اس وقت، شمس الدین ملّا کھیتوں میں ہوتے – انجن اور پمپ کی مرمت کر رہے ہوتے۔
وہ لاک ڈاؤن کے دوسرے دن، یعنی ۲۶ مارچ کو باہر تب نکلے تھے، جب [کولہاپور ضلع کے کاگل تعلقہ کے] سُلکُڈ گاؤں کا ایک پریشان حال کسان موٹر سائیکل سے ان کے گھر آیا تھا۔ ’’وہ مجھے اپنے کھیت پر لے گیا، جہاں میں نے اس کے ڈیزل سے چلنے والے پانی کے پمپ سیٹ کی مرمت کی۔‘‘ اگر شمس الدین نے یہ کام نہیں کیا ہوتا، تو اس کسان کو اپنے گنّے کے کھیت کی سینچائی کرنے میں مشکل پیش آتی۔
ایسا یہ دوسری بار ہے جب ۷۴ سالوں سے انجنوں کی مرمت کرنے والے اس ۸۴ سالہ موٹر میکینک کو بریک لینا پڑا ہے – جنہوں نے ۱۰ سال کی عمر سے ہی کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ پہلی بار ایسا جنوری ۲۰۱۹ کے آس پاس ہوا تھا، جب ان کی اینجیو پلاسٹی (خون کی نالیوں کی پلاسٹک سرجری) ہوئی تھی۔
شمس الدین نے سات دہائیوں میں ۵۰۰۰ سے زیادہ انجنوں کی مرمت کی ہے – بورویل پمپ، چھوٹا کھدائی کرنے والا آلہ، پانی کا پمپ، ڈیزل انجن، اور بھی بہت کچھ – اور اس ہنر کو فن کے مقام تک پہنچایا ہے۔ کرناٹک کے بیلگاوی ضلع کے چِکوڑی تعلقہ میں، بارواڑ گاؤں میں ان کا گھر طویل عرصے سے مشینری کو لیکر پریشانی جھیل رہے کسانوں کے لیے ایک طرح سے ایس او ایس مرکز بنا ہوا ہے۔ عام برسوں میں اپنے مصروف ترین سیزن میں – مارچ، اپریل اور مئی – وہ متعدد قسم کے ۳۰ انجن کی مرمت کرتے اور فی مشین کے حساب سے ۵۰۰ روپے کما لیا کرتے تھے، ایسا ان کا اندازہ ہے۔ لیکن اس سیزن کو لاک ڈاؤن نے برباد کر دیا ہے۔
ان کی فیملی اب اُس ۵۰۰۰ روپے، جو انہوں نے آٹھ انجنوں کی مرمت کرکے فروری اور ابتدائی مارچ میں کمائے تھے – اور حکومت کے ذریعے اعلان کردہ پانچ کلو کے مفت راشن پر مشکل سے گزارہ کر ہی ہے۔
حال ہی میں سُلکُڈ سے ایک کسان کے ان کے گھر پر آنے کے بعد، تین مزید کسان شمس الدین کے پاس پہنچے – جو اپنے ساتھ خراب انجن لیکر آئے تھے – لیکن انہیں واپس لوٹنا پڑا، ان کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا۔ ’’میرے پاس ضروری سامان نہیں ہیں اور کولہاپور شہر کی تمام دکانیں اس وقت بند ہیں،‘‘ انہوں نے مجھے فون پر بتایا۔
دو مہینے پہلے، شمس الدین نے اپنی تقریباً ۷۱ سالہ بیوی گلشن اور ۵۰ سالہ بیٹے اسحاق کے ساتھ اپنے دو ایکڑ کھیت میں گنّا لگایا تھا۔ لیکن کاشت کاری کے لیے، عام دنوں میں بھی پانی کی سپلائی اکثر بے وقت (بعض دفعہ رات میں ۲ بجے) اور بے ترتیب ہوتی ہے۔ اور اسی لیے انہیں کھیت پر جاتے ہوئے ڈر بھی لگتا ہے، حالانکہ وہ قریب ہے، کیوں کہ انہیں پولس کے ذریعے پیٹے جانے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ اس فصل کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
اس کے علاوہ شمس الدین نے لاک ڈاؤن کے بعد تقریباً ۴۰ دنوں میں کسی بھی انجن یا کسی اور مشین کی بھی مرمت نہیں کی ہے۔ ان کا اندازہ ہے کہ انہیں ’’ان پانچ ہفتوں میں کم از کم ۱۵۰۰۰ روپے‘‘ کا نقصان ہو چکا ہے۔ اور ’’میں نے پہلے کبھی بھی ایسا (وبائی مرض اور لاک ڈاؤن) نہیں دیکھا ہے۔‘‘ انہیں دیہی کولہاپور میں طاعون پھیلنے کے بارے میں یاد ہے – اس وقت وہ صرف آٹھ سال کے تھے – جب ان کی فیملی مہاراشٹر کے اس پڑوسی ضلع میں ہاتکننگلے تعلقہ کے پٹّن کوڈولی گاؤں میں رہتی تھی۔
’’اُن دنوں ہمیں اپنے گھر سے نکل جانے اور کھیتوں میں رہنے کے لیے کہا گیا تھا۔ آج ہمیں گھر پر رہنے کے لیے کہا جا رہا ہے،‘‘ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں۔
*****
وسنت تامبے، ۸۳ سال کی عمر میں کولہاپور کے ہاتکننگلے تعلقہ میں رینڈل گاؤں میں واقع اپنے گھر سے دو کلومیٹر کے دائرہ میں ابھی بھی گنّے کی کٹائی کا کام کرتے ہیں۔ حالانکہ، ان کی آمدنی پوری طرح سے دوسرے پیشہ سے آتی تھی۔ سال ۲۰۱۹ میں رینڈل کے سب سے بزرگ بنکر کے طور پر ریٹائر ہونے سے پہلے وہ اپنے علاقہ کے سب سے ہنرمند ہتھ کرگھا بنکروں میں سے ایک ہوا کرتے تھے۔ ان کا اندازہ ہے کہ اپنے ساٹھ سال سے زیادہ کے کریئر میں انہوں نے ایک لاکھ میٹر سے زیادہ کپڑے کی بُنائی کی ہے۔
بطور بُنکر ان کی ذہانت کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ ہمیشہ اسی لڑکھڑاتے پیشہ کے سہارے ہی زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ گزشتہ ۲۵ برسوں سے، وہ دوسرے کے کھیتوں اور اپنے دو بھائیوں کے ساتھ ایک ایکڑ مشترکہ زمین پر کئی گھنٹے گنّے کی کٹائی میں بھی صرف کیا کرتے تھے۔ لیکن لاک ڈاؤن نے ان کی اس کمزور زندگی کو برباد کر دیا ہے۔
’’تین گھنٹے میں (عام دنوں میں) میں ۱۰-۱۵ مولیا [تقریباً ۲۰۰ کلو وزن کا ہر ایک بنڈل] کاٹ لیا کرتا تھا،‘‘ وہ دوسرے کے کھیتوں پر کام کرنے کے بارے میں بتاتے ہیں۔ بدلے میں، وسنت کو اپنی بھینس اور اس کے ریڈکو (بچھڑے) کے لیے ۱۰۰ روپے کا چارہ مل جاتا تھا – جسے وہ اپنی یومیہ مزدوری بتاتے ہیں۔ اس عمر میں بھی، وہ چارے کو سائیکل سے اپنے گھر لاتے ہیں۔ عام دنوں میں، وہ اپنے گھر سے روزانہ صبح میں ۶ بجے نکلتے اور دوپہر میں ۲ بجے واپس لوٹتے۔
’’آخری بار میں نے گنّے کی کٹائی ۳۱ مارچ کو کی تھی،‘‘ وسنت بتاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ انہیں ۳۲ دنوں کی گنّے کی کٹائی یا چارے کی شکل میں ۳۲۰۰ روپے کے برابر کا نقصان ہوا ہے۔ لیکن تباہی کا سلسلہ اس سے کافی پہلے ہی شروع ہو چکا تھا۔
اگست ۲۰۱۹ میں آئے سیلاب نے ۶۰ فیصد گنّا، اور اپنے ایک ایکڑ کھیت پر انہوں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر جتنا جوار لگایا تھا ان سبھی کو برباد کر دیا تھا۔ اپنے حصہ کے ۰ء۳۳ ایکڑ کھیت سے انہیں سات ٹن فصل میں سے ہر ایک کے لیے ۲۸۷۵ روپے ملے تھے۔ (اس سے ایک سال پہلے، اپنے ایک تہائی ایکڑ کھیت کے اسی حصہ پر انہوں نے ۲۱ ٹن فصل پیدا کی تھی)۔ ’’اب ایک سال کے لیے ہمیں کسی طرح سے انہیں سات ٹنوں کو فروخت کرکے حاصل ہوئے ۲۰ ہزار روپے پر گزارہ کرنا ہوگا [جس کی ادائیگی انہیں اسی مارچ میں کی گئی]۔
وسنت اور ان کی ۷۶ سالہ بیوی ومل، ۲۶ مارچ کو حکومت کے ذریعے اعلان کردہ مفت چاول کے پیکیج کو فوراً حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ۲ اپریل کو – ان کے پاس راشن کارڈ ہے – میاں بیوی نے، اپنی راشن کی دکان سے ۳ روپے فی کلو کے حساب سے ۶ کلوگرام گیہوں اور ۲ روپے کے حساب سے ۴ کلو چاول لے لیا تھا۔ اس کے ۱۰ دنوں کے بعد انہیں پانچ-پانچ کلو مفت اناج مل پایا تھا۔
میاں بیوی دونوں ڈھانگر ہیں – جو کہ مہاراشٹر میں خانہ بدوش قبیلہ کے طور پر درج فہرست ہے۔ دونوں کو بڑھاپے کے پنشن کے طور پر ماہانہ ۱۰۰۰ روپے ملتے ہیں، جس طرح شمس الدین اور گلشن کو ملتا ہے۔ وسنت کو بھی اس طاعون کے بارے میں یاد ہے جس نے انگریزوں کی حکومت کے دوران کولہاپور کو ہلا دیا تھا، جب وہ چھوٹے لڑکے تھے۔ ’’اس وقت کافی لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ ہر ایک کو اپنے گھر کو چھوڑ کر گاؤں سے باہر چلے جانے کے لیے کہا گیا تھا،‘‘ وہ یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔
لاک ڈاؤن وسنت کے اپنے بنیادی پیشہ، بُنائی – جس میں انہوں نے ۶۰ سال سے زیادہ وقت تک اپنی مہارت دکھائی – سے ریٹائر ہونے کے تقریباً ایک سال بعد آتا ہے۔ ’’وائی جھالا کی [اب میں بوڑھا ہو رہا ہوں]۔ بُنائی میں کافی جسمانی محنت لگتی ہے۔ یہ روزانہ رینڈل سے کولہاپور تک (۲۷ء۵ کلومیٹر) پیدل چلنے جیسا ہے،‘‘ وہ کہتے ہیں، اور قہقہہ لگاتے ہیں۔
اور پھر، دھیمے لہجہ میں کہتے ہیں: ’’میں نے اپنی پوری زندگی میں ایسا بحران پہلے کبھی نہیں دیکھا ہے۔‘‘
*****
دیوو بھورے، جو جلد ہی ۶۰ سال کے ہو جائیں گے، گزشتہ تین دہائیوں سے کرناٹک کے بیلگاوی ضلع کے بورا گاؤں میں ایک رسی بنانے والے رہے ہیں۔ پانچ نسلوں سے، بھورے فیملی نے رسی بنانے کے ہنر کو یہاں پر زندہ رکھا ہوا ہے۔ اب لاک ڈاؤن کی وجہ سے، وہ خود کو زندہ رکھنے پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔
’’ہمارے پاس [رسیاں بنانے کا] زیادہ تر سامان ہے۔ ہمیں بس شروعات کرنے کی ضرورت ہے،‘‘ بھورے کے بیٹے، ۳۱ سالہ امت نے، ۴ اپریل کو مجھے فون پر بتایا۔ زرعی اقتصادیات میں آنے والی تباہی کو محسوس کرتے ہوئے، وہ بے چین تھے۔ انہوں نے بتایا تھا، ’’اپریل کے پہلے ہفتہ سے ہمیں بیندور کے لیے رسیاں بنانے کا کام شروع کرنا تھا۔‘‘ یہ عام طور سے جون اور اگست کے درمیان، بیلوں کا ایک تہوار ہوتا ہے، جو انہیں کے لیے وقف ہوتا ہے۔
بھورے فیملی – جن کا تعلق درج فہرست ذات، متنگ سے ہے – کسانوں کے لیے دو قسم کی رسیاں بناتی ہے۔ پہلی ۱۲ فٹ لمبا کسرا ، جسے ہل میں باندھا جاتا ہے۔ اسے کاٹی گئی فصل کا بھاری گٹھر باندھنے اور، گاؤوں کے کچھ گھروں میں، چھت سے بچوں کا جھولا لٹکانے میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ دوسری، ایک تین فٹ لمبی رسی جسے کنڈا کہتے ہیں، بیل کی گردن کے چاروں طرف باندھی جاتی ہے۔ وہ کسرا رسی کو ۱۰۰ روپے میں اور کنڈا کی ایک جوڑی ۵۰ روپے میں فروخت کرتے ہیں۔
امت کی فکرمندی غلط نہیں ہے۔ ہفتوں سے ان کے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ لاک ڈاؤن سے پہلے کے دنوں میں، دیوو، ان کی بیوی نندو بائی (جو ۵۰ سال کی ہیں) اور امت ایک دن میں آٹھ گھنٹے کام کرکے فی کس تقریباً ۱۰۰ روپے کماتے تھے۔ لاک ڈاؤن کے دوران ۳۵۰ گھنٹے سے زیادہ کا کام کھو دینے کی وجہ سے، ان کا اندازہ ہے کہ انہیں اس مدت میں ابھی تک تقریباً ۱۳ ہزار روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔
اس سال، کرناٹکی بیندور (کرناٹک کا تہوار) ۷ جون کو ہے۔ دیوو، نندو بائی اور امت جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ پاؤڈر والے جن رنگوں کا استعمال کرتے ہیں، لاک ڈاؤن کی وجہ سے انہیں – میراج ٹاؤن سے – حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ، وہ جس تکنیک کا استعمال کرتے ہیں اس کے لیے انہیں اپنے گھر سے باہر کچی سڑک پر ۱۲۰ فٹ لمبا سیدھا راستہ چاہیے۔ یہ پوری کارروائی ہاتھ سے کی جاتی ہے – اور اس پر پولس کی نظر فوراً پڑے گی۔
اگر وہ کسی طرح سے رسیاں بنانے کا کام شروع بھی کر دیتے ہیں، تب بھی مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہے گا۔ کئی کسان بیندور کے دوران کسرا اور کنڈا کی رسیاں خریدتے ہیں۔ یہ رسیاں انہیں بیچنے کے لیے، دیوو اور امت چھ الگ الگ گاؤوں – کرناٹک میں اکول، بھوج، گلٹگا، کرڈاگا اور سون ڈلگا، اور مہاراشٹر میں کُرُنڈواڈ – کے ہفتہ وار بازاروں کا سفر کرتے ہیں۔ اس بڑی تقریب سے چند دن پہلے، ’’ہم اِچل کرنجی ٹاؤن میں بھی کافی رسیاں بیچتے ہیں،‘‘ امت بتاتے ہیں۔
اس بار، اس بات کی بالکل بھی گارنٹی نہیں ہے کہ ۷ جون کو کرناٹکی بیندور کا انعقاد ہوگا ہی، یا اس کے بعد کا بھی کوئی پروگرام ہوگا یا نہیں۔ اس کی وجہ سے انہیں تکلیف ہو رہی ہے کیوں کہ یہ بیندور کا ہی سیزن ہوتا ہے جب وہ اپنے ہاتھ سے بنائی گئی رسیوں کو فروخت کرکے ۱۵ ہزار روپے کماتے ہیں۔ اس کے بعد، ان کی فروخت تھوڑی کم ہونے لگتی ہے۔
دیوو اور ان کے تین بھائیوں کے پاس مشترکہ طور پر ایک ایکڑ کھیت ہے جسے وہ سالانہ ۱۰ ہزار روپے پر پٹّہ پر دے دیتے ہیں۔ لیکن فیملی کو شک ہے کہ اس سال وہ کرایہ دار پیسے ادا کرنے کی حالت میں ہوگا۔
دریں اثنا، بھورے فیملی کو اس بات کا یقین نہیں ہے کہ اس سال بیندور منعقد ہوگا۔ اور لاک ڈاؤن سے پہلے انہوں نے جو ۹۰۰۰ روپے مجموعی طور پر کمائے تھے، وہ بھی تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔
’’ہم لوگ پہلے ہی دیر کر چکے ہیں،‘‘ امت کہتے ہیں ’’اور اگر لاک ڈاؤن کو مزید آگے بڑھا دیا گیا، تو ہم کچھ بھی نہیں کما پائیں گے۔‘‘
مترجم: ڈاکٹر محمد قمر تبریز