا ہے

تپن کے ۳۸ سالہ بھائی سوپن جو اپنے والد اور بھائی کے مقابلے بہت دیر سے ۲۰۰۲ میں وڈودرا آئے، مورتی خانہ کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہیں۔ سوپن کہتے ہیں، ’’میں نے آٹھویں کلاس کے بعد سے ہی اسکول جانا چھوڑ دیا تھا، کیوں کہ میری دلچسپی اسی کام میں (مورتی بنانے میں) تھی۔ ہنر کی مشق کرنے کے لیے کسی کو بھی ڈگری کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔‘‘ تہواروں کے وقت ان کی تحصیل الوبیریا سے آئے تقریباً ۱۵ کاریگر مونڈل بھائیوں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ وہ سبھی ہر مہینے تقریباً ۹۰۰۰ روپے کما لیتے ہیں، اور ساتھ ہی گن پتی اتسو کے دو مہینے پہلے سے انہیں کھانا بھی ملتا ہے۔ گن پتی پوجا ختم ہونے کے بعد وہ اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور زرعی مزدور، گھروں میں رنگ روغن کرنے والے پینٹر، پٹہ دار کسان وغیرہ کے طور پر دوسرے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

ان کاریگروں میں سے کچھ نے مورتی سازی کی باریکیاں تپن سے سیکھی ہیں، اور کچھ ایسے بھی مورتی ساز ہیں جنہوں نے اپنا خود کا ہنر ایجاد کیا ہے۔ ایسے مورتی سازوں میں سے ایک منورنجن کرمکار بھی ہیں، جو تقریباً ۶۰ سال کے آس پاس کی عمر کے ہیں۔ ان کا اور ان کے تقریباً ۴۰ سال کے بھتیجے شیامل کرمکار کا اپنے گاؤں کل گچھیا میں اپنا خود کا مورتی خانہ ہے۔ جب میں ان دونوں سے ملا، تب وہ ۱۳ ستمبر کو ختم ہو چکے گنیش چترتھی کے دوسرے دن اپنے گاؤں لوٹنے کی تیاری کر رہے تھے۔ منورنجن بتاتے ہیں، ’’ہم یہاں گنیش اتسو سے پہلے صرف دو مہینے کے لیے آتے ہیں، اور اس کے بعد کا پورا وقت بنگال میں گزارتے ہیں۔ اس طریقہ سے ہماری آمدنی بھی بہتر ہو جاتی ہے۔ اس زمانے میں صرف فصلوں پر منحصر رہنے کا خطرہ بھلا کون مول لے؟‘‘

Swapan Mondal, Tapan's brother, who coordinates the workshop, says, 'To practice art, no one needs a degree'
PHOTO • Aditya Tripathi
sculpture of rat
PHOTO • Aditya Tripathi

سوپن مونڈل جو تپن کے بھائی ہیں اور ان کے مورتی خانہ کی دیکھ بھال کی بھی ذمہ داری سنبھالتے ہیں، کہتے ہیں، ’ہنر کی مشق کرنے کے لیے کسی کو بھی ڈگری کی ضرورت نہیں پڑتی ہے‘

کملا چک گاؤں سے آئے تقریباً ۳۵ سال کے گنیش داس جو اپنی پوری توجہ چکنی مٹی کے پھول پتی اور مورتیوں کی سجاوٹ پر لگاتے ہیں، کہتے ہیں، ’’میں اپنے گھر پر رہ کر کشیدہ کاری کا کام کرتا تھا۔ جب میں نے اس ہنر کے بارے میں سنا، تب ۲۰۱۵ میں یہاں چلا آیا۔ میں نے یہ کام تپن دادا سے سیکھا ہے۔‘‘

مونڈل کے مورتی خانہ میں کملا چک سے ہی آئے ایسے کئی مورتی ساز ہیں جن کا تعلق روئیداس برادری سے ہے، جو درج فہرست ذات کے زمرہ میں آتے ہیں۔ تقریباً ۵۰ کے آس پاس کی عمر کے روی داس روئیداس اپنے گاؤں میں کام مل جانے کی حالت میں یومیہ مزدوری کرتے ہیں۔ انہیں پانچ رکنی فیملی کا خرچ اٹھانا پڑتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں، ’’میں یہاں زیادہ کماتا ہوں۔‘‘ ارون روئیداس (۴۰ سال) بھی اپنے گاؤں میں یومیہ مزدوری کرتے ہیں یا پھر کام کی تلاش میں دہلی چلے جاتے ہیں۔ وہ شادی بیاہ کے موسم میں بینڈ کے ساتھ کی بورڈ بجانے کا بھی کام کرتے ہیں؛ حالانکہ وہ کہتے ہیں، ’’ہمارا روایتی کام مقدس موقعوں پر ڈھول بجانا ہے، لیکن یہ کوئی ایسا کام نہیں جس سے ہم ہمیشہ اپنا پیٹ بھر سکیں۔ ہمارے چھوٹے سے گاؤں میں آخر شادیاں ہوتی ہی کتنی ہیں؟ اور، دوسرے گاؤوں کے بینڈ والے کسی باہری آدمی کو کام دینے سے رہے۔‘‘

praparing pandal and making ganpati idol
PHOTO • Aditya Tripathi

ارون روئیداس (سب سے اوپر بائیں) ایک تیار مورتی کو اٹھائے ہوئے، اور روی رام روئیداس (سب سے اوپر دائیں) کام کے درمیان میں آرام کرتے ہوئے۔ سب سے نچلی قطار میں: اجیت روئیداس (بائیں) اور نبو روئیداس (دائیں) گن پتی اتسو کے موقع پر الگ سے بنائے گئے مچان کو کھولتے ہوئے

نبو روئیداس تمام بڑی مورتیوں کے فروخت ہو جانے کے بعد سڑک کے پار بنائے گئے شامیانہ سے بانسوں کو کھولتے ہیں، چھوٹی مورتیوں کو وہاں سے ہٹاتے ہیں، کاریگروں کے درمیان بچ گئے رنگوں کا بٹوارہ کرتے اور مٹی کو گوندھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہم روئیداس برادری کے سبھی لوگ کئی قسم کے آلات موسیقی کو بجانا جانتے ہیں۔ میں بھی بانسری بجا لیتا ہوں۔ لیکن بانسری بجانا جاننے کے بعد بھی میں بانس پر ہی لٹکا ہوا ہوں۔‘‘

مونڈل بھائیوں کی بات کریں، تو ان کے برے دن اب ختم ہو چکے ہیں۔ ان کی فیملی اپنا گزارہ بہتر طریقے سے کر لے رہی ہے۔ تپن اپنی بیوی مامونی اور تین بیٹیوں کے ساتھ اب مستقل طور پر وڈودرا میں ہی رہتے ہیں۔ سوپن اور ان کی فیملی بھی اب ان کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ تپن کی سب سے بڑی بیٹی تنیما تقریباً ۱۷ سال کی ہے اور ۱۲ویں جماعت میں پڑھتی ہے۔ وہ بڑی ہو کر ایک سرجن بننا چاہتی ہے۔ انیما کلاس ۶ میں پڑھتی ہے؛ اور سب سے چھوٹی بیٹی کنڈر گارٹن میں ہے۔ تپن کو امید ہے کہ بیٹیاں ان کے ہنر کی روایت کو آگے بڑھائیں گی۔ وہ اپنے مورتی خانہ کے سامنے کھڑے ہو کر کہتے ہیں، ’’یہ ایک مشکل ہنر ہے، لیکن کسی کو تو اسے زندہ رکھنا ہوگا۔‘‘

مجموعی طور پر، جیسا کہ ۲۰۱۵ سے ہی ان کے یہاں سے مورتیاں خریدنے والے ایک یوا منڈل کے رکن چنتن گاندھی ہم سے کہتے ہیں، ’’اب انّا کی بنائی ہوئی مورتیاں برانڈ بن گئی ہیں۔‘‘

People welcoming ganpati
PHOTO • Aditya Tripathi

فوٹوگرافر آدتیہ ترپاٹھی، گجرات کے وڈودرا میں ہی رہتے ہیں۔ گیٹی امیجز اور شٹر اسٹاک کو اپنا تعاون دینے کے ساتھ ہی وہ گوگل میپس کے لیے بطور مقامی گائیڈ فوٹوگرافر بھی کام کرتے ہیں۔ وہ بڑودہ کی مہاراجہ سایاجی راؤ یونیورسٹی سے فزکس میں بی ایس سی کر رہے ہیں۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Ujjawal Krishnam

உஜ்வால் கிருஷ்ணம் 2018 ஆம் ஆண்டில் பரோடாவின் மகாராஜா சாயாஜிராவ் பல்கலைக்கழகத்தின் இயற்பியல் துறையில் ஆராய்ச்சியாளராக இருந்தார். Academia.edu மற்றும் விக்கி பிராஜக்டுகளில் ஆசிரியராக இருந்த இவர், Getty Images மற்றும் இந்திய அரசியல், நீதித்துறை குறித்து எழுதியுள்ளார்.

Other stories by Ujjawal Krishnam
Editor : Sharmila Joshi

ஷர்மிளா ஜோஷி, PARI-ன் முன்னாள் நிர்வாக ஆசிரியர் மற்றும் எழுத்தாளர். அவ்வப்போது கற்பிக்கும் பணியும் செய்கிறார்.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Qamar Siddique

கமார் சித்திக்கி, பாரியில் உருது மொழிபெயர்ப்பு ஆசிரியராக இருக்கிறார். அவர் தில்லியை சார்ந்த பத்திரிகையாளர் ஆவார்.

Other stories by Qamar Siddique