یہاں سب سے بڑی چیز پلاسٹک ہے۔ یہ آپ کو مختلف شکلوں میں ہر جگہ نظر آ جائے گا – سڑکوں اور گلیوں میں بکھرا ہوا، پانی میں بہتا، بوریوں میں بھرا، ڈسٹ بن میں رکھا، چھتوں پر انبار کی شکل میں جمع کیا ہوا۔ اور جب قیمتی دھات والے حصے کو نکالنے کے لیے، سمندری خلیج (کریک) کے قریب واقع ۱۳ویں کمپاؤنڈ میں پلاسٹک کی چیزوں کو جلایا جاتا ہے، تو اس کا دھواں پوری فضا کو آلودہ کر دیتا ہے۔

ممبئی کے ہر کونے سے بے شمار پلاسٹک کے ٹوٹے پھوٹے سامان اور دوسرے کباڑ دھاراوی کے ری سائیکلنگ سیکٹر ’تیرہویں کمپاؤنڈ‘ میں مسلسل آتے رہتے ہیں۔ شہر میں پیدا ہونے والے ۱۰ ہزار ٹن سے بھی زیادہ کچرے کا ایک بڑا حصہ، ہر روز ٹرکوں اور ٹیمپو، یا ٹھیلے سے یہاں لایا جاتا ہے۔ ہندوستان کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر نوجوان مہاجر مزدور ان سامانوں کو یہاں کی بالکل تنگ گلیوں میں گاڑیوں پر لادتے یا اتارتے ہیں۔

بد رنگ اور بے ترتیب ٹن کی جھونپڑیوں میں، جن میں سے کئی میں چار خانے ہوتے ہیں، کئی مراحل سے گزرنے والی ری سائیکلنگ کی کارروائی لگاتار جا رہتی ہے۔ ہر ایک سامان کو اسمبلی لائن سے گزارا جاتا ہے، جو ایک آدمی سے دوسرے آدمی، ایک عمل سے دوسرے عمل کے مکمل ہونے کے بعد، آخر میں جا کر ایک ’نئے‘ خام مال یا کسی دوسرے تیار مال میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

تیرہ کمپاؤنڈ میں ری سائیکلنگ کا کام انتہائی منظم انداز سے چلتا ہے: یہاں پر خریدنے اور بیچنے کا بہت اچھا انتظام ہے، لوگ کام سے متعلق مخصوص اصطلاحوں کا استعمال کرتے ہیں، پروسیسنگ مرحلہ وار طریقے سے ہوتی ہے، اور ہر آدمی کو ایک یا ایک سے زیادہ کاموں میں مہارت حاصل ہے: ردّی والا (پورے شہر کے کباڑی) استعمال شدہ یا بیکار پڑے سامانوں کو جمع کرتا ہے، کچرا چننے والے اور پھیری والے روزانہ اکٹھا کیے گئے ان سامانوں کو ٹن کی جھونپڑیوں میں جمع کراتے ہیں۔ گاڑیوں کے ڈرائیور اور ہیلپر اس کے بعد ان سامانوں کو کانٹا والے کے پاس لے جاتے ہیں (جس کے پاس اسے تولنے کا ترازو ہوتا ہے)۔ اس کے بعد گوداموں کے مالک، سیٹھ کے پاس سارا مال پہنچایا جاتا ہے، جو ان کی نگرانی کے لیے سپروائزر رکھے ہوئے ہیں – اور ساتھ ہی ان کے پاس ہزاروں کام کے لیے مزدور ہوتے ہیں، جن میں مرد اور خواتین دونوں شامل ہیں۔

PHOTO • Sharmila Joshi
PHOTO • Sharmila Joshi

دھاراوی کے تیرہویں کمپاؤنڈ میں ری سائیکلنگ کا کام انتہائی منظم انداز سے چلتا ہے

مشینیں کھٹر پٹر کی آواز کرتی ہوئی اپنا کام لگاتار کرتی رہتی ہیں۔ دھاتوں کو جلا کر پگھلایا جاتا ہے، پھر اس سے فیکٹریوں میں دوبارہ استعمال کی جانے والی چادر (شیٹ) بنائی جاتی ہے۔ مزدور استعمال شدہ گتے کے ڈبوں کے اچھے حصے کو کاٹ کر گتے کے نئے ڈبے بناتے ہیں۔ پرانے جوتے چپل کے ربڑ کے تلووں (سول) کو چرنر میں ڈال دیا جاتا ہے۔ جیری کین (پلاسٹک کے بڑے ڈبے) کو صاف کرکے چھتوں پر اس کا بڑا سا انبار لگایا جاتا ہے۔ ۱۳ویں کمپاؤنڈ میں پرانے ریفرجریٹر اور واشنگ مشینوں کو کھول کر ان کے پرزے الگ کیے جاتے ہیں، اور دھات اور پلاسٹک والے حصوں کو ری سائیکل کے لیے آگے بھیج دیا جاتا ہے۔ کمپیوٹر کے کی بورڈ کھولے جاتے ہیں، پرانے فرنیچر کو پوری طرح توڑا جاتا ہے یا اس کی مرمت کی جاتی ہے، تیل اور رنگوں کے خالی بیرل (کنٹینر) کو صاف کرکے انہیں دوبارہ استعمال کے لیے بھیج دیا جاتا ہے، جب کہ ان کی زہریلی باقیات کو کھلے نالوں میں بہا دیا جاتا ہے۔

کچھ گوداموں میں، یہ مزدور پلاسٹک کے سامانوں کو ان کی کوالٹی، سائز اور قسم کے حساب سے چھانٹتے ہیں – جیسے کہ بوتل، بالٹی، باکس وغیرہ۔ ان کی چھنٹائی کرکے انہیں الگ الگ رکھا جاتا ہے، دھوکر صاف کیا جاتا ہے، اور ٹن کی کچھ جھونپڑیوں میں انہیں چھرّوں اور ٹکیوں کی شکل میں ڈھال دیا جاتا ہے۔ بعد میں یہ چھرّے اور ٹکیہ کم تر درجے کے پلاسٹک بنانے کے کام آتے ہیں۔ انہیں بوریوں میں بھر کر ٹیمپو اور ٹرکوں میں لادنے کے بعد ری سائیکلنگ کی اگلی کارروائی کے لیے آگے بھیج دیا جاتا ہے – لگتا ہے اس مزدور (کور فوٹو میں) اور اس کی ٹیم نے فی الحال اپنے حصے کا کام مکمل کر لیا ہے۔

یہاں کے ایک مزدور نے ایک بار مجھ سے کہا تھا، ’’کیا آپ نے ایسا کوئی اور گاؤں دیکھا ہے؟ یہاں پر آپ کو ہر چیز مل سکتی ہے۔ یہاں پر آنے والے ہر شخص کو کوئی نہ کوئی کام ضرور مل جاتا ہے۔ یہاں کوئی بھی کبھی بھوکا نہیں سوتا۔‘‘

حالانکہ، گزشتہ دہائی میں دھاراوی کے کئی گوداموں کو بڑھتی ہوئی قیمتوں اور ترقی کے نئے منصوبوں کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ری سائیکلنگ کا کام کرنے کے لیے ممبئی کے شمالی کنارے پر واقع نالاسوپارہ اور وسئی جیسی دوسری جگہوں پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ تقریباً ایک میل کے رقبہ پر محیط وسطی ممبئی کے دھاراوائی علاقے کو دوبارہ بنانے کے منصوبے پر کئی سالوں سے کام چل رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو کچرے کے شعبہ سے جڑا کاروبار اور لمبے عرصے سے یہاں محنت مزدوری کرنے والے لوگوں کو دھیرے دھیرے یہ جگہ چھوڑنی پڑے گی۔ تب اُن کا شہری ’گاؤں‘ بلند و بالا عمارتوں کے لیے راہ ہموار کرنے لگے گا۔

مترجم: محمد قمر تبریز

Sharmila Joshi

ஷர்மிளா ஜோஷி, PARI-ன் முன்னாள் நிர்வாக ஆசிரியர் மற்றும் எழுத்தாளர். அவ்வப்போது கற்பிக்கும் பணியும் செய்கிறார்.

Other stories by Sharmila Joshi
Translator : Qamar Siddique

கமார் சித்திக்கி, பாரியில் உருது மொழிபெயர்ப்பு ஆசிரியராக இருக்கிறார். அவர் தில்லியை சார்ந்த பத்திரிகையாளர் ஆவார்.

Other stories by Qamar Siddique