uploads/Articles/Revathi R/Cotton fields to paralympics/dhivya-ambika.jpg


چنِئی ۔ تریچی ہائی وے (قومی شاہراہ ۴۵)، سے نکل کر کولکّاناتھم کو جانے والی سڑک کے دونوں کنارے، کچھ لمحہ کے لیے چنبیلی کے باغوں جیسے دکھائی دیے۔ لیکن ان میں موجود کم ہرے پتّے اور زیادہ تر بڑے سفید ’پھول‘ کسی کو بھی اسے غور سے دیکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہ کپاس کے پکے ہوئے پھول ہیں، جو پوری طرح تیار ہو چکے ہیں، اور مرد و عورت، نوجوان اور بزرگ پورے احتیاط کے ساتھ انھیں چُننے میں لگے ہوئے ہیں، کیوں کہ یہ اس فصل کا آخری موسم ہے۔


/static/media/uploads/Articles/Revathi R/Cotton fields to paralympics/cotton_field.jpg


دِھویا کپاس کے کھیت میں اپنا شِفٹ پورا کرتی ہیں اور اپنی دو پہیہ گاڑی سے بس اسٹینڈ پہنچتی ہیں۔ بائیں کلائی پر اپنے دو پٹہ کو لپیٹتے ہوئے، یہ نوجوان عورت ہمیں دیکھ کر مسکراتی ہیں۔ ’’ہمارے گاؤں چلیں؟ میں سیروکن پور میں رہتی ہوں۔‘‘ دِھویا اپنی بائک سے ہمیں راستہ دکھاتے ہوئے آگے چلتی ہیں اور جیسے جیسے ہم اُن کے پیچھے چلتے جا رہے ہیں، ہمیں کپاس کے بڑے بڑے کھیت راستے کے دونوں جانب دور تک پھیلے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

وہ اپنی بائک جیسے ہی پارک کرتی ہیں، ساڑھے تین فٹ لمبی ایک دوسری نوجوان عورت، امبیکا پتھی ہمارا استقبال کرتی ہیں۔ ’’تیراکی کے ایک میچ کے دوران ہماری دوستی ہوئی تھی،‘‘ دِھویا ہمیں بتاتی ہیں۔ وہ ہمیں چند ٹرافی دکھاتی ہیں، جسے انھوں نے تیراکی (سوئیمنگ) اور ایتھلیٹکس چمپئن شپ میں جیتا ہے۔


/static/media/uploads/Articles/Revathi R/Cotton fields to paralympics/dhivya-at-pool.jpg


دِھویا جب ۸ سال کی تھیں، تو ایک کھلے ہوئے کنویں سے پانے نکالتے وقت، ان کے بائیں بازو کا ایک حصہ کٹ گیا تھا۔ ’’میرے والدین پوتھور کٹّو (ہڈّیاں جوڑنے کا ایک روایتی طریقہ) کے لیے گئے۔ لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا، کیوں کہ ہڈی کے کچھ حصے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے،‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں۔ مواد آلودہ زخم کی وجہ سے ان کے بازو کا اگلا حصہ کچھ اِنچ چھوٹا ہو گیا، وہ کلائی پر سے اپنے دوپٹے کو کھولتے ہوئے کہتی ہیں۔

کھیل کی طرف واپس لوٹتے ہوئے، دِھویا اپنے زخموں کو بھول کر آگے بڑھتی رہیں۔ ان کی فیملی اپنے موروثی کھیت پر کپاس کی کھیتی کرتی ہے اور وہ بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ اس کھیت پر کام کرتی ہیں۔ ’’ہم اپنے کھیت پر اس ترتیب سے بیج بوتے ہیں کہ دوسروں کے کھیتوں پر بھی ہم کام کر سکیں اور اس طرح کچھ پیسہ کما سکیں۔ میں ایک دن میں کپاس کے ۷۰ کلو پھول اتار لیتی ہوں، جیسا کہ ایک عام آدمی کرتا ہے اور بعض دفعہ اس سے بھی کہیں زیادہ،‘‘ دِھویا اپنے ہاتھوں میں دو درجن سے سرٹیفکیٹ لہراتے ہوئے، مسکراکر بتاتی ہیں۔

’’یہ وہ میڈلس ہیں، جو میں نے سوئیمنگ اور ایتھلیٹکس میں ریاستی اور قومی سطح کے مقابلوں میں جیتے ہیں۔ اس ماہ کے اخیر میں دہلی میں ایتھلیٹکس کیٹیگری میں ہونے والے پیرالمپکس مقابلے کے لیے میرا انتخاب ہو چکا ہے۔ میری دوست امبیکا کا انتخاب تیراکی کے مقابلے کے لیے ہوا ہے،‘‘ دِھویا امبیکاپتھی کو دیکھتے ہوئے کہتی ہیں اور اسے بولنے کے لیے اشارہ کرتی ہیں۔


/static/media/uploads/Articles/Revathi R/Cotton fields to paralympics/ambika-dhivya_at_home.jpg


امبیکا پتھی شرمیلی ہیں اور کم بولتی ہیں۔ لیکن جب وہ کھیلوں میں اپنی دلچسپی کے بارے میں بولتی ہیں، تو پھر رکتی نہیں۔ ’’اب یہ کہتے ہوئے کافی اچھا لگتا ہے کہ میں بھی کوئی ایسا کام کر رہی ہوں، جس پر فخر کیا جا سکتا ہے۔ پہلے میں صرف مویشیوں کو چرانے باہر لے جایا کرتی تھی اور کپاس کے کھیتوں میں کام کیا کرتی تھی اور گاؤں سے باہر کبھی نہیں نکلی،‘‘ نخامی بونے پن کا شکار یہ ۲۸ سالہ خاتون ہمیں بتاتی ہیں۔ انھیں اس کا سبب نہیں معلوم کہ وہ اپنی فیملی میں اکیلی بَونی کیوں ہیں۔ ان کے سارے بھائی سرکاری محکموں میں کام کرتے ہیں، لیکن امبیکا کبھی اسکول نہیں گئی ہیں۔

’’گاؤوں میں تقریباً سبھی لوگ اپنے گھر کے پیچھے بنے ٹینکوں میں تیرتے ہیں،‘‘ وہ بتاتی ہیں۔ جب پیرم بالور کی کلکٹوریٹ سے چند افسر جسمانی طور سے معذور ایسے افراد کی تلاش میں منگلا میڈو گاؤں آئے، جو مقابلہ میں حصہ لے سکیں، تو میں نے اس موقع کا استعمال تیراکی کے اپنے ہنر کو بھُنانے کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن جب میں نے پہلی بار سوئم سوٹ دیکھا اور مجھے اسے پہننے کے لیے کہا گیا، تو میں وہاں سے بھاگ کر اپنے گھر واپس آ جانا چاہتی تھی،‘‘ امبیکا بتاتی ہیں۔

انھوں نے پہلے اپنا داخلہ سِلائی کورس کے لیے کرایا تھا، جسے پیرم بالور کا ایک این جی او چلاتا ہے۔ ’’مجھے اس وقت بہت ہی برا لگتا، جب لوگ یہ کہہ کر میرا مذاق اڑاتے کہ میں سلائی مشین جتنی بھی لمبی نہیں ہوں۔ لیکن، اب میں اپنا کپڑا بھی سل لیتی ہوں اور دوسروں کا بھی۔‘‘


/static/media/uploads/Articles/Revathi R/Cotton fields to paralympics/swimming.jpg


اپنے گاؤں میں امبیکا کے بہت سے چاہنے والے ہیں۔ وہ جب میڈل جیت کر گاؤں واپس لوٹتی ہیں، تو ان کے دوست، جو زیادہ تر لڑکے ہیں، ہر بار اُن کا بڑا کٹ آؤٹس بناکر ان کا استقبال کرتے ہیں۔

دونوں ہی خواتین، جو پیرم بالور ضلع اور تمل ناڈو ریاست کی نمائندگی کر رہی ہیں، کے ہنر کی نشاندہی پوڈھو واژھوو کے ذریعہ کی گئی، اس پروجیکٹ کو تمل ناڈو حکومت نے ورلڈ بینک کی مدد سے نافذ کیا ہے۔ دِھویا، جن کی حوصلہ افزائی ان کے علاقہ میں اس پروجیکٹ کے ٹیم لیڈر نے کی، نے ابھی ابھی دسویں کلاس پاس کیا ہے۔ انھیں اس تعلیمی لیاقت اور کھیلوں میں اپنی حصولیابیوں کی بنیاد پر نوکری ملنے کی امید ہے۔ امبیکاپتھی کے لیے تو یہ بالکل نئی شروعات ہے۔ وہ ’ساکشر بھارت‘ اسکیم، جسے تمل ناڈو میں ’کرکوم بھارتھم‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کے ذریعہ تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔

’’کوئی مشکل نہیں ہے، میں ایسا کر سکتی ہوں،‘‘ امبیکا کہتی ہیں۔ اب ہم جان چکے ہیں کہ ہمیں ’دوسری طرح سے قابل‘ کیوں کہا جاتا ہے۔ ہم اپنے طریقے اور اپنی رفتار سے کام کرتے ہیں،‘‘ دِھویا ان کی حمایت کرتے ہوئے کہتی ہیں۔

دونوں کو امید ہے کہ اگر وہ اس سال مئی میں دہلی میں منعقد ہونے والے انٹرنیشنل کوالیفائنگ مقابلے میں جیت جاتی ہیں، تو ہندوستان کی نمائندگی کرنے کے لیے ملک سے باہر جائیں گی۔

’’ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ یہ مقابلہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جو کہ کپاس کی فصل کاٹنے اور اگلے سال کے لیے بیج بونے کے درمیان کا وقت ہے۔ ہم اپنے کاموں سے چھٹی نہیں لے سکتے،‘‘ دِھویا کہتی ہیں۔ ان کے لیے، ان کی گاؤوں کی زندگی کھیتی، زراعت اور فصل کے ارد گرد ہی گھومتی ہے۔

Revathi R.

ரேவதி R, ஒரு தனிப்பட்ட பத்திகையாளர். இவர் கலை மற்றும் இசை பற்றி எழுதுகிறார். பள்ளி மாணவர்களுக்கு செய்தி விவரிக்கும் துறையில் பயிற்சி அளிக்கிறார். People's Archive of Rural India வில் தன்னார்வலராக பணி செய்கிறார்.

Other stories by Revathi R.
Translator : Qamar Siddique

கமார் சித்திக்கி, பாரியில் உருது மொழிபெயர்ப்பு ஆசிரியராக இருக்கிறார். அவர் தில்லியை சார்ந்த பத்திரிகையாளர் ஆவார்.

Other stories by Qamar Siddique