سید غنی خان اُس دن چکر کھا کر گرنے ہی والے تھے۔ اپنے کھیت پر فصلوں کی دیکھ بھال کرتے وقت انھیں بے چینی محسوس ہونے لگی۔ حشرہ کش دواؤں کا چھڑکاؤ کرتے وقت اس سے نکلنے والے دھوئیں سے ان کو چکر آنے لگا تھا۔ ’’تبھی میں نے سوچا: میں کیا کر رہا ہوں؟ اگر میں ایسا محسوس کر سکتا ہوں، تو اس طرح کے حشرہ کش دواؤں کا چھڑکاؤ کرکے میں یقیناً چاول کھانے والوں کو زہر دے رہا ہوں۔ مجھے یہ نہیں کرنا چاہیے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
دو دہائی قبل، ۱۹۹۸ کے اس واقعہ کے بعد غنی نے کسی بھی کیمیاوی حشرہ کش یا کھاد کا استعمال کرنا بند کر دیا۔ اور انھوں نے صرف دیسی دھان کی کھیتی شروع کر دی۔ ’’میں اپنے والد اور فیملی کے دیگر بزرگوں کے ساتھ کھیتوں پر جاتا تھا۔ وہ جن فصلوں کی کھیتی کرتے تھے، ان میں دیسی دھان مناسبتاً کم ہوا کرتا تھا،‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔
کرناٹک کے منڈیا ضلع کے کیروگاولو گاؤں کے اس ۴۲ سالہ کسان کا اندازہ ہے کہ منڈیا میں ۱۰ سے بھی کم لوگ آرگینک کھیتی کے ذریعہ دیسی قسمیں اُگاتے ہیں، اس ضلع میں ۷۹۹۶۱ ہیکٹیئر میں دھان اُگایا جاتا ہے۔ ’’دیسی دھان نے اپنی اہمیت کھو دی کیوں کہ اسے بڑھنے میں لمبا وقت لگتا تھا، اور انتظار کے بعد بھی پیداوار [کبھی کبھی] کم ہوتی تھی۔ حقیقی فصل کے مقابلے آپ کو گھاس پھوس زیادہ دیکھنے کو ملتی،‘‘ وہ آگے کہتے ہیں۔
کئی کسانوں کو یہ سمجھایا گیا کہ ہائبرڈ قسمیں قلیل مدت میں لگاتار زیادہ پیداوار دیں گی۔ کبھی کبھار ایسا ہوا بھی – کچھ وقت کے لیے۔ دیسی قسموں کے حامیوں کے مطابق، اس کی وجہ سے اکثر کیمیاوی کھادوں، حشرہ کش دواؤں اور پانی کا بہت زیادہ استعمال ہونے لگا۔ پیداوار کم ہونے کے باوجود، لاگت بڑھتی رہی اور صحت اور زرعی مالیات پر منفی اثرات دکھائی دینے لگے۔
دیسی دھان کے دھیرے دھیرے غائب ہونے کو دیکھ، غنی نے ۱۹۹۶ میں مختلف دیسی قسموں کو جمع اور محفوظ کرنا شروع کر دیا، تب انھوں نے ۴۰ قسم کے بیج جمع کیے۔ ایسے بیجوں کو جمع کرنے کا ان کا جوش وقت کے ساتھ بڑھتا گیا، اور اب ان کے پاس پورے ہندوستان سے دیسی دھان کی ۷۰۰ سے زیادہ قسمیں ہیں۔ غنی مختلف قسم کے بیجوں کو حاصل کرنے کے لیے چھتیس گڑھ، کیرالہ، مہاراشٹر، اوڈیشہ، پنجاب، تمل ناڈو اور مغربی بنگال سمیت مختلف ریاستوں کے کسانوں کے ساتھ ایک قسم کے بارٹر سسٹم (سامان کے بدلے سامان) میں مصروف ہیں۔
ان کے گھر – بڑا باغ – میں جہاں وہ اپنی بیوی، تین بچوں اور اپنے بھائی کی فیملی کے ساتھ رہتے ہیں – جیسے ہی آپ داخل ہوں گے، ان کا جنون صاف طور پر دیکھنے کو ملے گا۔ دیواروں کے ساتھ شیشے کے مرتبان میں کئی دھان کے بیج اور ساتھ ہی دھان کے پھول کی قرینے سے سجائی گئی قطاریں ہیں۔ ان کے سامنے ہر ایک کے بارے میں تفصیل درج ہے، جو متجسس کسانوں، ریاست بھر کے زرعی طالب علموں اور دیگر نو واردوں کے لیے جانکاری کے طور پر رکھے گئے ہیں۔ یہ ہندوستان کی دھان کی تکثیریت کی پیدل سیر کرنے جیسا ہے۔
’’میرا کام اس کی فروخت سے منافع حاصل کرنے کے بجائے، مختلف قسموں کے تحفظ پر مرکوز ہے،‘‘ غنی کہتے ہیں۔ وہ یہ بیج معمولی قیمت پر ان لوگوں کو بیچتے ہیں، جو آرگینک طریقوں کا استعمال کرکے ان کی کھیتی کرنے کے خواہش مند ہیں۔
ایک ایکڑ کھیت میں دھان اُگانے کی لاگت ۸۰۰۰ سے ۱۰۰۰۰ روپے کے درمیان آتی ہے، وہ بتاتے ہیں۔ اگر کسان دیسی قسمیں لگائے تو اسے نقصان نہیں ہوگا، بھلے ہی ہائبرڈ قسموں کے مقابلے پیداوار کم کیوں نہ ہو۔ ’’کیمیاوی حشرہ کش کے استعمال سے اُگائی گئی قسموں کے مقابلے آرگینک طریقے سے اُگائے گئے دھان کی پیداوار ۲۰-۴۰ فیصد زیادہ ہوتی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
غنی کہتے ہیں کہ دیسی دھان میں ادویاتی خوبیاں بھی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ’نوارا‘ نامی ایک قسم گٹھیا اور جوڑوں کے درد کے لیے مفید ہے، جب کہ ’کریگی جیولی آمبے موہار‘ کا استعمال زچگی کے بعد خواتین میں دودھ کو بڑھانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ایک دوسری قسم جسے ’سنّکی‘ کہا جاتا ہے، بچوں میں دست کو ٹھیک کرنے میں مدد کرتی ہے اور ’مہاڈی‘ دھان کا استعمال مویشیوں کے زخموں کا علاج کرنے میں کیا جاتا ہے۔
اور تمل ناڈو میں دھان کی ایک قسم ہے، جسے ’مپیلائی سامبا‘ کہتے ہیں، جسے نوجوان دولہے کو اس کی طاقت بڑھانے کے لیے دیا جاتا ہے، غنی کہتے ہیں۔ روایتی طور پر، ریاست کے کچھ حصوں میں، دولہے کو اپنی طاقت ثابت کرنے کے لیے ایک بھاری پتھر اٹھانا پڑتا ہے۔ ’یہ دھان ظاہر طور پر اسے یہ کرتب دکھانے کی طاقت دے سکتا ہے۔‘
ان میں سے کچھ تفصیل – جہاں دھان اُگایا جاتا ہے، ذائقہ میں فرق، ان کی ادویاتی خوبیاں – غنی کے گھر میں اناج کے ہر ایک نمونے کے نیچے دیواروں پر بھی فہرست بند ہیں۔ ’’دیسی قسموں کی اپنی خاصیت اور خوبیاں ہیں۔ وہ سائز، شکل اور رنگ میں مختلف ہیں،‘‘ وہ بتاتے ہیں۔
بڑا باغ، جو غنی کو ان کے والد سے وراثت میں ملا تھا، منڈیا میں ۱۶ ایکڑ زرعی زمین میں واقع ہے۔ یہاں پر یہ فیملی دھان، آم اور سبزیاں اُگاتی ہے اور مویشیوں کو پالتی ہے۔ غنی کی ۳۶ سالہ بیوی، سیدہ فردوس دیسی دھان کے تحفظ میں ان کی مدد کرتی ہیں۔ وہ زرعی باقیات سے دیوار پر تصاویر، مالا اور زیورات بناتی ہیں، اور انھیں نوواردوں کو یا مقامی دکانوں میں معمولی قیمتوں پر بیچتی ہیں۔
بیج تحفظاتی مرکز ہونے کے علاوہ، ان کا گھر اب دھان کے عجوبوں کے بارے میں طالب علموں اور نوواردوں کے لیے غیر رسمی نمائش والی ایک کلاس بھی ہے۔ غنی کے علم نے مقامی طور پر انھیں ’زرعی سائنس داں‘ ہونے کا اعزاز دلایا ہے، اور وہ زرعی معاملوں کے صلاح کار بن چکے ہیں۔ یہ انھیں مختلف شہروں اور کئی اسکولوں، کالجوں، زرعی سائنسی مراکز و دیگر اداروں میں لے جاتا ہے، جہاں وہ قدرتی کھیتی اور بیج کے تحفظ کے بارے میں لوگوں کو بتاتے ہیں۔
کئی کوششوں کے باوجود، غنی کو حکومت سے بہت زیادہ مدد نہیں ملی ہے، حالانکہ انھیں کچھ انعامات ضرور ملے ہیں۔ منڈیا میں ایک تنظیم نے انھیں ۲۰۰۷ میں، زراعت میں نئی دریافت کے لیے ’آراساما مینسے گوڈا ایوارڈ‘ دیا تھا۔ ان کو ملے دیگر اعزازات میں شامل ہے ۲۰۰۸-۰۹ کا کرناٹک حکومت کا ’کرشی پنڈت ایوارڈ‘ (جس میں انھیں ۲۵۰۰۰ روپے دیے گئے) اور ۲۰۱۰ میں ’جیو ویودھیہ ایوارڈ‘ (جس میں ۱۰ ہزار روپے ملے)۔
’’دیسی قسموں کو محفوظ کیا جانا چاہیے اور یہ لوگوں تک پہنچنا چاہیے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ہم اپنے پاس موجود مختلف قسم کے دھان کی پہچان کرکے شروعات کر سکتے ہیں۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)