تقریباً ہر سال، جہاں تک کسی کو یاد ہے، ہوڑہ، مغربی بنگال کے مکردہ گاؤں کی پُربنّا پارہ برادری ٹوبری پروتی جوگیا یا سب سے چمکدار اور بڑی اور زیادہ دیر تک جلنے والی پھلجھڑی بنانے کا مقابلہ کرواتی ہے۔ ٹوبری ایک طرح کا پٹاخہ ہے جو کرسمس کے درخت کی طرح نظر آتا ہے، اسے ایک طرح سے رومن کینڈل کہا جا سکتا ہے، لیکن مغربی دنیا میں اس کا کوئی مماثل نہیں ہے۔ بنگال میں، گاؤں میں رہنے والے جو لوگ اس فن کے ماہر ہیں وہ کالی پوجا یا دیوالی کی مقامی شکل کے موقع پر اپنے بھتیجوں اور دیگر لڑکوں کو، دیگر پٹاخوں کے ساتھ ساتھ ٹوبری بنانا سکھاتے ہیں۔ یہ مقابلہ عام طور پر دیوالی کے ایک یا دو ہفتے بعد ہوتا ہے، جو کہ روشنی کے تہوار کی توسیع ہے۔
شام کے وقت، پُر بنّا پارہ کے وسطی دالان کو، جہاں تمام تہوار منائے جاتے ہیں، بانس کے دو ٹکڑوں کو آپس میں باندھ کر کھڑا کیا جاتا ہے۔ ایک دوسرا بانس مقابلہ والی پھلجھڑی کی لمبائی کو ناپنے کے کام آتا ہے، جس کی اونچائی ۷۰ فیٹ تک ہو سکتی ہے۔
جیسے جیسے اندھیرا ہوتا ہے، ہر کھڑی کے کونے اور دیوار کے اوپر سے سامعین کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔
جشن اس وقت شروع ہوتا ہے، جب جوان اور نوجواں دل افراد مقابلہ میں حصہ لینے کے لیے رنگ برنگے کپڑوں میں ملبوس ہو کر وہاں پہنچ جاتے ہیں۔
دریں اثنا، ٹوبری بنانے والی ٹیمیں، جس میں جنوبی بنگال کے دوسرے گاؤں کی دو ٹیمیں بھی شامل ہیں، آ چکی ہیں اور گاؤں کے الگ الگ چھپے ہوئے کونے میں مقابلہ سے متعلق اپنے سامان کو آپس میں جوڑ رہی ہیں۔ ٹوبری میں سلپیٹر، سلفر اور چارکول کا پاؤڈر ملا ہوتا ہے، جسے لوہے کے چورے کے ساتھ ملا کر مٹی کے پکی ہوئی گول کٹوری میں رکھا جاتا ہے۔ اس کے اوپری حصہ میں ایک چھوٹا سا سوراخ پاؤڈر کو جلانے میں مدد کرتا ہے۔ ہر ٹیم کے پاس پاؤڈر وغیرہ کے وزن اور اس میں شامل مرکبات کا ایک خفیہ فارمولہ ہوتا ہے، جس کے اچھے نتائج کے لیے تازہ تازہ بنانا پڑتا ہے۔
مقامی فیکٹریوں میں چونکہ دھات کے چورے چونکہ بڑی مقدار میں مل جاتے ہیں، اس لیے پٹاخہ بنانے والے ان کا بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک ٹیم کے بارے میں پتہ چلا کہ اس نے سرمے کا استعمال کیا ہے۔ المونیم کے چورے بھی عام ہیں، جو کہ لوہے کے برادوں کا متبادل ہوتے ہیں۔ (لوہے کے جلنے سے پیلے رنگ کی روشنی نکلتی ہے، جب کہ المونیم کے جلنے سے بالکل سفید رنگ کی روشنی نکلتی ہے، جو کہ خوبصورت ہو سکتی ہے؛ لیکن المونیم جلتی ہوئی ٹوبری کی اونچائی اور مدت کو کم بھی کر دیتا ہے۔)
تاہم، سبھی ٹیموں کو مٹی کی بند پیالی ایک ہی کمہار سے خریدنی پڑتی ہے اور وہ بھی ایسی جو شدید گرمی اور دباؤ کو برداشت کر سکے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ وہی کمہار ہو کو اس روایت کی جان ہو۔
ایک ٹیم نے اپنے سامانوں کو باہم جوڑنے کے لیے گاؤں کے شیو مندر کے پیچھے کا حصہ چُنا ہے، جس کے سامنے والے حصے کو اس موقع پر سجایا گیا ہے۔ پاؤڈر کو پیسا جاتا ہے، باہم ملایا جاتا ہے، اور پھر اس برتن یا پیالی میں ٹھونسا جاتا ہے، جس کا قُطر چار انچ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔
ایک مقابل ٹیم نے پُربنّا پارہ کے گھروں میں سے ایک میں جگہ پائی ہے۔
مقابلہ کے لیے اس کی دو مکمل انٹریز میں سے ایک کو جیت ملے گی۔
نومبر ۲۰۱۳ کی اس رات میں، ۱۲۴ ٹوبریاں پھوٹیں گی۔ باہر سے آنے والی دوسری ٹیم، جو مندر کے پیچھے ہے، وہ بھی چند ہزار روپے بطور انعام اپنے گھر لے جائے گی۔ انعام کی یہ رقم ایک مقامی کاروباری نے عطیہ کی ہے۔
مقابلہ کا آغاز ایک ٹوبری یا پھلجھڑی جلانے سے ہوتا ہے۔ پٹاخہ دائرہ کار دھاتی فریم میں سیٹ کیا جاتا ہے، جسے ڈیزائن کرکے ایک مقامی انجینئر نے تیار کیا ہے، تاکہ جب یہ پھوٹے تو وہاں موجود مقامی لوگوں کو اس کی چنگاری سے کوئی زخم نہ آئے، جو کہ یہاں اکثر ہوتا ہے (دائیں)۔
ایک ٹوبری دالان میں آسمان کو چھوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
ایک چھت کے اوپر ٹوبری کی روشنی میں بیٹھے ہوئے جج پٹاخہ کی اونچائی اور دیگر چیزوں کی جانچ کرتے ہیں۔ وہ گرتی ہوئی چنگاری سے خود کو بچانے کے لیے اپنے سروں پر ٹوپیاں پہنتے ہیں۔
نیچے کی طرف، ایک باپ اور بیٹی دھماکہ دار اور تیز روشنی والی ٹوبری کے مزے لے رہے ہیں۔۔۔
۔۔ اور جب اس میں زور کا دھماکہ ہوتا ہے، تو ان کے بدن میں جھرجھری آ جاتی ہے۔
پرجوش سامعین بجھتی ہوئی ٹوبری کی پیروں میں گرنے والی چنگاریوں سے بے خبر ہیں۔
آدھی رات کے بعد مقابلہ جب ختم ہو جاتا ہے اور انعامات تقسیم کر دیے جاتے ہیں، تو آرگنائزر گروپ فوٹو کھنچواتے ہیں۔ باہر سے آنے والی ٹیمیں کافی پہلے روانہ ہو چکی ہیں، انھوں نے اپنے انعامات بھی نہیں لیے، کیوں کہ دیر رات میں اگر پولس نے ان کی کرایے والی کار کو روک لیا اور انھوں نے اس میں دھماکہ خیز مادوں کی بو سونگھ لی، تو یہ لوگ مصیبت میں پھنس سکتے ہیں۔
اگلے سال تک کے لیے!
مصنف : مدھوشری مکھرجی اور ان کے دیگر دوست