’’گرمیوں کا موسم ہمارے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے! مٹی کے [زیادہ تر] برتنوں کو بیچنے کا یہی موسم ہوتا ہے، لیکن ہم زیادہ فروخت نہیں کر پائے ہیں،‘‘ ریکھا کمبھکار نے اپنے گھر کے باہر بنی بھٹی میں انہیں پکانے سے پہلے ایک برتن کو پینٹ کرتے ہوئے کہا۔ لاک ڈاؤن کے دوران، وہ اپنے گھر کے اندر ہی برتن بنا رہی تھیں، اور اس کام کے لیے کبھی کبھار ہی باہر نکلتی تھیں۔
چھتیس گڑھ کے دھمتری شہر میں کمہاروں کی بستی، کمہار پاڑہ میں مٹی سے بنے یہ لال برتن گھروں کے باہر چاروں طرف پھیلے ہوئے تھے۔ ان برتنوں کو مارچ سے مئی کے درمیان بازاروں میں فروخت کیا جاتا ہے۔ ’’بازار میں جس طرح سبزی فروشوں کو صبح ۷ بجے سے دوپہر ۱۲ بجے تک بیچنے کی اجازت ہے، اسی طرح ہمیں بھی برتن بیچنے کی اجازت ملنی چاہیے، ورنہ ہم مشکل میں پڑ جائیں گے،‘‘ ریکھا نے کہا۔
ٹھیک اسی وقت، بھونیشوری کمبھکار اپنے سر پر بانس کی خالی ٹوکری لیے کمہار پاڑہ لوٹی تھیں۔ انہوں نے کہا، ’’میں صبح سے ہی مٹی کے برتن بیچنے کے لیے شہر کی مختلف کالونیوں کے چکر لگا رہی ہوں۔ ابھی تک آٹھ فروخت ہو چکے ہیں اور میں مزید آٹھ لیکر دوبارہ جا رہی ہوں۔ لیکن مجھے جلد ہی واپس لوٹنا پڑے گا کیوں کہ دوپہر میں لاک ڈاؤن پھر سے شروع ہو جائے گا۔ چونکہ ہمیں بازار میں جانے کی اجازت نہیں ہے، اس لیے ہم زیادہ فروخت نہیں کر پا رہے ہیں۔ سرکار کے ذریعے فراہم کیے گئے چاول اور ۵۰۰ روپے سے ایک فیملی کا گزارہ کیسے چل پائے گا؟‘‘
کمہار پاڑہ کے کمہار – یہاں کے سبھی کمہار او بی سی برادری کے ہیں – بڑے برتنوں میں سے ہر ایک کو ۵۰-۷۰ روپے میں فروخت کرتے ہیں۔ مارچ سے مئی تک، جب سب سے زیادہ گھڑے فروخت ہوتے ہیں، ہر فیملی ۲۰۰-۷۰۰ گھڑے بناتی ہے، کیوں کہ ان مہینوں میں لوگ پانی جمع کرنے اور اسے ٹھنڈا رکھنے کے لیے ان گھڑوں کو خریدتے ہیں۔ بنائے گئے گھڑوں کی تعداد اس بات پر منحصر ہے کہ فیملی کے کتنے رکن اس کام میں مدد کرتے ہیں۔ دیگر موسموں میں کمہار تہواروں کے لیے چھوٹی مورتیاں، دیوالی کے دوران دیے، شادی کی رسموں کے لیے چھوٹے برتن اور کچھ دیگر چیزیں بناتے ہیں۔
مانسون کے دوران، وسط جون سے ستمبر کے آخر تک، ان کا کام رک جاتا ہے کیوں کہ تب نم مٹی خشک نہیں ہو پاتی اور گھر کے باہر کام کرنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ ان مہینوں میں کچھ کمہار (کسی بھی فیملی کے پاس اپنا کھیت نہیں ہے) کھیتوں میں کام تلاش کرتے ہیں، جس کی مزدوری انہیں یومیہ ۱۵۰-۲۰۰ روپے ملتی ہے۔
چھتیس گڑھ میں پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم (پی ڈی ایس) کے تحت، ہر شخص مہینہ میں ۷ کلو چاول کا حقدار ہے۔ لاک ڈاؤن کے ابتدائی دنوں میں، فیملی ایک بار میں ۵ کلو اضافی چاول اور دو مہینے کا اناج لے جا سکتی تھی – بھونیشوری کی فیملی کو مارچ کے آخر میں (دو مہینے کا) ۷۰ کلو چاول اور پھر مئی میں ۳۵ کلو چاول ملا تھا۔ کمہار پاڑہ کے باشندوں کو مارچ سے مئی تک ہر ماہ کے لیے فی فیملی ۵۰۰ روپے بھی ملے تھے۔ ’’لیکن ہم ۵۰۰ روپے میں کیا کر سکتے ہیں؟‘‘ بھونیشوری نے سوال کیا۔ ’’اس لیے میں اپنے گھریلو اخراجات کے لیے گلیوں میں برتن بیچنے پر مجبور ہوں۔‘‘
’’میں نے دیر سے کام شروع کیا ہے [ہم جب ملے تھے، اس سے ایک دن پہلے]، کیوں کہ میری بیوی اشونی کا آپریشن چل رہا تھا [دھمتری کے ایک پرائیویٹ اسپتال میں بچہ دانی نکالنے کا آپریشن، جس کے لیے انہیں قرض لینا پڑا]۔ یہ ہمارا خاندانی پیشہ ہے اور اس کام میں ایک سے زیادہ آدمی کی ضرورت پڑتی ہے،‘‘ سورج کمبھکار نے بتایا۔ سورج اور اشونی کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، جن کی عمر تقریباً ۱۰ سال سے ۱۶ سال کے درمیان ہے۔ ’’لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہمارا کام رک گیا۔ خراب موسم [رک رک کر بارش] کے سبب دیوالی کے بعد برتن بنانا پہلے سے ہی مشکل تھا،‘‘ سورج نے آگے کہا۔ ’’اور باہر کا کام روکنے کے لیے پولس دوپہر میں آ جاتی ہے۔ ہمارا معاش بری طرح متاثر ہوا ہے۔‘‘
جب ہم سورج سے ملے، تو وہ بڑے بڑے دیے بنا رہے تھے۔ دیوالی کے دوران ان میں سے ہر ایک ۳۰-۴۰ روپے میں فروخت ہوتے ہیں۔ چھوٹے دیے ۱ روپیہ سے لیکر ۲۰ روپے تک میں فروخت ہوتے ہیں، جو ان کے سائز پر منحصر ہے۔ یہ فیملی درگا پوجا، گنیش چترتھی اور دیگر تہواروں کے لیے مٹی کی مورتیاں بھی بناتی ہے۔
سورج کا اندازہ ہے کہ کمہار پاڑہ کے تقریباً ۱۲۰ کنبوں میں سے تقریباً ۹۰ کنبے برتن اور دیگر سامان بناکر اپنی آمدنی کماتے ہیں، جب کہ باقی لوگ زرعی مزدوری، سرکاری نوکری اور دیگر ذریعہ معاش کی طرف چلے گئے ہیں۔
اپریل کے آخر میں، ہم نے پرانی منڈی کا بھی دورہ کیا تھا، جہاں پر دھمتری ضلع انتظامیہ کے ذریعے صبح ۷ بجے سے دوپہر ۱ بجے تک عارضی طور پر سبزی منڈی کا انتظام کیا جا رہا تھا۔ ہمیں یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ کچھ کمہار اپنے کچھ برتنوں کے ساتھ مٹی کے کھلونے (زیادہ تر دولہا اور دلہن کے جوڑے) بھی فروخت کر رہے تھے۔ لاک ڈاؤن کے ابتدائی ہفتوں میں، کمہاروں کو یہاں آنے کی اجازت نہیں تھی – صرف ضروری اشیاء جیسے کہ سبزیوں کو ہی فروخت کرنے کی اجازت تھی۔
یہ اکشے ترتیہ کے آس پاس کا وقت تھا، جسے ہندو کیلنڈر میں مبارک دن مانا جاتا ہے، جب ہندوستان کے کئی حصوں میں کسان کھیتی کرنا شروع کرتے ہیں، اور جب چھتیس گڑھ میں کئی لوگ دولہا-دلہن کی مورتیوں (بیٹا اور بیٹی) کی روایتی شادی کرتے ہیں۔ ’’میرے پاس ۴۰۰ جوڑے ہیں، لیکن ابھی تک صرف ۵۰ فروخت کر پایا ہوں،‘‘ پورب کمبھکار نے کہا، جو ہر ایک جوڑا ۴۰ یا ۵۰ روپے میں فروخت کرتے ہیں۔ ’’پچھلے سال، اس وقت تک، میں نے ۱۵۰۰۰ روپے کے آئٹم بیچے تھے، لیکن اس سال ابھی تک صرف ۲۰۰۰ روپے کے ہی فروخت ہوئے ہیں۔ دیکھتے ہیں، دو دن اور بچے ہیں... [تہوار کی مدت ختم ہونے میں]۔ سر، لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہمارا بڑا نقصان ہو رہا ہے۔‘‘
کمہار پاڑہ میں زیادہ تر گھروں کے بچے اسکولوں اور کالجوں میں ہیں – اس کا مطلب ہے کہ فیس، کتابیں، وردی جیسے خرچ۔ گرمیوں کا موسم کمہاروں کے لیے کچھ اضافی پیسے کمانے اور سال کے باقی دنوں کے لیے بچت کرنے کا ایک اہم وقت ہوتا ہے۔
’’لیکن ہر دوسرے دن بارش ہونے کے سبب برتن بھی فروخت نہیں ہو رہے ہیں،‘‘ پورب نے کہا۔ ’’گرمیوں میں موسم گرم ہونے پر لوگوں کو گھڑے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن موسم اور لاک ڈاؤن دونوں نے ہماری زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔‘‘
مئی کی وسط میں، چھتیس گڑھ میں لاک ڈاؤن کی پابندی دھیرے دھیرے کم ہونے سے، کمہار بازار میں اپنا سامان فروخت کرنے کے لیے جا سکتے تھے، ساتھ ہی دھمتری میں اتوار کو لگنے والے بڑے بازار (اتواری بازار) میں بھی جا سکتے تھے۔ ریگولر بازار اب صبح ۷ بجے سے شام ۷ بجے تک کھلے رہتے ہیں۔ لیکن مئی کے وسط میں، گرمی کے ساتھ ہی کمہاروں کی فروخت کا سیزن بھی تقریباً ختم ہو گیا – اور یہ نقصان کمہاروں کو سال کے باقی دنوں میں پریشان کرتا رہے گا۔
مترجم: محمد قمر تبریز