تقریباً ۴۰ سال کے ایک زرعی مزدور، بنڈو سونولے، ۱۹ ستمبر، ۲۰۱۷ کو آمڈی گاؤں میں اپنے زمین مالک کے کپاس کے کھیت پر بیہوش ہو کر گر پڑے۔ شدید گرمی میں وہ گزشتہ کئی دنوں سے، مختلف کھیتوں پر دن بھر حشرہ کش دواؤں کا چھڑکاؤ کرتے رہے تھے۔ کھیت پر کچھ دیر آرام کرنے کے بعد وہ تقریباً تین کلومیٹر دور، یوت مال ضلع میں اپنے گاؤں، منولی کے اپنے گھر میں واپس آ گئے – کھیت کے مالک نے بنڈو کو ایک موٹر سائیکل سے وہاں تک پہنچایا۔
دو دن بعد، جب بندو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوئی، تو ان کی بیوی گیتا، یوت مال شہر سے ۴۵ کلومیٹر دور واقع تحصیل ٹاؤن، گھٹانجی کے سب ڈسٹرکٹ اسپتال ایک مقامی آٹو رکشہ سے لے کر گئیں۔ انھیں پیٹ درد، چکر، تھکان کی شکایت تھی۔ اُس رات ان کے جسم میں اینٹھن ہونے لگی۔ انھوں نے جب یہ شکایت کی کہ انھیں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے، تو ایک ایمبولینس کے ذریعہ انھیں یوت مال کے وسنت راؤ نائک گورنمنٹ میڈیکل کالج اور اسپتال (جی ایم سی ایچ) منتقل کر دیا گیا، ان کی حالت ہر گھنٹے خراب ہوتی جا رہی تھی۔
بنڈو – جو ایک ہفتہ پہلے تک چوبیسوں گھنٹے کام کر رہے تھے اور صحت مند تھے – ۲۳ ستمبر کو یوت مال اسپتال کی انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) میں کوما میں چلے گئے۔ اگلی صبح کو ان کی موت ہو گئی۔
بنڈو چھڑکاؤ کے ماہر تھے اور ہر کسی کو ان کی تلاش رہتی تھی، ان کی کمزور بیوی کہتی ہیں۔ وہ اپنی چھوٹی سی جھونپڑی (کور فوٹو دیکھیں) میں اپنے دو بچوں، سوربھ (۱۷) اور پوجا (۱۴) کے ساتھ بیٹھی ہوئی، پچھلے دنوں کو یاد کرکے بتاتی ہیں، ’’دو مہینوں سے انھوں سے ایک دن بھی آرام نہیں کیا تھا؛ وہ لگاتار کام کر رہے تھے۔‘‘ بنڈو بیٹری سے چلنے والے جس چھڑکاؤ پمپ کو چلایا کرتے تھے، وہ ان کے سامنے والے دالان میں چھپر کے نیچے ایک کونے میں پڑا ہوا ہے۔
اکتوبر ۲۰۱۷ میں جب میں نے ان کا گھر کا دورہ کیا تھا، تو گیتا اس وقت بھی صدمے میں تھیں۔ انھیں یہ نہیں معلوم تھا کہ بنڈو نے کیا چھڑکا اور کس چیز سے ان کی موت ہوئی۔ وہ بتاتی ہیں کہ سال ۲۰۱۷ میں جب کسانوں کے کھیتوں پر کیڑے مکوڑوں کا حملہ بڑھ گیا، تو انھوں نے تیزی سے چھڑکاؤ کروانا شروع کر دیا، لہٰذا ان کے شوہر اس موقع کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ تھوڑا زیادہ پیسہ کمانے کی کوشش نے بنڈو کی جان لے لی۔
بنڈو کے دوست اور پڑوسی، نارائن کوٹ رنگے، جو خود ایک بے زمین کسان ہیں اور منولی میں ایک دوسرے کسان سے پٹہ پر لی گئی ۱۰ ایکڑ زمین پر کھیتی کرتے ہیں، کہتے ہیں، ’’اگر بنڈو کو وقت پر طبی مدد مل گئی ہوتی، تو ان کی جان بچائی جا سکتی تھی۔‘‘ لیکن بنڈو کی فیملی نے ڈاکٹر کو دکھانے سے پہلے تھوڑا انتظار کیا، اور پھر سرکاری اسپتال میں علاج میں ہونے والی دیری کی وجہ سے بنڈو اور دیگر متعدد لوگوں کو اپنی جان گنوانی پڑ رہی ہے۔ وہ تمام مزدور یا کسان، جنہوں نے تیزی سے کیے جا رہے حشرہ کش دواؤں کے چھڑکاؤ کے دوران زہریلے کیمیکل سونگھ لیے تھے، ان میں سے جو فوراً اسپتال پہنچ گئے اور ان کا صحیح علاج ہو گیا، ان کی جان بچ گئی۔
کوئی مانیٹرنگ میکانزم نہیں، اسپتالوں میں آلات کی کمی
کچھ اور جانیں بچ جاتیں، اگر یوت مال کے جی ایم سی ایچ میں ضروری کولین اسٹریز کی جانچ کرانے کا انتظام ہوتا، جس سے کسانوں کے خون میں آرگینو فاسفیٹ کے اجزاء کی موجودگی کا پتہ چل جاتا، جس کی وجہ سے بنڈو جیسے کسان جولائی سے نومبر ۲۰۱۷ تک کی چھڑکاؤ کی مدت کے دوران بیمار پڑ گئے تھے۔ جی ایم سی ایچ کے آئی سی یو میں موجود ایک ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ اس زہر کی جانچ اور اس کے اینٹی ڈاٹ کے بغیر، ڈاکٹرس صرف علامت کی بنیاد پر کئی ہفتوں تک ان کسانوں کا علاج کرتے رہے۔ اور خون کی ضروری جانچ بالکل بھی نہیں کی گئی۔
اسپیشل انویسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) کی رپورٹ میں ان کمیوں کی تصدیق کی گئی ہے۔ ایس آئی ٹی کی تشکیل ریاستی حکومت کے ذریعہ کی گئی تھی، تاکہ یوت مال اور وِدربھ کے دیگر علاقوں میں حشرہ کش دواؤں سے ہونے والی اموات اور بیماریوں کی جانچ کی جا سکے۔ اس ٹیم کی تشکیل ۱۰ اکتوبر، ۲۰۱۷ کو کی گئی، اور امراوتی کے ڈویژنل کمشنر، پیوش سنگھ کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ ایس آئی ٹی کے دیگر چھ ممبران میں شامل تھے ڈاکٹر وجے واگھمارے، جو ناگپور کے سنٹرل انسٹی ٹیوٹ آف کاٹن ریسرچ کے انچارج ڈائرکٹر ہیں، اور ڈائریکٹوریٹ آف پلانٹ پروٹیکشن، فرید آباد کی کرن دیشکر۔
ایس آئی ٹی نے دسمبر ۲۰۱۷ میں، مراٹھی زبان میں جو رپورٹ جمع کی تھی، اسے حکومت کے ذریعہ جنوری ۲۰۱۸ میں تب عام کیا گیا، جب بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ نے سماجی کارکن اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکس وادی) کے سابق کارکن، جمو آنند کے ذریعہ دائر پی آئی ایل (مفادِ عامہ کی عرضی) پر سماعت کے بعد کرنے کا حکم دیا تھا۔
مرکزی وزارتِ زراعت نے، ۶ مارچ کو لوک سبھا کو بتایا کہ گزشتہ چار سالوں کے دوران حشرہ کش دواؤں کے زہر کی وجہ سے مہاراشٹر میں ۲۷۲ لوگوں کی موت ہوئی ہے – جو یہ ثابت کرنے کی کوشش تھی کہ ۲۰۱۷ کا واقعہ کوئی غیر معمولی چیز نہیں ہے۔ لیکن جی ایم سی ایچ کے اعداد و شمار اور ان ڈاکٹروں کے بیان کے مطابق، جنہوں نے ۲۰۱۷ کے چھڑکاؤ کے موسم کے دوران مریضوں کا علاج کیا تھا، کیڑے مار دواؤں کے زہر سے یوت مال میں اتنے بڑے پیمانے پر لوگ کبھی بیمار نہیں پڑے – جب بڑی تعداد میں کسان اسپتال میں داخل ہوئے اور شکایت کی کہ انھیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہے، اُلٹی، چکر، بے چینی، عارضی لقوہ، گھبراہٹ اور دیگر پریشانیاں ہیں۔ کم از کم ۵۰ لوگوں کی موت ہوئی، ۱۰۰۰ سے زیادہ بیمار ہو گئے، جن میں سے کچھ مہینوں تک بیمار رہے۔ (دیکھیں خطرناک پیسٹ اور مہلک چھڑکاؤ اور یوتمال میں ڈر اور خوف )
ایس آئی ٹی کی تشکیل کرکے، ریاستی حکومت نے دراصل یہ اشارہ دے دیا تھا کہ یہ معاملہ کتنا سنگین اور خطرناک ہے۔
ایس آئی ٹی نے مشاہدہ کیا کہ ضلع انتظامیہ نے اتنی بڑی تعداد میں ہونے والے حادثات اور تباہی کے بارے میں ریاستی حکومت کو نہیں بتایا۔ انتظامیہ کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ انسیکٹی سائڈس ایکٹ، ۱۸۶۸ کے تحت ایک مستقل بین محکمہ جاتی کمیٹی کی تشکیل کرے، اور ریاست اس کمیٹی کی تشکیل کو یقینی بنائے۔ اس کے بعد کمیٹی کو ایک مانیٹرنگ ٹیم بنانی پڑتی ہے اس بات کا پتہ لگاتے رہنے کے لیے کہ آیا کسان، حشرہ کش دوائیں بیچنے والے اور اسے بنانے والے قانون کے التزامات پر عمل کر رہے ہیں؛ ِاس بات کو یقینی بنانا کہ ضلع میں فروخت کی جانے والی حشرہ کش دواؤں کے اینٹی ڈاٹس دستیاب ہیں؛ اور اگر کوئی بحران پیدا ہوتا ہے تو فوری قدم اٹھانے میں مدد کرنا۔ لیکن یوت مال میں ایسی کوئی کمیٹی موجود نہیں تھی، نہ ہی مانیٹرنگ کا کوئی میکانزم تھا۔
ایس آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ یوت مال کے جی ایم سی ایچ کو کولین اسٹریز ٹیسٹ کرنے کے لیے آلات سے لیس کیا جائے اور آرگینو فاسفیٹ زہر سے نمٹنے کے لیے اس کے پاس دواؤں کا ذخیرہ ہونا چاہیے۔ وِدربھ میں کپاس، سویابین اور دیگر فصلوں پر پیسٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے اِن مرکبات والے کیمیکلس کے بے تحاشہ استعمال کے مدنظر یہ نہایت ضروری ہے۔
امراوتی کا جی ایم سی ایچ، جو کہ مغربی وِدربھ کا ڈویژنل ہیڈکوارٹر ہے، نے ۲۰۱۷ میں اس بحران کو بہتر طریقے سے کنٹرول کیا، کیوں کہ یہ کولین اسٹریز اس ٹیسٹ انجام دے سکتا ہے۔ کولین اسٹریز ایک خامرہ (اینزائم) ہے جو ایسیٹل کولائن (ایک نیورو ٹرانسمیٹر) کو ٹھیک طریقے سے کام کرنے کے لائق بناتا ہے۔ آرگینو فاسفیٹ زہر کولین اسٹریز کو روکتا ہے، جس کی وجہ سے بنیادی اعضا، یہاں تک کہ اعصابی نظام بھی کمزور ہونے لگتے ہیں، اور بالآخر انسان کی موت ہو جاتی ہے۔ امراوتی اسپتال میں اس قسم کے زہر کے لیے اینٹی ڈاٹس کا ذخیرہ بھی موجود ہے، یہ بات ایس آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہی ہے۔
ایس آئی ٹی نے سفارش کی ہے کہ حکومت یوت مال کے دو تحصیل ہیڈکوارٹرس، وانی اور پوسد کے سب ڈسٹرکٹ اسپتالوں میں آئی سی یو کی تعمیر ضرور کرائے، ساتھ ہی یوت مال جی ایم سی ایچ میں ۳۰ بستروں والا آئی سی یو، اور اکولہ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اسپتال میں ۲۰ بستروں والا آئی سی یو بنائے، تاکہ حشرہ کش دواؤں کے زہر کے اسباب سے نمٹا جا سکے، جیسا کہ امراوتی اسپتال نے کیا تھا۔
اس نے یوت مال کے جی ایم سی ایچ میں جدید ترین ٹاکسی کولوجی لیب شروع کرنے کی سفارش کی ہے، کیوں کہ اس ضلع میں حشرہ کش دواؤں کے زہر سے بیمار پڑنے والے لوگوں کی ایک لمبی تاریخ رہی ہے۔ سال ۲۰۱۷ کی تباہی کے دوران، محکمہ صحت کے حکام نے ٹاکسی کولوجی کی فوری جانچ کے لیے خون کے نمونے نہیں بھیجے تھے، جو کہ زہر کا اثر ہونے کے بعد کا ایک ضروری قدم ہے۔
مونو کروٹو فوس پر پابندی لگائیں، اینٹی ڈاٹس تیار رکھیں
ایس آئی ٹی نے مونوکروٹوفوس پر مکمل پابندی لگانے کی بھی سفارش کی ہے، یہ ایک ایسا آرگینو فاسفیٹ ہوتا ہے جو فصلوں پر سلسلہ وار اور کانٹیکٹ ایکشن کو لاگو کرتا ہے، انسانوں اور پرندوں پر اس کے زہریلے اثرات کی وجہ سے بہت سے ممالک میں اس پر پابندی ہے۔
مہاراشٹر حکومت نے نومبر میں محدود مدت کے لیے یہ پابندی لگائی، جب اس نے اس کی فروخت اور مارکیٹنگ پر ۶۰ دنوں کے لیے روک لگا دی، لیکن مکمل پابندی نہیں لگائی۔ انسیکٹی سائڈس ایکٹ کے تحت مرکزی حکومت کو پورے ملک میں مونوکروٹوفوس پر پابندی لگانے کا اختیار ہے۔
ریاستیں بھی پیسٹی سائڈ مینوفیکچررس اور سیلرس کے لائیسنس رد کر سکتی ہیں، یا نئے لائیسنس جاری کرنا یا انھیں رنیو کرنا روک سکتی ہیں۔ پنجاب نے ایسا کیا ہے – جنوری ۲۰۱۸ کے اخیر میں اس نے ۲۰ پیسٹی سائڈس کے لیے نئے لائیسنس جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا، جس میں مونوکروٹوفوس بھی شامل ہے، جسے اقوام متحدہ کی غذائی اور زرعی تنظیم نے ’’نہایت مہلک‘‘ قرار دیا ہے۔ کیرالہ نے مونوکروٹوفوس پر حال ہی میں پابندی لگائی ہے۔ اور سکم، جو ایک مکمل آرگینک ریاست ہے، کسی بھی کیمیکل پیسٹی سائڈ کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا ہے۔
ایس آئی ٹی نے یہ بھی سفارش کی ہے کہ حکومت کو حشرہ کش دواؤں کے استعمال کی اجازت اس وقت تک نہیں دینی چاہیے، جب تک کہ زہر پھیلنے کی حالت میں اس کے اینٹی ڈاٹ بھی دستیاب نہ ہوں۔ ایس آئی ٹی رپورٹ بتاتی ہے کہ پودوں کو جلدی بڑا کرنے والے مادوں کے استعمال میں تیزی آئی ہے، لہٰذا حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ اس قسم کے کیمیکل کو استعمال کرنے کی اجازت دینے سے پہلے اس کی طویل مدتی سائنسی جانچ کرائے۔
رپورٹ میں ایگریکلچر ایکسٹینشن سسٹم – ایگریکلچر یونیورسٹیز، یا ریاستی زرعی محکمہ کی مکمل درجہ بندی، نئی حشرہ کش دواؤں کی آمد یا پیسٹ کنٹرول ٹکنالوجیز اور ان کے مناسب استعمال کا پتہ لگانے والے کسی سسٹم کا ذکر نہیں ہے۔ اس قسم کے حالات میں یہ سسٹم اہل رول ادا کر سکتے ہیں۔
بجائے اس کے، کسان نئے کیمیکلس کے بارے میں معلومات کے لیے اِن پُٹ ڈیلروں یا دکانداروں پر منحصر ہیں۔ اور کسی ڈیلر یا دکاندار کو جب کوئی کیمیکل بیچنا ہوتا ہے، تو وہ خریدار کو ان کیمیکلس کے خطرناک زہر کی اطلاع نہیں دیتا ہے۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ کسان کیڑے مکوڑوں کے حملوں سے بچنے اور اچھی پیداوار اور بہتر منافع کے لیے پودوں کے بہتر طریقے سے بڑھنے کی خواہش میں، اِن پُٹ ڈیلروں کی صلاح پر حشرہ کش دواؤں کا تجربہ کر رہے ہیں۔ رپورٹ کہتی ہے، ’’پیسٹی سائڈس اور دیگر کیمیکلس کی مدد سے [۲۰۱۷ کے چھڑکاؤ سیزن میں] نئے مرکبات بنانے کی وجہ سے انتہائی اومس بھرے ماحول میں زہر کے پھیلنے میں اضافہ ہوا اور سانس کے ذریعہ جسم کے اندر اور چھونے سے بدن پر زہر کا اثر ہونے لگا۔‘‘
سال ۲۰۱۷ کے چھڑکاؤ سیزن میں، کسانوں نے پائیریتھرائڈس، آرگینو فاسفیٹس، اور دیگر اگلی نسل کے پیسٹی سائڈس کا استعمال کیا، ساتھ ہی پودوں کو بڑھانے والے مرکبات کا بھی استعمال کیا گیا، جیسے کہ گبرالک ایسڈ (مضبوط پیٹی کے لیے)، انڈولیسیٹک ایسڈ (پودے کی لمبائی کو بڑھانے کے لیے)، اور انڈول بٹرک ایسڈ (زیادہ خارجی جڑوں کے لیے)۔ وہ بھی غیر منظور شدہ کیمیکلس کے ساتھ، جیسے کہ ہیومک ایسڈ اور نائٹرو بینزین۔ (اس کی منظوری، انسیکٹی سائڈس ایکٹ کے تحت قائم کیے گئے، سنٹرل انسیکٹی سائڈس بورڈ کی طرف سے ملنی چاہیے۔) ایس آئی ٹی نے پتہ لگایا کہ بہت سے کسانوں نے فپرونل اور امیڈاکلوپرڈ برانڈز کے آمیزہ کا استعمال کیا تھا، یہ وہ پیسٹی سائڈس ہیں جن کے استعمال کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ مقامی بازار اس قسم کے امپورٹیڈ، استعمال کے لیے پہلے سے تیار کیمیکلس سے بھرے پڑے ہیں۔
ان غیر منظور شدہ کیمیکلس کے بے تحاشہ استعمال کو چیک کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ یوت مال میں ۱۶ تعلقے ہیں، لیکن ڈسٹرکٹ کوالٹی کنٹرول انسپکٹر کی صرف ایک پوسٹ ہے، اور وہ بھی دو سالوں سے خالی پڑی ہوئی ہے۔
تاہم، رپورٹ میں ایک اور بڑا مشاہدہ چھپا ہوا ہے – وِدربھ میں سال ۲۰۱۷ میں کپاس کے کھیتوں پر کیڑوں کا حملہ اچانک، اور خاص طور سے سفاک تھا روئی کے ڈوڈے کو برباد کرنے والے گلابی کیڑے کی واپسی کی وجہ سے۔ لیکن یہ ایک الگ کہانی ہے...
کسانوں کو قصوروار بتانا
ایس آئی ٹی رپورٹ اتنے بڑے پیمانے پر کانٹیکٹ پوائزننگ کے لیے کسانوں اور زرعی مزدوروں کو قصوروار بتاتی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ معیاری ضابطوں اور حفاظتی اقدام پر عمل کرنے میں ناکام رہے۔
رپورٹ کہتی ہے کہ وِدربھ کے کسانوں نے منظور شدہ اور غیر منظور شدہ، دونوں قسم کی حشرہ کش دواؤں کا آمیزہ، پودوں کو بڑھانے والے مرکبات اور کھادوں کا استعمال ان کھیتوں پر کیا، جہاں کپاس کے پودے معمول سے زیادہ بڑھتے تھے، گھنے اور لمبے ہوتے تھے۔ ایس آئی ٹی نے کسانوں سے بات چیت کی بنیاد پر بتایا کہ انتہائی حبس بھرے ماحول میں ایسا لگتا تھا کہ لوگ کہرے میں چل رہے ہیں اور دھوئیں میں سانس لے رہے ہیں، جس کی وجہ سے چھڑکاؤ کے دوران وہ بڑی بڑی بوندوں کے رابطے میں آئے۔
ناگپور میں مقیم ایک وکیل، اروِند واگھمارے نے ۶ فروری، ۲۰۱۸ کو ممبئی ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ میں ایک عرضی داخل کرکے، دوسری ایس آئی ٹی کے ذریعہ جانچ کرانے کی اپیل کی۔ واگھمارے چاہتے ہیں کہ نیا ایس آئی ٹی بحران کو پیدا کرنے کے لیے حکومت کی کوتاہیوں اور ان کمپنیوں پر الزام عائد کرے، جو اس قسم کے زہریلے مرکبات بیچتے ہیں۔
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)