دسمبر ۲۰۱۶ میں جب میں لداخ کے لیہہ قصبے سے ۳۵ کلومیٹر دور واقع سنیمو گاؤں میں سیرنگ آنگ چُک سے ملنے گئی تھی، تو ۶۲ سال کے سیرنگ نے مجھ سے ہنستے ہوئے کہا تھا، ’’مجھے یقین ہے کہ اس راستے میں آپ کو گائے، گدھے اور کچھ کتے ہی ملے ہوں گے۔‘‘
تقریباً ۱۱۰۰ کی آبادی (مردم شماری ۲۰۱۱) والے اس چھوٹے سے گاؤں میں زیادہ تر گھر سردیوں میں بند پڑے رہتے ہیں۔ جب درجۂ حرارت صفر سے ۱۳ ڈگری سیلسیس سے نیچے چلا جاتا ہے، تو یہاں کے لوگ اپنے اہل خانہ کے ساتھ چنڈی گڑھ، جموں، دہلی اور یہاں تک کہ لیہہ میں رہنے کے لیے چلے جاتے ہیں۔ سیرنگ کہتے ہیں، ’’میرے جیسے کچھ ہی لوگ رہ جاتے ہیں، اور ساتھ میں مویشی ہوتے ہیں۔‘‘ ان کی بیوی اور تین بچے دور رہتے ہیں، جب کہ وہ ایک رشتہ دار کے گھر رہ کر ان کے کام کاج – عموماً گائے اور دزو (گائے اور یاک کا ہائبرڈ) کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
سیرنگ مجھے گرم لداخی چائے (گُر گُر چائے) دیتے ہیں، اور لکڑی کے ایک چھوٹے کٹورے میں اپنے لیے چانگ (جَو سے بنی مقامی شراب) ڈالتے ہیں؛ جیسے ہی وہ بیٹھنے لگے، بلی کے کچھ بچے ان کی گود میں کود پڑتے ہیں۔ انہیں سردیوں میں اکیلے رہنا پسند ہے۔ اس دوران وہ اپنا دھیان اُس چیز میں لگاتے ہیں جو انہیں بے حد پسند ہے – اور وہ ہے بُنائی۔
لداخ کی سردی سے مجھے سنیمو میں گزارے گئے بچپن کی یاد آتی ہے، میری ماں کا گھر، رشتہ داروں کا آپس میں ملنا اور رات کو بُکھاری (ہاتھ سینکنے کے لیے دھات سے بنی انگیٹھی) کے پاس بیٹھ کر دادی کی کہانیاں سننا۔ سات سال بعد، اُس دن سنیمو کی چڑھائی پر آگے بڑھتے ہوئے، نظر آ رہا ہے کہ لداخ کے گاؤوں میں کتنی تبدیلی آئی ہے۔ کبھی چہل پہل سے روشن رہنے والی گلیاں اور کھیت خالی پڑے ہیں، گاؤں بھی ویران ہی – اور صرف سردیوں میں نہیں – ایسا اس لیے ہے، کیوں کہ لوگ لیہہ اور دیگر قصبوں میں جا کر بس گئے ہیں۔ اُس دن پہاڑی پار کرتے ہوئے پورا علاقہ بے جان اور بنجر محسوس ہوا۔
سیرنگ اور ان کی بیوی کسان ہیں، اور گرمیوں کے زیادہ تر مہینوں میں اپنا وقت کھیتوں میں کام کرنے، لداخ کی بنیادی فصل ’جو‘ کی کھیتی کرنے، اور مویشی پروری میں گزارتے ہیں۔
جب سیرنگ کھیت میں کام نہیں کر رہے ہوتے، تو وہ بُنائی کرتے ہیں – وہ ایک ماہر اور مشہور بُنکر ہیں، جنہیں ’سنامبو‘ نام کے اونی کپڑے کو بنانے کے لیے کئی گاؤوں میں مدعو کیا جاتا ہے۔ گونچا یہاں کی ایک روایتی پوشاک ہے، جس کی سلائی کرنے کے لیے اس اونی کپڑے کا ایک رول لگتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بُنائی ان کا خاندانی پیشہ ہے۔ ’’مجھے یاد ہے کہ میرے والد بہت سخت مزاج تھے، جب انہوں نے مجھے بُنائی سکھائی۔ مجھے رونا آتا تھا جب میں باہر بچوں کے برف میں کھیلنے کی آوازیں سنتا تھا، جب کہ میں اونی دھاگے کی گانٹھ باندھ رہا ہوتا تھا، اور انگلیوں میں درد ہوتا تھا؛ کبھی کبھی خون بھی نکلتا تھا۔ آج مجھے اس خاندانی پیشہ کی قیمت کا احساس ہوتا ہے، جس سے ہماری اچھی خاصی کمائی ہو جاتی ہے۔‘‘
سیرنگ اپنے بیٹے کو سکھانے کی کوشش کرتے ہیں، جو کہ ۳۰ سال کی عمر میں ہے۔ ان کا بیٹا کبھی کبھی بُنائی کرتا ہے اور اس میں اچھا بھی ہے، لیکن بُنائی کو لے کر اپنے والد کی طرح پرجوش نہیں ہے۔ سیرنگ کہتے ہیں، ’’آج کل آپ بچوں کے ساتھ زیادہ سختی نہیں کر سکتے۔ انہیں لیہہ بازار میں گھومنا، موبائل فون میں گھسے رہنا زیادہ پسند ہے۔‘‘
سیرنگ کے والد ۴۰-تھو رول بُننے کے لیے ۲۰ یا ۳۰ روپے لیتے تھے، آج سیرنگ ۴۰-تھو کے لیے ۸۰۰ سے ۱۰۰۰ روپے لیتے ہیں۔ ’’میں اپنے بیٹے کو بتاتا ہوں کہ آنے والے سالوں میں اس سے اس کی بہت کمائی ہوگی۔ آج کل ’ثقافت کو بچانے‘ پر کافی زور ہے۔ کسی آدمی کی ترقی کے لیے تعلیم اور اسکول یقینی طور پر اہمیت رکھتے ہیں، لیکن اچھی کمائی کے لیے ہنر کا ہونا بہت ضروری ہے، جس سے آپ کی ایک پہچان بنتی ہے۔‘‘
انہوں نے مجھے اپنا روایتی کرگھا دکھایا، اس کے تمام حصے الگ الگ چیزوں سے بنے ہوئے ہیں۔ لداخ کے مقامی بڑھئی اِن کرگھوں کو مانگ کے مطابق بناتے ہیں۔ کرگھا لکڑی سے بنا ہوتا ہے، آرمی کی جیکٹ کے بٹن استعمال ہوتے ہیں؛ ساتھ میں، دھاگے کے رول والے حصے کو چرخی کی طرح لگایا جاتا ہے۔
سیرنگ سمجھاتے ہیں، ’’مقامی لکڑی کا استعمال کرگھے (تھاگشا) کے فریم (تھیشا) کے لیے کیا جاتا ہے، اور دھُری کے لیے کشتی کی شکل کے ہولڈر (رمبو) میں استعمال ہوتا ہے، جس سے افقی دھاگے کو کپڑے کے طور پر بُنا جاتا ہے۔ چھوٹے بانس جیسی پائپیں (پوری) ایک قسم کی گھاس ہوتی ہے، جو میٹھے پانی کے چشموں کے کنارے کافی مقدار میں پائی جاتی ہیں۔‘‘
بُنائی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ’’ایک ہوتا ہے عام بُنا کپڑا، جس میں سیدھی اور الٹھی سطحیں ہوتی ہیں؛ اور ایک پیچیدہ بُنائی ہوتی ہے – گیالوگ، جس میں بُنے ہوئے کپڑے کو دونوں طرف سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دونوں بُنائی کے درمیان کا فرق، پیر سے چلائے جانے والے پیڈل کے استعمال کے طریقے سے پیدا ہوتا ہے۔
ایک بُنا ہوا کپڑا تقریباً ۴۰-تھو لمبا ہوتا ہے (ایک ’تھو‘ کا مطلب کہنی سے لے کر درمیانی انگلی کے سرے تک کی لمبائی ہوتی ہے، جو تقریباً ایک فٹ ہوتی ہے) اور اس کی چوڑائی (اسے بھی ہاتھ سے ہی اور ’سور‘ کے طور پر ناپا جاتا ہے) تقریباً ایک فٹ کی ہوتی ہے۔ رنگے جانے پر کپڑا تھوڑا سکڑ جاتا ہے۔
سیرنگ بتاتے ہیں، ’’اگر مجھے کوئی اور کام نہ ہو، تو میں ایک دن میں ۴۰-تھو رول بُن سکتا ہوں، لیکن آپ کے کام کے گھنٹوں اور کام پورا کرنے کی تاریخ کے حساب سے اس میں تین سے چار دن لگ سکتے ہیں۔‘‘ گرمیوں کے مقابلے وہ سردیوں میں بُنائی کے کام سے زیادہ کمائی کرتے ہیں، کیوں کہ گرمیوں میں کھیتی میں ہی ان کا وقت اور توانائی چلی جاتی ہے۔ سال بھر ان کی آمدنی تبدیل ہوتی رہتی ہے، اور تین ہزار سے لے کر دس ہزار ماہانہ کے درمیان رہتی ہے۔
سیرنگ، درخت کی ایک سوکھی شاخ پر رکھے جوٹ کے بیگ پر بیٹھے ہیں، جس میں ان کی پیٹھ کو سہارا دینے کے لیے مٹی کی اینٹیں رکھی ہوئی ہیں۔ کرگھے پر کام کرتے ہوئے سب سے مشکل بات کیا لگتی ہے؟ ایسا موقع آتا ہی ہے جب ہر بار ایک عمودی دھاگہ (کل ۳۸۴ دھاگوں میں سے) ٹوٹ جاتا ہے، اور آپ کو یہ پتہ لگانا ہوتا ہے کہ یہ کہاں سے اور کب ٹوٹا، اور پھر اسے کیسے ٹھیک کیا جائے۔ اچھا کپڑا بننے کے لیے گانٹھ لگانے کا ہنر سیکھنا بہت ضروری ہے۔
سیرنگ عام طور پر جہاں بھی جاتے ہیں، اپنے کرگھے کو پیٹھ پر لے کر چلتے ہیں۔ ’’میرا کرگھا میرے سفر کو معنی دیتا ہے۔ میں دوستوں، رشتہ داروں، اور انجان لوگوں کے ساتھ ملتا جلتا ہوں اور پھر اس سے کمائی بھی ہوتی ہے۔ میں نے لوگوں کو جدید اور زیادہ پیچیدہ کرگھوں پر کام کرتے ہوئے، خوبصورت ڈیزائن بناتے ہوئے دیکھا ہے، لیکن میں اپنے کرگھے سے بہت خوش ہوں، کیوں کہ میں بہت دیر تک ایک ہی جگہ پر بیٹھے بیٹھے اوب جاتا ہوں۔ بُنائی کرنا میرا جنون ہے اور یہ کرگھا میرا پیار ہے۔ بُنائی میری زندگی کو با معنی بناتی ہے۔ یہ میرے اجداد سے ملا خزانہ ہے اور آنے والی نسلوں کے لیے میری وراثت ہے۔‘‘
گہرے فلسفیانہ نظریات والا یہ عام سا آدمی، ان ویران پہاڑوں میں زندگی کی علامت ہے۔ جاتے جاتے مجھے لگتا ہے کہ اس قسم کی زندگی اب بہت تیزی سے غائب ہو رہی ہے۔
مترجم: محمد قمر تبریز