کچھ وقت پہلے، شنکر اترام نے تیز دھار والا ایک بڑا چاقو، کیل، لوہے کی جالی، ایک پرانا ہیلمیٹ اور خوردنی تیل رکھنے والا ٹن کا ایک ڈبہ لیا۔ اپنا چہرہ اور سر ڈھکنے کے لیے انھوں نے ایک جالی دار ہیلمیٹ بنایا۔ ٹن کے ڈبہ کو کاٹ کر کھولا اور اس سے اپنے جسم کی ڈھال بنائی۔ اسی طرح چاقو کو پگھلا کر ’گردن کی بیلٹ‘ بنائی اور اس کے اوپر ربر اور کپڑا لپیٹ دیا۔ گردن کی پٹّی میں سے کچھ نکیلے کیل باہر کی طرف نکال دیے۔ اور ساتھ ہی وہ اپنی گردن کے پیچھے ایک گول پلیٹ لٹکا لیتے ہیں، جس سے ان کی پیٹھ پر ایک ’چہرے‘ کا گمان ہوتا ہے۔ ’’لوگ مجھ پر ہنستے ہیں، میں جانتا ہوں،‘‘ وہ کہتے ہیں۔
اترام کسی لڑائی میں نہیں جا رہے ہیں۔ جب وہ گاؤں کے مویشیوں کو جنگلوں میں چرانے کے لیے لے جاتے ہیں، تو یہ ان کی حفاظتی ڈھال ہوتی ہے۔ وہ تقریباً ۳۰۰ لوگوں کی آبادی (مردم شماری ۲۰۱۱) والے بوراٹی گاؤں میں زندگی بھر اکیلے مویشی چرانے والے رہے ہیں، یہ گاؤں مغربی وِدربھ کے کپاس والے علاقے، یوتمال ضلع کی رالیگاؤں تحصیل میں ہے۔
* * * * *
مارچ ۲۰۱۶ کے بعد سے، بوراٹی اور اس کے ارد گرد ایک درجن سے زیادہ لوگ شیروں کے حملے میں مارے گئے ہیں، کئی زخمی ہوئے ہیں، اور مویشیوں کا نقصان ہوا ہے۔ یہ ضلع کسانوں کی لگاتار خودکشی کے لیے بدنام رہا ہے۔
ایک خطرناک شیرنی – ٹی- ۱ یا اونی – کپاس کے کھیتوں اور جھاڑیوں و گھنے جنگلوں کے درمیان واقع رالیگاؤں کے ۵۰ مربع کلومیٹر کے علاقے میں گھوم رہی تھی۔ یہ چھوٹے اور اوسط درجے کے آبپاشی منصوبوں والا ایک اوبڑ کھابڑ علاقہ ہے۔
ٹی- ۱ کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ اس نے بوراٹی سمیت ارد گرد کے ۱۲ گاؤوں میں کم از کم ۱۳ لوگوں کو ہلاک کر دیا ہے، جس کی وجہ سے مہاراشٹر کے جنگلاتی اہلکاروں کو شیرنی کو پکڑنے کے لیے ایک انتہائی پیچیدہ آپریشن شروع کرنا پڑا۔ یہ ۱ ستمبر ۲۰۱۸ کو شروع ہوا تھا، لیکن جنگلاتی اہلکار لمبے عرصے سے ٹی- ۱ کو پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے، جب کہ شیرنی تقریباً دو برسوں سے دھوکہ دے رہی تھی۔ اس درمیان، عوامی اور سیاسی دباؤ بڑھتا گیا۔ لوگوں کی افسردگی اور فکرمندی بھی بڑھ رہی تھی۔
وِدربھ میں ۲۰۰۸ سے، شیر کے حملے میں ہر سال ۳۰-۵۰ لوگ مرتے رہے ہیں۔ کئی شیروں کی بھی موت ہوئی ہے، جو مقامی لوگوں کے ذریعے مارے گئے یا منظم گروہوں کے ذریعے شکار کیے گئے، اور کچھ معاملوں میں جنگل کے افسران کے ذریعے مارے گئے جب وہ انسانوں کے لیے خطرناک ہو گئے تھے۔
اس آپریشن میں ۲۰۰ سے زیادہ جنگلاتی اہلکار شامل ہوئے، پورے علاقے میں ۹۰ کیمرے لگائے گئے اور اسے پکڑنے کے لیے ریاست کی وائلڈ لائف شاخ کے چیف حیدرآباد سے آئی تیز نشانے بازوں کی ایک ٹیم کے ساتھ کیمپ لگا کر ٹھہرے۔
مہاراشٹر کے محکمہ جنگلات کی وائلڈ لائف شاخ کے ذریعے جمع کیے گئے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ وِدربھ میں ۲۰۰۸ سے، شیر کے حملے میں ہر سال ۳۰-۵۰ لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ ٹکراؤ کے یہ مراکز وِدربھ کے منقسم جنگلات میں پھیلے ہوئے ہیں۔
کئی شیروں کی بھی موت ہوئی ہے، جو مقامی لوگوں کے ذریعے مارے گئے یا منظم گروہ کے ذریعے شکار کیے گئے۔ کچھ معاملوں میں، بڑی بلّی کو محکمہ جنگلات کے اہلکاروں کے ذریعے تب مار دیا گیا جب وہ انسانوں کے لیے خطرناک ہو گئی تھی۔
ٹی- ۱ بھی ایک خطرہ تھی – اس نے انسانوں کا خون چکھ لیا تھا – جسے ۲ نومبر کی رات کو مار دیا گیا۔ (دیکھیں: ٹی- ۱ شیرنی کے علاقے میں: ہلاکت کی سرگزشت )
چرواہا اور اس کی ذاتی ڈھال
لوگوں کی دہشت اور غصے کو بڑھتا دیکھ، محکمہ جنگلات نے ستمبر میں لاٹھی کے ساتھ ایک چوکیدار کو چرواہوں کے ساتھ اس علاقے میں تعینات کیا، جہاں ٹی- ۱ شکار کی تلاش میں گھوم رہی تھی۔ اترام جب گایوں کے ساتھ جنگل میں جاتے ہیں، تو ان کے ساتھ بھی ایک گارڈ ہوتا ہے۔
’’میں خود ایک کسان ہوں، لیکن ایک جنگلاتی افسر نے جب مجھے یہ نوکری دی، تو میں نے لے لی،‘‘ پانڈورنگ میشرام کہتے ہیں، جو ہاتھ میں لاٹھی لیے روزانہ صبح ۱۰ بجے سے شام کے ۶ بجے تک اترام اور ان کے مویشیوں کی ’حفاظت‘ کرتے ہیں۔
میشرام پمپل شینڈا گاؤں کے رہنے والے ہیں، جو بوراٹی سے تقریباً چار کلومیٹر دور ہے، جہاں ٹی- ۱ نے ۲۸ اگست ۲۰۱۸ کو ناگوراؤ جُنگھرے نام کے ایک چرواہے کو ہلاک کر دیا تھا جب وہ جنگل کے ایک حصے میں مویشیوں کو چرانے لے گئے تھے۔ یہ بوراٹی کے آس پاس کے گاؤں میں اس مہینے کی تیسری موت تھی جس کے بعد دہشت پھیل گئی اور لوگوں کا غصہ پھوٹ پڑا۔ اسی کی وجہ سے ریاست کے جنگلاتی افسروں نے شیرنی کو پکڑنے یا مارنے کا حکم دیا۔
’’وہ [اترام] جنگل میں ڈر کے مارے پیڑ پر چڑھ جاتے اور دن بھر وہیں بیٹھے رہتے،‘‘ میشرام بتاتے ہیں، ’’اب چونکہ ہم دونوں ساتھ ہیں، اور جنگل کے دیگر اہلکار بھی لگاتار گشت کر رہے ہیں، اس لیے وہ خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔‘‘
ذاتی محافظ کا ہونا اترام کے لیے فخر کا باعث ہے اور ایک تضاد بھی، جس کا گاؤں کے لوگ مذاق اڑاتے ہیں: میشرام ایک زمیندار ہیں اور اترام ایک غریب بے زمین دیہاتی۔ اترام کی حفاظت کرنے کے لیے گارڈ کو ۹۰۰۰ روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے، جب کہ مویشی پروری کے ذریعے اترام ان سے کہیں زیادہ کما لیتے ہیں۔ غمزدہ اترام ہم سے کہتے ہیں، ’’سرکار سے کہو کہ وہ مجھے بھی تنخواہ دے۔ تم سبھی میرے ڈر سے پیسے کما رہے ہو اور شیرنی کو میرے جیسے لوگوں کو مارنے کی اجازت دے رہے ہو!‘‘
اترام کا شیر سے بچنے کا طریقہ
خود کو اور زیادہ محفوظ رکھنے کے لیے، اترام نے – جنہیں جنگلوں میں روزانہ گھومنا ضروری ہے – اپنے بہنوئی، تعمیراتی مقامات پر کام کرنے والے ایک سابق مزدور، سے ایک پیلا ہیلمیٹ لیا۔ دیگر سامان انھوں نے اپنے پڑوسیوں سے اکٹھا کیے۔
اور بھی ہیں: ان کے پاس موٹے لوہے کی جال سے بنا ’پائجامہ‘ ہے، لیکن وہ انھیں جنگل میں کہیں چھپا کر رکھتے ہیں۔ کیوں؟ ’’کیوں کہ بچے مجھ پر ہنستے ہیں جب میں انھیں پہنتا ہوں،‘‘ وہ شرماتے ہوئے کہتے ہیں۔
شیر کے ممکنہ حملے سے خود کو بچانے کے لیے اترام کی ہر ایک تخلیق سوچ سمجھ کر بنائی گئی ہے۔ لیکن، جانور اگر پیچھے سے حملہ کر دے، تب؟ اگر وہ ان کے پیروں کو پکڑ لے، تب؟ اگر وہ ان کی گردن کو پکڑ لے جیسے کہ وہ ہلاک کرتا ہے، تب؟ اگر وہ اپنے پنجے سے سر پر حملہ کر دے، تب؟ تب، تب، تب کیا!
’’میں نے ہر صورتحال کے بارے میں سوچا،‘‘ گیم پلان کی زبان میں بولتے ہوئے اترام کہتے ہیں۔ ’’مجھے لگا کہ اپنی حفاظت کے لیے کم از کم ان سب کی ضرورت پڑے گی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا، تب بھی میں اسے لگا کر کم از کم محفوظ محسوس کرتا ہوں۔‘‘
ڈھال بنائے ہوئے ایک سال ہو چکا ہے اور وہ اس میں کچھ نہ کچھ اضافہ کرتے ہی رہتے ہیں۔ اس دوران شیر سے ان کا سامنا دو بار ہو چکا ہے، ایک بار ۲۰۱۶ میں، پھر اگلے سال دوبارہ۔ ہر بار انھوں نے دعا کی – اور بھاگ گئے۔
شیر سے پہلی بار سامنا
اترام کا، پوری طرح بالغ ہو چکے شیر سے پہلی بار سامنا ستمبر ۲۰۱۷ میں ہوا تھا۔ لحیم شحیم جانور مویشی چرواہے سے کچھ میٹر کی دوری پر کھڑا تھا۔ ’’میں بری طرح ڈر گیا تھا،‘‘ اُس دن کو یاد کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں۔ ’’مجھے گاؤں والوں کے ذریعے سنائی گئی سبھی کہانیاں یاد آنے لگیں – کہ شیر کو انسانوں کا خون پسند ہے، وہ آدم خور بن سکتا ہے، وہ پیچھے سے حملہ کر سکتا ہے۔‘‘
اترام صرف یہی کر سکتے تھے کہ وہ ایک درخت پر چڑھ گئے۔ وہ کئی گھنٹوں تک ایک شاخ پر بیٹھے رہے، اپنی زندگی کے لیے دعا کرتے رہے، نیچے شیر ان کے ریوڑ سے ایک گائے کو مارنے کے بعد وہیں بیٹھ گیا تھا۔ وہ جب اپنے شکار کو جنگل کے اندر کئی میٹر گھسیٹ کر لے گیا، تب ۴۵ سالہ اترام درخت سے نیچے کودے اور اپنے ریوڑ کو وہیں چھوڑ تیزی سے دوڑتے ہوئے گاؤں کی طرف بھاگے۔
’’اپنی زندگی میں اتنا تیز میں کبھی نہیں دوڑا تھا جتنا کہ اُس دن دوڑا،‘‘ وہ اپنی بیوی سلوچنا اور بیٹیاں – دِشا (۱۸) اور ویشنوی (۱۵) کو دیکھتے ہوئے، گھبرائی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہیں۔ وہ بھی اسی طرح مسکراتی ہیں، یہ جانتے ہوئے کہ اُس دن اترام کا موت سے سامنا ہوا تھا۔ گھر پہنچنے کے بعد، انھوں نے ایک کمرے والی جھونپڑی میں خود کو بند کر لیا تھا، جس میں مویشیوں کو رکھنے کے لیے چھت سے ڈھکا ہوا ایک برآمدہ ہے، اور پوری رات باہر نہیں نکلے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ کانپ رہے تھے۔
’’اجی، لگِت موٹھّا ہوتا جی (وہ ایک بہت بڑا شیر تھا)،‘‘ وہ مراٹھی کی ورہاڈی بولی میں کہتے ہیں۔ ان کے لہجہ میں تھوڑا مزاح ہے، لیکن ڈینگ نہیں۔ کیا وہ خوفزدہ تھے؟ ’’منگ کا جی! [اور کیا!]۔‘‘ ان کی بیٹیاں قہقہہ لگاتی ہیں۔
شیر کے ساتھ انسانوں کا بڑھتا ٹکراؤ
مہاراشٹر کے دور افتادہ مغربی علاقے، ودربھ کے جنگلوں میں شیر سے اترام کا سامنا انسانوں کے ساتھ شیر کے بڑھتے ٹکراؤ کا ایک حصہ ہے۔
یہ ایک حالیہ واقعہ ہے، بوراٹی کے ایک تجربہ کار کسان سدھارتھ دودھے کہتے ہیں جو یومیہ مزدور کے طور پر فاریسٹ گارڈ کا بھی کام کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ شیر اس علاقہ میں ٹپیشور سینکچوری جیسے چھوٹے محفوظ جنگلات سے آ گئے ہوں، جو بوراٹی گاؤں سے تقریباً ۱۰۰ کلومیٹر جنوب مغرب میں ہے۔ ’’ڈر ہے، تشویش ہے، تناؤ ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ (دیکھیں: ٹی- ۱ شیرنی کے حملوں اور دہشت کے نشان )
یوتمال ضلع کے جھاڑی دار اور پت جھڑ جنگل گھنی آبادی والے گاؤوں سے سٹے ہوئے ہیں۔ بھٹکتے ہوئے نئے شیروں کی آبادی گاؤوں کے لوگوں اور ان کے مویشیوں کو آسانی سے اپنا شکار بنا لیتی ہے، فاریسٹ گارڈ میشرام ہمیں اترام کے گھر پر بتاتے ہیں۔ ’’ہمارے گاؤں کے ارد گرد کے علاقے میں ابھی ٹی- ۱ نہیں دیکھی گئی ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’لیکن جب ہمیں اس کی جگہ کا پتہ چلتا ہے تو ہم نظر رکھتے ہیں اور گاؤوں والوں کو ہوشیار کر دیتے ہیں۔‘‘
اس ٹکراؤ کی دو بنیادی وجہیں ہیں، مہاراشٹر کے پرنسپل چیف کنزرویٹر آف فاریسٹ (وائلڈ لائف) اشوک کمار مشرا کہتے ہیں: ’’ایک طرف، شیروں کی آبادی حالیہ تحفظاتی کوششوں کے سبب بڑھ رہی ہے، جس میں ان کے منظم شکار پر کڑی نظر رکھنا بھی شامل ہے۔ دوسری جانب، انسانوں کے ذریعے پیدا کردہ بھاری دباؤ بھی ہے، جس میں جنگلات پر بڑھتا انحصار اور انسانوں کی بڑھتی آبادی شامل ہے۔‘‘
اس کے علاوہ، ودربھ کے جنگل سڑکوں اور قومی شاہراہوں سمیت مختلف منصوبوں کے سبب تیزی سے منقسم ہو رہے ہیں۔ مشرا کہتے ہیں کہ شیروں کے رہنے کا علاقہ سکڑ رہا ہے یا تقسیم ہو رہا ہے، جانوروں کے روایتی گلیارے ٹوٹ گئے ہیں، جس سے انھیں گھومنے پھرنے کی کوئی جگہ نہیں مل رہی ہے۔ ایسے میں آپ ٹکراؤ کے علاوہ اور کیا امید کرتے ہیں؟ مشرا فکرمند ہیں۔ ’’اگر ہم نے اپنی کوششوں پر لگام نہیں لگایا، تو یہ اور بھی شدت اختیار کرتا چلا جائے گا۔‘‘
بوراٹی گاؤں کی ایک بزرگ، سونا بائی بھوسلے کو پوری طرح بالغ ایک شیر نے ۲۰۱۶ کے وسط میں ان کے کھیت پر ہلاک کر دیا تھا، جو گاؤں کے گھروں سے ۵۰۰ میٹر کی دوری پر جنگل کے ایک حصہ سے سٹا ہوا ہے۔ بوراٹی گاؤں جلانے کی لکڑی، جنگل کی چھوٹی پیداوار اور مویشیوں کو چرانے کے لیے جنگلات پر منحصر ہے۔
’’ہم تبھی سے خوف اور تشویش میں مبتلا ہیں، جنگلی جانور ہماری فصلوں کو کھا جاتے ہیں – اور اب شیر کا ڈر،‘‘ مقامی سماجی اور سیاسی کارکن رمیش کھنی کہتے ہیں، جو گاؤں والوں کا ایک وفد لے کر محکمہ جنگلات کے افسروں، ضلع کلکٹر اور مقامی لیڈروں کے پاس گئے تھے۔
۵۰ گائیں اور ایک شیر
برسوں سے، اترام کا روزانہ کا معمول ایک جیسا ہی رہا ہے۔ وہ اپنے دن کی شروعات گایوں کو نہلانے سے کرتے ہیں اور پھر انھیں چرانے کے لیے اپنے گاؤں کے پاس کے جنگلوں میں لے جاتے ہیں۔
وہ شام کو لوٹتے ہیں، اور اگلے دن کی شروعات دوبارہ ویسے ہی کرتے ہیں۔ وہ پہلے ایک گائے کے ماہانہ ۱۰۰ روپے لیا کرتے تھے۔ ’’ہم نے مطالبہ کیا کہ ان کے خطروں کو دیکھتے ہوئے یہ مزدوری بڑھائی جائے،‘‘ سلوچنا کہتی ہیں۔ گاؤں والے اب انھیں فی گائے ۱۵۰ روپے ماہانہ دیتے ہیں – ۵۰ روپے کا اضافہ، خطرہ کو کور کرنے کے لیے! وہ کہتی ہیں۔ ’’میرے پاس دیکھ بھال کے لیے عام طور پر ۵۰ گائیں ہوتی ہیں،‘‘ وہ ایک شام کو جنگلوں سے گھر لوٹنے پر بتاتے ہیں۔ ’’اگر میں یہ کرنا بند کر دوں، تو اور کیا کروں گا؟‘‘
گاؤں والوں نے اترام کو صاف صاف کہہ دیا ہے: ’’اگر آپ مصیبت میں ہوں، تو ہماری گایوں کی پرواہ نہ کریں۔‘‘ یہ ایک بڑی راحت ہے، وہ کہتے ہیں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کتنا خیال رکھتے ہیں۔ ’’شیر نے پچھلے دو برسوں میں ریوڑ سے کئی گایوں کو مار ڈالا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’جب میں اپنی گائے کھوتا ہوں تو مجھے دکھ ہوتا ہے اور خوشی ہوتی ہے کہ میں زندہ ہوں۔‘‘
اترام کبھی اسکول نہیں گئے، نہ ہی ان کی بیوی۔ لیکن ان کے تین بچے پڑھ رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہ پڑھائی کریں، بھلے ہی گزر بسر کے لیے انھیں اپنی جان خطرے میں کیوں نہ ڈالنی پڑے۔ دِشا نے ابھی پاس کے کالج سے بی اے سال اول کی پڑھائی پوری کی ہے۔ ویشنوی نے اس سال ۱۰ویں کلاس پاس کر لیا ہے۔ اور سب سے چھوٹا انوج، ایک رہائشی اسکول میں ۹ویں کلاس میں ہے۔
سلوچنا گاؤں کی آنگن واڑی معاون کے طور پر کام کرتی ہیں اور تقریباً ۳۰۰۰ روپے پاتی ہیں۔ ’’ہر صبح، میں ان کے بحفاظت لوٹنے کی دعا کرتی ہوں،‘‘ وہ کہتی ہیں۔ ’’ہر شام، میں جب انھیں گھر واپس دیکھتی ہوں، تو شیر کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔‘‘
(مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز)