’’کچھ سال پہلے سب کچھ الگ تھا،‘‘ سری نگر کے لال چوک میں اپنی دکان پر بیٹھے نیاز احمد نے کہا۔ پشمینہ شال کی مانگ بہت تھی، اور نیاز اور دیگر دکاندار پورے ہندوستان کے ساتھ ساتھ بیرونی ممالک میں بھی شال بیچ کر منافع کما سکتے تھے۔
فروری ۲۰۱۶ میں، میں نے چنگتھانگی بکریوں سے لے کر خوردہ دکانوں تک پشمینہ شال کا پتہ لگانا شروع کیا؛ مجھے قدیم ہندوستانی تجارتی راستوں کی تاریخ میں دلچسپی ہے، جس نے ہندوستان کو وسطی ایشیا سے جوڑ دیا تھا۔ پشمینہ اور ریشم اس راستے پر بیش قیمتی اشیاء تھیں۔
چنگتھانگی بکریوں کی پرورش مشرقی لداخ میں ہند-چین سرحد کے پاس تبتی پٹھار کی ایک مغربی توسیع، چنگتھانگ علاقے میں خانہ بدوش چنگپا چرواہوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ تقریباً ۴۰۰۰ سے ۵۰۰۰ میٹر کی اونچائی پر، یہ ایک مشکل ترین رہائش گاہ ہے۔ اپنے جانوروں – بھیڑ، پشمینہ بکریوں، کچھ پہاڑی بیلوں – کے لیے چراگاہوں کی تلاش اور ستمبر کے آخر سے مئی تک لمبی سردیاں یہاں کی زندگی کو مشکل بناتی ہیں۔ ایندھن جمع کرنا، بچوں کی دیکھ بھال، کھانا پکانا، پشمینہ دھاگے کی کتائی – کام کے دن لمبے ہوتے ہیں۔
ہر ایک چنگپا فیملی میں کم از کم ۸۰-۱۰۰ جانور ہوتے ہیں، زیادہ تر کے پاس ۱۰۰-۱۵۰ ہوتے ہیں، کچھ لوگوں کے پاس تو ۳۰۰ سے زیادہ مویشی ہوتے ہیں؛ عام طور پر بکریوں اور بھیڑوں کی تعداد برابر ہوتی ہے۔ ایک چنگتھانگی بکری سے ایک فیملی کو ہر سال ۲۰۰-۳۰۰ گرام خام پشمینہ مل سکتی ہے۔
مارچ ۲۰۱۶ کی ایک سرد صبح کو میری ملاقات بینسن چھیرنگ سے ہوئی، جو جنوب مشرقی چنگتھانگ میں، ہنلے اور چُمور قصبوں کے درمیان اپنے ریوڑ کی قیادت کر رہے تھے۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ لیہہ کی کوآپریٹو سوسائٹی – آل چنگتھانگ پشمینہ گروورس کوآپریٹو مارکیٹنگ سوسائٹی، جو ریاست کے ذریعہ چلائی جا رہی لداخ ہل ڈیولپمنٹ کاؤنسل کے منسلک ہیں – سیدھے چرواہوں سے ایک متعینہ قیمت پر خام پشمینہ خریدتی ہے، اور پرانے بچولیوں کو درمیان سے ہٹا دیتی ہے جو اکثر مناسب قیمت نہیں دیتے تھے۔ کوآپریٹو سوسائٹی اب ایک کلو خام پشمینہ کے ۲۵۰۰ روپے سے ۲۷۰۰ روپے تک دیتی ہے۔ کم ہوتی مانگ کے سبب پچھلے ۴-۵ سالوں میں یہ قیمت بہت زیادہ نہیں بڑھی ہے۔ پنجاب اور دیگر ریاستوں سے بازار کے اندر بھاری مقدار میں غیر پشمینہ شال اور اونی ملبوسات کے آنے سے اس تجارت پر اثر پڑا ہے۔
ہنلے سے تقریباً ۴۰ کلومیٹر دور، میں پیما چاکیٹ سے بھی ملا۔ پیما کے چھ بچوں میں سے صرف ان کی سب سے بڑی بیٹی، ۲۳ سالہ ڈیچن، اپنی فیملی کی طرزِ زندگی کو جاری رکھنا چاہتی ہے۔ ’’وہ ہماری علم بردار ہے،‘‘ پیما نے کہا اور بتایا کہ اسے اپنے جانوروں اور دیہی زندگی سے بہت پیار ہے۔
لیکن کئی چنگپا دھیرے دھیرے اپنے خیموں اور جانوروں کو بیچ رہے ہیں اور دیگر پیشوں کی جانب یا لیہہ جا رہے ہیں۔ پیما کا بڑا بیٹا ایک ٹرک ڈرائیور ہے، دوسرا بیٹا سڑک تعمیراتی مقامات پر قلی ہے، ایک بیٹی لیہہ کے ایک دفتر میں کام کرتی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ان کے کنبوں کے سبھی ارکان، جو شہروں میں ہیں آسان زندگی بسر کر رہے ہیں۔‘‘
لیہہ میں، میں کشمیری تاجروں سے ملا جو کوآپریٹو سوسائٹی سے ۸۰۰۰-۹۰۰۰ روپے فی کلو خام پشمینہ خرید رہے تھے، کوالٹی اور ڈیمانڈ کی بنیاد پر کبھی کبھی ۲۰ ہزار روپے تک میں۔ دھاگے کی لمبائی جتنی بڑی اور قطر جتنا چھوٹا ہوتا ہے، کوالٹی اتنی ہی بہتر ہوتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ مشرقی لداخ کی پشمینہ بہترین مانی جاتی ہے۔
میں لیہہ میں اسٹینزن ڈولما سے بھی ملا۔ انھوں نے ہاتھ سے کاتنا بند کر دیا تھا۔ ’’ہمارا کام دھیرے دھیرے بجلی کے کرگھوں [یعنی کتائی مشینوں] کی جانب جھک رہا ہے،‘‘ انھوں نے آہ بھرتے ہوئے کہا۔ انھیں لگا کہ وہ مشینوں سے مقابلہ کرنے کے لیے اپنے ہاتھوں کو تیزی سے نہیں چلا سکتیں۔ خام پشمینہ کو دھاگے میں بدلنے کے لیے استعمال کیے جانے والے روایتی کتائی کے پہیے (مقام طور پر اسے یینڈر کہا جاتا ہے)، اب ان کنبوں کی ملکیت والی زیادہ لاگت والی کتائی مشینوں کے ساتھ مقابلہ آرائی کر رہے ہیں جو انھیں خرید سکتے ہیں۔ پرانے سری نگر (بنیادی طور سے نوہٹہ اور رینواری علاقوں میں) کی تنگ گلیوں میں، میں نے لگاتار ان مشینوں کے چلنے کی آوازیں سنیں۔
ایک بار بُنے جانے کے بعد، پشمینہ شال کو سری نگر کی ورکشاپ میں ہاتھ سے رنگا جاتا ہے۔ رنگائی کرنے والے فی شال ۱۵۰-۲۰۰ روپے کماتے ہیں (اور ساتھ ہی دیگر اونی ملبوسات پر کام کرتے ہوئے ہر ماہ ۱۵-۲۰ ہزار روپے تک کما سکتے ہیں)۔ پھر یہ ورکشاپس رنگے ہوئے شالوں کو دھلائی کے لیے جہلم ندی کے کناروں پر بھیج دیتی ہیں۔
اگلا قدم ہے شال پر عام طور سے ہاتھ سے ڈیزائن کرنا، جو کہ نسلوں پرانا فن ہے۔ سری نگر ضلع کے گاندربل بلاک میں، اور بارہمولہ ضلع کی بانڈی پورہ اور سوپور تحصیلوں میں، پشمینہ شال پر سوئی سے کشیدہ کاری کئی کاریگروں کے لیے ذریعہ معاش ہے۔ وہ مشکل پیٹرن کی بُنائی کرنے کے لیے اون کے دھاگے استعمال کرتے ہیں۔ سوئی سے کشیدہ کاری کرنے میں ریشم کے دھاگے کا استعمال شاید ہی کبھی کیا جاتا ہے، اور اس قسم کے شال کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔
’’ہم ایک دن میں ۴-۵ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کر سکتے، اس سے آنکھوں میں درد ہوتا ہے،‘‘ اپنی عمر کے ۵۰ویں سال میں چل رہے ایک کاریگر، نظیر احمد نے مجھے گاندربل میں بتایا۔ سوئی سے کشیدہ کاری چونکہ دن بھر نہیں کی جا سکتی، اس لیے بہت سے کاریگر زرعی مزدوری کرکے بھی اپنی آمدنی دو گنی کرتے ہیں۔ احمد نے بتایا کہ انھوں نے، ڈیزائن کی بنیاد پر، پشمینہ ہول سیلرز سے ایک دن میں ۲۰۰-۳۰۰ روپے کمائے۔ ’’یہ قدرتی طور پر ہمارے پاس آتا ہے۔ ہم کمپیوٹر کو مات دے سکتے ہیں...‘‘ انھوں نے کہا۔
پھر کشیدہ کاری یا ہاتھ سے بلاک ڈیزائن والی شال کو سری نگر میں ہول سیلرز کے پاس لے جایا جاتا ہے، جو انھیں سری نگر، دیگر ہندوستانی شہروں یا بیرونی ممالک میں خوردہ فروشوں کو بیچتے ہیں۔
نومبر ۲۰۱۸ میں، میں نیاز احمد سے ان کے لال چوک کی دکان پر دوبارہ ملا۔ انھوں نے مجھ سے کہا، ’’شال جتنی دور پہنچتی ہے، اس کی قیمت اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ [شال پر] زیادہ ڈیزائن کا مطلب ہے زیادہ وقت اور زیادہ قیمت۔ پیٹرن سے ایک شال کی قیمت ایک لاکھ سے لے کر ۵-۶ لاکھ روپے تک ہوگی، جب کہ سادے شال کی قیمت ۱۰ ہزار روپے اور بارڈر والی شالوں کی قیمت ۳۰-۴۰ ہزار روپے تک ہو سکتی ہے۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)