اسٹیج کے سامنے سے کسانوں کا ایک دستہ گزرا، اپنے ہاتھوں میں پرچم بلند کیے ہوئے – سرخ، زرد، سبز، سفید اور نارنجی رنگ کے پرچم۔ پھر ان کے پیچھے خواتین کسانوں کا ایک گروپ مارچ کرتا ہوا سامنے آیا جن کے سر، سبز دوپٹوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ اس کے بعد مردوں کا ایک قافلہ ٹریکٹر چلاتے ہوئے وہاں پہنچا، اپنے سروں پر ہلکے سفید اور گہرے قرمزی، زرد اور سبز رنگ کی پگڑیاں پہنے ہوئے۔ اسٹیج کے سامنے سے دن بھر الگ الگ گروپ کے لوگ اپنے کندھوں پر پرچم لہراتے ہوئے گزرتے رہے – ہر ایک رنگ اپنی چمک سے حسین نظارہ پیش کر رہا تھا۔
یہ ایک سال مکمل ہونے کا جشن تھا، جب پارلیمنٹ کے ذریعے پاس کیے گئے تین زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یہ کسان ۲۶ نومبر، ۲۰۲۰ کو دہلی کی سرحدوں پر پہنچے تھے۔ اس تاریخی سالگرہ کا جشن منانے کے لیے کسان اور ان کے حامی گزشتہ جمعہ کو سنگھو، ٹیکری اور غازی پور کے احتجاجی مقامات پر بڑی تعداد میں پہنچے۔
یہ جیت اور مصائب، یادوں اور منصوبوں کا دن تھا۔ ابھی تو ہم نے ایک لڑائی جیتی ہے، یہ آخری فتح نہیں ہے، سنگھو پر موجود ۳۳ سالہ گرجیت سنگھ نے کہا۔ ان کا اشارہ وزیر اعظم کے اُس اعلان کی طرف تھا جو انہوں نے ۱۹ نومبر کو تین زرعی قوانین کو منسوخ کرنے سے متعلق کیا تھا۔ گرجیت سنگھ، پنجاب کے فیروزپور ضلع کی زیرہ تحصیل میں واقع اپنے گاؤں، ارائیاں والا میں ۲۵ ایکڑ زمین پر کھیتی کرتے ہیں۔
اُسی دن، سنگھو پر موجود ایک اور کسان، ۴۵ سالہ گرجیت سنگھ آزاد نے کہا، ’’یہ لوگوں کی جیت ہے۔ ہم نے ایک ضدی حکمراں کو شکست دی ہے اور ہمیں اس بات کی خوشی ہے۔‘‘ آزاد کا تعلق گرداس پور ضلع کی کہنواں تحصیل کے بھٹیاں گاؤں سے ہے، جہاں ان کے چچا ان کی دو ایکڑ زمین پر عام طور سے گیہوں اور دھان کی کھیتی کرتے ہیں۔ بقول آزاد، ’’اس لڑائی کی شروعات ۲۶ نومبر کو نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ، اُس دن یہ لڑائی دہلی کی سرحدوں تک پہنچی تھی۔ زرعی بل کے قوانین میں تبدیل ہونے سے کافی پہلے ہی کسانوں نے اس کے خلاف احتجاج کرنا شروع کر دیا تھا۔ ستمبر ۲۰۲۰ میں جب تینوں قوانین کو پاس کر دیا گیا، تو کسانوں کو دہلی پہنچنے کی ایک کال دی گئی۔ ہم نے اسی کال پر عمل کیا۔‘‘
انہوں نے پچھلے سال کے اُس مارچ کو یاد کرتے ہوئے کہا: ’’ہم اپنی راجدھانی کی طرف جیسے ہی بڑھنے لگے، حکومت نے ہمارے اوپر پانی کی بوچھار کرنی شروع کر دی۔ انہوں نے خندقیں کھود دیں۔ لیکن ہم کوئی جنگ چھیڑنے کے لیے تو آ نہیں رہے تھے کہ ہمیں اونچے باڑوں اور خاردار تاروں سے روکا جاتا۔‘‘ (پچھلے سال، ۶۲ سالہ جوگ راج سنگھ نے مجھے بتایا تھا کہ اُن کے جیسے کسان ہی پولیس کو کھانا کھلاتے ہیں، اور پولیس والے بھی ان کے بچوں کی طرح ہی ہیں – لہٰذا اگر ان کی لاٹھیاں بھی ’کھانے‘ کی ضرورت پڑی، تو کسان اس کے لیے اپنی پیٹھ پیش کرنے کو تیار ہیں۔)
پچھلے ہفتہ سنگھو پر راجندر کور بھی موجود تھیں، جن کا تعلق پٹیالہ ضلع کے داؤں کلاں گاؤں سے ہے – وہ احتجاج کے ان مقامات پر ۲۶ بار آ چکی تھیں۔ ۴۸ سالہ راجندر کور کی فیملی کے پاس پانچ ایکڑ زمین ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’جب سے یہ احتجاج شروع ہوا ہے، تبھی سے میں پٹیالہ کے ایک ٹول پلازہ پر بطور رضاکار کام کرتی رہی ہوں تاکہ کسی کسان کو وہاں ٹول کے پیسے نہ ادا کرنے پڑیں۔‘‘ انہوں نے آگے کہا، ’’پہلے، انہوں نے [وزیر اعظم نے] قوانین تھوپے۔ پھر انہیں منسوخ کر دیا۔ اس درمیان ہمیں [جان اور مال کا] بھاری نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اول تو یہ کہ انہیں یہ قوانین لانے ہی نہیں چاہیے تھے، اور جب انہوں نے ایسا کر ہی دیا تھا، تو ان قوانین کو بہت پہلے ہی منسوخ کر دیتے۔‘‘
گزشتہ ۱۲ مہینوں میں، جب وزیر اعظم نے ان قوانین کو منسوخ نہیں کیا، کسانوں کو کڑکڑاتی ٹھنڈ میں برفیلی ہوا کا سامنا کرنا پڑا اور حکومت کسی بھی حالت میں ان کی بات سننے کو تیار نہیں تھی۔ گرمیوں میں انہوں نے چلچلاتی دھوپ کا سامنا کیا، آندھی اور بارش جب شاہراہوں پر بنے ان کے خیموں تک کو اڑا لے گئی تھی، تب بھی وہ وہیں ڈٹے رہے۔ انہیں دھمکی دی گئی کہ ان کے پانی اور بجلی کی سپلائی کاٹ دی جائے گی۔ وہاں پر بیت الخلاء کی کمی تھی، اور وبائی مرض کا خطرہ تھا، پھر بھی ان کے قدم نہیں ڈگمگائے۔
گرجیت سنگھ آزاد نے کہا، ’’حکومت ہمیں تھکانا چاہتی تھی اور سوچ رہی تھی کہ ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔ لیکن، ہم نہیں گئے۔‘‘ ایک طرف کسانوں نے پورے عزم کے ساتھ اپنا احتجاج جاری رکھا اور دوسری طرف مین اسٹریم میڈیا کا ایک بڑا طبقہ انہیں بدنام کرنے میں لگا رہا۔ گرجیت سنگھ آزاد کسانوں کے لیے وقف ایک مشہور سوشل میڈیا ہینڈل کے ساتھ بطور رضاکار جڑ گئے، جو کسانوں کو ان پڑھ، خالصتانی وغیرہ بتانے والے میڈیا کا مقابلہ کر رہا تھا۔ آزاد نے بتایا، ’’انہوں نے ہمیں ناخواندہ کہا اور ہمارے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر حملہ کیا۔ میں نے اسے چیلنج کے طور پر لیا اور ان کا ڈٹ کر جواب دیا۔‘‘
گرجیت سنگھ کا مزید کہنا تھا، ’’اس تحریک نے ہمیں بہت سی چیزیں سکھائی ہیں، اور بتایا ہے کہ راستے میں چاہے جتنی بھی مشکلیں آئیں، سچائی کی لڑائی جیتی جا سکتی ہے۔ اور اس نے کم از کم ہمارے ملک کے قانون سازوں کو تو ایک چیز سکھا ہی دی ہے – کہ ملک میں لوگوں پر اس قسم کا کوئی قانون تھوپنے سے پہلے ہزار بار سوچ لو۔‘‘
سکھدیو سنگھ نے کہا، ’’ہم یہاں فاتح بننے کے لیے آئے تھے، اور تبھی لوٹیں گے جب جیت ہماری ہوگی۔‘‘ فتح گڑھ صاحب ضلع کی کھمانوں تحصیل کے موہن ماجرا گاؤں سے تعلق رکھنے والے ۴۷ سالہ کسان، سکھدیو سنگھ، جن کی بائیں ٹانگ ۱۵ سال پہلے ہوئے ایک سڑک حادثہ کی وجہ سے کاٹنی پڑی تھی، کا مزید کہنا تھا: اعلان [مسنوخی کا] ہونے کے بعد بھی، پورا فوکس ہمیں گھر واپس بھیجنے پر تھا۔ منسوخی کے لیے پارلیمنٹ کی کارروائی جب تک پوری نہیں ہو جاتی اور بجلی بل [بجلی (ترمیمی) بل، ۲۰۲۰] ردّ نہیں کر دیا جاتا، ہم یہاں سے واپس نہیں جائیں گے۔‘‘
ان کسانوں نے ۲۶ نومبر کو اپنا جشن اتنے ہی پرامن طریقے سے منایا، جتنے پرامن وہ پچھلے ایک سال میں اپنے احتجاج کے دوران رہے۔ یہ جشن انہوں نے ناچتے، گاتے، مٹھائیاں اور پھل – بوندیکا لڈو، برفی اور کیلے – تقسیم کرتے ہوئے منایا۔ لنگر اور دیگر سیوا کا دور بھی جاری رہا۔
۲۶ نومبر کو، سنگھو اور ٹیکری سرحد پر مختلف علاقوں اور پیشوں سے وابستہ لوگوں کا سیلاب امنڈ آیا۔ یہ لوگ وہاں موجود کسانوں کو مبارکباد پیش کرنے آئے تھے۔ اس مجمع میں کئی آنکھیں نم تھیں۔
کسانوں کے کئی رہنما اسٹیج پر موجود تھے۔ وہاں سے نعرے بلند ہو رہے تھے اور سامنے بیٹھے اور کھڑے مرد و خواتین کسان، اسی جوش و ولولہ اور فخر سے ہر نعرے کا جواب دے رہے تھے۔ اسٹیج پر موجود اور مجمع سے خطاب کرنے والے ہر شخص نے تقریباً ۷۰۰ کسانوں کو خراج عقیدت پیش کیا، جنہوں نے گزشتہ ایک سال کی اس لڑائی کے دوران اپنی جان گنوائی ہے۔
آزاد نے کہا، ’’جو کسان یہاں سالگرہ منانے کے لیے واپس آئے تھے، وہ صرف جیت کا جشن منانے نہیں آئے تھے، بلکہ ان احتجاجوں کے دوران مارے گئے شہیدوں کو خراج عقیدت بھی پیش کرنے آئے تھے۔‘‘ گرجیت سنگھ نے اس میں اپنی بات جوڑتے ہوئے کہا، ’’ہمیں نہیں معلوم کہ ہم خوش ہیں یا اداس۔ ہماری آنکھیں اب بھی ان ساتھی احتجاجیوں کے بارے میں سوچ کر نم ہیں جو اس لڑائی میں ہمیشہ کے لیے ہمارا ساتھ چھوڑ گئے۔ ہم انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔‘‘
مشکل سے بات کر پانے والے، اتنی ہی مشکل سے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے مختار سنگھ اسٹیج کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ آگے کی جانب آدھے جھکے ہوئے اور چھڑی کے سہارے کھڑے ۸۷ سالہ مختار سنگھ، امرتسر کی اجنالا تحصیل کے سہنسرا گاؤں سے سنگھو پہنچے ہیں؛ وہاں ان کی نو ایکڑ زمین ہے۔ ان کو اس تاریخی دن، دہلی کی سرحدوں پر موجود ہونا تھا۔ تین قوانین کی واپسی کے اعلان کی خبر سن کر انہوں نے اپنے بیٹے، ۳۶ سالہ سکھدیو سنگھ سے کہا کہ وہ انہیں دہلی لے چلے، جہاں ان کے ساتھی کسان ایک سال سے احتجاج کر رہے ہیں۔ انہوں نے سکھدیو سے آگے کہا کہ انہوں نے اپنی پوری زندگی کسانوں (یونین کے رکن کے طور پر) کی بھلائی کے لیے کام کرتے ہوئے گزاری ہے، اور وہ احتجاج کے مقام کو دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں، تاکہ وہ سکون سے آخری سانس لے سکیں۔
بے حد مشکلوں سے بھرے دنوں والے، گزشتہ ایک سال کے نہ ختم ہونے والے انتظار کے دوران، گرداس پور کے بٹالا بلاک کے ہرچووال گاؤں کے ۵۸ سالہ کسان، کلونت سنگھ کے لیے امید کی شمع جلائے رکھنا تقریباً ناممکن ہو گیا تھا۔ وہ اس تذبذب میں مبتلا ہو جاتے تھے کہ تین زرعی قوانین منسوخ کیے جائیں گے بھی یا نہیں۔ ایسے میں ان کے لیے امید کی کرن بنتا تھا – چڑھدی کلاں (امید اور بھرپور زندگی جینے کا پیغام دینے والا پنجابی محاورہ)۔ ’’میں خود کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا، ’چڑھدی کلاں‘ اور جدوجہد کرتا کہ [قانون ردّ ہونے کی] امید نہ چھوڑوں۔‘‘
کسانوں نے لکھیم پور کھیری میں مارے گئے کسانوں کو انصاف دلانے کے لیے، اپنی فصلوں کے لیے ایم ایس پی (کم از کم امدادی قیمت) کا قانونی حق سمیت تمام مطالبات پر بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ان زیر التوا مطالبات اور دیگر مسائل کو لے کر لڑائی جاری رہے گی۔ ان سب کے دوران، ایک تاریخی سال گزر چکا ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال کا کسانوں کے حق میں کہا گیا شعر دستک دے رہا ہے:
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
مترجم: محمد قمر تبریز