کیرل کے وزیر زراعت کے پی موہن نے جب چندرن ’ماسٹر‘ کو پچھلے ستمبر میں ویچور بچھڑے کے لیے ۱۵ ہزار روپے دیے، تو وہ ایک باہوش قانون شکن کو انعام دے رہے تھے۔ پھر بھی، وزیر نے لائیو اسٹاک ڈیولپمنٹ بورڈ کی طرف سے صحیح کام کر رہے تھے، اور سب نے اسے منظوری عطا کی۔ چندرن ماسٹر اور دیگر بے خوف روحیں کیرل کے مویشیوں کی انوکھی قسموں کو زندہ رکھنے میں مدد کرتی رہی ہیں۔ حالانکہ ریاست کے اینیملس ہزبینڈری کے ڈائرکٹر سے لائسنس لیے بغیر، کسانوں کے ذریعے اس قسم کے مویشیوں کی بریڈنگ پرانے قانون کے تحت غیر قانونی ہے۔ اور چند سال پہلے مویشی ڈاکٹروں نے انتھک کوششوں سے ان ’’کم تر‘‘ درجے کی نسلوں کے بیلوں کا ختنہ کر دیا تھا، جس کی وجہ سے کراس بریڈ مویشیوں کی بہتات ہونے لگی۔
اس خیال کو تھوڑی تقویت اس بات سے ملی کہ زیادہ دودھ دینے والی گائیں، چاہے ان کی جو قیمت ہو یا جو بھی نتائج ہوں، بس انھیں کی اہمیت ہے۔ عادت میں بس اتنی سی تبدیلی آئی ہے کہ ریاست انہی باغی کسانوں کو پیسے دے رہی ہے، جو اس کی تباہی کی مخالفت کر رہے تھے۔ چندرن ماسٹر کے پاس ۲۴ مویشی ہیں، زیادہ تر دیسی نسل کے ہیں، جنہیں وہ تھریسو ضلع کے پی ویم بلور گاؤں میں واقع اپنے گھر کے احاطے میں رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں چھوٹی ویچور گائے بھی شامل ہے، جو کیرل کے گھریلو مویشی کے بحران کی علامت ہے۔ سال ۲۰۰۰ تک یہ گائے ورلڈ واچ لسٹ فار ڈومیسٹک اینیمل ڈائیورسٹی آف دی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن کی ’کریٹیکل مین ٹینڈ برڈس لسٹ‘ میں شامل تھی۔ اس قسم کی لسٹ تب بنائی جاتی ہے، جب ’’بچے پیدا کرنے والی ماداؤں کی تعداد‘‘ ۱۰۰ یا اس سے کم رہ گئی ہو۔ یا پھر ’’بچے پیدا کرنے لائق نروں کی کل تعداد‘‘ پانچ یا اس سے کم رہ گئی ہو۔ یا پھر مجموعی طور پر یہ تعداد ۱۲۰ یا اس سے کم ہو اور لگاتار گھٹ رہی ہو۔
چندرن ماسٹر کے گھر میں، یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔ ’’میں نے لائیو اسٹاک بورڈ کو پانچ ونچور بچھڑے دیے،‘‘ وہ فخریہ انداز میں کہتے ہیں۔ اس کے بدلے میں مجھے دو گیر بچھڑے اور ۴۵ ہزار روپے ملے۔ ہمارے وہاں پہنچنے سے صرف چھ گھنٹے پہلے ان کے آنگن میں ایک چھوٹا ونچور بچھڑا پیدا ہوا تھا۔ اس کی ماں، ایک خوبصورت مویشی، ۸۲ سینٹی میٹر اونچی ہے۔ ونچور دنیا کی سب سے کم اونچائی والی مویشی کی نسل ہے۔ نومبر ۲۰۱۰ میں ۷۷ سینٹی میٹر اونچی ڈائنا (یہ بھی تھریسور ضلع کی ہی ہے) کو دنیا کی سب سے چھوٹی گائے ہونے کی وجہ سے گنیز بک آف ریکارڈس میں جگہ ملی تھی۔
اس نسل کی اوسط گائے کی لمبائی ۹۰ سینٹی میٹر اور وزن تقریباً ۱۳۰ کلو ہوتا ہے۔ یہ ایک دن میں تین لیٹر دودھ دیتی ہے اور چارہ بہت کم کھاتی ہے، اس کے رکھ رکھاؤ پر بھی بہت کم خرچ آتا ہے۔
’’دنیا کی سب سے چھوٹی گائے‘‘ کے ساتھ ساتھ یہاں وڈاکرا ڈوارف، کسارگوڈے ڈوارف، ہائی رینج ڈوارف اور مویشیوں کی دیگر نسلیں بھی ہیں۔ اسکول کے ۷۲ سالہ سابق ٹیچر مویشیوں کے بارے میں سرکاری ذہنیت کو جم کر کوستے ہیں۔ ’’ان کے لیے گائے صرف دودھ نکالنے والی مشین ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں۔ ’’ان کی سوچ میں ملک کی بناوٹ اور معیار کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ نہ ہی انھیں اس بات سے کوئی لینا دینا ہے کہ کھیتی یا کسانوں کی زندگی میں اس مویشی کی کیا اہمیت ہے۔ نہ ہی انھیں اس سے فرق پڑتا ہے کہ اس کا ماحولیات، نباتات یا کمیونٹی پر کیا اثر پڑنے والا ہے۔‘‘
نامبیاندر اَیَپن چندرن انعام یافتہ انگریزی کے سابق ٹیچر ہیں، جو ۳۶ برسوں تک کیرل اور عمان میں کام کر چکے ہیں۔ انھوں نے ’’میری زندگی میں جو کچھ بچا ہے‘‘ اسے بوس انڈیکس (دیسی ہندوستانی مویشی) کی حفاظت کرنے کا عہد کیا ہے۔ ان کے لیونگ روم میں کیرل لائیو اسٹاک ڈیولپمنٹ بورڈ کی طرف سے دیے گئے ۱۵ ہزار کے چیک کا ایک بڑا سا فوٹو لگا ہوا ہے۔ ’’مجھے اپنی اس دلچسپی کی وجہ سے ہر ماہ اتنا ہی کھونا پڑ رہا ہے۔‘‘ لیکن چندرن ماسٹر کو کوئی شکایت نہیں ہے۔
’’میری گائیں،‘‘ وہ کہتے ہیں، ’’زیادہ خرچ نہیں کرواتیں۔ وہ دیسی ہیں اور انھیں بہت زیادہ خوراک کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘‘ لیکن وہ ۳۰ قسم کے آم اور اتنی ہی قسم کے بانس بھی اُگانا چاہتے ہیں، سبھی دیسی۔ اس کے علاوہ ان کی خواہش دیسی مچھلیاں اور روایتی پودوں کی متعدد قسمیں پیدا کرنے کی بھی ہے۔ ان کا بیٹا باغبانی سے اونچی کمائی کرکے گھریلو اخراجات کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر اس فیملی نے اپنی ۱۸ ایکڑ زمین کو ریئل اسٹیٹ میں تبدیل کر دیا ہوتا، تو وہ امیر ہو جاتے، لیکن چندرن ماسٹر کا اپنا ’’ایک مشن اور شوق‘‘ ہے۔
’’ملیالی لوگ ہر چیز میں سے آسان راستہ نکال لیتے ہیں،‘‘ وزیر زراعت موہنن نے کیرل لائیو اسٹاک ڈیولپمنٹ بورڈ کا چیک دیتے وقت کہا تھا۔ ’’اسی لیے، انھوں نے ونچور گائے اور کسار گوڈے ڈوارف جیسی دیسی نسلوں کو بچا کر رکھنے کی زحمت نہیں اٹھائی۔ بجائے اس کے، انھوں نے کراس بریڈ نسلوں کو ترجیح دی۔ ملیالیوں کو جاننا چاہیے کہ عالمی پیمانے پر گھریلو نسل کے مویشیوں کو محفوظ رکھنے کی مہم چل رہی ہے۔‘‘
لیکن، دیسی نسلوں کو لوگوں نے برباد نہیں کیا، بلکہ اس کے لیے ذمہ دار لمبے دنوں سے چلی آ رہی سرکاری پالیسیاں ہیں۔
کیرل میں کئی دہائیوں تک دیسی نسلوں کے خلاف چلنے والی مہم مویشیوں کی دیسی نسل کے ختم ہونے کی ایک وجہ تھی۔ مویشیوں کی مردم شماری بتاتی ہے کہ ۱۹۹۶ سے ۲۰۰۷ کے درمیان مویشیوں کی کل تعداد میں ۴۸ فیصد کی کمی آئی ہے۔ لیکن یہ کہانی اس سے پہلے کی ہے، جب ۱۹۶۱ کے کیرل لائیو اسٹاک امپرومنٹ ایکٹ نے ’’لائسنسنگ افسر‘‘ کو ’’بیلوں کا ختنہ کروانے کا اختیار‘‘ دیا۔ اور کسانوں سے کہا گیا کہ وہ ۳۰ دنوں کے اندر اپنے بیلوں کا ختنہ کروا دیں۔ بعد میں اس میں ہونے والی ۱۹۶۸ کی ترمیم میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ جو لوگ ایسا نہیں کریں گے انھیں جرمانہ دینا ہوگا اور جیل کی سزا بھگتنی پڑے گی۔
کیرل ایگریکلچر یونیورسٹی (کے اے یو) کے اینیمل بریڈنگس اینڈ جنیٹکس کی رٹائرڈ پروفیسر، سوسما آئپ نے سب سے پہلے ونچور نسل کو ریوائیو کیا تھا۔ وہ اور مویشیوں کی سرجری کے رٹائرڈ پروفیسر ابراہم ورکے یہ بات بتاتے ہیں۔ ’’ایک طرف، آپ کو سانڈ رکھنے کے لیے محکمہ مویشی پالن کے ریاستی ڈائرکٹر سے لائسنس لینا پڑتا ہے۔ دوسری طرف، اگر کوئی انسپکٹر (ونچور یا کسی دوسری نسل کے) سانڈ کو دیکھتا ہے، تو سرکاری فرمان کے مطابق وہ اس کا ختنہ کروانے کے لیے مجبور ہے! اس لیے کسی نے کبھی لائسنس بنوانے کی کوشش ہی نہیں کی!‘‘
ختنہ کروانے کی مہم نے بعض دیسی نسلوں کو ایک طرح سے ختم ہی کردیا۔ (اسی قسم کی مہم ملک کے دوسرے حصوں میں بھی چلائی گئی، خاص کر اڈیشہ میں۔ وہاں، دودھ کی پیداوار کو بڑھانے کی تو پوری کوشش کی گئی، لیکن کھریار سانڈ کو ۱۹۸۰ تک ختم کر دیا گیا، حالانکہ یہ کالاہاری خطہ کی بہترین نسل سے تعلق رکھتا تھا۰ اس کی وجہ سے دوسرا نقصان یہ ہوا ہے کہ جو خطہ پہلے ضرورت سے زیادہ دودھ کی پیداوار کے لیے پہچان بنا چکا تھا، وہاں ضرورت سے کم دودھ کی پیداوار ہونے لگی)۔
پھر بھی، ونچور نسل بچ گئی۔ پروفیسر ورکے کے مطابق، اس لیے، ’’کیوں کہ کچھ بھاگ گئے، وہ ان علاقوں میں تھے جو بہت دور واقع ہے یا پھر جنگل میں ہانک دیے گئے تاکہ وہاں کوئی نہ پہنچ سکے۔ اور تھوڑا اس لیے بھی کہ مندروں کے سانڈوں کو مذہبی اسباب کی بناپر چھوڑ دیا گیا تھا۔‘‘
وہ اس لیے بھی بچ گئے، کیوں کہ یہاں سوسما آئپ جیسے لوگ موجود تھے۔ انھوں نے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر مقامی نسلوں کو بچانے کی ایک مہم چلائی، جس کے نتیجہ میں ۱۹۹۸ میں ونچور کنزرویشن ٹرسٹ کا قیام عمل میں آیا۔ ’’حالانکہ بچے ہوئے سانڈوں کی تلاش ۱۹۸۸ میں ہی شروع ہو گئی تھی،‘‘ پروفیسر آئپ کہتی ہیں۔ ’’انل زچاریہ کی قیادت میں اسٹوڈنٹ سرچ ٹیم کی مدد سے، ہمیں اس سال کے اخیر تک ایسے آٹھ سانڈ ملے۔ تب ہم نے کے اے یو کے وائس چانسلر سے کہہ کر ان آٹھوں مویشیوں کو خریدنے کے لیے ۵۱ ہزار روپے پاس کروائے اور انھیں چارے بھی دلوائے۔‘‘ کے اے یو میں ان کے کام کی وجہ سے ونچور نسل کی قسمت بدل گئی اور اسے مویشی کو بڑے پیمانے پر مقبولیت ملی۔
لیکن، کیا دودھ کی پیداوار میں کراس بریڈ دیسی نسلوں سے آگے نہیں ہیں؟ ’’صرف یہی ایک پیمانہ نہیں ہو سکتا،‘‘ آئپ کہتی ہیں۔ ’’لاگت کے حساب سے دودھ کی پیداوار کا حساب لگائیے۔ کراس بریڈس پر لگنے والا خرچ بہت زیادہ ہے۔ انھیں بیماری لگنے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے، جیسا کہ ہمیں ۲۰۰۹ میں ’’کھر اور منھ‘ کی بیماری کے بڑے پیمانے پر پھوٹ پڑنے کی یاد بار بار دلائی گئی۔ ایسے بہت سے کسان ضرور ہیں، جو آمدنی کے ذریعہ کے طور پر کراس بریڈ کرواتے ہیں، دودھ بیچ کر۔ لیکن ۲۵ سے ۳۰ فیصد ایسے بھی ہیں، جو چھوٹے اور کم قیمتی مویشیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسے لوگ گھر کی کھپت، دودھ کے معیار اور فوڈ سیکورٹی کو دھیان میں رکھتے ہیں۔ ’’یہ ٹرسٹ آج نہ صرف ونچور کے کاز کو آگے بڑھا رہا ہے، بلکہ کیرل کے مویشیوں کی دوسری نسلوں، جیسے بکریاں، سور اور بطخ کی نسلوں کو بھی بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘
پی ویم بلور گاؤں کے اپنے گھر میں، چندرن ماسٹر جاننا چاہتے ہیں: ’’آپ ہمیں اڑیسہ سے کھریار سانڈ لانے میں کب مدد کریں گے؟‘‘
چندرن ماسٹر سے رابطہ قائم کرنے کا پتہ: گاؤں پی ویم بلور، کوڈن گولار تعلقہ، تھریسور ضلع، فون: ۰۴۸۰۲۸۵۰۴۸۳
یہ مضمون سب سے پہلے دی ہندو میں ۲۷ فروری، ۲۰۱۲ کو شائع ہوا تھا۔