مہاراشٹر کے ناسک ضلع کی رہنے والی پارو کو اس کے والد نے سال ۲۰۱۹ میں بھیڑ چرانے کے کام میں اس وقت لگا دیا تھا جب وہ صرف سات سال کی تھی۔
تین سال کے بعد، اگست ۲۰۲۲ کے آخر میں ایک دن اس کے والدین نے دیکھا کہ وہ ان کی جھونپڑی کے باہر پڑی ہوئی ہے۔ وہ بیہوش تھی اور ایک کمبل میں لپٹی ہوئی تھی۔ اس کی گردن کے اوپر گلا گھونٹنے کے نشان تھے۔
پارو کی ماں، سویتا بائی نے اپنے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے بتایا، ’’اس کے منہ سے آخری سانس تک ایک بھی لفظ نہیں نکلا۔ ہم اس سے یہ پوچھنے کی کوشش کرتے رہے کہ کیا ہوا ہے، لیکن وہ کچھ بھی بول نہیں پائی۔‘‘ سویتا بائی نے مزید کہا، ’’ہم نے سوچا کہ کسی نے اس کے اوپر کالا جادو کر دیا ہے۔ اس لیے ہم اسے پاس کی مورا پہاڑیوں میں واقع ایک مندر میں لے گئے [جو کہ ممبئی-ناسک شاہراہ کے کنارے ہے]۔ پجاری نے اس کے بدن پر انگارہ [مقدس راکھ] لگایا۔ ہم لوگ انتظار کرتے رہے کہ شاید اسے ہوش آ جائے گا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔‘‘ پانچ دنوں کے بعد، یعنی ۲ ستمبر ۲۰۲۲ کو ناسک شہر کے سول اسپتال میں زخموں کی وجہ سے پارو کی موت ہو گئی۔
گھر سے جانے کے بعد، پارو نے تین سالوں میں صرف ایک بار اپنی فیملی سے ملاقات کی تھی۔ جو بچولیا اسے گھر سے لے کر گیا تھا، وہ ڈیڑھ سال پہلے اسے اس کی فیملی سے ملانے کے لیے لے کر آیا تھا۔ جس دن پارو اپنے گھر کے باہر بیہوش پڑی ہوئی ملی تھی، اس کے ایک دن بعد اُس بچولیے کے خلاف پولیس کو درج کرائی گئی شکایت میں سویتا بائی نے کہا تھا، ’’وہ ہمارے ساتھ سات سے آٹھ دن تک رہی۔ آٹھویں دن کے بعد، وہ [بچولیا] آیا اور اسے دوبارہ لے کر چلا گیا۔‘‘
ناسک ضلع کے گھوٹی پولیس اسٹیشن میں اس آدمی [بچولیا] کے خلاف جان سے مارنے کی کوشش کا ایک معاملہ درج کیا گیا۔ بندھوا مزدوروں کو چھڑانے میں مدد کرنے والی ایک تنظیم، شرم جیوی سنگٹھن کے ناسک ضلع کے صدر، سنجے شندے بتاتے ہیں، ’’بعد میں اس کے اوپر قتل کا مقدمہ درج ہوا، پھر اسے گرفتار کیا گیا، اور کچھ دنوں بعد ضمانت پر چھوڑ دیا گیا۔‘‘ ستمبر میں، احمد نگر (وہ ضلع جہاں پارو بھیڑ کو چرانے کا کام کرتی تھی) کے چار گلہ بانوں کے خلاف بندھوا مزدوری نظام (امتناع) قانون، ۱۹۷۶ بندھوا مزدوری نظام (امتناع) قانون کے تحت شکایت درج کرائی گئی تھی۔
سویتا بائی کو وہ دن اچھی طرح یاد تھا جب ممبئی-ناسک شاہراہ کے قریب واقع کاتکری آدیواسیوں کی ان کی بستی میں وہ بچولیا آیا تھا۔ انہوں نے بتایا، ’’اس نے میرے شوہر کو شراب پلائی، ۳۰۰۰ روپے دیے، اور پارو کو اپنے ساتھ لے کر چلا گیا۔‘‘
سویتا بائی کا مزید کہنا تھا، ’’جس عمر میں اسے پنسل سے لکھنا شروع کرنا چاہیے تھا، اس عمر میں اسے تیز دھوپ میں خالی پڑے میدانوں کی خاک چھاننی پڑی۔ وہ تین سالوں تک بندھوا کے طور پر بچہ مزدوری کرتی رہی۔‘‘
پارو کے بھائی موہن کو بھی سات سال کی عمر میں ہی کام پر لگا دیا گیا تھا۔ اس کے لیے بھی اس کے والد نے ۳۰۰۰ روپے لیے تھے۔ اب موہن ۱۰ سال کا ہو چکا ہے، اور گلہ بان کے ساتھ کام کرنے کے اپنے تجربے کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے، ’’میں بھیڑ بکریوں کو چرانے کے لیے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک جاتا تھا۔ اس کے پاس ۶۰-۵۰ بھیڑ، ۶-۵ بکریاں اور دوسرے مویشی تھے۔‘‘ سال میں ایک بار، وہ موہن کو ایک شرٹ، ایک فل پینٹ، ایک ہاف پینٹ، ایک رومال اور چپل خرید کر دے دیا کرتا تھا – اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیتا تھا۔ کبھی کبھی موہن کو ۵ یا ۱۰ روپے پکڑا دیے جاتے تھے، تاکہ وہ کھانے کے لیے کچھ خرید سکے۔ ’’کام نہیں کرنے پر، سیٹھ [بھیڑ کا مالک] مجھے مارتا تھا۔ میں نے اسے کئی بار کہا کہ مجھے گھر بھیج دے۔ وہ کہتا ’میں تمہارے پاپا کو بلاؤں گا،‘ لیکن اس نے کبھی نہیں بلایا۔‘‘
اپنی بہن کی طرح، موہن کو بھی تین سالوں میں صرف ایک بار ہی اپنی فیملی سے ملنے دیا گیا۔ اس کی ماں، سویتا بائی نے بتایا، ’’اس کا سیٹھ اسے ہمارے گھر پر لے کر آیا اور اگلے ہی دن واپس لے کر چلا گیا۔‘‘ اگلی بار جب انہوں نے اسے دیکھا، تو وہ ان کی زبان بھی بھول چکا تھا۔ ’’اس نے ہمیں پہچانا تک نہیں۔‘‘
کاتکری آدیواسیوں کی اسی بستی میں رہنے والی ریما بائی نے کہا، ’’میری فیملی میں کسی کے بھی پاس کرنے کے لیے کوئی کام نہیں تھا، اور نہ ہی کھانے کے لیے کچھ تھا۔ اس لیے ہم نے اپنے بچوں کو بھیج دیا۔ ریما بائی کے دو بیٹوں کو بھی بھیڑ چرانے کے کام پر لگا دیا گیا تھا۔ ’’ہم نے سوچا کہ کام کرکے وہ اپنا پیٹ اچھی طرح بھر پائیں گے۔‘‘
ایک بچولیا ان بچوں کو ریما بائی کے گھر سے لے گیا اور احمد نگر ضلع کے پارنیر بلاک کے گلہ بانوں کے ساتھ مویشی چرانے کے کام پر لگا دیا۔ اس کام میں دونوں طرف سے پیسے کا لین دین ہوا – بچولیے نے بچوں کو لے جانے کے لیے ان کے ماں باپ کو پیسے دیے اور گلہ بانوں نے اس قسم کے کام کے لیے ان بچوں کو اس کے پاس پہنچانے کے بدلے بچولیے کو پیسے دیے۔ کچھ معاملوں میں، اس کام کے بدلے بھیڑ یا بکری دینے کا بھی وعدہ کیا جاتا ہے۔
ریما بائی کے بیٹے پارنیر میں تین سال رہے۔ انہیں بھیڑوں کو چرانے اور کھلانے کے علاوہ، کنویں سے پانی لانے، کپڑے دھونے اور مویشیوں کے باڑے کی صفائی کا کام بھی کرنا پڑتا تھا۔ اس درمیان انہیں صرف ایک بار اپنے گھر جانے کی اجازت ملتی تھی۔
چھوٹے بیٹے، ایکناتھ نے بتایا کہ اگر وہ صبح میں ۵ بجے سو کر نہیں اٹھتا تھا تو اس کی پٹائی کی جاتی تھی۔ اس نے پاری کو بتایا، ’’سیٹھ مجھے پیٹھ پر اور پیروں پر مارتا تھا، اور گندے الفاظ استعمال کرتا تھا۔ وہ ہمیں بھوکا رکھتا تھا۔ اگر بھیڑ کبھی کسی کھیت میں چلی جاتی تھی تو کسان اور [بھیڑ کا] مالک، دونوں ہی ہمیں مارتے تھے۔ ہمیں دیر رات تک کام کرنا پڑتا تھا۔‘‘ ایکناتھ نے یہ بھی بتایا کہ ایک بار کتے نے اس کے بائیں ہاتھ اور ٹانگ پر کاٹ لیا تھا، لیکن اس کا کوئی علاج نہیں کرایا گیا اور اس حالت میں بھی اسے مویشیوں کو چرانا پڑتا تھا۔
ریما بائی اور سویتا بائی، دونوں ہی کے کنبے کاتکری آدیواسی برادری سے تعلق رکھتے ہیں، جن کا شمار مہاراشٹر کے خصوصی طور پر کمزور قبائلی گروپ میں ہوتا ہے۔ ان کے پاس اپنی کوئی زمین نہیں ہے۔ یہ لوگ آمدنی کے لیے مزدوری کے کام پر منحصر ہیں، اور کام کی تلاش میں مہاجرت کرتے رہتے ہیں – جو انہیں عام طور پر اینٹ بھٹوں یا تعمیراتی مقامات پر ملتا ہے۔ اپنی فیملی کا پیٹ پالنے کے لیے چونکہ وہ زیادہ پیسے نہیں کما پاتے، اس لیے اپنے بچوں کو نیم خانہ بدوش دھنگر کمیونٹی کے گلہ بانوں کے پاس بھیج دیتے ہیں، جہاں یہ بچے بھیڑوں کو چرانے کا کام کرتے ہیں۔
دس سال کی پارو کی افسوس ناک موت کے بعد لوگوں کی نظر اس علاقے میں بچہ مزدوری کے معاملوں پر پڑی، جس کی وجہ سے ستمبر ۲۰۲۲ میں ناسک ضلع کے دنڈوری بلاک میں واقع سنگم نیر گاؤں، اور احمد نگر ضلع کے پارنیر سے ۴۲ بچوں کو بندھوا مزدوری سے چھڑایا گیا۔ شرم جیوی سنگٹھن کی کوششوں سے یہ ممکن ہو پایا۔ چھڑائے گئے ان بچوں کا تعلق ناسک ضلع کے ایگت پوری اور ترمبکیشور بلاک، اور احمد نگر کے اکولہ بلاک سے تھا۔ سنجے شندے نے بتایا کہ ان بچوں کو پیسہ کے بدلے بھیڑ چرانے کے کام پر لگایا گیا تھا۔ ان میں پارو کا بھائی موہن اور پڑوسی ایکناتھ کے علاوہ ان کی بستی کے ۱۱ دیگر بچے بھی شامل تھے۔
گھوٹی کے قریب واقع اس بستی میں ۲۶ کاتکری خاندان آباد ہیں، جو یہاں پر گزشتہ ۳۰ سالوں سے رہ رہے ہیں۔ ان کی جھونپڑیاں نجی زمین پر بنی ہوئی ہیں۔ ان جھونپڑیوں کی چھت پلاسٹک کی چادر یا گھاس سے بنائی گئی ہے، اور ایک جھونپڑی میں دو یا اس سے زیادہ کنبے رہتے ہیں۔ سویتا بائی کی جھونپڑی میں نہ تو کوئی دروازہ ہے اور نہ ہی بجلی۔
ممبئی یونیورسٹی میں اقتصادیات کے پروفیسر، ڈاکٹر نیرج ہاتیکر کہتے ہیں، ’’تقریباً ۹۸ فیصد کاتکری کنبوں کے پاس اپنی کوئی زمین نہیں ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کے پاس اپنی ذات کو ثابت کرنے کے لیے ضروری کاغذات تک نہیں ہیں۔ روزگار کے مواقع بہت کم ہیں، اس لیے اینٹ بھٹوں، فشریز (مچھلی کے تالابوں)، کچرا اکٹھا کرنے جیسے دیگر مزدوری کا کام تلاش کرنے کے لیے پوری فیملی اپنا گھر چھوڑ کر روانہ ہو جاتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر ہاتیکر نے سال ۲۰۲۱ میں قبائلی امور کی مرکزی وزارت کے تعاون سے مہاراشٹر میں کاتکری آبادی کی سماجی و اقتصادی حالت کا پتہ لگانے کے لیے کرائے گئے ایک سروے کی قیادت کی تھی۔ اس ٹیم نے پایا کہ سروے میں شامل ہونے والے صرف ۳ فیصد لوگوں کے پاس ذات کا سرٹیفکیٹ تھا، اور زیادہ تر لوگوں کے پاس نہ تو کوئی آدھار کارڈ تھا اور نہ ہی راشن کارڈ۔ ڈاکٹر ہاتیکر کہتے ہیں، ’’کاتکریوں کو [سرکاری] ہاؤسنگ اسکیموں کا فائدہ ملنا چاہیے۔ جن علاقوں میں وہ رہتے ہیں، وہاں پر سرکار کو روزگار پیدا کرنا چاہیے۔‘‘
*****
ریما بائی کے بچے چونکہ اپنے گھر لوٹ آئے ہیں، لہٰذا اب وہ انہیں اسکول بھیجنا چاہتی ہیں۔ شرم جیوی سنگٹھن کے ضلع سکریٹری، سنیل واگھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں، ’’ہمارے پاس ابھی تک کوئی راشن کارڈ بھی نہیں تھا۔ یہ چیزیں ہمیں بالکل بھی سمجھ میں نہیں آتی ہیں۔ لیکن یہ لڑکے پڑھے لکھے ہیں۔ انہوں نے ہمارا راشن کارڈ بنوایا۔‘‘ سنیل واگھ بچوں کو بچانے والی ٹیم کا ایک حصہ تھے۔ ان کا تعلق بھی کاتکری برادری سے ہے، اور اپنے لوگوں کی مدد کرنے کے لیے وہ ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔
پارو کی موت کے ایک دن بعد، جب میں سویتا بائی سے ملی تو انہوں نے بتایا تھا، ’’پارو کی یاد میں ہمیں لوگوں کو کھانا کھلانا ہے…مجھے کھانا پکانا پڑے گا۔‘‘ وہ اپنی جھونپڑی کے پاس پتھر سے بنے ہوئے ایک عارضی چولہے کے اندر لکڑی ڈال کر آگ جلا رہی تھیں۔ انہوں نے ایک برتن میں دو مٹھی چاول ڈالے – ایک مٹھی اپنی مر چکی بیٹی کے لیے اور باقی اپنے تین بچوں اور شوہر کے لیے۔ اس دن گھر میں صرف چاول بچا تھا۔ وہ امید کر رہی تھیں کہ ان کے شوہر، جو دوسروں کے کھیتوں پر کام کرکے ایک دن میں ۲۰۰ روپے کماتے ہیں، ان کے لیے کچھ لے کر آئیں گے جسے وہ پکے ہوئے چاول کے ساتھ کھا سکیں گے۔
بچوں اور ان کے والدین کی رازداری کی حفاظت کے مدنظر اس اسٹوری میں ان کے نام بدل دیے گئے ہیں۔
مترجم: محمد قمر تبریز