غلام محی الدین میر کے ۱۳ ایکڑ کے باغ میں سیب کے ۳۰۰-۴۰۰ درخت ہیں، جس سے انہیں ہر سال عام طور سے ۳۶۰۰۰ ڈبّے پھل حاصل ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک ڈبّے میں ۲۰ کلو سیب ہوتا ہے۔ ’’ہم ایک ڈبّہ ۱۰۰۰ روپے میں فروخت کرتے تھے۔ لیکن ابھی ہمیں ایک ڈبّہ کے صرف ۵۰۰-۷۰۰ روپے مل رہے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔

بڈگام ضلع کے کریم شورا گاؤں کے ۶۵ سالہ میر کی طرح ہی، کشمیر کے زیادہ تر کاشتکاروں کو اسی قسم کے بڑے مالی خسارہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اور مرکزی حکومت نے ۵ اگست کو جب دفعہ ۳۷۰ کو منسوخ کرنے کے بعد ریاست کو یونین ٹیریٹری (مرکز کے زیر انتظام علاقہ) میں تبدیل کر دیا تھا، تبھی سے سیب کی یہ پوری صنعت زبردست بحران کی شکار ہے۔

مقامی اقتصادیات کا ایک بڑا حصہ اسی پھل پر مبنی ہے۔ جموں و کشمیر میں سیب کی باغبانی ۱۶۴۷۴۲ ہیکٹیئر رقبے میں کی جاتی ہے، جس سے سال ۲۰۱۸-۱۹ میں سیب کی کل پیداوار ۱ء۸ ملین (۱۸ لاکھ ۸۲ ہزار ۳۱۹) میٹرک ٹن سے زیادہ ہوئی (ڈائریکٹوریٹ برائے باغبانی، کشمیر کا ڈیٹا )۔ حکومتِ جموں و کشمیر کے محکمہ باغبانی کا تخمینہ ہے کہ جموں و کشمیر میں باغبانی (بشمول سیب) ۳۳ لاکھ لوگوں کا ذریعۂ معاش ہے – اور باغبانی کے ڈائرکٹر، اعجاز احمد بھٹ نے میڈیا کو بتایا کہ یہ صنعت ۸-۱۰ ہزار کروڑ روپے کی ہے۔

مزید برآں، ریاست (اب یونین ٹیریٹری) کے باہر سے آنے والے مزدوروں کو پوری وادیٔ کشمیر میں پھیلے باغات میں روزگار ملتا ہے۔ لیکن ابتدائی اگست میں سیاسی ہنگامہ آرائی کے سبب وہ بڑی تعداد میں یہاں سے چلے گئے۔ اکتوبر میں، ۱۱ غیر مقامی، جن میں سے زیادہ تر ڈرائیور اور مزدور تھے، مبینہ طور پر مشتبہ ملی ٹینٹوں کے ذریعے قتل کر دیے گئے۔ اس کی وجہ سے ملک کے بازاروں میں کشمیری سیبوں کو پہنچانا مشکل ہو گیا ہے۔

اور خود کشمیر کے اندر لوگوں کا ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں جانا بھی اتنا ہی مشکل ہے، کیوں کہ پبلک ٹرانسپورٹ، بسیں اور مشترکہ ٹیکسیاں آج بھی سڑکوں پر نہیں چل رہی ہیں۔

چند تاجر، جو باغ کے مالکوں سے سیب خرید رہے ہیں، وہ انہیں سیدھے دہلی کے بازاروں میں بھیج رہے ہیں، جہاں پر وہ ایک ڈبّہ ۱۴۰۰-۱۵۰۰ روپے میں فروخت کرتے ہیں۔ دیگر تاجر، جو حکومت کے توسط سے اسے بیچتے ہیں، وہ ابھی بھی خریداری کی کارروائی شروع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ دریں اثنا، ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ رات میں کچھ پوسٹر چسپاں کیے جا رہے ہیں (یہ واضح نہیں ہے کہ کس کے ذریعے) جن میں ان تاجروں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ حکومت کو اپنے سیب نہ بیچیں۔

PHOTO • Muzamil Bhat

بڈگام کے کریم شورا گاؤں کے باغ مالک، غلام محی الدین میر کو تشویش ہے کہ اس سال سیب سے ہونے والی ان کی سالانہ آمدنی شاید آدھی ہی رہ جائے۔ ریاست کی باغبانی صنعت ۸-۱۰ ہزار کروڑ روپے روپے کی ہے اور یہ کشمیر کے اندر اور باہر کے لاکھوں لوگوں کو ذریعۂ معاش فراہم کرتی ہے

In central Kashmir, in Munipapy village of Budgam district, which I visited in mid-October, residents estimate that over 200 households own apple orchards. The traders dispatch truckloads of fresh fruit, including apples and pears, from Kashmir to Delhi’s markets through the months of July to November
PHOTO • Muzamil Bhat
In central Kashmir, in Munipapy village of Budgam district, which I visited in mid-October, residents estimate that over 200 households own apple orchards. The traders dispatch truckloads of fresh fruit, including apples and pears, from Kashmir to Delhi’s markets through the months of July to November
PHOTO • Muzamil Bhat

وسطی کشمیر میں، بڈگام ضلع کے مُنی پاپی گاؤں میں، جہاں میں اکتوبر کے وسط میں گیا تھا، مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ گاؤں کے ۲۰۰ گھروں کے پاس سیب کے باغات ہیں۔ تاجر جولائی سے نومبر تک، کشمیر سے تازہ پھل، بشمول سیب اور ناشپاتی، ٹرکوں میں بھر کر دہلی کے بازاروں میں بھیجتے ہیں

The apple business runs on informal oral agreements. In March-April, traders visit orchards to assess the flowering, and pay the orchard owner an advance based on their estimate of the produce. When the fruit is ready to be harvested, the traders return. In the current turmoil, this entire business is at risk
PHOTO • Muzamil Bhat
The apple business runs on informal oral agreements. In March-April, traders visit orchards to assess the flowering, and pay the orchard owner an advance based on their estimate of the produce. When the fruit is ready to be harvested, the traders return. In the current turmoil, this entire business is at risk
PHOTO • Muzamil Bhat

سیب کا کاروبار صرف زبانی معاہدوں پر چلتا ہے۔ مارچ-اپریل میں تاجر پھولوں کا اندازہ لگانے کے لیے باغات کا دورہ کرتے ہیں، اور ان کی پیداوار کے بارے میں اپنے تخمینہ کی بنیاد پر باغات کے مالک کو پیشگی رقم ادا کرتے ہیں۔ پھل جب اتارنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے، تو تاجر واپس آتے ہیں۔ حالیہ ہنگامہ آرائی کے دوران یہ پورا کاروبار خطرے میں ہے

A 32-year-old trader, who asked not to be named, told me, “All my work is done on the mobile phone – calling labourers to come to the orchard, speaking with people at the sorting and packing centres, speaking to my trader contacts in Delhi, speaking to the truck drivers and transporters after dispatching the produce. When the government blocked phone networks, our day to day work was severely hit”
PHOTO • Muzamil Bhat
A 32-year-old trader, who asked not to be named, told me, “All my work is done on the mobile phone – calling labourers to come to the orchard, speaking with people at the sorting and packing centres, speaking to my trader contacts in Delhi, speaking to the truck drivers and transporters after dispatching the produce. When the government blocked phone networks, our day to day work was severely hit”
PHOTO • Muzamil Bhat

ایک ۳۲ سالہ تاجر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مجھے بتایا کہ ’’میرا تمام کام موبائل فون پر ہوتا ہے – جیسے کہ مزدوروں کو باغ میں بلانا، سیبوں کو چھانٹنے اور پیک کرنے کے مراکز پر کام کر رہے لوگوں سے بات کرنا، دہلی کے اپنے تاجر ساتھیوں سے بات کرنا، مال کو یہاں سے روانہ کرنے کے بعد ڈرائیوروں اور ٹرانسپورٹروں سے بات کرنا۔ حکومت نے جب ہمارے فون نیٹ ورک بند کر دیے، تو ہمارے روزمرہ کے کام پر بہت برا اثر پڑا‘‘

PHOTO • Muzamil Bhat

طاہر احمد بابا، جو کہ ایک مزدور ہیں، بتاتے ہیں کہ پچھلے سالوں میں وہ عارضی کام کے لیے ہندوستان کے دیگر شہروں میں جایا کرتے تھے، لیکن اب کشمیر سے باہر جانے میں وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں

Apple pickers and packers say they have seen a 40-50 per cent decline in their wages amidst this crisis –from Rs. 500-600 to Rs. 250-300 a day
PHOTO • Muzamil Bhat
Apple pickers and packers say they have seen a 40-50 per cent decline in their wages amidst this crisis –from Rs. 500-600 to Rs. 250-300 a day
PHOTO • Muzamil Bhat

سیب اتارنے اور انہیں ڈبوں میں پیک کرنے والے کہتے ہیں کہ اس بحران کی وجہ سے ان کی مزدوری ۴۰-۵۰ فیصد کم ہو گئی ہے – یومیہ ۵۰۰-۶۰۰ روپے سے گھٹ کر ۲۵۰-۳۰۰ روپے

PHOTO • Muzamil Bhat

عبدالرشید، جو بڈگام کے ایک پرائیویٹ اسکول میں بس ڈرائیور ہیں، انہیں اگست سے کوئی تنخواہ نہیں ملی ہے، جب اسکول کو بند کر دیا گیا تھا۔ ’’میرے جیسا کام کرنے والا طبقہ کیسے گزر بسر کرے گا؟،‘‘ وہ سوال کرتے ہیں۔ ’’اسی لیے ہم یہاں آئے ہیں، تاکہ کچھ پیسہ کمایا جا سکے‘‘

PHOTO • Muzamil Bhat

بشیر احمد، جو بڈگام کے ہورو گاؤں کے ایک دوسرے اسکول میں ڈرائیور ہیں، انہیں بھی اگست سے اپنی تنخواہ نہیں ملی ہے۔ اسی لیے وہ بھی کچھ پیسے کمانے کی امید میں باغ میں آئے ہیں۔ ’’یہ وہ کام نہیں ہے جسے کرنے کی تربیت مجھے ملی ہے – ہم اسے بھیک مانگنے کے طور پر دیکھتے ہیں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’درختوں پر چڑھنے میں ہمیں خطرہ محسوس ہوتا ہے، پھر بھی ہم یہ کام کر رہے ہیں کیوں کہ ان حالات میں ہمارے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے‘‘

PHOTO • Muzamil Bhat

باسط احمد بھٹ نے جون میں دہرہ دون کے ایک کالج سے زولوجی (حیوانیات) میں گریجویشن مکمل کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ غیر یقینی کی صورتحال میں وہ کوئی نوکری نہیں تلاش کر سکتے یا حاصل کر سکتے۔ وہ اپنے والد کے باغ پر لوٹ آئے اور جس وقت میں اُن سے ملا تھا، تب وہ سیب اُتارنے میں مزدوروں کی مدد کر رہے تھے

PHOTO • Muzamil Bhat

کشمیر کے متعدد تاجروں نے مجھے بتایا کہ دہلی کے بازار میں کام کرنے والے تاجر انہیں انتہائی کم قیمت پر سیب فروخت کرنے کا دباؤ ڈال رہے ہیں، جس سے انہیں بھاری نقصان ہو رہا ہے۔ حکام کا جہاں یہ دعویٰ ہے کہ وہ سرکاری اسکیموں کے تحت سیب خرید رہے ہیں، لیکن تمام منڈیاں بند پڑی ہیں، جیسے کہ سری نگر کے باہری علاقے میں واقع یہ منڈی۔ یہ احتجاجوں (ہڑتال یا ’عوامی کرفیو‘) کے ساتھ ساتھ حکومت کے ذریعے نشان زد منڈی تک پیداوار کو لے جانے پر ملی ٹینٹوں یا نامعلوم بندوق برداروں کے حملے کے خوف کی وجہ سے ہو رہا ہے

(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)

Muzamil Bhat

முசாமில் பட், ஸ்ரீநகரை சேர்ந்த சுயாதீன புகைப்படக் கலைஞரும் பட இயக்குநரும் ஆவார். 2022ம் ஆண்டில் பாரியின் மானியப்பணியில் இருந்தார்.

Other stories by Muzamil Bhat
Translator : Qamar Siddique

கமார் சித்திக்கி, பாரியில் உருது மொழிபெயர்ப்பு ஆசிரியராக இருக்கிறார். அவர் தில்லியை சார்ந்த பத்திரிகையாளர் ஆவார்.

Other stories by Qamar Siddique