دلیپ کولی کے لیے گزشتہ کچھ سال تمام قسم کی پریشانیوں سے بھرے رہے ہیں، جس میں سمندری طوفان، مچھلیوں کی تعداد میں کمی، کم ہوتی فروخت شامل ہے۔ لیکن، ان کے لیے مارچ ۲۰۲۰ میں شروع ہوا لاک ڈاؤن سب سے مشکل ثابت ہوا۔

جنوبی ممبئی کے کولابا علاقے میں واقع کولی واڑہ کے رہنے والے ۵۰ سالہ ماہی گیر دلیپ کہتے ہیں، ’’ہم نے جن پریشانیوں کا سامنا ماضی میں کیا تھا وہ پچھلے سال کے مقابلے آدھا تھا۔ لوگ مچھلی پکڑنے کے لیے تیار تھے، مچھلی کھانے والے لوگ بھی تھے، لیکن مچھلی کی فروخت نہیں ہو رہی تھی [لاک ڈاؤن کی وجہ سے، ستمبر ۲۰۲۰ تک]۔ بازار بند تھے اور ہمیں اپنی پکڑی ہوئی مچھلیاں واپس سمندر میں پھینکنی پڑیں۔‘‘

دلیپ، جنوبی ممبئی کی سسون بندرگاہ پر تقریباً ۳۵ سال سے کام کر رہے ہیں۔ وہ تین کشتیوں کے مالک ہیں اور ۸-۱۰ ماہی گیروں کو روزگار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’لاک ڈاؤن کے دوران ہم نے کسی طرح اپنے راشن کا انتظام کر لیا تھا، لیکن دوسرے غریب کولی ماہی گیروں کے پاس کھانا یا پیسے بھی نہیں تھے۔‘‘

ماہی گیر اپنے کام کی شروعات صبح ۴ بجے کے آس پاس کرتے ہیں، جس میں وہ مانسون کے مہینوں میں سمندری ساحل کے ارد گرد ہی ۴۰ منٹ کے کئی چکر لگاتے ہیں۔ جب لہر کا بہاؤ گھٹنا شروع ہوتا ہے، تو وہ تقریباً ایک گھنٹہ تک آرام کرتے ہیں اور پھر سمندر میں واپس آ جاتے ہیں۔ دلیپ کہتے ہیں، ’’ہم صبح جلدی کام شروع کرتے ہیں اور دوپہر ۲ یا ۳ بجے تک ختم کر دیتے ہیں۔ ہمیں چاند کے ذریعے گھٹتی بڑھتی لہروں کے بارے میں پتہ چلتا ہے۔ جب لہریں بہت کم یا بہت زیادہ ہوں، تو ہم مچھلی پکڑنے نہیں جاتے۔‘‘

ان کی کشتی پر کام کرنے والے کچھ ماہی گیر، جو کولی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، رائے گڑھ ضلع کے تالا تعلقہ کے ۱۰۴۰ کی آبادی (مردم شماری ۲۰۱۱) والے گاؤں واشی حویلی سے جنوبی ممبئی میں واقع سسون بندرگاہ تک تقریباً ۱۵۰ کلومیٹر کا سفر ٹرین یا سواڑی گاڑی سے طے کرتے ہیں۔ وہ جون سے اگست، گن پتی تہوار شروع ہونے سے پہلے تک کام کرتے ہیں۔ بقیہ مہینے وہ مہاراشٹر کے دیگر ساحلی حصوں میں گھومتے ہیں – خاص طور پر رتنا گیری اور رائے گڑھ ضلع میں – اور کسی دوسرے کی کشتیوں پر کام کرکے ہر مہینے ۱۰-۱۲ ہزار روپے کماتے ہیں۔

PHOTO • Shraddha Agarwal

رائے گڑھ ضلع کے گاؤں واشی حولی، جہاں خاص طور پر مچھلی پکڑنے کا کام ہوتا ہے، کے کولی ماہی گیر مانسون کے مہینوں کے دوران سسون بندرگاہ پر کام کرتے ہیں۔ کئی لوگ یہاں موسی بومبل (بامبے ڈک) کے لیے آتے ہیں۔ وہ اپنے دن کی شروعات صبح تقریباً ۴ بجے کرتے ہیں اور دوپہر ۲ یا ۳ بجے تک کام ختم کر دیتے ہیں

حالانکہ، گہرے سمندر میں جاکر مچھلی پکڑنے کے کام پر مئی کے آخر سے لیکر اگست کی شروعات تک پابندی رہتی ہیں، دلیپ بتاتے ہیں، ’’یہاں کریک فشنگ [ڈال نیٹ کے ساتھ] کی اجازت رہتی ہے۔ ہم یہ کام سالوں سے کر رہے ہیں۔ ہمارا کولابا کریک، بومبل [بامبے ڈک] کے لیے مشہور ہے اور یہ مچھلی یہاں صرف جون اور جولائی میں آتی ہے۔ مہاراشٹر کے چھوٹے چھوٹے گاؤوں کے ماہی گیر ہمارے بامبے ڈک کے لیے یہاں آتے ہیں۔ ۲-۳ مہینے کے لیے وہ کولابا کو اپنا گھر بنا لیتے ہیں۔ یہ اچھا بزنس ہے۔‘‘

واشی حویلی گاؤں کے پریئل دُری کہتے ہیں کہ سسون بندرگاہ میں ان مہینوں کے دوران، وہ اور دوسرے ماہی گیر فیصد حصہ داری کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’مچھلی پکڑنے سے ایک دن کے ہونے والے فائدہ کا آدھا حصہ کشتی کے مالک کو جاتا ہے اور باقی ہمارے درمیان تقسیم کر دیا جاتا ہے۔‘‘ پریئل نے پچھلے سال تین مہینے کے دوران اپنے والد کو کووڈ سے اور ماں کو لیوکیمیا کی وجہ سے کھو دیا۔ ۲۷ سالہ پریئل نے اپنی ۱۲ویں کلاس کی پڑھائی بھی بیچ میں ہی چھوڑ دی کیوں کہ ان کے مطابق، ’’ہمیں آئی (ماں) کے علاج کے لیے پیسے چاہیے تھے۔‘‘ اب وہ تقریباً ۱۰ سالوں سے مچھلی پکڑ رہے ہیں۔

انہوں نے آگے کہا، ’’مانسون کے دوران ہم ایک دن میں تقریباً ۷۰۰ روپے کماتے ہیں، لیکن پچھلے سال ہم نے ایک دن میں بہت مشکل سے ۵۰ روپے کمائے تھے۔ ہم کووڈ کی وجہ سے پورے ایک سال گھر میں بیٹھے رہے۔‘‘ کوئی کام نہیں ہونے کی وجہ سے، واشی حویلی گاؤں میں ماہی گیروں اور ان کے کنبوں کے پاس مئی ۲۰۲۰ تک راشن ختم ہونا شروع ہو گیا تھا۔ پریئل بتاتے ہیں، ’’ہم نے پاس کے ایک نالے سے جو مچھلیاں پکڑی تھیں، اس سے اپنا پیٹ بھرا، لیکن سمندری طوفان [نیسرگ] کے بعد، ہم مشکل سے ہی کھانا اور پانی کا انتظام کر پائے۔ ہم نے اتنا خراب وقت پہلے کبھی نہیں دیکھا جتنا خراب یہ سال [۲۰۲۰] گزرا۔‘‘

۳ جون، ۲۰۲۰ کو سمندری طوفان نیسرگ نے مہاراشٹر کے ساحلی علاقوں میں دستک دے دی تھی۔ پریئل کہتے ہیں، ’’ہمارے پا س ایک مہینہ تک بجلی یا فون کا کنیکشن نہیں تھا۔ ہمارے گھر پوری طرح سے تباہ ہو گئے اور ہمیں سرکار سے کوئی معاوضہ بھی نہیں ملا۔‘‘ انہیں دوستوں سے ۴۰ ہزار وپے گھر کی مرمت کے لیے قرض لینے پڑے، جس میں وہ اوران کے بڑے بھائی چندرکانت (یہ بھی ماہی گیر ہیں) رہتے ہیں۔

Dilip Koli holding a crab: “During a crisis, farmers at least get some compensation from the government. But fishermen don’t get anything even though farmers and fishermen are both like brothers.”
PHOTO • Shraddha Agarwal
Dilip Koli holding a crab: “During a crisis, farmers at least get some compensation from the government. But fishermen don’t get anything even though farmers and fishermen are both like brothers.”
PHOTO • Shraddha Agarwal

کیکڑا پکڑے ہوئے دلیپ کولی: ’کسی بحران کے دوران، کسانوں کو کم از کم سرکار سے کچھ معاوضہ ملتا ہے۔ لیکن، ماہی گیروں کو کچھ نہیں ملتا، جب کہ کسان اور ماہی گیر دونوں بھائی جیسے ہیں‘

اس کے بعد پھر ۱۴ مئی، ۲۰۲۱ کو سمندری طوفان تاؤتے آ گیا۔ دلیپ، جن کے تینوں بیٹے بھی ماہی گیر ہیں اور ان کی ۴۹ سالہ بیوی بھارتی، سسون بندرگاہ میں تھوک خریداروں کو مچھلی فروخت کرتی ہیں ( ماہی گیر کولی خواتین: بے مثال دوستی، روزمرہ کی جدوجہد )، کہتے ہیں، ’’ہماری کشتیاں اونچی لہروں میں ٹوٹ گئیں، ہمیں لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔ سرکار ہمیں صرف کچھ ہزار روپے دیکر، دوسروں کی نظروں میں اچھی نہیں بن سکتی۔ اس بات کو لیکر ماہی گیر ابھی بھی غصے میں ہیں۔ وہ ویسے بھی ہمارے، یعنی کولی ماہی گیروں کے لیے کچھ نہیں کرتے ہیں، لیکن ایسے سمندری طوفانوں کے دوران ہمیں پورا معاوضہ ملنا چاہیے۔‘‘

ان رکاوٹوں کے علاوہ، مچھلی پکڑنے کے کام میں بھی لگاتار گراوٹ آ رہی ہے۔ دلیپ کہتے ہیں، ’’جب میں چھوٹا تھا، تو مچھلی کی قیمت کم تھی، لیکن [کشتی کے لیے] ڈیزل کی قیمت بھی ۲۰ روپے فی لیٹر ہی تھی۔ اب ڈیزل کی قیمت تقریباً ۱۰۰ روپے فی لیٹر ہے اور مچھلیاں بھی کم پکڑی جا رہی ہیں۔‘‘

وہ کہتے ہیں کہ ماہی گیروں کے جال میں سرمئی، پومفریٹ، اور سارڈن جیسی کم پسند کی جانے والی مچھلیاں آتی ہیں۔ سنٹرول میرین فشریز ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق، ۲۰۱۹ میں مہاراشٹر کے ساحل پر پکڑ کر لائی جانے والی مچھلیوں کی تعداد (بندرگاہوں پر لائی جانے والی مچھلیوں) میں پچھلے سال کے مقابلے ۳۲ فیصد کی کمی آئی تھی۔ رپورٹ میں اس گراوٹ کی بنیاد اس سال ہندوستان اور اس کے آس پاس آئے سمندری طوفانوں کو بتایا گیا ہے، جن میں سے چھ بے حد خطرناک طوفان تھے۔

دلیپ کہتے ہیں، ’’ہمارا معاش پوری طرح سے قدرت پر منحصر ہے۔ اگر قدرت کا برتاؤ ہمارے لیے اچھا نہیں ہوگا، تو ہم اپنا کام اور زندگی دونوں کھو دیں گے۔‘‘

اور پھر، کووڈ۔۱۹ وبائی مرض آنے کے ساتھ، سسون بندرگاہ کے ماہی گیر اس طوفان کا بھی سامنا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

PHOTO • Shraddha Agarwal

۴۰ منٹ کی راؤنڈ ٹرپ میں، ماہی گیر مانسون کے مہینوں میں تقریباً ۴۰۰-۵۰۰ کلوگرام مچھلیاں پکڑتے ہیں اور ۱۰-۱۲ گھنٹوں کے اندر ایسے کئی چکر لگاتے ہیں

PHOTO • Shraddha Agarwal

ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ جیلی فش کو واپس سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے کیوں کہ یہ بدبودار ہوتی ہیں اور ہندوستان میں شاید ہی کوئی انہیں کھاتا ہے

PHOTO • Shraddha Agarwal

۳۴ سالہ رامناتھ کولی، جو ۱۰ سال سے زیادہ وقت سے مچھلی پکڑ رہے ہیں، جال میں پھنسے ایک سمندری سانپ کو پکڑے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’ہمیں دن رات کام کرنا پڑتا ہے۔ کام کرنے کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہے اور آمدنی بھی طے نہیں ہے‘

PHOTO • Shraddha Agarwal

۴۹ سالہ نارائن پاٹل کی تین چھوٹی بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، اور یہ سبھی واشی حویلی گاؤں کے ایک مقامی ضلع پریشد اسکول میں پڑھتے ہیں، جب کہ ان کی بیوی خاتون خانہ ہیں۔ وہ تقریباً ۲۰ سالوں سے مچھلیاں پکڑ رہے ہیں اور بتاتے ہیں، ’میں کبھی نہیں چاہتا کہ میرے بچے اس کام کو کریں‘

PHOTO • Shraddha Agarwal

ماہی گیر ایک بڑی پکڑ کی تلاش میں، سمندر میں اپنی اگلی منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں

PHOTO • Shraddha Agarwal

رامناتھ کولی پانی کے اندر غوطہ لگاتے ہیں اور جال کو آدھے میں بانٹ دیتے ہیں تاکہ مچھلیوں کا وزن یکساں طور پر تقسیم کیا جا سکے اور جال کو واپس کشتی میں کھینچنا آسان ہو جائے

PHOTO • Shraddha Agarwal

مچھلیوں سے بھرے جال کو پانی سے واپس کشتی میں کھینچنے کے لیے مشترکہ طاقت کی ضرورت پڑتی ہے

PHOTO • Shraddha Agarwal

وہ مچھلیوں سے بھرے جال کو کشتی کے ایک کونے میں خالی کر دیتے ہیں

PHOTO • Shraddha Agarwal

نوجوان لڑکوں والی ایک دوسری کشتی، ماہی گیروں کی طرف ہاتھ ہلاتے ہوئے بغل سے گزرتی ہے

PHOTO • Shraddha Agarwal

سمندری ساحل سے آس پاس کا ایک چکر لگانے میں تقریباً ۴۰ منٹ کا وقت لگتا ہے۔ ایک بار جب کشتی جیٹی پر واپس آتی ہے، تو جس جگہ خریدار ان کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں وہاں کچھ ماہی گیر اتر جاتے ہیں، اور کشتی میں موجود دیگر ماہی گیروں کو پلاسٹک کی بڑی ٹوکریاں دینا شروع کرتے ہیں

PHOTO • Shraddha Agarwal

۲۶ سالہ گورو کولی کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ سے ایک ماہی گیر بننا چاہتے تھے۔ انہوں نے ۱۲ویں کلاس تک پڑھائی کی ہے اور اس کے بعد سے اپنے والد دلیپ کولی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

PHOTO • Shraddha Agarwal

۱۹ سالہ ہرشد کولی (پیلی ٹی شرٹ میں آگے کی طرف) نے تین سال پہلے ۱۰ویں کلاس کی پڑھائی پوری کی اور تب سے مچھلی پکڑنے کا کام کر رہے ہیں۔ ان کی فیملی کے پاس واشی حویلی گاؤں میں ایک کشتی ہے، لیکن وہ کہتے ہیں، ’وہاں کوئی گاہک نہیں ہے، اس لیے میں یہاں [ممبئی میں] کام کرنے آتا ہوں‘

PHOTO • Shraddha Agarwal

خریدنے اور بیچنے والے لوگ جیٹی کے پاس کھڑے ہوکر، مچھلیوں کے ساتھ کشتیوں کے آنے کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں

PHOTO • Shraddha Agarwal

مچھلی فروخت کرنے والوں نے برف میں الگ الگ طرح کی مچھلیاں رکھی ہیں

PHOTO • Shraddha Agarwal

مچھلی بیچنے والے کچھ لوگ تھوک خریداروں کی تلاش میں پالگھر ضلع سے آئے ہیں

PHOTO • Shraddha Agarwal

سسون بندرگاہ کے ایک کھلے حصہ میں، خواتین ماہی گیر تازہ کولِم (چھوٹے جھینگوں) کو دھوپ میں خشک کرنے کے لیے پھیلاتی ہیں

PHOTO • Shraddha Agarwal

مہاراشٹر کے پالگھر ضلع کے ماہر مزدور، جون سے اگست کے درمیان ممبئی کی سسون بندرگاہ آتے ہیں اور مچھلی کے جال کی مرمت کا کام کرکے ایک دن میں ۵۰۰-۶۰۰ روپے کماتے ہیں

PHOTO • Shraddha Agarwal

کووڈ۔۱۹ وبائی مرض کے پھیلنے سے پہلے، سسون بندرگاہ پر صبح ۴ بجے ہی ماہی گیروں، مچھلی فروخت کرنے والوں، کشتی چلانے والوں، اور دیگر مزدوروں کی چہل پہل شروع ہو جاتی تھی۔ مارچ ۲۰۲۰ میں لاک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد سے یہاں بمشکل کوئی بھی بھیڑ دیکھی گئی ہے

مترجم: محمد قمر تبریز

Shraddha Agarwal

ஷ்ரத்தா அகர்வால் பீப்பில்’ஸ் ஆர்கைவ் ஆஃப் ரூரல் இந்தியாவில் செய்தியாளராகவும், உள்ளடக்க ஆசிரியராகவும் உள்ளார்.

Other stories by Shraddha Agarwal
Translator : Qamar Siddique

கமார் சித்திக்கி, பாரியில் உருது மொழிபெயர்ப்பு ஆசிரியராக இருக்கிறார். அவர் தில்லியை சார்ந்த பத்திரிகையாளர் ஆவார்.

Other stories by Qamar Siddique