اسکول کے دروازے کی تختی پر لکھا ہے ’تعلیم‘۔ لیکن آپ کو اس کے اندر جو پہلی چیز نظر آئے گی وہ ہے ہنومان کی تصویر، جنہیں یہاں پر پہلوانوں کا دیوتا تصور کیا جاتا ہے۔ یہ کلچر مختلف رنگوں سے بھرا ہوا ہے۔ دیہی مغربی مہاراشٹر میں کُشتی کے اسکولوں کو اکھاڑہ نہیں، بلکہ ’تعلیم‘ کہا جاتا ہے۔ انھیں پنجاب کی تقسیم سے پہلے قائم کیا گیا تھا، جن کی تعلیم نے تقریباً ۱۰۰ سال پہلے مضبوط رشتے بنائے۔ خاص طور سے شاہو مہاراج کے زمانے میں، جو کہ کولہار پور کی شاہی ریاست کے حکمراں تھے اور سوشل ریفارمر کے طور پر مشہور ہوئے۔ یہ بھی کُشتی کے کافی شوقین تھے، جو غیر منقسم ہندوستان کے تمام حصوں سے پہلوانوں کو کولہاپور لے کر آئے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق پنجاب سے تھا۔
آج بھی دیہی مغربی مہاراشٹر میں جو بڑے بڑے ٹورنامنٹ ہوتے ہیں، اس میں پاکستان، ایران، ترکی اور یہاں تک کہ افریقی ممالک کے ٹاپ پہلوان نظر آتے ہیں۔ پاکستان اور ایران کے پہلوانوں کو چاہنے والے یہاں کے اکثریتی ہندو مرد سامعین میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ ’’یہاں جمع بھیڑ باہری پہلوانوں کو پوری توجہ سے دیکھتی ہے،‘‘ کولہار پور سے رکن اسمبلی (ایم ایل اے) ونے کورے بتاتے ہیں۔ ایک بڑی کوآپریٹو شوگر فیکٹری اور ڈیئری کمپلیکس کے مالک، کورے ریاست کے ایک اندر انوکھا ٹورنامنٹ کراتے ہیں۔ یہ ٹورنامنٹ کولہاپور ضلع کے ورنا نگر میں ہوتا ہے، جہاں کے میدان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مہاراشٹر کا سب سے بڑا میدان ہے۔ یہ ٹورنامنٹ ہر سال ۱۳ دسمبر کو ہوتا ہے۔
’’تین لاکھ لوگ یہاں جمع ہو سکتے ہیں،‘‘ کورے کہتے ہیں۔ ’’بعض دفعہ ویزا کو لے کر کافی سردرد ہوتا ہے۔ ایک بار، پاکستانیوں کے لیے ویزا دیر سے آیا۔ ان کے پہلوانوں کو تب اسلام آباد سے پہلے دہلی آنا پڑا، پھر وہاں سے پُنے، جہاں سے ہم انھیں ورنا لے کر آئے۔ دریں اثنا، لاکھوں لوگوں کا مجمع پورے صبر کے ساتھ ۱۳ ۔ ۱۲ گھنٹے تک ان کا انتظار کرتا رہا۔‘‘
تعلیموں میں، مہاراشٹر کے کُشتیوں کے استاد اخلاقی اور مہذب تعلیم پر زور دیتے ہیں، جس میں روحانی اور سیکولر تعلیم کا امتزاج ہوتا ہے۔ بہت سے استاد اپنے شاگردوں کو مشہور گاما پہلوان (اپنے دور کا ناشکستہ پہلوان جس نے دنیا کے سب سے بڑے پہلوان پر فتح حاصل کی) کے بارے میں بتاتے ہیں۔ گاما، جن کا اصلی نام غلام محمد تھا پنجاب میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک مسلم تھے، جو ۱۹۴۷ کے بعد پاکستان چلے گئے۔ استاد اپنے شاگردوں کو بتاتے ہیں کہ تقسیم کے وقت جب فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا، تو گاما پہلوان اپنے ہندو پڑوسیوں کی کالونی کے باہر، انھیں ایک مشتعل ہجوم سے بچانے کے لیے پتھر کی طرح کھڑے ہو گئے تھے۔ ’’ایک پہلوان کو ایسا ہی ہونا چاہیے،‘‘ اسی کی یہاں تعلیم دی جاتی ہے۔
’’تمام بڑے استادوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اخلاقی تربیت ضروری ہے،‘‘ مہاراشٹر کے عظیم پہلوانوں میں سے ایک اَپّا صاحب قدم، کولہاپور ٹاؤن میں اپنی تعلیم میں کہتے ہیں۔ ’’اخلاقی تربیت کے بغیر ایک پہلوان تباہی کا سبب بنے گا،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ پہلوانوں کو جو عزت و شہرت دیگر ریاستوں میں حاصل ہوئی، وہ مہاراشٹر میں نہیں ملی۔
اس کھیل میں مقامی میزبانی اور وسیع القلبی کا کلچر بھی شامل ہے۔ اب چاہے کُنڈل کے بڑے ٹورنامنٹ ہوں یا پھر ورنا نگر کے، لوگ چاہتے ہیں کہ ہم اسے سمجھیں۔ ’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ باہر سے لاکھوں کی تعداد میں جو لوگ یہاں آتے ہیں، گاؤں والے یہاں پر ان کے ساتھ مہمانوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ ان مہمانوں کے لیے مقامی گھروں میں بے شمار سینکڑوں عشائیوں کا انتظام کیا جاتا ہے۔‘‘
تعلیم مڑے ہوئے اور پوری طرح تباہ ہو چکے کانوں کا ایک مجمع ہے۔ ’’پہلوانوں کا اصلی سرٹیفکیٹ،‘‘ مشہور پہلوان، سابق اولمپئن اور گرو گن پت راؤ اندھالکر بتاتے ہیں۔ اُن گول کانوں کے مالک، جن میں استاد بھی شامل ہیں، تمام کے تمام دیہی خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کسان یا مزدور گھرانوں سے۔ یہ بات خاص طور سے مغربی مہاراشٹر پر صادق آتی ہے۔
’’کُشتی، گَنّے کے کھیت اور تماشہ (مراٹھی فوک تھیٹر کی ایک شکل) آپس میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں،‘‘ ایشیاڈ، کامن ویلتھ اور نیشنل میڈلسٹ، کاکا پوار پُنے میں واقع اپنی تعلیم میں بتاتے ہیں۔ ’’تماشہ کیوں؟‘‘ دونوں کا انحصار کھلاڑی کے ڈسپلن اور مجمع کے سپورٹ پر ہے۔‘‘
سامعین میں اکثریت ہندوؤں کی ہوتی ہے، اسی لیے ماضی کے مقابلے کُشتی اپنے آپ میں زیادہ تنوع پیش کرتی ہے۔ پہلے یہاں مراٹھوں کا غلبہ ہوا کرتا تھا، لیکن اب ڈھانگر (گڈریا) کمیونٹی کے بھی چپمئن ہیں۔ کُشتی کے لحاظ سے سب سے بڑے ضلع، شعلہ پور میں مسلم کمیونٹی کے درمیان بھی نوجوان چمپئن پیدا ہو رہے ہیں۔
مہاراشٹر کے کُشتی کلچر کے گرو صاف گو اور تجزیہ نگار ہیں۔ وہ اس مختصر بحث کو خارج کر دیتے ہیں کہ کیا اولپمکس سے کُشتی کو ختم کردینا چاہیے۔ ’’اس میں ایسے کھیل شامل ہیں جو ۳۰ ملکوں میں کھیلے جاتے ہیں،‘‘ قدم مذاق اڑاتے ہیں۔ ’’جب کہ کُشتی ۱۲۲ ممالک کا کلچر ہے۔ کیا ان کے اندر اسے ہٹانے کی ہمت ہے؟‘‘
مہاراشٹر میں کُشتی کے ساتھ جیسا برتاؤ ہوتا ہے، وہ اس کو لے کر زیادہ فکرمند ہیں۔ ہم نے جتنی بھی تعلیموں کا دورہ کیا اور پہلوانوں سے ملاقات کی، سب کی شکایتیں ایک جیسی تھیں۔ پنجاب اور ہریانہ جیسی زرعی ریاستیں، تیزی سے شہر میں تبدیل ہوتے مہاراشٹر کے مقابلے کُشتی کے بارے میں زیادہ سنجیدہ ہیں۔
’’وہاں، نہ صرف اس کھیل کی پہچان ہے، بلکہ پولس اور دیگر سیکورٹی دستوں میں باعزت نوکریاں بھی جلدی مل جاتی ہیں،‘‘ ایک استاد بتاتے ہیں۔ ’’یہاں، جو کُشتی چھوڑ دیتے ہیں، وہ مزدور بنتے ہیں۔‘‘ بعض پیدائشی پہلوانوں نے اپنے آخری دن چینی کی فیکٹریوں میں چوکیداری کرتے گزارے۔
سیاسی طبقہ کو موقع پرست سمجھا جاتا ہے۔ ’’وہ اس لیے آتے ہیں، کیوں کہ کُشتی بھیڑ اکٹھا کرتی ہے۔‘‘ لیکن وہ کئی فیڈریشن کے سربراہ تو بن جاتے ہیں، پھر بھی اس کھیل کے لیے کچھ نہیں کرتے۔ ’’مرکزی وزیر شرد پوار اس ریاست میں ریسلِنگ فیڈریشن کے صدر ہیں،‘‘ ایک آرگنائزر کا کہنا ہے۔ ’’ہم یہ جانتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں یا انھیں یہ یاد ہے، مجھے نہیں معلوم۔‘‘ ایک دوسرے صاحب کہتے ہیں، ’’ہمارے دو سابق پہلوان ایم ایل اے ہیں۔ وہ ہمیں دیکھتے تک نہیں۔‘‘
سوسائٹی اور کلچر میں تبدیلی، چھوٹی سطح پر کھیتی کا زوال، پانی کا مسلسل بحران اور ریاست کی اندیکھی، ان سب نے مل کر یہاں کی دیہی اقتصادیات سے جڑے اس کھیل کو حاشیہ پر کھڑا کر دیا ہے۔ ’’ایک پہلوان کی زندگی،‘‘ اندھالکر کہتے ہیں، ’’ایک طرح سے نظر نہ آنے والی تپسیا ہے۔ اگر کسی کرکٹر کو ذرا سی چوٹ لگ جائے، تو میڈیا میں اس خبر کو ہزاروں بار دکھایا جائے گا۔ لیکن اگر ایک پہلوان مر جائے، تو کسی کو اس کی پرواہ تک نہیں ہوتی۔‘‘
یہ مضمون سب سے پہلے دی ہندو میں ۳۱ اکتوبر، ۲۰۱۳ کو شائع ہوا تھا۔